Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 پہلے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی۔ آخر میں بنیامین کا سامان دیکھا تاکہ انھیں شبہ نہ ہو کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ 76۔ 2 یعنی ہم نے وحی کے ذریعے سے یوسف (علیہ السلام) کو یہ تدبیر سمجھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح غرض کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرنا جس کی ظاہری صورت حیلہ کی ہو، جائز ہے بشرطیکہ وہ طریقہ کسی نص شرعی کے خلاف نہ ہو (فتح القدیر) 76۔ 3 یعنی بادشاہ مصر میں جو قانون اور دستور رائج تھا، اس کی روح سے بنیامین کو اس طرح روکنا ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اہل قافلہ سے پوچھا کہ بتلاؤ اس جرم کی سزا کیا ہو۔ 76۔ 4 جس طرح یوسف (علیہ السلام) کو اپنی عنایات اور مہربانیوں سے بلند مرتبہ عطا کیا۔ 76۔ 5 یعنی ہر عالم سے بڑھ کر کوئی نہ کوئی عالم ہوتا ہے اس لئے کوئی صاحب علم اس دھوکے میں مبتلا نہ ہو کہ میں ہی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم ہوں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحب علم کے اوپر ایک علیم یعنی اللہ تعالیٰ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧١] اللہ کی تدبیر کیا تھی ؟ سیدنا یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی بن یمین کو اپنے پاس ہی روک رکھنا چاہتے تھے۔ اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے بھائیوں پر ابھی اپنے بادشاہ ہونے کی حقیقت کا راز فاش نہ ہو۔ اسی لیے پیالہ بن یمین کے سامان میں رکھنے کی تدبیر کی گئی تھی اور جو تدبیر اللہ نے سیدنا یوسف کے لیے کی وہ یہ تھی کہ آپ اس کو شاہ مصر کے قانون تعزیرات کے مطابق گرفتار کرکے جیل میں نہ بھیجیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے برادران یوسف کے منہ ہی سے یہ بات نکلوا دی کہ ہمارے ہاں چور کی سزا یہ ہوتی ہے کہ جو شخص چوری کرے وہ ایک سال کے لیے اس شخص کی غلامی کرے جس کا اس نے مال چرایا ہے۔ اس طرح باعزت طور پر بن یمین کو کم از کم ایک سال کے لیے اپنے حقیقی بھائی یوسف (علیہ السلام) کے پاس رہنے کا اللہ تعالیٰ نے موقع فراہم کردیا اور وہ کچھ ہو کے رہا جو اللہ کو منظور تھا۔- [٧٢] اس جملہ میں سیدنا یوسف اور برادران یوسف کا تقابل پیش کیا گیا ہے کہ جس یوسف کو اس کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال کر صفحہ ہستی سے غائب کرنا چاہا تھا۔ اسے اللہ نے اتنا اعزاز بخشا کہ اس کے بھائی اسی یوسف کے رحم و کرم کے محتاج بن گئے۔- [٧٣] یعنی اگرچہ یوسف کو اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا تھا تاہم وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ کون سی ایسی تدبیر کی جائے کہ ان کا بھائی باعزت طور پر ان کے پاس رہ سکے۔ یہ تدبیر اللہ نے یوسف کی خاطر پیدا کردی۔ کیونکہ وہ ہر صاحب علم سے بڑھ کر علیم ہستی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَبَدَاَ بِاَوْعِيَتِهِمْ ۔۔ : یعنی پیمانے کی گم شدگی کا اعلان کرنے والے نے (اللہ کی تدبیر کے مطابق) اتفاق سے پہلے دوسرے بھائیوں کی بوریوں کی تلاشی لی اور آخر میں اس (یوسف) کے بھائی کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں سے پیمانہ نظر آگیا جو اس تلاشی لینے والے نے نکال لیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یوسف کے لیے یہ تدبیرہم نے کی، بادشاہ مصر کے قانون کی رو سے وہ کسی طرح اپنے بھائی کو نہیں رکھ سکتے تھے، مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ خود بھائیوں کے ہاں رائج قانون کے مطابق جو انھوں نے خود بتایا، ان کے لیے بھائی کو یوسف (علیہ السلام) کے پاس چھوڑے بغیر کوئی چارہ نہ رہا۔ - نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ : یعنی ہم جسے چاہتے ہیں علم عطا فرما کر اس کے درجے بلند کرتے ہیں، جیسے دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں یوسف (علیہ السلام) کے درجے بلند کیے۔ - وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ : یعنی ہر جاننے والے سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ اس لیے کوئی شخص اس غرور میں مبتلا نہ ہو کہ مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں، اللہ تعالیٰ کو موسیٰ (علیہ السلام) کے منہ سے بےساختہ نکلنے والا یہ لفظ بھی پسند نہ آیا، فرمایا، کیوں نہیں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ غرض ہر عالم سے بڑا عالم موجود ہے، یہاں تک کہ تمام جاننے والوں کے اوپر وہ ذات پاک ہے جو حاضر و غائب ہر چیز کو پوری طرح جاننے والی ہے اور اس سے کوئی بات مخفی نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَبَدَاَ بِاَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاۗءِ اَخِيْهِ یعنی سرکاری تفتیش کرنے والوں نے اصل سازش پر پردہ ڈالنے کے لئے پہلے سب بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی پہلے ہی بنیامین کا سامان نہیں کھولا تاکہ ان کو شبہ نہ ہو جائے - ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَاۗءِ اَخِيْهِ یعنی آخر میں بنیامین کا سامان کھولا گیا تو اس میں سے صواع الملک کو برآمد کرلیا اس وقت تو سب بھائیوں کی گردنیں شرم سے جھک گئیں اور بنیامین کو سخت سست کہنے لگے کہ تو نے ہمارا منہ کالا کردیا،- كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ ۭ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ یعنی اس طرح ہم نے تدبیر کی یوسف کے لئے وہ اپنے بھائی کو شاہ مصر کے قانون کے ماتحت گرفتار نہیں کرسکتے تھے کیونکہ مصر کا قانون چور کے متعلق یہ تھا کہ چور کو مارپیٹ کی سزا دی جائے اور مال مسروقہ سے دوگنی قیمت وصول کر کے چھوڑ دیا جائے مگر انہوں نے یہاں برادران یوسف ہی سے چور کا حکم شریعت یعقوبی کے مطابق دریافت کرلیا تھا اس کی رو سے بنیامین کو اپنے پاس روک لینا صحیح ہوگیا اس طرح اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت سے یوسف (علیہ السلام) کی یہ مراد بھی پوری ہوگئی - نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ یعنی ہم جس کو چاہتے ہیں درجات بلند کردیتے ہیں جیسا اس واقعہ میں یوسف (علیہ السلام) کے درجات ان کے بھائیوں کے مقابلہ میں بلند کردیئے گئے اور ہر علم والے کے اوپر اس سے زیادہ علم والا موجود ہے،- مطلب یہ ہے کہ مخلوق میں ہم نے علم کے اعتبار سے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے بڑے سے بڑے عالم کے مقابلہ میں کوئی اس سے زیادہ علم رکھنے والا ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ پوری مخلوقات میں کوئی اس سے زیادہ علم نہیں رکھتا تو پھر رب العزت جل شانہ ٗ کا علم تو سب سے بالاتر ہے ہی۔- احکام و مسائل :- آیات مذکورہ سے چند احکام و مسائل حاصل ہوئے :- اول : آیت وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ سے ثابت ہوا کہ کسی معین کام کے کرنے پر کوئی اجرت یا انعام مقرر کر کے اعلان عام کردینا کہ جو شخص یہ کام کرے گا اس کو اس قدر انعام یا اجرت ملے گی جیسے اشتہاری مجرموں کے گرفتار کرنے پر یا گمشدہ چیزوں کی واپسی پر اس طرح کے انعامی اعلانات کا عام طور پر رواج ہے اگرچہ اس صورت معاملہ پر فقہی اجارہ کی تعریف صادق نہیں آتی، مگر اس آیت کی رو سے اس کا بھی جواز ثابت ہوگیا (قرطبی)- دوسرے اَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی طرف سے حق مالی کا ضامن بن سکتا ہے اور اس صورت کا حکم جمہور فقہائے امت کے نزدیک یہ ہے کہ صاحب حق کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنا مال اصل مدیون سے یا ضامن سے جس سے بھی چاہے وصول کرسکتا ہے ہاں اگر ضامن سے وصول کیا گیا تو ضامن کو حق ہوگا کہ جس قدر مال اس سے لیا گیا ہے وہ اصل مدیون سے وصول کرے (قرطبی خلافاً لمالک)- تیسرے كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ سے معلوم ہوا کہ کسی شرعی مصلحت کی بناء پر معاملہ کی صورت میں کوئی ایسی تبدیلی اختیار کرنا جس سے احکام بدل جائیں جس کو فقہاء کی اصطلاح میں حیلہ شرعیہ کہا جاتا ہے یہ شرعاً جائز ہے شرط یہ ہے کہ اس سے شرعی احکام کا ابطال لازم نہ آتاہو اور نہ ایسے حیلے باتفاق فقہاء حرام ہیں جیسے زکوٰۃ سے بچنے کے لئے کوئی حیلہ کرنا یا رمضان سے پہلے کوئی غیر ضروری سفر صرف اس لئے اختیار کرنا کہ روزہ نہ رکھنے کی گنجائش نکل آئے یہ باتفاق حرام ہے ایسے ہی حیلے کرنے پر بعض اقوام پر عذاب الہی آیا ہے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے حیلوں سے منع فرمایا ہے اور باتفاق امت حرام ہیں ان پر عمل کرنے سے کوئی کام جائز نہیں ہوجاتا بلکہ دوہرا گناہ لازم آتا ہے ایک تو اصل ناجائز کام کا دوسرے یہ ناجائز حیلہ جو ایک حیثیت سے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ چالبازی کا مرادف ہے اسی طرح کے حیلوں کے ناجائز ہونے کو امام بخاری (رح) نے کتاب الحیل میں ثابت کیا ہے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَبَدَاَ بِاَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاۗءِ اَخِيْهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَاۗءِ اَخِيْهِ ۭ كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ ۭ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ 76؀- بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ - وعی - الوَعْيُ : حفظ الحدیث ونحوه . يقال : وَعَيْتُهُ في نفسه . قال تعالی: لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة 12] .- والإِيعَاءُ :- حفظ الأمتعة في الوِعَاءِ. قال تعالی: وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج 18] قال الشاعر :- وقال تعالی: فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف 76]- ( و ع ی ) الوعی - ( ض ) کے معنی ( عموما ) بات وغیر کو یاد کرلینا کے ہوتے ہیں جیسے وعیتہ فی نفسی میں نے اسے یاد کرلیا قرآن میں ہے : ۔ لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة 12] تاکہ اس کو تمہارے لئے یاد گار بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ - الایعاء ( افعال )- کے معنی سازو و سامان کو وعاء ظرف میں محفوظ کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ - وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج 18] مال جمع کیا اور بند رکھا - الوعاء - کے معنی بوری یا تھیلا کے ہیں جس میں دوسری چیزیں اکٹھی کرکے رکھی جائیں جمع اوعیۃ آتی ہے قرآن میں ہے : فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف 76] پھر یوسف نے ا پنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شرو ع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا ۔ - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - درج - الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] - ( د ر ج ) الدرجۃ - : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدیاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزدلہ رفیع یعنی - بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251]- والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد - ( ذ و ) ذو - ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف - کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں - اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٦) چنانہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے نوکروں نے بنیامین کے تھیلے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے تھیلوں کی تلاشی لی ان میں وہ پیمانہ نہیں ملا پھر آخرکار انہوں نے اس برتن کو بنیامین کے تھیلے سے برآمد کیا اس تلاش کرنے والے نے بنیامین کو دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی فرمائے جیسا کہ تم نے مجھ پر آسانی کی۔ ہم نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خاطر اس طرح تدبیر فرمائی اور ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو علم و حکمت، فہم و نبوت اور بادشاہت کے ذریعے عزت و کرامت عطا فرمائی حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کو بادشاہ مصر کے قانون سے نہیں لے سکتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کو بادشاہ کے قانون سے نہ لیں کیوں کہ بادشاہ کے قانون کے مطابق چور کی سزا تادیب اور قید تھی یا یہ کہ ہاتھ کاٹنا اور قید تھی۔- اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اسی طرح دلوانا منظور تھا کیوں کہ اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس بات کا علم ہوجاتا کہ اللہ کی مرضی شاہی قانون ہی کے ذریعے سے لینے کی ہے تو پھر وہ اسی طرح اپنے بھائی کو لیتے ہم جسے چاہتے ہیں فضیلت میں خاص درجوں تک بڑھا دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے دنیا میں بھی بڑھایا اور ہر ایک علم والے سے بڑھ کر دوسرا علم والا ہے یہاں تک کہ سلسلہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے وہ سب سے بڑھ کر علم والا ہے اور اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ )- یہ ایک ایسی تدبیر تھی جس میں توریے کا سا انداز تھا اور اس سے مقصود کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اس پورے خاندان کو آپس میں ملانا تھا۔ اس تدبیر کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے کہ حضرت یوسف نے اپنی طرف سے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ اللہ نے آپ کے لیے یہ ایک راہ نکالی تھی۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی تاکہ کسی ذہن میں یہ اشکال پیدا نہ ہو کہ ایسی تدبیر اختیار کرنا شان نبوت کے منافی ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار بھی مطلق ہے اور اس کا علم بھی ہر شے پر محیط ہے۔ اللہ کو تو علم تھا کہ یہ عارضی سا معاملہ ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ - (مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ )- لفظ ” دین “ کی تعریف ( ) کے اعتبار سے قرآن کی یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہاں دِیْنِ الْمَلِکِ (بادشاہ کے دین) سے مراد وہ نظام ہے جس کے تحت بادشاہ اس پورے ملک کو چلا رہا تھا ‘ جس میں بادشاہ اقتدار اعلیٰ ( ) کا مالک تھا۔ اس کا اختیار مطلق تھا ‘ اس کا ہر حکم قانون تھا اور پورا نظام سلطنت و مملکت اس کے تابع تھا۔ اس حوالے سے ” دین اللہ “ کی اصطلاح بہت آسانی سے واضح ہوجاتی ہے۔ چناچہ اگر اللہ کے اقتدار ( ) اور اختیار مطلق کو تسلیم کر کے پورا نظام زندگی اس کے تابع کردیا جائے تو یہی ” دین اللہ “ کا عملی ظہور ہوگا۔ یہی وہ کیفیت تھی جو ” دین اللہ “ کے غلبے کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں پیدا ہوئی تھی اور جس کی گواہی سورة النصر میں اس طرح دی گئی ہے : (اِذَاجَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا) ۔ اسی طرح آج کا دین جسے عوام کی فلاح کا ضامن قرار دیا جا رہا ہے ” دین الجمہور “ ہے۔ اس دین یا نظام میں قانون سازی کا اختیار جمہور یعنی عوام یا عوام کے نمائندوں کو حاصل ہے وہ جسے چاہیں جائز قرار دیں اور جسے چاہیں ناجائز اور یہی سب سے بڑا کفر اور شرک ہے۔- بہر حال اس وقت مصر میں بادشاہی نظام رائج تھا جس کو حضرت یوسف بدل نہیں سکتے تھے کیونکہ آپ بادشاہ تو نہیں تھے۔ آپ کو جو اختیار حاصل تھا وہ اسی نظام کے مطابق اپنے شعبے اور محکمے کی حد تک تھا جس کے وہ انچارج تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے یہ تدبیر نکالی۔ آپ کے بھائیوں سے پہلے یہ اقرار کرا لیا گیا کہ جس کے سامان سے وہ پیالہ برآمد ہوگا سزا کے طور پر اسے خود ہی غلام بننا پڑے گا اور اس طرح حضرت یوسف کے لیے جواز پیدا ہوگیا کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے پاس روک سکیں۔- (نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ)- یعنی علم کے لحاظ سے علماء کے درجات ہیں۔ ہر عالم کے اوپر اس سے بڑا عالم ہے اور یہ درجات اللہ تعالیٰ کی ذات پر جا کر اختتام پذیر ہوتے ہیں جو سب سے بڑا عالم ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

۵۹ ۔ یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ اس پورے سلسلہ واقعات میں وہ کون سی تدبیر ہے جو حضرت یوسف کی تائید میں براہ راست خدا کی طرف سے کی گئی؟ ظاہر ہے کہ پیالہ رکھنے کی تدبیر جو حضرت یوسف نے خود کی تھی ، یہ بھی ظاہر ہے کہ سرکاری ملازموں کا چوری کے شبہ میں قافلے والوں کو روکنا بھی حسب معمول وہ کام تھا جو ایسے مواقع پر سب سرکاری ملازم کیا کرتے ہیں ، پھر وہ خاص خدائی تدبیر کون سی ہے؟ اوپر کی آیات میں تلاش کرنے سے اس کے سوا کسی دوسری چیز کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ سرکاری ملازموں نے خلاف معمول خود مشتبہ ملزموں سے چور کی سزا پوچھی اور انہوں نے وہ سزا بتائی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے چور کو دی جاتی تھی ، اس کے دو فائدے ہوئے ۔ ایک یہ کہ حضرت یوسف کو شریعت ابراہیمی پر عمل کا موقع مل گیا ، دوسرا یہ کہ بھائی کو حوالات میں بھیجنے کے بجائے اب وہ اسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے ۔ ٦۰ ۔ یعنی یہ بات حضرت یوسف کی شان پیغمبری کے شایاں نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے ، اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود جو تدبیر کی تھی اس میں یہ خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو روکا تو ضرور جاسکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانون تعزیرات سے کام لینا پڑتا ، اور یہ اس پیغمبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیارات حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت فانذ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے ، اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو اس بد نما غلطی میں مبتلا ہوجانے دیتا ، مگر اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے ، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تدبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقا برادران یوسف سے چور کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعت ابراہیمی کا قانون بیان کردیا ، یہ چیز اس لحاظ سے بالکل بر محل تھی کہ برادران یوسف مصری رعایا نہ تھے ، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے ، لہذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کامال اس نے چرایا تھا ، تو پھر مصری قانون تعزیرات سے اس معاملہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی ، یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالی نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرامیا ہے ، ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندی درجہ اور کیا ہوسکتی ہے ، اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں مبتلا ہورہا ہو تو اللہ تعالی غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرما دے ۔ ایسا بلند مرتبہ صرف انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی و عمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا محسن ہونا ثابت کرچکے ہوتے ہیں ، اور اگرچہ حضرت یوسف صاحب علم تھے خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے ، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں ایک کسر رہ ہی گئی اور اسے اس ہستی نے پورا کیا جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے ۔ یہاں چند امور اور وضاحت طلب رہ جاتے ہیں جن پر ہم مختصر کلام کریں گے: ( ۱ ) عام طور پر اس آیت کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ یوسف بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو نہ پکڑ سکتا تھا ۔ یعنی مَا كَانَ لِيَاْخُذَ کو مترجمین و مفسرین عدم قدرت کے معنی میں لیتے ہیں نہ کہ عدم صحت اور عدم مناسبت کے معنی میں ، لیکن اول تو یہ ترجمہ و تفسیر عربی محاورے اور قرآنی استعمالات دونوں کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے ، کیونکہ عربی میں عموما ما کان لہ بمعنی ما ینبغی لہ ، ما صح لہ ، ما استقام لہ وغیرہ آتا ہے اور قرآن میں بھی یہ زیادہ تر اسی معنی میں آیا ہے ۔ مثلا ( آیت ) ماکان اللہ ان یتخذ من ولد ، ماکان لنا ان نشرک باللہ من شیء ، ما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ، ماکان اللہ لیضیع ایمانکم ، فما کان اللہ لیظلمھم ، ما کان اللہ لیذر المومنین علی ما انتم فیہ ، ما کان لمومن ان یقتل مومنا ۔ دوسرے اگر اس کے وہ معنی لیے جائیں جو مترجمین و مفسرین بالعموم بیان کرتے ہیں تو بات بالکل مہمل ہوجاتی ہے ، بادشاہ کے قانون میں چور کو نہ پکڑ سکنے کی آخر وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ کیا دنیا میں کبھی کوئی سلطنت ایسی بھی رہی ہے جس کا قانون چور کو گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو؟ ( ۲ ) اللہ تعالی نے شاہی قانون کے لیے دین الملک کا لفظ استعمال کر کے خود اس مطلب کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جو ما کان لیاخذ سے لیا جانا چاہیے ، ظاہر ہے کہ اللہ کا پیغمبر زمین میں دین اللہ جاری کرنے کے لیے مبعوث ہوا تھا نہ کہ دین الملک جاری کرنے کے لیے ، اگر حالات کی مجبوری سے اس کی حکومت میں اس وقت تک پوری طرح دین الملک کی جگہ دین اللہ جاری نہ ہوسکا تھا تب بھی کم از کم پیغمبر کا اپنا کام تو یہ نہ تھا کہ اپنے ایک شخصی معاملہ میں دین الملک پر عمل کرے ۔ لہذا حضرت یوسف کا دین الملک کے مطابق اپنے بھائی کو نہ پکڑنا اس بنا پر نہیں تھا کہ دین الملک میں ایسا کرنے کی گنجائش نہ تھی بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اپنی ذاتی حد تک دین اللہ پر عمل کرنا ان کا فرض تھا اور دین الملک کی پیروی ان کے لیے قطعا نامناسب تھی ۔ ( ۳ ) قانون ملکی ( ) کے لیے لفظ دین استعمال کر کے اللہ تعالی نے معنی دین کی وسعت پوری طرح واضح کردی ہے ، اس سے ان لوگوں کے تصور دین کی جڑ کٹ جاتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو صرف عام مذہبی معنوں میں خدائے واحد کی پوجا کرانے اور محض چند مذہبی مراسم و عقائد کی پابندی کرا لینے تک محدود سمجھتے ہیں ، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تمدن ، سیاست ، معیشت ، عدالت ، قانو اور ایسے ہی دوسرے دنیوی امور کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے ، یا اگر ہے بھی تو ان امور کے بارے میں دین کی ہدایات محض اختیاری سفارشات ہیں جن پر اگر عمل ہوجائے تو اچھا ہے ورنہ انسانوں کو اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط قبول کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ، یہ سراسر گمراہانہ تصور دین ، جس کا ایک مدت سے مسلمانوں میں چرچا ہے جو بہت بڑی حد تک مسلمانوں کو اسلامی نظام زندگی کے قیام کی سعی سے غافل کرنے کا ذمہ دار ہے جس کی بدولت مسلمان کفر و جاہلیت کے نظام زندگی پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ ایک نبی کی سنت سمجھ کر اس نظام کے پرزے بننے اور اس کو خود چلانے کے لیے بھی آمادہ ہوگئے ، اس آیت کی رو سے قطعا غلط ثابت ہوتا ہے ، یہاں اللہ تعالی صاف بتا رہا ہے کہ جس طرح نماز ، روزہ اور حج دین ہے اسی طرح وہ قانون بھی دین ہے جس پر سوسائٹی کا نظام اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے ۔ لہذا ان الدین عند اللہ الاسلام اور ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ ، وغیرہ آیات میں جس دین کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اس سے مراد صرف نماز ، روزہ ہی نہیں بلکہ اسلام کا اجتماعی نظام بھی ہے جس سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی پیروی خدا کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہوسکتی ۔ ( ٤ ) سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک مصر کی حکومت میں دین الملک ہی جاری تھا ، اب اگر اس حکومت کے حاکم اعلی حضرت یوسف ہی تھے ، جیسا کہ تم خود پہلے ثابت کرچکے ہو ، تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت یوسف خدا کے پیغمبر ، خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں دین الملک جاری کر رہے تھے ، اس کے بعد اگر اپنے ذاتی معاملہ میں حضرت یوسف نے دین الملک کے بجائے شریعت ابراہیمی پر عمل کیا بھی تو اس سے فرق کیا واقع ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف مور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پیغمبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا ، مگر ایک ملک کا نظام عملا ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا ، آج اگر کوئی بالکیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں ، تب بھی اس کے نظام تمدن ، نظام معاشی ، نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے ، کیا تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے ؟ اس دوران میں خاتم النبیین کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی ، سود لیا اور دیا جاتا رہا ، جاہلیت کا قانون میراث جاری رہا ، پرانے قوانین نکاح و طلاق برقرار رہے ، بیوع فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں ، اور اسلامی قوانین دیوانی فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہوگئے ، پس اگر حضرت یوسف کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے کچھ قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پیغمبر مصر میں خدا کے دین کو نہیں بلکہ بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا ۔ رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسف کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایان شان نہ تھا ، تو یہ سوال بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر غور کرنے سے بآسانی حل ہوجاتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے ، لوگ پرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے ، مگر کیا حضور نے بھی پی؟ لوگ سود لیتے دیتے تھے ، مگر کیا آپ نے بھی سودی لین دین کیا ؟ لوگ متعہ کرتے رہے اور جمع بین الاختین کرتے رہے ، مگر کیا حضور نے بھی ایسا کیا ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلامی کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز ، تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں ، داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

49: پہلے دوسرے بھائیوں کی تلاشی اس لئے شروع فرمائی تاکہ تلاشی غیر جانب دار سمجھی جائے۔ 50: یہ سارے بھائی خوشی خوشی یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم نے اپنا مقصد پالیا، لیکن اُن کو یہ علم نہیں تھا کہ چلتے چلتے کیا ہونے والا ہے؟ کوئی شخص کتنے ہی بڑے علم کا دعویٰ کرتا ہو، اﷲ تعالیٰ کا علم اُس پر یقینا فائق ہے۔