جب بنیامین کے پاس سے شاہی مال برآمد ہوا اور ان کے اپنے اقرار کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے تو اب انہیں رنج ہونے لگا ۔ عزیز مصر کو پرچانے لگے اور اسے رحم دلانے کے لئے کہا کہ ان کے والد ان کے بڑے ہی دلدادہ ہیں ۔ ضعیف اور بوڑھے شخض ہیں ۔ ان کا ایک سگا بھائی پہلے ہی گم ہو چکا ہے ۔ جس کے صدمے سے وہ پہلے ہی سے چور ہیں اب جو یہ سنیں گے تو ڈر ہے کہ زندہ نہ بچ سکیں ۔ آپ ہم میں سے کسی کو ان کے قائم مقام اپنے پاس رکھ لیں اور اسے چھوڑ دیں آپ بڑے محسن ہیں ، اتنی عرض ہماری قبول فرما لیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھلا یہ سنگدلی اور ظلم کیسے ہو سکتا ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی ۔ چور کو روکا جائے گا نہ کہ شاہ کو ناکردہ گناہ کو سزا دینا اور گنہگار کو چھور دینا یہ تو صریح ناانصافی اور بدسلوکی ہے ۔
78۔ 1 حضرت یوسف کو عزیز مصر اس لئے کہا کہ اس وقت اصل اختیارات حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہی پاس تھے، بادشاہ صرف برائے نام فرمانروائے مصر تھا۔ 78۔ 2 باپ تو یقینا بوڑھے ہی تھے، لیکن یہاں ان کا اصل مقصد بنیامین کو چھڑانا تھا۔ ان کے ذہن میں وہی یوسف (علیہ السلام) والی بات تھی کہ کہیں ہمیں پھر دوبارہ بنیامین کے بغیر باپ کے پاس جانا پڑے اور باپ ہم سے کہیں کہ تم نے میرے بنیامین کو بھی یوسف (علیہ السلام) کی طرح کہیں گم کردیا۔ اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے احسانات کے حوالے سے یہ بات کی کہ شاید وہ یہ احسان بھی کردیں کہ بنیامین کو چھوڑ دیں اور اس کی جگہ کسی اور بھائی کو رکھ لیں۔
قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا ۔۔ : اس کا باپ بہت بوڑھا ہے، وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکے گا، پہلے بھی آپ نے ہم پر بہت سے احسان کیے ہیں، بس اب اتنا احسان اور کردیں کہ ہم میں سے کسی ایک کو اس کے بجائے رکھ لیں، امید ہے کہ آپ ہمیں اپنے کرم سے مایوس نہیں کریں گے۔
(آیت) قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ برداران یوسف نے جب دیکھا کہ کوئی بات چلتی نہیں اور بنیامین کو یہاں چھوڑنے کے سوا چارہ نہیں تو عزیز مصر کی خوشامد شروع کی اور یہ درخواست کی کہ اس کے والد بہت بوڑھے ہیں اور ضعیف ہیں (اس کی مفارقت ان سے برداشت نہ ہوگی) اس لئے آپ اس کے بدلے میں ہم میں سے کسی کو گرفتار کرلیں یہ درخواست آپ سے ہم اس امید پر کر رہے ہیں کہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ بہت احساس کرنے والے ہیں یا یہ کہ آپ نے اس سے پہلے بھی ہمارے ساتھ احسان کا سلوک فرمایا ہے
قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ 78- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - شيخ - يقال لمن طعن في السّنّ : الشَّيْخُ ، وقد يعبّر به فيما بيننا عمّن يكثر علمه، لما کان من شأن الشَّيْخِ أن يكثر تجاربه ومعارفه، ويقال : شَيْخٌ بيّن الشَّيْخُوخَةُ ، والشَّيْخُ ، والتَّشْيِيخُ. قال اللہ تعالی: هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] ، وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص 23] .- ( ش ی خ ) الشیخ - کے معنی معمر آدمی کے ہیں عمر رسید ہ آدمی کے چونکہ تجربات اور معارف زیادہ ہوتے ہیں اس مناسب سے کثیر العلم شخص کو بھی شیخ کہہ دیا جاتا ہے ۔ محاورہ شیخ بین الشیوخۃ والشیخ ولتیشخ یعنی وہ بہت بڑا عالم ہے قرآن میں ہے : ۔ هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] یہ میرے میاں ( بھی بوڑھے ہیں وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص 23] . ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] - ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔
(٧٨) جب بھائیوں نے دیکھا کہ انہوں نے بنیامین کو روک لیا ہے تو خوشامد کرنے لگے کہ ان کا بوڑھا باپ ہے اگر بنیامین کو ہم لے جائیں گے تو وہ خوش ہوگا سو اس کی جگہ آپ ہم میں سے ایک کو بطور ضمانت رکھ لیجئے اگر آپ ایسا کرلیں تو ہم پر آپ کا بڑا احسان ہوگا۔
(اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ )- یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے بہت پریشان کن تھی۔ باپ کا اعتماد وہ پہلے ہی کھو چکے تھے۔ اس دفعہ اللہ کے نام پر عہد کر کے بن یامین کو اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب خیال آتا تھا کہ اگر اسے یہاں چھوڑ کر واپس جاتے ہیں تو والد کو جا کر کیا منہ دکھائیں گے۔ چناچہ وہ گڑ گڑانے پر آگئے اور حضرت یوسف کی منت سماجت کرنے لگے کہ آپ بہت شریف اور نیک انسان ہیں ‘ آپ ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ اپنے پاس رکھ لیں مگر اس کو جانے دیں۔
٦۲ ۔ یہاں لفظ عزیز حضرت یوسف کے لیے جو استعمال ہوا ہے صرف اس کی بنا پر مفسرین نے قیاس کرلیا کہ حضرت یوسف اسی منصب پر مامور ہوئے تھے جس پر اس سے پہلے زلیخا کا شوہر مامور تھا پھر اس پر مزید قیاسات کی عمارت کھڑی کرلی گئی کہ سابق عزیز مرگیا تھا ، حضرت یوسف اس کی جگہ مقرر کیے گئے ، زلیخا ازسر نو معجزے کے ذریعہ سے جوان کی گئی ، اور شاہ مصر نے اس سے حضرت یوسف کا نکاح کردیا ۔ حد یہ ہے کہ شب عروسی میں حضرت یوسف اور زلیخا کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ تک کسی ذریعہ سے ہمارے مفسرین کو پہنچ گئیں ۔ حالانکہ یہ سب باتیں سراسر وہم ہیں ، لفظ عزیز کے متعلق ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ مصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض صاحب اقتدار کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ غالبا مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحا رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں لفظ سرکار بولا جاتا ہے ، اسی کا ترجمہ قرآن میں عزیز کیا گیا ہے ۔ رہا زلیخا سے حضرت یوسف کا نکاح ، تو اس افسانے کی بنیاد صڑف یہ ہے کہ بائیبل اور تلمود میں فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے ان کے نکاح کی روایت بیان کی گئی ہے ۔ اور زلیخا کے شوہر کا نام فوطیفار تھا ، یہ چیزیں اسرائیلی روایات سے نقل در نقل ہوتی ہوئی مفسرین تک پہنچیں اور جیسا کہ زبانی افواہوں کا قاعدہ ہے ، فوطیفرع بآسانی فوطیفار بن گیا ، بیٹی کی جگہ بیوی کو مل گئی اور بیوی لا محالہ زلیخا ہی تھی ، لہذا اس سے حضرت یوسف کا نکاح کرنے کے لیے فوطیفار کو مار دیا گیا ، اور اس طرح یوسف زلیخا کی تصنیف مکمل ہوگئی ۔