Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یعنی میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کی تفتیش سے قبل ہی جو شخص یہ جام شاہی ہمارے حوالے کر دے گا تو اسے انعام یا اجرت کے طور پر اتنا غلہ دیا جائے گا جو ایک اونٹ اٹھا سکے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٩] شاہ مصر کے پیالہ کی چوری :۔ سیدنا یوسف نے اپنے بھائی بن یمین کو اپنے ہاں روک لینے کی یہ تدبیر سوچی کہ اس کے سامان میں یعنی غلہ میں اپنا مرصع پانی پینے کا پیالہ بھی رکھ دیا اور اس تدبیر کی آپ نے اپنے بھائی کو بھی خبر دے دی تاکہ وہ کسی موقع پر گھبراہٹ کا شکار نہ ہوجائے۔ چناچہ جب برادران یوسف کا سامان تیار کیا جارہا تھا تو آپ نے چپکے سے اپنا مرصع پانی پینے کا پیالہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا اور سامان تیار کرکے انھیں شہر مصر سے روانہ کردیا گیا۔ جب یہ لوگ ذرا آگے نکل آئے تو چند آدمی ان کے پیچھے تیزی سے آرہے تھے۔ ان میں سے ایک نے بلند آواز سے انھیں پکارا اور کہا : ذرا ٹھہر جاؤ، تم تو چور معلوم ہوتے ہو، برادران یوسف نے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا کہ چند آدمی ان کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا سامان چوری ہوا ہے ؟ تعاقب کرنے والوں میں سے ایک شخص بولا کہ بادشاہ کا پانی پینے کا مرصع پیالہ گم ہوگیا ہے۔ اس کی ہر جگہ تلاش کی گئی لیکن ملا نہیں۔ ہم اسی کی تلاش میں نکلے ہیں۔ جو شخص یہ پیالہ تلاش کرکے بادشاہ کے پیش کرے۔ اس کے لیے ایک بار شتر غلہ انعام مقرر ہوا ہے اور میں اس بات کا ضامن ہوں کہ جو شخص پیالہ ڈھونڈ نکالے میں اس کو بادشاہ سے مقررہ انعام دلوا دوں، یا اگر خود تلاش کرسکوں تو یہ انعام خود وصول کرلوں۔- اور لفظ زعیم کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مجھ پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو میں وہ پیالہ ڈھونڈ کر بادشاہ کے حضور پیش کروں اور اس صورت میں مجھے مقررہ انعام بھی ملے گا۔- صواع کے معنی :۔ نیز ان آیات میں دو بار صواع کا لفظ آیا ہے۔ صواع کو بعض لوگوں نے صاع سے مشتق سمجھ کر اس کا معنی غلہ ماپنے کا معروف پیمانہ (پنجابی ٹوپہ) کردیا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ صاع سے مشتق یا ماخوذ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا معنی پانی پینے کا ایسا پیالہ ہے۔ جس میں جواہرات وغیرہ جڑے ہوئے ہوں اور اگر یہ پیالہ شیشہ کا ہو تو اسے قدح، لکڑی کا ہو تو عس، چمڑے کا ہو تو علبۃ اور مٹی کا ہو تو مرکن کہتے ہیں۔ (الجمال والکمال ص ١٧٤ ازسلمان منصور پوری)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

صُوَاعَ الْمَلِكِ : غلہ ماپنے کے آلے کو ” صاع “ یا ” صواع “ کہتے ہیں، اسی کو آیت (٧٠) میں ” اَالسِّقَایَة ‘ (پینے کا برتن) کہا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ غلے کی نایابی کی وجہ سے اس کی قدر و قیمت کا احساس دلانے کے لیے شاہی پیالہ گندم کے پیمانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اکثر مفسرین نے اسے چاندی کا لکھا ہے، بعض کہتے ہیں کہ سونے کا تھا، جس پر جواہر لگے تھے، لیکن صحیح اتنی بات ہی ہے کہ وہ کوئی قیمتی پیمانہ تھا۔ - وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ : یعنی جو شخص تفتیش سے پہلے خود بخود وہ پیمانہ لے آئے اسے ایک اونٹ غلہ انعام ملے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ۔ منادی کرنے والوں نے کہا کہ بادشاہ کا صواع یعنی برتن گم ہوگیا ہے اور جو شخص اس کو کہیں سے برآمد کرے گا اس کو ایک اونٹ بھر غلہ انعام میں ملے گا اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ،- یہاں ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بنیامین کو اپنے پاس روکنے کا یہ حیلہ بھی کیوں کیا جبکہ ان کو معلوم تھا کہ والد ماجد ان کی مفارقت کا صدمہ ناقابل برداشت تھا اب دوسرے بھائی کو روک کر ان کو دوسرا صدمہ دینا کیسے گوارا کیا ؟ دوسرا سوال اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ بےگناہ بھائیوں پر چوری کا الزام لگانا اور اس کے لئے یہ جعلسازی کہ ان کے سامان میں خفیہ طور سے کوئی چیز رکھ دی اور پھر علانیہ ان کی رسوائی ظاہر ہو یہ سب کام ناجائز ہیں اللہ کے نبی یوسف (علیہ السلام) نے ان کو کیسے گوارا کیا ؟- بعض مفسرین قرطبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ بیان کیا ہے کہ جب بنیامین نے یوسف (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور وہ مطمئن ہوگئے تو بھائی سے یہ درخواست کی کہ اب آپ مجھے ان بھائیوں کے ساتھ واپس نہ بھیجئے مجھے اپنے پاس رکھئے یوسف (علیہ السلام) نے اول یہی عذر کیا کہ اگر تم یہاں رک گئے تو والد کو صدمہ شدید ہوگا دوسرے تمہیں اپنے پاس روکنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ میں تم پر چوری کا الزام لگاؤں اور اس الزام میں گرفتار کر کے اپنے پاس رکھ لوں بنیامین ان بھائیوں کی معاشرت سے کچھ ایسے دل تنگ تھے کہ ان سب باتوں کے لئے تیار ہوگئے،- لیکن یہ واقعہ صحیح بھی ہو تو والد کی دل آزاری اور سب بھائیوں کی رسوائی اور ان کو چور کہنا صرف بنیامین کے راضی ہوجانے سے تو جائز نہیں ہوسکتا اور بعض حضرات کی یہ توجیہ کہ منادی کا ان کو چور کہنا یوسف (علیہ السلام) کے علم و اجازت سے نہ ہوگا ایک بےدلیل دعوٰی اور صورت واقعہ کے لحاظ سے بےجوڑ بات ہے اسی طرح یہ تاویل کہ ان بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو والد سے چرایا اور فروخت کیا تھا اس لئے ان کو چور کہا گیا یہ بھی ایک تاویل ہے اس لئے ان سب سوالوں کا صحیح جواب دہی ہے جو قرطبی اور مظہری وغیرہ نے دیا ہے کہ اس واقعہ میں جو کچھ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے وہ نہ بنیامین کی خواہش کا نتیجہ تھا نہ یوسف (علیہ السلام) کی اپنی تجویز کا بلکہ یہ سب کام بامرالہی اسی کی حکمت بالغہ کے مظاہر تھے جن میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ابتلاء و امتحان کی تکمیل ہو رہی تھی اس جواب کی طرف خود قرآن کی اس آیت میں اشارہ موجود ہے كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ یعنی ہم نے اسی طرح تدبیر کی یوسف (علیہ السلام) کے لئے اپنے بھائی کو روکنے کی، اس آیت میں واضح طور پر اس حیلہ و تدبیر کو حق تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے کہ یہ سب کام جب کہ بامر خداوندی ہوئے تو ان کو ناجائز کہنے کے کوئی معنی نہیں رہتے ان کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے حضرت موسیٰ ٰاور خضر (علیہما السلام) کے واقعہ میں کشتی توڑنا، لڑکے کو قتل کرنا وغیرہ جو بظاہر گناہ تھے اسی لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر نکیر کیا مگر خضر (علیہ السلام) یہ سب کام باذن خداوندی خاص مصالح کے تحت کر رہے تھے اس لئے ان کا کوئی گناہ تھا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ 72؀- صاع - صُوَاعُ الملکِ : کان إناء يشرب به ويكال به، ويقال له : الصَّاعُ ، ويذكّر ويؤنّث . قال تعالی:- نَفْقِدُ صُواعَ الْمَلِكِ [يوسف 72] ، ثم قال : ثُمَّ اسْتَخْرَجَها [يوسف 76] ، ويعبّر عن المکيل باسم ما يكال به في قوله : «صَاعٌ من بُرٍّ أو صَاعٌ من شعیر» - ( ص و ع ) الصواع - سے بر تن کو کہتے ہیں جس میں کوئی مشروب ڈال کر پیا جاتا ہے یا اس سے غلہ ماپ کردیا جاتا ہے اسے صاع بھی کہتے ہیں اور یہ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں آیت : ۔ نَفْقِدُ صُواعَ الْمَلِكِ [يوسف 72] کہ بادشاہ کے پانی پینے کا پیمانہ کھویا گیا ہے کے بعد ثم فرمایا ہے : ثُمَّ اسْتَخْرَجَها [يوسف 76] ( یعنی یا ضمیر مؤنث اس کی طرف لوٹ رہی ہے ) اور حدیث : «صَاعٌ من بُرٍّ أو صَاعٌ من شعیر»میں صاع سے وہ چیز مراد ہے جو اس سے ماپی جاتی ہے یعنی ظرف بول کر مظروف مراد لیا ہے - ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - زَعِيمٌ ،- للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول .- زعیم - اور زعیم کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ضامن کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ولمن جاء بہ حمل بغیر وانا بہ زعیم (شاہی کارندوں کے جمعدار نے کہا) جو شخص یہ پیمانہ لا کر دے گا اس کے لئے ایک بارشتہ انعام ہے، اس کا میں ذمہ لیتا ہوں) یحییٰ بن یمان سے مروی ہے، انہوں نے یزید بن زریع سے روایت کی ہے اور انہوں نے عطا خراسانی سے کہ زعیم کے معنی کفیل کے ہیں یعنی ذمہ اٹھانے والا، ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بعض کا خیال ہے کہ یہ کسی انسان کے بارے میں کفالت تھی حالانکہ بات یہ نہیں ہے اس لئے کہ اعلان کرنے والے نے پیمانہ شاہی ڈھونڈھ نکالنے والے کے لئے ایک بارشتہ کی اجرت مقرر کی تھی اور اس امر کو اپنے اس قول سے موکد بنادیا تھا کہ میں اس کا زعیم یعنی ضامن ہوں۔ جس طرح شاعر کا یہ قول ہے۔؎ - والی زعیم ان رجعت مسلما یسیریری منہ الفرافق اندورا - اگر میں صحیح سالم واپس آگیا تو پھر ایسی تیز رفتاری سے واپس ہونے کی ضمانت دیتا ہوں جس سے شیر کی آمد کی خبر دینے والا جانور یعنی گیدڑ بھی عاجز اور درماندہ ہے۔- یعنی میں اس بات کا ضامن ہوں۔ اس قائل نے کسی انسان کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھائی بلکہ اس نے صرف شاہی پیمانہ کو برآمد کرنے والے کے لئے اجرت دلانے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہی چیز اس مسئلے کے جواز کے لئے اصل اور بنیاد ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے ” اس سامان کو جو شخص فلاں مقام تک لے جائے گا اسے ایک درہم ملے گا “ تو یہ کہنا جائز ہے۔ یہ اجارے کی ایک جائز صورت ہوگی اگرچہ اس میں کسی خاص شخص کو اجارہ پر حاصل کرنے کی شرط نہیں رکھی گئی ہے۔- اجارہ کا حکم - امام محمد بن الحسن نے ’ سیر کبیر ‘ میں کہا ہے کہ اگر امیر شکریہ اعلان کرے : ” جو شخص ان جانوروں کو فلاں مقام تک ہانک کرلے جائے گا یا اس سامان کو فلاں جگہ پہنچا دے گا اسے اتنا دیا جائے گا، “ تو اس کا یہ اعلان جائز ہوگا اور جو شخص یہ کام سرانجام دے گا وہ اجر اور معاوضہ کا مستحق ہوجائے گا۔ آیت زیر بحث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا یہی مفہوم ہے۔ ہشام نے امام محمد سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ جس شخص کے قبضے میں کسی شخص کا مکان ہو جس میں اس کی رہائش ہو پھر مالک مکان اس سے کہے۔ ” اگر تم آج کے بعد اس مکان میں رہو گے تو تمہیں یومیہ دس درہم ادا کرنے پڑیں گے۔ “ مالک مکان کی یہ بات جائز ہوگی اور اگر کرایہ دار اس دن کے بعد مکان میں رہائش رکھے گا تو اسے یومیہ اتنے ہی درہم کرایہ کے طور پر ادا کرنے ہوں گے۔ کرایہ دار کا اس دن کے بعد رہائش پذیر رہنا اس کی رضامندی پر دال ہوگا اور یہ اجارے کی صورت ہوگی اگرچہ اس میں باہمی گفتگو کے ذریعے معاملہ طے نہیں ہوا، آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے اس لئے آیت میں یہ ذکر ہے کہ جو شخص شاہی پیمانہ برآمد کر کے پیش کرے گا اسے معاوضہ ملے گا۔ اگرچہ اعلان کرنے والے اور برآمد کرنے والے کے درمیان کوئی عقد اجارہ نہیں ہوا تھا بلکہ برآمد کرنے والے کا فعل اجارہ قبول کرنے کی علامت تھی اسی بنا پر فقہاء کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے یہ کہے۔ میں تجھے ایک درہم کے عوض اس سامان کو فلاں مقام تک پہنچانے کے لئے اجارے پرل یتا ہوں “ اگر وہ شخص اس سامان کو مقررہ مقام تک لے جائے گا تو معاوضہ کا مستحق قرار پائے گا اگرچہ اس نے اپنی زبان سے اس اجارے کو قبول کرنے کے متعلق ایک لفظ بھی نہ کہا ہو۔ اگر کہا جائے کہ آیت میں مذکورہ صورت اجارے کی صورت نہیں بن سکتی اس لئے کہ ایک بارشتہ کے بدلے اجارہ درست نہیں ہوتا اور اگر یہ اجارے کی صورت تھی تو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں یہ منسوخ ہوچکی تھی اس لئے کہ ہماری شریعت میں معلوم و متعین اجرت کے بغیر اجارہ درست نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں مذکورہ بارشتر ایک متعین معاوضہ تھا اس لئے کہ بارشتر کیل اور وزن کے تحت آنے والی چیزوں کی ایک معلوم مقدار کا اسم تھا۔ جس طرح کا رۃ (غلہ سے بھرا ہوا جہاز) وقر (بھاری بوجھ) اور وسق (ساٹھ صاع) اہل زبان کے ہاں معلوم و متعین تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب اس کی تردید نہیں کی تو یہ چیز اس کی صحت پر دال ہوگئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل آنے والے انبیاء کی شریعتوں کے احکامات اس وقت ہمارے نزدیک ثابت ہیں جب تک ان کے نسخ پر کوئی دلالت قائم نہ ہوجائے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٢) وہ بولے ہم شاہی پیمانہ کی تلاش میں ہیں جس سے بادشاہ پانی پیتا اور اناج ماپ کردیتا ہے اور پیمانہ سونے کا تھا اور اس پکارنے والے نے کہا کہ بادشاہ نے یہ کام میرے ذمہ لگایا ہے کہ جو اس پیمانہ کو حاضر کرے اس کو ایک اونٹ کے برابر اناج ملے گا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خادم کہنے لگا میں اس کے دلوانے کا ذمہ دار ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

47: یہ شاہی پیمانہ تھا اور بظاہر قیمتی تھا ورنہ اس کی تلاش میں اتنی محنت نہ کی جاتی۔