بنیامین جو حضرت یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی تھے انہیں لے کر آپ کے اور بھائی جب مصر پہنچے آپ نے أپ نے سرکاری مہمان خانے میں ٹھیرایا ، بڑی عزت تکریم کی اور صلہ اور انعام واکرام دیا ، اپنے بھائی سے تنہائی میں فرمایا کہ میں تیرا بھائی یوسف ہوں ، اللہ نے مجھ پر یہ انعام واکرام فرمایا ہے ، اب تمہیں چاہئے کہ بھائیوں نے جو سلوک میرے ساتھ کیا ہے ، اس کا رنج نہ کرو اور اس حقیقت کو بھی ان پر نہ کھولو میں کوشش میں ہوں کہ کسی نہ کسی طرح تمہیں اپنے پاس روک لوں ۔
69۔ 1 بعض مفسرین کہتے ہیں دو دو آدمیوں کو ایک ایک کمرے میں ٹھرایا گیا، یوں بنیامین جو اکیلے رہ گئے تو یوسف (علیہ السلام) نے انھیں تنہا الگ ایک کمرے میں رکھا اور پھر خلوت میں ان سے باتیں کیں اور انھیں پچھلی باتیں بتلا کر کہا کہ ان بھائیوں نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، اس پر رنج نہ کر اور بعض کہتے ہیں کہ بنیامین کو روکنے کے لئے جو حیلہ اختیار کرنا تھا، اس سے بھی انھیں آگاہ کردیا تھا تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔ (ابن کثیر)
[٦٨] دو بچھڑے ہوئے بھائیوں کی اتفاقی ملاقات :۔ برادران یوسف جیسے سیدنا یوسف (علیہ السلام) سے حسد رکھتے تھے۔ ویسے ہی بن یمین سے بھی رکھتے تھے کیونکہ سیدنا یوسف سے جدائی کے بعد بن یمین باپ کی توجہ کا مرکز و محور بن گئے تھے۔ چناچہ روانگی کے بعد راستہ میں اسے طعن وتشنیع سے کو ستے رہے اور طرح طرح سے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہے تھے جب یہ لوگ مصر میں داخل ہوئے تو سیدنا یوسف نے ان کا استقبال کیا اور شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرایا۔ دو دو بھائیوں کو الگ الگ کمرہ رہنے کو دیا۔ بن یمین اکیلا رہ گیا تو آپ نے اسے کہا میں تمہارے پاس رہوں گا۔ چناچہ جب تنہائی میسر آئی تو سیدنا یوسف نے بن یمین کو بتایا کہ میں ہی تمہارا گم شدہ بھائی ہوں۔ طویل مدت کے فراق اور مایوسی کے بعد دو حقیقی بھائیوں کی اس طرح ہنگامی ملاقات کے دوران طرفین کے جذبات میں جو تلاطم برپا ہوتا ہے اسے عموماً سب لوگ جانتے ہیں۔ وہی سب کچھ یہاں بھی ہوا۔ سیدنا یوسف نے کنویں میں پھینکے جانے کے وقت سے لے کر موجودہ وقت تک کے سب حالات سنا دیئے اور چھوٹے بھائی بن یمین نے اپنے گھر کے حالات، بیٹے کے فراق میں سیدنا یعقوب کی داستان غم کی تفصیلات اور اپنی ذات پر بھائیوں کے ناروا سلوک کے حالات سنائے تو سیدنا یوسف نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا جو ہوچکا سو ہوچکا۔ اب تمہارے بھائی تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچا سکیں گے میں کوئی ایسی تدبیر کروں گا کہ تمہیں ان کے ساتھ روانہ ہی نہ کروں گا۔ مگر ہماری اس مجلس کی باتوں کا ان سے قطعاً ذکر نہ کرنا اور نہ ہی میرے متعلق ابھی انھیں کچھ بتانا۔
وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ ۔۔ : اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنی حسن تدبیر سے دوسرے بھائیوں کو اس طرح ٹھہرایا کہ چھوٹا بھائی اکیلا رہ گیا تو اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا۔ مفسرین نے عام طور پر لکھا ہے کہ بھائیوں کو دو ، دو کرکے ایک ایک جگہ ٹھہرایا، مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھیں پانچ پانچ کرکے ایک ایک جگہ ٹھہرا دیا ہو یا کوئی اور ترتیب بنائی ہو۔ (واللہ اعلم) کیونکہ دو ، دو والی ترتیب قرآن و حدیث میں نہیں آئی۔- قَالَ اِنِّىْٓ اَنَا اَخُوْكَ ۔۔ : ظاہر ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کے ساتھ علیحدہ ہوئے اور اسے بتایا کہ میں تمہارا سگا بھائی ہوں تو اس نے اپنے سوتیلے بھائیوں کی بدسلوکی کے قصے بیان کیے ہوں گے اور یقیناً یوسف (علیہ السلام) کے فراق میں اپنا اور والد کا حال بھی بیان کیا ہوگا۔ اس پر یوسف (علیہ السلام) نے انھیں تسلی دی کہ اب تم اپنے بھائی کے پاس پہنچ گئے ہو، لہٰذا ان بھائیوں کی بدسلوکی کا رنج نہ کرو، اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے تمام غم غلط ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیں راحت و عزت عطا فرمائے۔
وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّىْٓ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ یعنی جب شہر مصر پہنچنے کے بعد یہ سب بھائی یوسف (علیہ السلام) کے دربار میں حاضر ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ یہ وعدہ کے مطابق ان کے حقیقی بھائی کو بھی ساتھ لے آئے ہیں تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو خاص اپنے ساتھ ٹھہرایا امام تفسیر قتادہ (رح) نے فرمایا کہ ان سب بھائیوں کے قیام کا یوسف (علیہ السلام) نے یہ انتظام فرمایا تھا کہ دو دو کو ایک کمرہ میں ٹھرایا تو بنیامین تنہارہ گئے ان کو اپنے ساتھ ٹھہرنے کے لئے فرمایا جب تنہائی کا موقع آیا تو یوسف (علیہ السلام) نے حقیقی بھائی پر راز فاش کردیا اور بتلا دیا کہ میں ہی تمہارا حقیقی بھائی یوسف ہوں اب تم کوئی فکر نہ کرو اور جو کچھ ان بھائیوں نے اب تک کیا ہے اس سے پریشان نہ ہو - احکام و مسائل :- مذکورہ دو آیتوں سے چند مسائل اور احکام معلوم ہوئے،- اول : یہ کہ نظربد کا لگ جانا حق ہے اس سے بچنے کی تدبیر کرنا اسی طرح مشروع اور محمود ہے جس طرح مضر غذاؤں اور مضرافعال سے بچنے کی تدبیر کرنا،- دوسرے : یہ کہ لوگوں کے حسد سے بچنے کے لئے اپنی مخصوص نعمتوں اور اوصاف کا لوگوں سے چھپانا درست ہے،- تیسرے : یہ کہ مضر آثار سے بچنے کے لئے ظاہری اور مادی تدبیریں کرنا توکل اور شان انبیاء (علیہم السلام) کے خلاف نہیں،- چوتھے : یہ کہ جب ایک شخص کو کسی دوسرے شخص کے بارے میں کسی تکلیف کے پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ اس کو آگاہ کر دے اور اندیشہ سے بچنے کی ممکن تدبیر بتلادے جیسے یعقوب (علیہ السلام) نے کیا،- پانچوں : یہ کہ جب کسی شخص کو دوسرے شخص کا کوئی کمال یا نعمت تعجب انگیز معلوم ہو اور خطرہ ہو کہ اس کو نظر بد لگ جائے گی تو اس پر واجب ہے کہ اس کو دیکھ کر بارک اللہ یا ماشاء اللہ کہہ لے تاکہ دوسرے کو کوئی تکلیف نہ پہونچے،- چھٹے یہ کہ نظر بد سے بچنے کے لئے ہر ممکن تدبیر کرنا جائز ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی دعاء اور تعویذ وغیرہ سے علاج کیا جائے جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفربن ابی طالب کے دو لڑکوں کو کمزور دیکھ کر اس کی اجازت دی کہ تعویذ وغیرہ کے ذریعہ ان کا علاج کیا جائے،- ساتویں : یہ کہ دانشمند مسلمان کا کام یہ ہے کہ ہر کام میں اصل بھروسہ تو اللہ تعالیٰ پر رکھے مگر ظاہری اور مادی اسباب کو بھی نظرانداز نہ کرے جس قدر جائز اسباب اپنے مقصد کے حصول کے لئے اس کے اختیار میں ہوں ان کو بروئے کار لانے میں کوتاہی نہ کرے جیسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے کیا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کی تعلیم فرمائی ہے دانائے روم (رح) نے فرمایا بر توکل زانوئے اشتربہ بند - یہی پیغمبرانہ توکل اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے،- آٹھویں یہ کہ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے چھوٹے بھائی کو تو بلانے کے لئے بھی کوشش اور تاکید کی اور پھر جب وہ آگئے تو ان پر اپنا راز بھی ظاہر کردیا مگر والد محترم کے نہ بلانے کی فکر فرمائی اور نہ ان کو اپنی خیریت سے مطلع کرنے کا کوئی اقدام کیا اس کی وجہ وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی ہے کہ اس پورے چالیس سال کے عرصہ میں بہت سے مواقع تھے کہ والد ماجد کو اپنے حال اور خیریت کی اطلاع دیدیتے لیکن یہ جو کچھ ہوا وہ بحکم قضاء وقدر باشارات وحی ہوا ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت نہ ملی ہوگی کہ والد محترم کو حالات سے باخبر کیا جائے کیونکہ ابھی ان کا ایک اور امتحان بنیامین کی مفارقت کے ذریعہ بھی ہونے والا تھا اس کی تکمیل ہی کے لئے یہ سب صورتیں پیدا کی گئیں
وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّىْٓ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 69- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] ، وقال تعالی: آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف 69] آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف 69] أي : ضمّه إلى نفسه .- ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اور آیت کریمہ :۔ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ ( سورة يوسف 69) کے معنی یہ ہیں کہ ہوسف نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملالیا - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔
(٦٩) چناچہ جب یہ سب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے اس سگے بھائی بنیامین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور سب کو باہردروازہ پر روک دیا اور ان سے کہہ دیا کہ میں تیرا گم شدہ بھائی ہوں، یہ دوسرے تیسرے بھائی جو کچھ تیرے ساتھ بدسلوکی کرتے رہے ہیں اور برا بھلا کہتے رہے ہیں اس کا غم مت کرنا۔
آیت ٦٩ (وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّىْٓ اَنَا اَخُوْكَ )- آپ نے اپنے چھوٹے بھائی بن یا مین کو علیحدگی میں اپنے پاس بلایا اور ان پر اپنی شناخت ظاہر کردی کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں جو بچپن میں کھو گیا تھا۔- (فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ )- حضرت یوسف نے اپنے چھوٹے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اللہ نے اس اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے اور ہمیں آپس میں ملا بھی دیا ہے۔ چناچہ اب ان بڑے بھائیوں کے رویے پر تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب سختی کے دن ختم ہوگئے ہیں۔
۵۵ ۔ اس فقرے میں وہ ساری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو اکیس بائیس برس کے بعد دونوں ماں جائے بھائیوں کے ملنے پر پیش آئی ہوگی ، حضرت یوسف نے بتایا ہوگا کہ وہ کن حالات سے گزتے ہوئے اس مرتبے پر پہنچے ، بن یمین نے سنایا ہوگا کہ ان کے پیچھے سوتیلے بھائیوں نے اس کے ساتھ کیا کیا بدسلوکیاں کیں ۔ پھر حضرت یوسف نے بھائی کو تسلی دی ہوگی کہ اب تم میرے پاس ہی رہو گے ، ان ظالموں کے پنجے میں تم کو دوبارہ نہیں جانے دوں گا ، بعید نہیں کہ اسی موقع پر دونوں بھائیوں میں یہ بھی طے ہوگیا ہو کہ بن یمین کو مصر میں روک رکھنے کے لیے کیا تدبیر کیا جائے جس سے وہ پردہ بھی پڑا رہے جو حضرت یوسف مصلحۃ ابھی ڈالے رکھنا چاہتے تھے ۔
45: روایات میں مذکور ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دو دو بھائیوں کو ایک کمرے میں ٹھہرایا تھا اس طرح پانچ کمروں میں دس بھائی مقیم ہوگئے بنیامین رہ گئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میرے ساتھ رہیں گے اس طرح انہیں اپنے سگے بھائی کے ساتھ تنہائی کا موقع مل گیا جس میں ان کو بتا دیا کہ میں تمہارا سگا بھائی ہوں۔ بنیامین اس موقع پر کہا کہ اب میں ان بھائیوں کے ساتھ واپس جانا نہیں چاہتا۔ اس کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے وہ تدبیر اختیار کی جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔