Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جب برادران یوسف اپنے بھائی کے چھٹکار سے مایوس ہو گئے ، انہیں اس بات نے شش وپنچ میں ڈال دیا کہ ہم والد سے سخت عہد پیمان کر کے آئے ہیں کہ بنیامین کو آپ کے حضور میں پہنچا دیں گے ۔ اب یہاں سے یہ کسی طرح چھوٹ نہیں سکتے ۔ الزام ثابت ہو چکا ہماری اپنی قراد داد کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے اب بتاؤ کیا کیا جائے اس آپس کے مشورے میں بڑے بھائی نے اپنا خیال ان لفظوں میں ظاہر کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس زبردست ٹہوس وعدے کے بعد جو ہم ابا جان سے کر کے آئے ہیں ، اب انہیں منہ دکھانے کے قابل تو نہیں رہے نہ یہ ہمارے بس کی بات ہے کہ کسی طرح بنیامین کو شاہی قید سے آزاد کرلیں پھر اس وقت ہمیں اپنا پہلا قصور اور نادم کر رہا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ہم سے اس سے پہلے سرزد ہو چکا ہے پس اب میں تو یہیں رک جاتا ہوں ۔ یہاں تک کہ یا تو والد صاحب میرا قصور معاف فرما کر مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی فیصلہ بجھا دے کہ میں یا تو لڑ بھڑ کر اپنے بھائی کو لے کر جاؤں یا اللہ تعالیٰ کوئی اور صورت بنا دے ۔ کہا گیا ہے کہ ان کا نام روبیل تھا یا یہودا تھا یہی تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب اور بھائیوں نے قتل کرنا جاہا تھا انہوں نے روکا تھا ۔ اب یہ اپنے اور بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ تم ابا جی کے پاس جاؤ ۔ انہیں حقیقت حال سے مطلع کرو ۔ ان سے کہو کہ ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ چوری کرلیں گے اور چوری کا مال ان کے پاس موجود ہے ہم سے تو مسئلے کی صورت پوچھی گئی ہم نے بیان کر دی ۔ آپ کو ہماری بات کا یقین نہ ہو تو اہل مصر سے دریافت فرما لیجئے جس قافلے کے ساتھ ہم آئے ہیں اس سے پوچھ لیجئے ۔ کہ ہم نے صداقت ، امانت ، حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ اور ہم جو کچھ عرض کر رہے ہیں ، وہ بالکل راستی پر مبنی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 کیونکہ بنیامین کو چھوڑ کر جانا ان کے لئے کٹھن مرحلا تھا، وہ باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ اس لئے باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے ؟ 80۔ 2 اس کے بڑے بھائی اس صورت حال میں باپ کا سامنے کرنے کی اپنے اندر سکت اور ہمت نہیں پائی، تو صاف کہہ دیا کہ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک خود والد صاحب تفتیش کر کے میری بےگناہی کا یقین نہ کرلیں اور مجھے آنے کی اجازت نہ دیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٧] بڑے بھائی کا واپس جانے سے انکار :۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے ایسا احسان کرنے سے صاف جواب دے دیا تو سب بھائی تنہائی میں جاکر موجودہ پریشان کن صورت حال پر غور کرنے لگے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر انہوں نے پہلے یوسف کے معاملہ میں زیادتی نہ کی ہوتی تو اب صورت حال اس قدر سنگین نہ ہوتی۔ ان حالات میں بڑے بھائی نے سابقہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو اپنے باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا۔ البتہ تم لوگ جاکر باپ کو اس صورت حال سے مطلع کردو۔ میں یہیں رہوں گا اور پھر کوشش کروں گا کہ بن یمین کو ان لوگوں سے لاسکوں یا پھر مجھے موت آجائے، یا اگر میرا باپ مجھے اپنے پاس آنے کا حکم دے۔ تب ہی میں اپنے باپ کو منہ دکھا سکتا ہوں۔ اب جو بات اللہ کو منظور ہوگی وہی میرے لیے قابل قبول ہوگی اور وہی میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرے گا۔ بہرحال میں تمہارے ساتھ گھر جانے کو تیار نہیں اور اس پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا اسْتَيْـــَٔـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا : ” اسْتَيْـــَٔـسُوْا “ یہاں ” یَءِسُوْا “ (ناامید ہوگئے) کے معنی ہی میں ہے۔ باب استفعال مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بالکل ناامید ہوگئے، جیسا کہ ” عَجِبَ “ اور ” اِسْتَعْجَبَ “ ، ” سَخِرَ “ اور ” اِسْتَسْخَرَ “ میں سین اور تاء محض مبالغہ کے لیے ہیں، معنی ایک ہی ہے۔ اس سے پہلے (آیت ٣٢) ” اِسْتَعْصَمَ “ میں بھی یہی نکتہ ہے۔ ” خلصوا نجیا “ یعنی کوئی اور ان میں موجود نہ تھا، اکیلے ہو کر مشورہ کرنے لگے۔ ” نجیا “ ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے، مشورہ، سرگوشی کرنے والے وغیرہ، یہ وزن واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے اسی طرح آتا ہے، اس لیے ” نجیا “ کے ساتھ واحد ہی آیا ہے۔ - قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ ۔۔ : ان کے بڑے نے کہا (مراد عمر میں بڑا ہے یا جو علم و فہم میں ان کا بڑا اور امیر تھا) کیا تمہیں معلوم نہیں کہ والد نے تم سے قسموں کے ساتھ پختہ عہد لیا تھا کہ بھائی کو اپنے ساتھ ضرور واپس لانا اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں جو کوتاہی تم نے کی، اب میں والد کے سامنے کیسے جاؤں گا، اپنے متعلق تو میں نے طے کرلیا ہے کہ میں اس سرزمین سے ہرگز جدا نہیں ہوں گا جب تک میرے والد مجھے واپسی کی اجازت نہ دیں، یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرے کہ بھائی کی رہائی کی کوئی صورت نکل آئے یا میری موت آجائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَلَمَّا اسْتَيْـــَٔـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا یعنی جب برادران یوسف بنیامین کی رہائی سے مایوس ہوگئے تو باہم مشورہ کے لئے کسی علیحٰدہ جگہ میں جمع ہوگئے،- قَالَ كَبِيْرُهُمْ الخ ان کے بڑے بھائی نے کہا کہ تمہیں یہ معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے بنیامین کے واپس لانے کا پختہ عہد لیا تھا اور یہ کہ تم اس سے پہلے بھی یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ایک کوتاہی اور غلطی کرچکے ہو اس لئے میں تو اب مصر کی زمین کو اس وقت تک نہ چھوڑونگا جب تک میرے والد خود ہی مجھے یہاں سے واپس آنے کا حکم نہ دیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی مجھے یہاں سے نکلنے کا حکم ہو اور اللہ تعالیٰ ہی بہترین حکم کرنے والے ہیں، یہ بڑے بھائی جن کا کلام بیان ہوا ہے بعض نے فرمایا کہ یہودا ہیں اور یہ اگرچہ عمر میں سب سے بڑے نہیں مگر علم و فضل میں بڑے تھے اور بعض مفسرین نے کہا کہ روبیل ہیں جو عمر میں سب سے بڑے ہیں اور یوسف (علیہ السلام) کے قتل نہ کرنے کا مشورہ انہوں نے دیا تھا اور بعض نے کہا کہ یہ بڑے بھائی شمعون ہیں جو جاہ ورتبہ کے اعتبار سے سب بھائیوں میں بڑے سمجھے جاتے تھے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا اسْتَيْـــَٔـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا ۭ قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِيْ يُوْسُفَ ۚ فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَاْذَنَ لِيْٓ اَبِيْٓ اَوْ يَحْكُمَ اللّٰهُ لِيْ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ - يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ،- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔- خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- نجو - والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا - [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80]- ( ن ج و )- النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔- وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- فرط - فَرَطَ : إذا تقدّم تقدّما بالقصد يَفْرُطُ ، ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] . - ( ف ر ط ) فرط - یفرط ( ن ) کے معنی قصدا آگے بڑھ جانے کے ہیں ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔ افرطت القریۃ مشکیزہ کو پانی سے خوب بھر دیا ۔ - بَرِحَ- وما بَرِحَ : ثبت في البراح، ومنه قوله عزّ وجلّ : لا أَبْرَحُ [ الكهف 60] ، وخصّ بالإثبات، کقولهم : لا أزال، لأنّ برح وزال اقتضیا معنی النفي، و «لا» للنفي، والنفیان يحصل من اجتماعهما إثبات، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه 91] - ( ب ر ح) البرح - ابرح ہے یہ لا ازال کی طرح معنی مثبت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کیونکہ برح اور زال میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، لا ، ، بھی نفی کے لئے ہوتا ہے اور نفی پر نفی آنے سے اثبات حاصل ہوجاتا ہے ایس بناء پر فرمایا : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه 91]- أَذِنَ :- والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء 64] أي : بإرادته وأمره، - ( اذ ن) الاذن - الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعی ارادہ اور حکم ہے - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٠) چناچہ ان کو حضرت یوسف (علیہ السلام) سے امید ہی نہ رہی تو اس جگہ سے ہٹ کر سب باہم مشورہ کرنے لگے چناچہ جو ان سب میں سب سے زیادہ عقل مند تھا اور جس کا نام یہودا تھا کہنے لگا بھائیو تم جانتے نہیں کہ تمہارے والد نے بنیامین کے واپس لانے کے بارے میں تم سے پختہ عہد لیا تھا اور بنیامین سے قبل یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں تم اپنے باپ کے عہد و میثاق کی کس قدر کوتاہی کرچکے ہو سو میں تو سرزمین مصر سے ٹلتا نہیں یہاں تک کہ میرا باپ مجھ کو حاضری کی اجازت نہ دے یا جب تک میرا باپ ان سے مجھے قتال کی اجازت نہ دے یا اللہ تعالیٰ میرے بھائی کی واپسی کا سبب نہ پیدا کر دے اور اللہ اس مشکل کو خوب آسان کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ )- ان کے سب سے بڑے بھائی کا نام یہودا تھا یہ وہی تھے جنہوں نے مشورہ دے کر حضرت یوسف کی جان بچائی تھی کہ اگر تم اس کی جان کے درپے ہوگئے ہو تو اسے قتل مت کرو بلکہ کسی دور دراز علاقے میں پھینک آؤ۔ - (فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَاْذَنَ لِيْٓ اَبِيْٓ)- تم لوگ جا کر والد صاحب کو سارا واقعہ بتاؤ پھر اگر وہ مطمئن ہو کر مجھے اجازت دے دیں تو تب میں واپس جاؤں گا ورنہ میں ادھر ہی رہوں گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani