75۔ 1 یعنی چور کو کچھ عرصے کے لئے اس شخص کے سپرد کردیا جاتا ہے جس کی اس نے چوری کی ہوتی تھی۔ یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی شریعت میں سزا تھی، جس کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ سزا تجویز کی۔ 75۔ 2 یہ قول بھی برادران یوسف (علیہ السلام) ہی کا ہے، بعض کے نزدیک یہ یوسف (علیہ السلام) کے مصاحبین کا قول ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم بھی ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ لیکن آیت کا اگلا ٹکڑا کہ بادشاہ کے دین میں وہ اپنے بھائی کو پکڑ نہ سکتے تھے اس قول کی نفی کرتا ہے۔
[٧٠] کنعان میں چوری کی سزا :۔ برادران یوسف کہنے لگے ہم شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ہم چور یا فسادی قسم کے لوگ نہیں۔ کنعان سے یہاں غلہ لینے آئے تھے اور اب غلہ لے کر واپس جارہے ہیں تعاقب کرنے والوں نے کہا : یہ ٹھیک ہے مگر تم اپنا سامان ہمیں دکھا دو ، اور یہ بھی بتادو کہ اگر بالفرض تم میں سے کسی کے سامان سے مسروقہ مال برآمد ہوجائے تو پھر اس کی کیا سزا ہے ؟ - پیالہ کی برآمدگی :۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے ملک میں چور کو یہ سزا دی جاتی ہے کہ جس شخص کے سامان میں سے یا گھر سے مسروقہ مال برآمد ہوجائے تو جس کا مال چوری ہوا ہو، چور کو سال بھر کے لیے اسی کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ ضامن بولا ٹھیک ہے، ہمیں تمہاری یہ بات بھی قبول ہے یہ کہہ کر ضامن نے ان کے سامان کی تلاشی لینا شروع کردی۔ چند بھائیوں کا سامان دیکھنے کے بعد جب بن یمین کے سامان کی تلاش لی گئی تو اس سے گم شدہ پیالہ برآمد ہوگیا۔ چناچہ اس ضامن نے مسروقہ پیالہ بھی اپنے قبضہ میں کرلیا اور بن یمین کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔
مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کے ہاں چور کی سزا یہ تھی کہ وہ مسروقہ چیز کے مالک کا ہمیشہ یا کچھ مدت کے لیے غلام یا قیدی بن جاتا۔ آیت میں مدت کی وضاحت نہیں ہے۔
(آیت) قَالُوْا جَزَاۗؤ ُ هٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤ ُ هٗ ۭكَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ یعنی برادران یوسف نے کہا کہ جس شخص کے سامان میں مال مسروقہ برآمد ہو وہ شخص خود ہی اس کی جزا ہے ہم چوروں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ شریعت یعقوب (علیہ السلام) میں چور کی سزا یہ ہے کہ جس شخص کا مال چرایا ہے وہ شخص اس چور کو اپنا غلام بنا کر رکھے، سرکاری ملازمین نے اس طرح خود برادران یوسف سے چور کی سزا شریعت یعقوبی کے مطابق معلوم کر کے ان کو اس کا پابند کردیا کہ بنیامین کے سامان میں مال مسروقہ برآمد ہو تو وہ اپنے ہی فیصلہ کے مطابق بنیامین کو یوسف (علیہ السلام) کے سپرد کرنے پر مجبور ہوجائیں
قَالُوْا جَزَاۗؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ 75- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں - اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوۃ باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- رحل - الرَّحْلُ ما يوضع علی البعیر للرّكوب، ثم يعبّر به تارة عن البعیر، وتارة عمّا يجلس عليه في المنزل، وجمعه رِحَالٌ. وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف 62] ، والرِّحْلَةُ : الِارْتِحَالُ. قال تعالی: رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش 2] ،- ( ر ح ل )- الرحل ہر وہ چیز جسے اونٹ پر اس لئے باندھا جائے کہ اس پر سوار ہوا جائے پھر یہ لفظ مجازا خود اونٹ پر بولا جانے لگا ہے اور کبھی رحل کا لفظ اس چیز پر بھی بولا جاتا ہے جس پر گھر میں بیٹھا جاتا ہے ۔ اس کی جمع رجال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ؛َ وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف 62] تو اس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ان کا سرمایہ ان کے کچادوں میں رکھ دو ۔ الرحلۃ ( مصدر ) اس کے اصل معنی سفر یا کوچ کرنے میں قرآن میں ہے : رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش 2] جاڑے اور گرمی کے سفروں کو ( اکٹھا رکھنے والے )- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
قول باری ہے (قالو جزاء ہ من وجد فی رحلہ فھو جزاء ہ۔ انہوں نے کہا ” اس کی سزا ؟ جس کے سامان سے یہ چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے “ ) حسن، ابو اسحاق، معمر اور سدی کا قول ہے کہ اس کے ہاں یہ دستور تھا کہ وہ چور کو غلام بنا لیا کرتے تھے۔ اس طرح ترتیب عبارت یہ ہوگی۔ اس کی سزا یہ ہے کہ جس شخص کے سامان سے وہ چیز برآمد ہوجائے گی اسے غلام بنا کر رکھ لیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک ایسے شخص کی یہی سزا ہے جس طرح تمہارے نزدیک اس کی یہی سزا ہے “ جب وہ پیمانہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کے سامان سے برآمد ہوگیا تو انہوں نے شرط کے مطابق اپنے بھائی کو چوری کی سزا میں پکڑ لیا، اس پر برادران یوسف نے کہا، ” اس کی بجائے ہم میں سے کسی کو غلام بنا کر رکھ لو۔ “ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس زمانے میں کسی آزاد انسان کو چوری کی سزا کے طور پر غلام بنا لینا جائز تھا۔ نیز یہ بھی جائز تھا کہ ایک انسان کسی اور کی خاطر اپنے آپ کو غلامی میں دے دے۔ اس لئے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کو یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کی جگہ غلام بنال یا جائے۔ ایک غلام کے متعلق جس نے چوری کی تھی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس قرض کے بدلے فروخت کردیا تھا جو اس پر اس وقت عائد ہوا تھا جب وہ آزاد تھا، ہوسکتا ہے کہ یہ حکم اس وقت تک ثابت تھا اور پھر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اس کے نسخ کا اعلان ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے تذکرے میں بیان فرمایا کہ آپ نے قحط کے سالوں میں مصر کے اندر اشیائے خوردنی کا ذخیرہ کر کے ان کی حفاظت کی اور پھر اپنی نگرانی میں ضرورت کے مطابق لوگوں میں انہیں تقسیم کراتے رہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے ائمہ اور خلفاء پر یہ لازم ہے کہ جب قحط سالی کی وجہ سے لوگوں کی ہلاکت کا خطرہ ہو تو وہ یہی طریق کار اختیار کریں۔
آیت ٧٥ (قَالُوْا جَزَاۗؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ )- انہوں نے کہا کہ ہاں اگر ایسا ہوا تو پھر جس کے سامان میں سے آپ کا جام نکل آئے سزا کے طور پر آپ لوگ اسے اپنے پاس رکھ لیں وہ آپ کا غلام بن جائے گا۔ ہمارے ہاں تو (شریعت ابراہیمی کی رو سے) چوری کے جرم کی یہی سزا رائج ہے۔
۵۸ ۔ خیال رہے کہ یہ بھائی خاندان ابراہیمی کے افراد تھے لہذا انہوں نے چوری کے معاملہ میں جو قانون بیان کیا وہ شریعت ابراہیمی کا قانون تھا یعنی یہ کہ چور اس شخص کی غلامی میں دے دیا جائے جس کا مال اس نے چرایا ہے ۔
48: یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں یہی حکم ہے کہ جو چوری کرے، اُسے گرفتار کرکے رکھ لیا جائے۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے خود ان بھائیوں سے یہ بات کہلوادی کہ چور کو یہ سزا ملنی چاہئے، چنانچہ جو سزا دی گئی، وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے مطابق دی گئی، ورنہ بادشاہ کے قانون میں چور کی پٹائی کی جاتی تھی، اور جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے یہ سوال اس لئے فرمایا کہ انہیں حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے خلاف فیصلہ نہ کرنا پڑے، اور بھائی کو اپنے پاس رکھنے کا موقع بھی مل جائے۔