جب آپ اپنے بھائیوں کو حسب عادت ایک ایک اونٹ غلے کا دینے لگے اور ان کا اسباب لدنے لگا تو اپنے چالاک ملازموں سے چپکے سے اشارہ کر دیا کہ چاندی کا شاہی کٹورا بنیامین کے اسباب میں چپکے سے رکھ دیں ۔ بعض نے کہا ہے یہ کٹورا سونے کا تھا ۔ اسی میں پانی پیا جاتا تھا اور اسی سے غلہ بھر کے دیا جاتا تھا بلکہ ویسا ہی پیالہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بھی تھا ۔ پس آپ کے ملازمین نے ہوشیاری سے وہ پیالہ آپ کے بھائی حضرت بنیامین کی خورجی میں رکھ دیا ۔ جب یہ چلنے لگے تو سنا کہ پیچھے سے منادی ندا کرتا آ رہا ہے کہ اے قافلے والو تم چور ہو ۔ ان کے کان کھڑے ، رک گئے ، ادھر متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی کیا چیز کھوئی گئی ہے ؟ جواب ملا کہ شاہی پیمانہ جس سے اناج ناپا جاتا تھا ، سنو شاہی اعلان ہے کہ اس کے ڈھونڈ لانے والے کو ایک بوجھ غلہ ملے گا اور میں خود ضامن ہوں ۔
70۔ 1 مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ سقایہ (پانی پینے کا برتن) سونے یا چاندی کا تھا، پانی پینے کے علاوہ غلہ ناپنے کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا، اسے چپکے سے بنیامین کے سامان میں رکھ دیا گیا۔ 70۔ 2 الْعیر اصلاً ان اونٹوں، گدھوں یا خچر کو کہا جاتا ہے جن پر غلہ لاد کرلے جایا جاتا ہے۔ یہاں مراد اصحاب العیر یعنی قافلے والے۔ 70۔ 3 چوری کی یہ نسبت اپنی جگہ صحیح تھی کیونکہ منادی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سوچے سمجھے منصوبے سے آگاہ نہیں تھا یا اس کے معنی ہیں کہ تمہارا حال چوروں کا سا ہے کہ بادشاہ کا پیالہ، بادشاہ کی رضامندی کے بغیر تمہارے سامان کے اندر ہے۔
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ ۔۔ : ان آیات کی تفسیر میں اکثر لوگوں کو ٹھوکر لگی ہے جس کی وجہ سے وہ یوسف (علیہ السلام) کے ذمے لگاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے لیے اس کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا، پھر اس کے سامان میں پیمانہ رکھ کر سب بھائیوں کے متعلق ان کے چور ہونے کا اعلان کروایا، پھر خود ہی تلاشی لی اور آخر میں بھائی کے سامان سے پیمانہ نکال کر اسے چور قرار دے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ اس پر جو اعتراض آتا ہے کہ یہ ایک نبی کی شان کے لائق نہیں، اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ ) [ یوسف : ٧٦ ]” اس طرح ہم نے یوسف کے لیے یہ تدبیر کی “ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے کیا، اس لیے یہ جائز تھا اور یہ کہ جائز مقصد کے لیے حیلہ کرنا (خواہ ناجائز ہو) جائز ہے۔ حالانکہ اگر غور سے آیات کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں یوسف (علیہ السلام) کے کسی حیلے یا سازش کا کوئی دخل ہی نہیں، یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تدبیر تھی جس کا پہلے یوسف (علیہ السلام) کو بھی علم نہیں تھا۔ واقعہ کی اصل صورت یہ ہے کہ پہلی دفعہ جب بھائی آئے تو یوسف (علیہ السلام) نے ان پر احسان کیا اور اپنے جوانوں سے کہہ کر ان کی رقم ان کی بوریوں میں ان کے علم کے بغیر رکھوا دی، جس کا علم انھیں گھر جا کر ہوا۔ اب ان کا سگا بھائی آیا تو انھوں نے اس کی خاص مدد کے لیے خاموشی سے کسی کو بھی بتائے بغیر اس کے سامان میں وہ پیمانہ خود ہی رکھ دیا کہ اس میں وہ مشقت نہ تھی جو دس بھائیوں کا سارا سامان واپس رکھنے میں تھی اور بھائیوں کے علم میں آنے سے حسد کا بھی خطرہ تھا، اس لیے اس چیز سے صرف وہ آگاہ تھے، دوسرا کوئی بھی آگاہ نہ تھا، قافلہ روانہ ہونے سے پہلے گودام کے محافظوں میں سے کسی کو پیمانے کی ضرورت پڑی، جب وہ نہ ملا تو تلاش شروع ہوئی، غور و فکر کیا گیا، کون چور ہوسکتا ہے، یہاں کون کون آیا ہے ؟- ان بھائیوں کے سوا وہاں کوئی آیا ہی نہ تھا، اس لیے ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ قافلے والو تم چور ہو۔ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔ چناچہ ان کی آئندہ ساری گفتگو اس اعلان کرنے والے اور اس کے ساتھی گودام کے محافظوں سے ہوئی، جس میں انھوں نے خود ہی چور کی سزا بھی بتادی جو ان کے ہاں رائج تھی، پھر ان محافظوں میں سے ایک نے تلاشی لی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تدبیر ہوئی کہ اس نے اتفاق سے پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی پڑتال کی، پھر یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کے سامان سے وہ پیمانہ نکال لیا اور بھائیوں ہی کی بتائی ہوئی سزا کے مطابق اس بھائی کو روک لیا۔ یوسف (علیہ السلام) اس معاملے سے بالکل بیخبر تھے مگر جب بات یہاں تک پہنچی اور یوسف (علیہ السلام) کو اطلاع ملی تو انھوں نے اسے اللہ کی طرف سے تدبیر سمجھ کر خاموشی اختیار فرمائی، بھائی کے سامان سے مدعا برآمد ہونے کے بعد وہ اس کی صفائی دے بھی نہیں سکتے تھے، ورنہ الزام آتا کہ ایک ثابت شدہ مجرم کی طرف داری اور اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ یوسف (علیہ السلام) جیسا شخص تہمت کا نشانہ بننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتا۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دو انصاری صحابیوں کو بلا کر اپنے پاس کھڑی ہوئی خاتون کے متعلق بتانا کہ یہ صفیہ (میری بیوی) ہے، اس کی دلیل ہے۔ البتہ اپنی زبان سے اس بھائی کو چور بھی نہیں کہا۔ ان کی طبیعت کی پاکیزگی اور صدق کا اندازہ ان کی اس بات سے لگائیے کہ جب بھائیوں نے کہا کہ اس کے والد بہت بوڑھے بزرگ ہیں، آپ اسے جانے دیں اور ہم میں سے کسی کو اس کی جگہ رکھ لیں تو یوسف (علیہ السلام) نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم تو چور ہی کو پکڑیں گے بلکہ فرمایا کہ ہم تو اسی کو پکڑیں گے جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے۔ یہ تفسیر آیات کے بالکل مطابق صاف اور سادہ ہے اور اس میں یوسف (علیہ السلام) پر کوئی اعتراض نہیں آتا، جس کا جواب دینے کی ضرورت ہو۔
خلاصہ تفسیر :- پھر جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (غلہ اور روانگی کا) تیار کردیا تو (خود یا کسی معتمد کی معرفت) پانی پینے کا برتن (کہ وہی پیمانہ غلہ دینے کا بھی تھا) اپنے بھائی کے اسباب میں رکھ دیا پھر (جب یہ لاد پھاند کر چلے تو یوسف (علیہ السلام) کے حکم سے پیچھے سے) ایک پکارنے والے نے پکارا کہ اے قافلہ والو تم ضرور چور ہو وہ ان (تلاش کرنے والوں) کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے (جس کی چوری کا ہم پر شبہ ہوا) انہوں نے کہا کہ ہم کو بادشاہی پیمانہ نہیں ملتا (وہ غائب ہے) اور جو شخص اس کو (لا کر) حاضر کرے اس کو ایک بار شتر غلہ (بطور انعام کے خزانہ سے) ملے گا (اور یا یہ مطلب ہو کہ اگر خود چور بھی مال دیدے تو عفو کے بعد انعام پائے گا) اور میں اس (کے دلوانے) کا ذمہ دار ہوں (غالبا یہ ندا اور یہ وعدہ انعام بحکم یوسف (علیہ السلام) ہوگا) یہ لوگ کہنے لگے کہ بخدا تم کو خوب معلوم ہے کہ ہم ملک میں فساد پھیلانے (جس میں چوری بھی داخل ہے) نہیں آئے اور ہم لوگ چوری کرنے والے نہیں (یعنی یہ شیوہ نہیں ہے) ان (ڈھونڈنے والے) لوگوں نے کہا اچھا اگر تم جھوٹے نکلے (اور تم میں سے کسی پر سرقہ ثابت ہوگیا) تو اس (چور) کی کیا سزا ہے انہوں نے (موافق شریعت یعقوب (علیہ السلام) کے) جواب دیا کہ اس کی سزا یہ ہے وہ جس شخص کے اسباب میں ملے پس وہی اپنی سزا ہے (یعنی چوری کی عوض میں خود اس کی ذات کو صاحب مال اپنا غلام بنا لے) ہم لوگ ظالموں (یعنی چوروں) کو ایسی سزا دیا کرتے ہیں (یعنی ہماری شریعت میں یہی مسئلہ اور عمل ہے غرض یہ امور باہم ٹھہرنے کے بعد اسباب اتروایا گیا) پھر (تلاشی کے وقت) یوسف (علیہ السلام) نے (خود یا کسی معتمد کی معرفت) اپنے بھائی کے (اسباب کے) تھیلے سے قبل تلاشی کی ابتداء اول دوسرے بھائیوں کے (اسباب کے) تھیلوں سے کی پھر (اخیر میں) اس (برتن) کو اپنے بھائی کے (اسباب کے) تھیلے سے برآمد کیا ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی خاطر سے اس طرح (بنیامین کے رکھنے کی) تدبیر فرمائی (وجہ اس تدبیر کی یہ ہوئی کہ) یوسف اپنے بھائی کو اس بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے نہیں لے سکتے تھے (کیونکہ اس کے قانوں میں کچھ تادیب وجرمانہ تھا (روی الطبرانی عن معمر والاول فی روح المعانی) مگر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کو منظور تھا (اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے دل میں یہ تدبیر آئی اور ان لوگوں کے منہ سے یہ فتویٰ نکلا اور اس مجموعہ سے تدبیر راست آگئی اور چونکہ یہ حقیقۃً غلام بنانا نہ تھا بلکہ بنیامین کی خوشی سے صورت غلامی کی اختیار کی تھی اس لئے استرقاق حر کا شبہ لازم نہیں آیا اور گو یوسف (علیہ السلام) بڑے عالم و عاقل تھے مگر پھر بھی ہماری تدبیر سکھانے کے محتاج تھے بلکہ ہم جس کو چاہتے ہیں (علم میں) خاص درجوں تک بڑھا دیتے ہیں اور تمام علم والوں سے بڑھ کر ایک بڑا علم والا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ ) جب مخلوق کا علم ناقص ٹھہرا اور علم خالق کامل تو لامحالہ ہر مخلوق اپنے علم میں اور تدبیر میں محتاج ہوگی خالق کی، اس لئے کد نَا اور الاَّ اَن یشآء اللہ کہا گیا حاصل یہ کہ جب ان کے اسباب سے وہ برتن برآمد ہوگیا اور بنیامین روک لئے گئے تو وہ سب بڑے شرمندہ ہوئے۔- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ میں اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لینے کے لئے یہ حیلہ اور تدبیر اختیار کی کہ جب سب بھائیوں کو قاعدہ کے موافق غلہ دیا گیا تو ہر بھائی کا غلہ ایک مستقل اونٹ پر علیحٰدہ علیحٰدہ نام بنام بار کیا گیا، بنیامین کے لئے جو غلہ اونٹ پر لادا گیا اس میں ایک برتن چھپا دیا گیا اس برتن کو قرآن کریم نے ایک جگہ بلفظ سقایۃ اور دوسری جگہ صُوَاعَ الْمَلِكِ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے سقایہ کے معنی پانی پینے کا برتن اور صواع بھی اسی طرح کے برتن کو کہتے اس کو ملک کی طرف منسوب کرنے سے اتنی بات اور معلوم ہوئی کہ یہ برتن کوئی خاص قیمت اور حیثیت رکھتا تھا بعض روایات میں ہے کہ زبرجد کا بنا ہوا تھا بعض نے سونے کا بعض نے چاندی کا بتلایا ہے بہرحال یہ برتن جو بنیامین کے سامان میں چھپا دیا گیا تھا خاصہ قیمتی برتن ہونے کے علاوہ ملک مصر سے کوئی اختصاص بھی رکھتا تھا خواہ یہ کہ وہ خود اس کو استعمال کرتے تھے یا یہ کہ ملک نے بامر خود اس برتن کو غلہ ناپنے کا پیمانہ بنادیا تھا،- (آیت) ثُمَّ اَذَّنَ مُؤ َذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ یعنی کچھ دیر کے بعد ایک منادی کرنے والے نے پکارا کہ اے قافلہ والو تم چور ہو،- یہاں لفظ ثم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منادی فوراً ہی نہیں کی گئی بلکہ کچھ مہلت دیگئی یہاں تک کہ قافلہ روانہ ہوگیا اس کے بعد یہ منادی کی گئی تاکہ کسی کو جعلسازی کا شبہ نہ ہوجائے، بہرحال اس منادی کرنے والے نے برادران یوسف (علیہ السلام) کے قافلہ کو چور قرار دیدیا
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ 70- جهز - قال تعالی: فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهازِهِمْ [يوسف 70] ، الجَهَاز : ما يعدّ من متاع وغیره، والتجهيز : حمل ذلک أو بعثه،- ( ج ھ ز )- الجھاز ۔ سازو سامان جو تیار کر کے رکھا جائے ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهازِهِمْ [يوسف 70] جب ان کے لئے ان کا سامان تیار کردیا ۔ التجھیز ( تفعیل ) تیار کردہ سامان کو لادنا یا بھیجنا - سقاية- ما يجعل فيه ما يسقی، وأسقیتک جلدا : أعطیتکه لتجعله سقاء، وقوله تعالی:- جَعَلَ السِّقايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ [يوسف 70] ، فهو المسمّى صواع الملک، فتسمیته السِّقَايَةَ تنبيها أنه يسقی به، وتسمیته صواعا أنه يكال به .- سقاية- ( مشکیزہ ) وہ برتن جس میں پینے کی چیز رکھی جائے اسی سے ہے اسقیتک جلدا کہ ميں نے تمہیں ( مشکیزہ بنانے کے لئے چمڑا دیا ) اور آیت کریمہ : جَعَلَ السِّقايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ [يوسف 70]( تو ) اپنے بھائی کے شلتیے میں پینے کا برتن رکھ دیا ۔ میں سقایۃ سے مراد وہی ہے جسے ( بعد کی آیت ہیں ) صواع الملک کہا گیا ہے اس ایک ہی برتن کسے یہ دونام دو اعتبار سے ہیں یعنی اس کے ساتھ پانی پینے کے لحاظ سے اسے سقایۃ کہا ہے اور اس لحاظ سے کہ اس کے ساتھ غلہ ماپا جاتا ہے اسے صواع کہد یا ہے ۔ - رحل - الرَّحْلُ ما يوضع علی البعیر للرّكوب، ثم يعبّر به تارة عن البعیر، وتارة عمّا يجلس عليه في المنزل، وجمعه رِحَالٌ. وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف 62] ، والرِّحْلَةُ : الِارْتِحَالُ. قال تعالی: رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش 2] ،- ( ر ح ل )- الرحل ہر وہ چیز جسے اونٹ پر اس لئے باندھا جائے کہ اس پر سوار ہوا جائے پھر یہ لفظ مجازا خود اونٹ پر بولا جانے لگا ہے اور کبھی رحل کا لفظ اس چیز پر بھی بولا جاتا ہے جس پر گھر میں بیٹھا جاتا ہے ۔ اس کی جمع رجال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ؛َ وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف 62] تو اس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ان کا سرمایہ ان کے کچادوں میں رکھ دو ۔ الرحلۃ ( مصدر ) اس کے اصل معنی سفر یا کوچ کرنے میں قرآن میں ہے : رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش 2] جاڑے اور گرمی کے سفروں کو ( اکٹھا رکھنے والے )- عير - العِيرُ : القوم الذین معهم أحمال المیرة، وذلک اسم للرّجال والجمال الحاملة للمیرة، وإن کان قد يستعمل في كلّ واحد من دون الآخر . قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف 94] ، أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] ، وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف 82] ، - ( ع ی ر ) العیر - قافلہ جو غذائی سامان لاد کر لاتا ہے اصل میں یہ لفظ غلہ بردار اونٹوں اور ان کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے مجموعہ پر بولاجاتا ہے مگر کبھی اس کا استعمال صرف ان اونٹوں پر ہوتا ہے جو غذائی سامان اٹھا کر لاتے ہیں اور کبھی ان لوگوں پر بولا جاتا ہے جو کہیں سے غذائی سامان لاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف 94] جب قافلہ مصر سے ردانہ ہوا ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] کہ قافلے والوں تم تو چور ہو ۔ وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف 82] اور جس قافلے میں ہم آئے ۔ اور عیر کا لفظ متعدد ومعنوں میں استعمال ہوتا ہے ( 1 ) گور کر ( 2 ) پاؤں کی پشت پرا بھری ہوئی پڈی ( 3 ) آنکھوں کی پتلی ، ( 4 ) کان کی پچھلی طرف ابھری ہوئی نرم ہڈی ( 5 ) خس وخا شاک جو پانی کے اوپر جمع ہوجاتا ہے ( 6 ) میخ ( 7 ) تیر کے پھل کا درمیانی حصہ جو اوپر ابھرا ہوا ہونا ہے - سرق - السَّرِقَةُ : أخذ ما ليس له أخذه في خفاء، وصار ذلک في الشّرع لتناول الشیء من موضع مخصوص، وقدر مخصوص، قال تعالی: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة 38] ، وقال تعالی: قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف 77] ، وقال : أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، - ( س ر ق )- السرقتہ ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی خفیہ طور پر اس چیز کے لے لینے کے ہیں جس کو لینے کا حق نہ ہوا اور اصطلاح شریعت میں کسی چیز کو محفوظ جگہ سے مخصوص مقدار میں لے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة 38] اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ۔ قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف 77] ( برداران یوسف نے ) کہا اگر اس نے چوری کی ہو تو ( کچھ عجب نہیں کہ ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] کہ قافلہ والو تم تو چور ہو ۔
(٧٠۔ ٧١) چناچہ ان لوگوں کا اناج تول کر تیار کردیا (اور بنیامین اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے باہم مشورہ سے) وہ پیالہ جس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) پانی پیا کرتے تھے اور غلہ ماپا کرتے تھے، بنیامین کے سامان میں رکھ دیا پھر ان کو روانگی کا حکم دیا اور ان کے پیچھے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے ایک خادم کو بھیج دیا، اس نے پکارا کہ قافلہ والوں تم ضرور چور ہو تو سب بھائی تلاشی لینے والوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے تمہیں کس چیز کی تلاش ہے۔
آیت ٧٠ (فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ )- یہ بادشاہ کا خصوصی جام تھا جو سونے کا بنا ہوا تھا۔- (ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ )- جب وہ قافلہ چل پڑا تو اسے روک لیا گیا کہ ہمارے ہاں سے کوئی چیز چوری ہوئی ہے اور ہمیں اس بارے میں تم لوگوں پر شک ہے۔
۵٦ ۔ پیالہ رکھنے کا فعل غالبا حضرت یوسف نے اپنے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں کیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے والی آیت اشارہ کر رہی ہے ۔ حضرت یوسف اپنے مدتوں کے بچھڑے ہوئے بھائی کو ان ظالم سوتیلے بھائیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہتے ہوں گے ، بھائی خود بھی ان ظالموں کے ساتھ واپس نہ جانا چاہتا ہوگا ، مگر علانیہ آپ کا اسے روکنبا اور اس کا رک جانا بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ حضرت یوسف اپنی شخصیت کو ظاہر کرتے ، اور اس کا اظہار اس موقع پر مصلحت کے خلاف تھا ، اس لیے دونوں بھائیوں میں مشہور ہوا ہوگا کہ اسے روکنے کی یہ تدبیر کی جائے ، اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے اس میں بھائی کی سبکی تھی ، اس پر چوری کا دھبہ لگتا تھا ، لیکن بعد میں یہ دھبہ اس طرح بآسانی دھل سکتا تھا کہ دونوں بھائی اصل معاملہ کو دنیا پر ظاہر کردیں ۔ ۵۷ ۔ اس آیت میں اور بعد والی آیات میں بھی کہیں ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ حضڑت یوسف نے اپنے ملازموں کو اس راز میں شریک کیا تھا اور انہیں خود یہ سکھایا تھا کہ قافلے والوں پر جھوٹا الزام لگاؤ ، واقعہ کی سادہ صورت جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ پیالہ خاموشی کے ساتھ رکھ دیا گیا ہوگا ، بعد میں جب سرکاری ملازموں نے اسے نہ پایا ہوگا تو قیاس کیا ہوگا کہ ہو نہ ہو یہ کام انہی قافلہ والوں میں سے کسی کا ہے جو یہاں ٹھہرے ہوئے تھے ۔
46: یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود اپنی طرف سے پیالہ ان کے سامان میں رکھنے کے بعد اتنے و ثوق کے ساتھ ان کو چور قرار دینا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ اس کے جواب میں بعض حضرات نے تو یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے پیالہ خفیہ طور پر رکھوایا تھا، اور جب عملے کے لوگوں کو پیالہ نہ ملا تو اُنہوں نے اپنی طرف سے اِن لوگوں کو چور قرار دیا، حضرت یوسف علیہ السلام کے حکم سے نہیں۔ لیکن جس سیاق میں قرآنِ کریم نے یہ واقعہ بیان فرمایا ہے، اس میں یہ احتمال بہت بعید معلوم ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ِان کو چور قرار دینا ایک توریہ تھا، اور ان کو چور اس معنیٰ میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بچپن میں اپنے والد سے چُرا لیا تھا۔ تیسرے بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ یہ تدبیر چونکہ خود اﷲ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو سکھائی تھی جیسا کہ آگے آیت 76 میں اﷲ تعالیٰ خود فرمایا کہ ’’اس طرح ہم نے یوسف کی خاطر یہ تدبیر کی‘‘ اس لئے جو کچھ ہوا وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ اور جس طرح سورۂ کہف میں حضرت خضر علیہ السلام نے کئی کام بظاہر شریعت کے خلاف کئے، لیکن وہ اﷲ تعالیٰ کے تکوینی حکم سے تھے، اس لئے ان کے لئے جائز تھے۔ اسی طرح یہاں حضرت یوسف علیہ السلام نے جو عمل کیا، وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے کیا، اس لئے ان پر کوئی اِشکال نہیں ہونا چاہئے۔