بھائی کے شلیتے میں سے جام کا نکلنا دیکھ کر بات بنا دی کہ دیکھو اس نے چوری کی تھی اور یہی کیا اس کے بھائی یوسف نے بہی ایک مرتبہ اس سے پہلے چوری کر لی تھی ۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ اپنے نانا کا بت چپکے سے اٹھا لائے تھے اور اسے توڑ دیا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی ایک بڑی بہن تھیں ، جن کے پاس اپنے والد اسحاق علیہ السلام کا ایک کمر پٹہ تھا جو خاندان کے بڑے آدمی کے پاس رہا کرتا تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام پیدا ہوتے ہی اپنی ان پھوپھی صاحبہ کی پرورش میں تھے ۔ انہیں حضرت یوسف علیہ السلام سے کمال درجے کی محبت تھی ۔ جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے آپ کو لے جانا چاہا ۔ بہن صاحبہ سے درخواست کی ۔ لیکن بہن نے جدائی و ناقابل برداشت بیان کر کے انکار کر دیا ۔ ادھر آپ کے والد صاحب حضرت یعقوب علیہ السلام کے شوق کی بھی انتہا نہ تھی ، سر ہو گئے ۔ آخر بہن صاحبہ نے فرمایا اچھا کچھ دنوں رہنے دو پھر لے جانا ۔ اسی اثنا میں ایک دن انہوں نے وہی کمر پٹہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا ، پھر تلاش شروع کی ۔ گھر بھر چھان مارا ، نہ ملا ، شور مچا ، آخر یہ ٹھری کہ گھر میں جو ہیں ، ان کی تلاشیاں لی جائیں ۔ تلاشیاں لی گئیں ۔ کسی کے پاس ہو تو نکلے آخر حضرت یوسف علیہ السلام کی تلاشی لی گئی ، ان کے پاس سے برآمد ہوا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو خبر دی گئی ۔ اور ملت ابراہیمی کے قانون کے مطابق آپ اپنی پھوپھی کی تحویل میں کر دئے گئے ۔ اور پھوپھی نے اس طرح اپنے شوق کو پورا کیا ۔ انتقال کے وقت تک حضرت یوسف علیہ السلام کو نہ چھوڑا ۔ اسی بات کا طعنہ آج بھائی دے رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں حضرت یوسف علیہ السلام نے چپکے سے اپنے دل میں کہا کہ تم بڑے خانہ خراب لوگ ہو اس کے بھائی کی چوری کا حال اللہ خوب جانتا ہے ۔
77۔ 1 یہ انہوں نے اپنی پاکیزگی و شرافت کے اظہار کے لئے کہا۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین، ان کے سگے اور حقیقی بھائی نہیں تھے، علاتی بھائی تھے، بعض مفسرین نے یوسف (علیہ السلام) کی چوری کے لئے دو راز کار باتیں نقل کی ہیں جو کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے کو تو نہایت با اخلاق اور باکردار باور کرایا اور یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین کو کمزور کردار کا اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے انھیں چور اور بےایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔ 77۔ 2 حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف چوری کے انتساب میں صریح کذب بیانی کا ارتکاب کیا۔
[٧٤] برادران یوسف کا یوسف پہ چوری کا الزام :۔ چند ہی لمحے پیشتر یہی برادران یوسف یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم لوگ شریف زادے ہیں چوری یا فساد کرنے والے نہیں ہیں۔ پھر اسی مقام پر صرف بن یمین پر ہی چوری کے الزام کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے بڑے بھائی ( یوسف (علیہ السلام) پر چوری کا الزام جڑ دیا۔ اسی ایک جملہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ان دونوں بھائیوں کے متعلق کس قدر معاندانہ اور حاسدانہ جذبات رکھتے تھے اور جو کچھ خود ان کے حق میں کرتے رہے۔ اس کا انھیں کبھی خیال بھی نہ آتا تھا۔- [٧٥] اس مقام پر بھی سیدنا یوسف نے پیغمبرانہ صبر و تحمل سے کام لیا۔ یہ عین ممکن تھا کہ اگر اس وقت کوئی بات آپ کے منہ سے نکل جاتی تو سارا راز فاش ہوجاتا اور حالات دوسرا رخ اختیار کر جاتے لیکن سیدنا یعقوب کے لیے صبر و توکل کے ابتلاء کا دور ابھی باقی تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ابھی یوسف کو مزید بلند درجات عطا فرمانا چاہتے تھے۔ اتنے بلند کہ آپ کے بچپن کے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر نتھر کر سامنے آجائے۔ البتہ ان کے دل میں یہ ضرور خیال آیا کہ یہ اخلاقی لحاظ سے کس قدر گرچکے ہیں کہ محض حسد وعناد کی بنا پر بلاتامل دوسرے پر الزام عائد کردیتے ہیں۔
فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ : ان کا یہ اشارہ یوسف (علیہ السلام) کی طرف تھا، پہلے کہہ چکے تھے : (وَمَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ ) کہ ہم کبھی چور نہیں تھے، لیکن اب جو دیکھا کہ چھوٹے بھائی کے پاس سے چوری کا مال نکل آیا ہے تو اپنی خفت مٹانے اور اپنی پاک بازی ظاہر کرنے کے لیے فوراً اپنے آپ کو اس بھائی سے الگ کرلیا اور اس کے جرم کو بہانہ بنا کر اس کے بھائی پر بھی چوری کی جھوٹی تہمت لگا دی۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے گم ہوجانے کے بعد اس بھائی کے ساتھ یہ بھائی کیا سلوک کرتے رہے ہوں گے ؟- یہاں مفسرین نے اسرائیلی روایات سے بچپن میں یوسف (علیہ السلام) کی چوری کے کچھ واقعات لکھے ہیں، جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ذکر نہیں اور جن سے یوسف (علیہ السلام) بالکل پاک ہیں، پھر یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے کہنے پر یوسف (علیہ السلام) کی چوری کے واقعات کی تلاش تو تب کی جائے جب برادران یوسف نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، باپ کے پاس جھوٹ بولنے سے لے کر یہاں اپنے تمام بھائیوں کی قسم دے کر کہ ہم میں سے کبھی کوئی چور نہیں رہا، فوراً ہی مدت سے گم شدہ بھائی پر بھی چوری کا بہتان لگا دیا اور ہمارے بعض مفسرین کو فکر ہے کہ ان بھائیوں کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے یوسف (علیہ السلام) کی کوئی نہ کوئی چوری ضرور ڈھونڈ نکالی جائے۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]- فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِهٖ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ : کیونکہ اگر ظاہر کرتے تو وہ سمجھ لیتے کہ یہی یوسف ہے اور ابھی یہ راز کھولنے کا وقت نہ آیا تھا۔ اتنے اونچے مقام پر ہونے کے باوجود اتنی تلخ تہمت کو دل میں چھپا کر صبر کرنا یوسف (علیہ السلام) ہی کا حوصلہ ہے۔ - قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا : یعنی یوسف نے چوری کی ہو یا نہ کی ہو مگر تمہارے چور ہونے میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ تم نے اسے باپ سے چرا کر کنویں میں پھینک دیا۔ مزید یہ غضب ڈھا رہے ہو کہ الٹا اپنے آپ کو پاک باز اور یوسف کو چور بتاتے ہو ؟- وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ : یعنی تم جو یوسف پر چوری کا الزام لگا رہے ہو اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، تم جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔
خلاصہ تفسیر :- کہنے لگے کہ (صاحب) اگر اس نے چوری کی تو (تعجب نہیں کیونکہ) اس کا ایک بھائی (تھا وہ) بھی (اسی طرح) اس کے پہلے چوری کرچکا ہے (جس کا قصہ درمنثور میں اس طرح لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی ان کی پھوپھی پرورش کرتی تھیں جب ہوشیار ہوئے تو یعقوب (علیہ السلام) نے لینا چاہا وہ ان کو چاہتی بہت تھیں انہوں نے ان کو رکھنا چاہا اس لئے انہوں نے ان کی کمر میں ایک پٹکا کپڑوں کے اندر باندھ کر مشہور کردیا کہ پٹکاگم ہوگیا اور سب کی تلاشی لی تو ان کی کمر میں نکلا اور اس شریعت کے قانون کے موافق ان کو پھوپھی کے قبضہ میں رہنا پڑا یہاں تک کہ ان کی پھوپھی نے وفات پائی پھر یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آگئے اور ممکن ہے یہ صورت استرقاق کی بھی یوسف (علیہ السلام) کی رضامندی سے ہوئی ہو اس لئے یہاں بھی آزاد کا غلام بنانا لازم نہیں آیا اور ہرچند کہ قرائن و اخلاق یوسفیہ میں ذرا تامل کرنے سے آپ کی برأت اس فعل سے یقیناً معلوم تھی مگر بنیامین پر جو بھائیوں کو غصہ تھا اس میں یہ بات بھی کہہ دی) پس یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کو (جو آگے آتی ہے) اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور اس کو ان کے سامنے (زبان سے) ظاہر نہیں کیا یعنی (دل میں) یوں کہا کہ اس چوری کے) درجہ میں تم تو اور بھی زیادہ بری ہو (یعنی ہم دونوں بھائیوں سے تو حقیقت سرقہ صادر نہیں ہوا اور تم نے تو اتنا بڑا کام کیا کہ کوئی مال غائب کرتا ہے تم نے آدمی غائب کردیا کہ مجھ کو باپ سے بچھڑا دیا اور ظاہر ہے کہ آدمی کی چوری مال کی چوری سے زیادہ سخت ہے) اور تو کچھ تم (ہم دونوں بھائیوں کے متعلق) بیان کر رہے ہو (کہ ہم چور ہیں) اس (کی حقیقت) کا اللہ ہی کو خوب علم ہے (کہ ہم چور نہیں ہیں جب بھائیوں نے دیکھا کہ انہوں نے بنیامین کو ماخوذ کرلیا اور اس پر قابض ہوگئے توبراہ خوشامد) کہنے لگے اے عزیز اس (بنیامین) کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے (اور اس کو بہت چاہتا ہے اس کے غم میں خدا جانے کیا حال ہو، اور ہم سے اس قدر محبت نہیں) سو آپ ایسا کیجئے کہ) اس کی جگہ ہم میں سے ایک کو رکھ لیجئے (اور اپنا مملوک بنا لیجئے) ہم آپ کو نیک مزاج دیکھتے ہیں (امید ہے کہ اس درخواست کو منظور فرما لیں گے) یوسف (علیہ السلام) نے کہا ایسی (بےانصافی کی) بات سے خدا بچائے کہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا دوسرے شخص کو پکڑ کرلیں (اگر ہم ایسا کریں تو) اس حالت میں تو ہم بڑے بےانصاف سمجھے جائیں گے (کسی آزاد آدمی کو غلام بنا لینا اور غلاموں کا معاملہ کرنا اس کی رضامندی سے بھی حرام ہے) پھر جب ان کو یوسف (علیہ السلام) سے تو (ان کے صاف جواب کے سبب) بالکل امید نہ رہی (کہ بنیامین کو دیں گے) تو (اس جگہ سے) علیحٰدہ ہو کر باہم مشورہ کرنے لگے (کہ کیا کرنا چاہئے، پھر زیادہ کی یہ رائے ہوئی کہ مجبوری ہے سب کو واپس چلنا چاہئے، مگر) ان سب میں جو بڑا تھا اس نے کہا کہ (تم جو سب کے سب واپس چلنے کی صلاح کر رہے ہو تو) کیا تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ تم سے خدا کی قسم کھلاکر پکا قول لے چکے ہیں (کہ تم اس کو اپنے ہمراہ لانا لیکن اگر گھر جاؤ تو مجبوری ہے سو ہم سب کے سب تو گھر ہے نہیں کہ تدبیر کی گنجائش نہ رہتی اس لئے حتی الامکان کچھ تدبیر کرنا چاہئے) اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں کس قدر کوتاہی کرچکے ہو (کہ ان کے ساتھ جو کچھ برتاؤ ہوا اس سے باپ کے حقوق بالکل ضائع ہوئے سو وہ پرانی ہی شرمندگی کیا کم ہے جو ایک نئی شرمندگی لے کر جائیں) سو میں تو اس زمین سے ٹلتا نہیں تاوقتیکہ میرے باپ مجھ کو (حاضری کی) اجازت نہ دیں یا اللہ تعالیٰ اس مشکل کو سلجھا دے اور وہی خوب سلجھانے والا ہے (یعنی کسی تدبیر سے بنیامین چھوٹ جائے غرض میں یا اس کو لے کر جاؤں گا یا بلایا ہوا جاؤں گا سو مجھ کو تو یہاں چھوڑو اور) تم واپس اپنے باپ کے پاس جاؤ اور (جا کر ان سے) کہو کہ اے ابا آپ کے صاحبزادے (بنیامین) نے چوری کی (اس لئے گرفتار ہوئے) اور ہم تو وہی بیان کرتے ہیں جو ہم کو (مشاہدہ سے) معلوم ہوا ہے اور ہم (قول وقرار دینے کے وقت) غیب کی باتوں کے تو حافظ تھے نہیں (کہ یہ چوری کرے گا ورنہ ہم کبھی قول نہ دیتے) اور (اگر ہمارے کہنے کا یقین نہ ہو تو) اس بستی (یعنی مصر) والوں سے (کسی اپنے معتمد کی معرفت) پوچھ لیجئے جہاں ہم (اس وقت) موجود تھے (جب چوری برآمد ہوئی ہے) اور اس قافلہ والوں سے پوچھ لیجئے جن میں ہم شامل ہو کر (یہاں) آئے ہیں (معلوم ہوتا ہے اور بھی کنعان کے یا آس پاس کے لوگ غلہ لینے گئے ہوں گے) اور یقین جانئے ہم بالکل سچ کہتے ہیں (چنانچہ سب نے بڑے کو وہاں چھوڑا اور خود آ کر سارا ماجرا بیان کیا)- معارف ومسائل - ان سے پہلی آیات میں مذکور تھا کہ مصر میں یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی بنیامین کے سامان میں ایک شاہی برتن چھپا کر اور پھر ان کے سامان سے تدبیر کے ساتھ برآمد کر کے ان پر چوری کا جرم عائد کردیا گیا تھا،- مذکورہ آیات میں پہلی آیت میں یہ ہے کہ جب برادران یوسف (علیہ السلام) کے سامنے بنیامین کے سامان سے مال مسروقہ برآمد ہوگیا اور شرم سے ان کی آنکھیں جھک گئیں تو جھنجھلاکر کہنے لگے اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ یعنی اگر اس نے چوری کرلی تو کچھ زیادہ تعجب نہیں اس کا ایک بھائی تھا اس نے بھی اسی طرح اس سے پہلے چوری کی تھی، مطلب یہ تھا کہ یہ ہمارا حقیقی بھائی نہیں علاتی ہے اس کا ایک حقیقی بھائی تھا اس نے بھی چوری کی تھی، یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اس وقت خود یوسف (علیہ السلام) پر بھی چوری کا الزام لگا دیا جس میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بچپن میں پیش آیا تھا جس میں ٹھیک اسی طرح جیسے یہاں بنیامین پر چوری کا الزام لگانے کی سازش کی گئی ہے اس وقت یوسف (علیہ السلام) پر ان کی بیخبر ی میں ایسی ہی سازش کی گئی تھی اور یہ سب بھائیوں کو پوری طرح معلوم تھا کہ یوسف (علیہ السلام) اس الزام سے بالکل بری ہیں مگر اس وقت بنیامین پر غصہ کی وجہ سے اس واقعہ کی بھی چوری کا قرار دے کر اس کا الزام ان کے بھائی یوسف (علیہ السلام) پر لگا دیا ہے،- وہ واقعہ کیا تھا اس میں روایات مختلف ہیں ابن کثیر (رح) نے بحوالہ محمد بن اسحاق مجاہد (رح) امام تفسیر سے نقل کیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی ولادت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد بنیامین پیدا ہوئے تو یہ ولادت ہی والدہ کی موت کا سبب بن گئی، یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین دونوں بھائی بغیر ماں کے رہ گئے تو ان کی تربیت وحضانت ان کی پھوپھی کی گود میں ہوئی اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بچپن سے ہی کچھ ایسی شان عطاء فرمائی تھی کہ جو دیکھتا ان سے بےحد محبت کرنے لگتا تھا پھوپھی کا بھی یہی حال تھا کہ کسی وقت ان کو نظروں سے غائب کرنے پر قادر نہ تھیں دوسری طرف والد بزرگوار حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا مگر بہت چھوٹا ہونے کی بناء پر ضرورت اس کی تھی کہ کسی عورت کی نگرانی میں رکھا جائے اس لئے پھوپھی کے حوالے کردیا تھا اب جب کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو یعقوب (علیہ السلام) کا ارادہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ رکھیں پھوپھی سے کہا تو انہوں نے عذر کیا، پھر زیادہ اصرار پر مجبور ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو ان کے والد کے حوالے تو کردیا مگر ایک تدبیر ان کو واپس لینے کی یہ کردی کہ پھوپی کے پاس ایک پٹکا تھا جو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی طرف سے ان کو پہنچا تھا اور اس کی بڑی قدر و قیمت سمجھی جاتی تھی یہ پٹکا پھوپھی نے یوسف (علیہ السلام) کے کپڑوں کے نیچے کمر پر باندھ دیا - یوسف (علیہ السلام) کے جانے کے بعد یہ شہرت دی کہ میرا پٹکا چوری ہوگیا پھر تلاشی لی گئی تو وہ یوسف کے پاس نکلا، شریعت یعقوب (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق اب پھوپھی کو یہ حق ہوگیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنا مملوک بنا کر رکھیں یعقوب (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ شرعی حکم کے اعتبار سے پھوپھی یوسف (علیہ السلام) کی مالک بن گئی تو ان کے حوالے کردیا اور جب تک پھوپھی زندہ رہیں یوسف (علیہ السلام) انہی کی تربیت میں رہے - یہ واقعہ تھا جس میں چوری کا الزام حضرت یوسف (علیہ السلام) پر لگا اور پھر ہر شخص پر حقیقت حال روشن ہوگئی کہ یوسف (علیہ السلام) چوری کے ادنیٰ شبہ سے بھی بری ہیں پھوپھی کی محبت نے ان سے یہ سازش کا جال پھیلوایا تھا بھائیوں کو بھی یہ حقیقت معلوم تھی اس کی بناء پر کسی طرح زیبا نہ تھا کہ ان کی طرف چوری کو منسوب کرتے مگر ان کے حق میں بھائیوں کی جو زیادتی اور بےراہ روی اب تک ہوتی چلی آئی تھی یہ بھی اسی کا ایک آخری جز تھا،- فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِهٖ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ یعنی یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کی یہ بات سن کر اپنے دل میں رکھی کہ یہ لوگ اب تک بھی میرے درپے ہیں کہ چوری کا الزام لگا رہے ہیں مگر اس کا اظہار بھائیوں پر نہیں ہونے دیا کہ یوسف (علیہ السلام) نے ان کی یہ بات سنی ہے اور اس سے کچھ اثر لیا ہے،- قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ یوسف (علیہ السلام) نے (اپنے دل میں) کہا کہ تم لوگ ہی برے درجہ اور برے حال میں ہو کہ بھائی پر چوری کی تہمت جان بوجھ کر لگاتے ہو اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والے ہیں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صحیح ہے یا غلط پہلا جملہ تو دل میں کہا گیا ہے یہ دوسرا جملہ ممکن ہے کہ بھائیوں کے جواب میں اعلاناً کہہ دیا ہو
قَالُوْٓا اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ ۚ فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِهٖ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ 77- سرر - والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ - بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] - ( ش ر ر ) الشر - وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں - وصف - الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ :- الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116]- ( و ص ف ) الوصف - کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔
(٧٧) حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کہنے لگے کہ اگر بنیامین نے بادشاہ کا پیمانہ چرایا ہے تو اس کے بھائی نے بھی اس سے پہلے چوری کی تھی (بت کو چھپا کر توڑ دیا تھا تاکہ بت پرستی نہ ہو) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کے جواب کو اپنے دل میں چھپا کر رکھا اور اس کو ان کے سامنے ظاہر نہیں کیا اور دل میں کہا کہ تم تو اس چوری کے درجہ میں یوسف (علیہ السلام) سے بھی زیادہ برا کام کرچکے ہو اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف تم جس (بےبنیاد) بات کو منسوب کررہے ہو اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم چور نہیں۔
آیت ٧٧ (قَالُوْٓا اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ )- برادران یوسف کی طبیعت کا ہلکا پن ملاحظہ ہو کہ اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے یہ بعید نہیں تھا کیونکہ ایک زمانے میں اس کے ماں جائے بھائی (یوسف) نے بھی اسی طرح کی حرکت کی تھی۔- (قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ )- انہوں نے آپ پر بھی فوراً چوری کا بےبنیاد الزام لگا دیا مگر آپ نے کمال حکمت اور صبر سے اسے برداشت کیا اور اس پر کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
٦۱ ۔ یہ انہوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا ، پہلے کہہ چکے تھے کہ ہم لوگ چور نہیں ہیں ، اب جو دیکھا کہ مال ہمارے بھائی کی خرجی سے برآمد ہوگیا ہے تو فورا ایک جھوٹی بات بنا کر اپنے آپ کو اس بھائی سے الگ کر لیا اور اس کے ساتھ اس پہلے بھائی کو بھی لپیٹ لیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کے پیچھے بن یمین کے ساتھ ان بھائیوں کا کیا سلوک رہا ہوگا اور کس بنا پر اس کی اور حضرت یوسف کی یہ خواہش ہوگی کہ وہ ان کے ساتھ نہ جائے ۔
51: ان کا مطلب یہ تھا کہ بنیامین کے بھائی یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی ایک مرتبہ چوری کی تھی۔ یہ اِلزام اِنہوں نے کیوں لگایا؟ اِس کی وجہ قرآنِ کریم نے بیان نہیں فرمائی، لیکن بعض روایات میں اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ اُن کے بچپن ہی میں وفات پا گئی تھیں۔ اور اِن کی پھوپھی نے ان کی پرورِش کی، کیونکہ بچپن کے بالکل ابتدائی دور میں بچے کی دیکھ بھال کے لئے کسی عورت کی ضرورت تھی، لیکن جب وہ ذرا بڑے ہوئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اُنہیں اپنے پاس رکھنا چاہا۔ پھوپی اس عرصے میں حضرت یوسف علیہ السلام سے اتنی محبت کرنے لگی تھیں کہ ان سے ان کی جدائی برداشت نہیں ہورہی تھی، اس لئے اُنہوں نے یہ تدبیر کی کہ اپنا ایک پٹکا اُن کی کمر سے باندھ کر یہ مشہور کردیا کہ وہ چوری ہوگیا ہے۔ بعد میں جب وہ پٹکا حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس سے بر آمد ہوا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے مطابق اُنہیں یہ حق مل گیا کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس رکھ لیں۔ چنانچہ جب تک وہ پھوپھی زندہ رہیں، اس وقت تک حضرت یوسف علیہ السلام ان کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے۔ یہ واقعہ اُن کے بھائیوں کو معلوم تھا، اور وہ جانتے تھے کہ درحقیقت پٹکا انہوں نے چوری نہیں کیا تھا، مگر چونکہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے مخالف تھے، اس لئے اُنہوں نے اس موقع پر چوری کا اِلزام بھی ان پر لگا دیا۔ (ابنِ کثیر وغیرہ) ۔ یہ واقعہ اِس صورت میں دُرست ہوسکتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کے بارے میں ان روایات کو صحیح قرار دیا جائے جن کی رُو سے اِن کا انتقال ہوچکا تھا، اور جن روایتوں میں یہ مذکورہ ہے کہ وہ زندہ تھیں، ان کے لحاظ سے چوری کے اِلزم کی یہ توجیہ ممکن نہیں ہے۔ بہر صورت یہ بات واضح ہے کہ الزام غلط تھا۔ 52: یعنی اس چوری کے معاملے میں جس کا اِلزام تم مجھ پر لگا رہے ہو، تمہاری حالت کہیں زیادہ بُری ہے، کیونکہ تم نے خود مجھے میرے باپ سے چُرا کر کنویں میں ڈال دیا تھا۔