Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 یہ جواب اس لئے دیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اصل مقصد تو بنیامین کو روکنا تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] جب یہ واقعہ پیش آگیا تو برادران یوسف کو فوراً خیال آیا کہ اب ہم اپنے باپ کو کیا منہ دکھاسکتے ہیں جس سے اتنا پختہ عہد کیا تھا کہ ہم بن یمین کو ضرور ساتھ لائیں گے الا یہ کہ ہم پر ہی کوئی آفت نہ پڑجائے۔ اب اگر یہ اس کے دس بھائی باپ کے پاس جاتے اور صرف بن یمین ساتھ نہ ہوتا تو اس سے زیادہ ان کے جھوٹ اور مکر و فریب کا اور کیا ثبوت ہوسکتا تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ سیدنا یوسف والے واقعہ کی وجہ سے باپ پہلے ہی ان کی طرف سے بدظن تھا۔ اب لگے سیدنا یوسف کے سامنے منت و سماجت کرنے کہ آپ نے ہم پر پہلے بھی بہت احسان کئے ہیں ایک یہ بھی کردیجئے کہ اس بن یمین کے بجائے ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاں غلام رکھ لیجئے کیونکہ اس کا باپ بہت بوڑھا بزرگ ہے اس کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کرسکے گا۔ اس کے جواب میں سیدنا یوسف کہنے لگے کہ ایسا ظلم ہم کیسے کرسکتے ہیں ہم تو اسی کو اپنے پاس رکھیں گے جس کے سامان سے ہمارا گم شدہ مال برآمد ہوا ہے۔ اس مقام پر بھی سیدنا یوسف نے بن یمین کو چور نہیں کہا نہ ان پر چوری کا الزام لگایا۔ کیونکہ فی الحقیقت انہوں نے چوری نہیں کی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کو پاس رکھنا بھی چاہتے تھے اور چور بھی نہیں کہنا چاہتے تھے، ان کی کمال ذہانت اور کمال صدق دیکھیے کہ دونوں معنوں پر مشتمل الفاظ میں بھائی کو ساتھ بھیجنے سے انکار کردیا۔ فرمایا کہ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ اس شخص کے سوا کسی اور کو پکڑیں جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے، اس صورت میں تو یقیناً ہم ظالم ہوں گے اور ہم ظلم نہیں کرسکتے ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗٓ ۙ اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کی درخواست کا جواب ضابطہ کے مطابق یہ دیا کہ یہ بات تو ہمارے اختیار میں نہیں کہ جس کو چاہیں پکڑ لیں بلکہ جس کے پاس مال مسروقہ برآمد ہوا اگر اس کے سوا کسی دوسرے کو پکڑ لیں تو ہم تمہارے ہی فتوے اور فیصلے کے مطابق ظالم ہوجائیں گے کیونکہ تم نے ہی یہ کہا ہے کہ جس کے پاس مال مسروقہ برآمد ہو وہ ہی اس کی اجزاء ہے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗٓ ۙ اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ 79؀ۧ- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال :- عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ( ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٩) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا نعوذ باللہ ہم گناہ گار کے بجائے بےگناہ کو روک لیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

٦۳ ۔ احتیاط ملاحظہ ہو کہ چور نہیں کہتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ جس کے پاس ہم نے اپنا مال مایا ہے اسی کو اصطلاح شرع میں توریہ کہتے ہیں ، یعنی حقیقت پر پردہ ڈالنا ، یا امر واقعہ کو چھپانا ، جب کسی مظلوم کو ظالم سے بچانے یا کسی بڑے مظملہ کو دفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ کچھ خلاف واقعہ بات کہی جائے یا کوئی خلاف حقیقت حیلہ کیا جائے ، تو ایسی صورت میں ایک پرہیزگار آدمی صریح جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہوئے ایسی بات کہنے یا ایسی تدبیر کرنے کی کوشش کرے گا ، جس سے حقیقت کو چھپا کر بدی کو دفع کیا جاسکے ۔ ایسا کرنا شرع و اخلاق میں جائز ہے بشرطیکہ محض کام نکالنے کے لیے ایسا نہ کیا جائے بلکہ کسی بڑی برائی کو دور کرنا ہو ، اب دیکھیے کہ اس سارے معاملہ میں حضرت یوسف نے کس طرح جائز توریہ کی شرائط پوری کی ہیں ۔ بھائی کی رضا مندی سے اس کے سامان میں پیالہ رکھ دیا مگر ملازموں سے یہ نہیں کہ کہ اس پر چوری کا الزام لگاؤ ، پھر جب سرکاری ملازم چوری کے الزام میں ان لوگوں کو پکڑ لاءےتو خاموشی کے ساتھ اٹھ کر تلاشی لے لی ، پھر اب جو ان بھائیوں نے کہا کہ بن یمین کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے ، تو اس کے جواب میں بھی بس انہی کی بات ان پر الٹ دی کہ تمہارا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ جس کے سامان میں سے تمہارا مال نکلے وہی رکھ لیا جائے ، سو اب تمہارے سامنے بن یمین کے سامان میں سے ہمارا مال نکلا ہے اور اسی کو ہم رکھ لیتے ہیں ، دوسرے کو اس کی جگہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اس قسم کے توریہ کی مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں بھی ملتی ہیں اور کسی دلیل سے بھی اس کو اخلاقا معیوب نہیں کہا جاسکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani