اپنے اوپر چوری کی تہمت سن کر برادران یوسف کے کان کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تم ہمیں جان چکے ہو ہمارے عادات وخصائل سے واقف ہو چکے ہو ہم ایسے نہیں کہ کوئی فساد اٹھائیں ہم ایسے نہیں ہیں کہ چوریاں کرتے پھریں ۔ شاہی ملازموں نے کہا اچھا اگر جام و بیمانے کا چور تم میں سے ہی کوئی ہو اور تم جھوٹے پڑو تو اس کی سزا کیا ہونی چاہئے ؟ جواب دیا کہ دین ابراہیمی کے مطابق اس کی سزا یہ ہے کہ وہ اس شخص کے سپرد کر دیا جائے ، جس کا مال اس نے چرایا ہے ، ہماری شریعت کا یہی فیصلہ ہے ۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام کا مطلب پورا ہو گیا ۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کی تلاشی لی جائے چنانچہ پہلے بھائیوں کے اسباب کی تلاشی لی ، حالانکہ معلوم تھا کہ ان کی خورجیاں خالی ہیں لیکن صرف اس لئے کہ انہیں اور دوسرے لوگوں کو کوئی شبہ نہ آپ نے یہ کام کیا ۔ جب بھائیوں کی تلاشی ہو چکی اور جام نہ ملا تو اب بنیامین کے اسباب کی تلاشی شروع ہوئی چونکہ ان کے اسباب میں رکھوایا تھا اس لئے اس میں سے نکلنا ہی تھا ، نکلتے ہی حکم دیا کہ انہیں روک لیا جائے ۔ یہ تھی وہ ترکیب جو جناب باری نے اپنی حکمت اور حضرت یوسف کی اور بنیامین وغیرہ کی مصلحت کے لئے حضرت یوسف صدیق علیہ السلام کو سکھائی تھی ۔ کیونکہ شاہ مصر کے قانون کے مطابق تو باوجود چور ہونے کے بنیامین کو حضرت یوسف علیہ السلام اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے لیکن چونکہ بھائی خود یہی فیصلہ کر چکے تھے ، اس لئے یہی فیصلہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جاری کر دیا ۔ آپ کو معلوم تھا کہ شرع ابراہیمی کا فیصلہ چور کی بابت کیا ہے ۔ اس لئے بھائیوں سے پہلے ہی منوا لیا تھا ۔ جس کے درجے اللہ بڑھانا چاہے ، بڑھا دیتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے تم میں سے ایمانداروں کے درجے ہم بلند کریں گے ۔ ہر عالم سے بالا کوئی اور عالم بھی ہے یہاں تک کہ اللہ سب سے بڑا عالم ہے ۔ اسی سے علم کی ابتدا ہے اور اسی کی طرف علم کی انتہا ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں فوق کل عالم علیم ہے ۔
73۔ 1 برداران یوسف (علیہ السلام) چونکہ اس منصوبے سے بیخبر تھے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تیار کیا تھا، اس لئے قسم کھا کر انہوں نے اپنے چور ہونے کی اور زمین میں فساد برپا کرنے کی نفی کی۔
(آیت) قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْاَرْضِ وَمَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ ۔ یعنی جب شاہی منادی نے برادران یوسف پر چوری کا الزام لگایا تو انہوں نے کہا کہ ارکان دولت بھی خود ہمارے حالات سے واقف ہیں کہ ہم کوئی فساد کرنے یہاں نہیں آئے اور نہ ہم چور ہیں
قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْاَرْضِ وَمَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ 73- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- سرق - السَّرِقَةُ : أخذ ما ليس له أخذه في خفاء، وصار ذلک في الشّرع لتناول الشیء من موضع مخصوص، وقدر مخصوص، قال تعالی: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة 38] ، وقال تعالی: قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ- [يوسف 77] ، وقال : أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، - ( س ر ق )- السرقتہ ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی خفیہ طور پر اس چیز کے لے لینے کے ہیں جس کو لینے کا حق نہ ہوا اور اصطلاح شریعت میں کسی چیز کو محفوظ جگہ سے مخصوص مقدار میں لے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة 38] اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ۔ - قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف 77] ( برداران یوسف نے ) کہا اگر اس نے چوری کی ہو تو ( کچھ عجب نہیں کہ ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] کہ قافلہ والو تم تو چورہو،
(٧٣) یہ لوگ بولے مصر والو اللہ کی قسم تمہیں اچھی طرح پتا ہے کہ ہم مصر میں چوری کرنے اور لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں آئے ہیں اور جس چیز کی تم تلاش کررہے ہو ہم نے اسے نہیں چرایا۔
آیت ٧٣ (قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْاَرْضِ وَمَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ )- آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم قحط کے مارے لوگ یہاں اتنی دور سے غلہ لینے آئے ہیں ہم کوئی چور ڈاکو نہیں ہیں۔ ان کے اس فقرے اور انداز گفتگو میں بڑی لجاجت پائی جاتی ہے۔