Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 یعنی ہم نے جو عہد کیا تھا کہ ہم بنیامین کو باحفاظت واپس لے آئیں گے، تو یہ ہم نے اپنے علم کے مطابق عہد کیا تھا، بعد میں جو واقعہ پیش آگیا اور جس کی وجہ سے بنیامین کو ہمیں چھوڑنا پڑا، یہ تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے ہم نے چوری کی جو سزا بیان کی تھی چور کو ہی چوری کے بدلے میں رکھ لیا جائے، تو یہ سزا ہم نے اپنے علم کے مطابق ہی تجویز کی تھی۔ اس میں کسی قسم کی بدنیتی شامل نہیں تھی۔ لیکن یہ اتفاق کی بات تھی کہ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو مسروقہ کٹورا بنیامین کے سامان سے نکل آیا۔ 81۔ 2 یعنی مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے ہم بیخبر تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٨] یعنی ہم نے بچشم خود دیکھا تھا کہ گمشدہ پیالہ اس کے سامان سے نکلا تھا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی ہے اور جب ہم نے آپ سے اس کی حفاظت کرنے کا عہد و پیمان کیا تھا اس وقت ہمیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ وہ مصر جاکر چوری کرے گا، اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہم سے پوچھا کہ تمہارے ہاں چور کی کیا سزا ہے، تو ہم نے وہی بات بتائی جو ہم جانتے تھے یعنی چور اس شخص کی غلامی میں ایک سال رہے جس کی اس نے چوری کی ہے۔ مگر ہمیں یہ کیا خبر تھی کہ ہمارا یہ بیان ہم پر ہی لاگو ہونے والا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْكُمْ ۔۔ : البتہ تم واپس جا کر والد کو بتاؤ کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے، اگر تم بھی واپس نہ گئے تو والد اور زیادہ پریشان ہوں گے کہ شاید تمام بیٹے ہی گرفتار ہوگئے، یا ان کا کیا بنا، اس لیے واپس جا کر انھیں حقیقت حال سے آگاہ کرو۔ - وَمَا شَهِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا : اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم نے بھائی کے چور ہونے کی شہادت اپنے علم ہی کے مطابق دی ہے، کیونکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کے سامان سے پیمانہ نکلتا ہوا دیکھا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے عزیز مصر کو جو مسئلہ بتایا کہ چور کی یہ سزا ہے تو وہ ہم نے اپنے علم ہی کے مطابق بتایا کہ ہمارے باپ دادا کی شریعت کے مطابق اس کا یہ حکم ہے۔ - وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْنَ : یعنی جب ہم نے آپ کو قسم کھا کر عہد دیا تھا، ہمیں غیب کا علم تو نہیں تھا کہ بھائی مصر میں جا کر چوری کرے گا، ورنہ ہم اسے اپنے ساتھ کیوں لے جاتے، یا آپ کو یہ پختہ عہد کیوں دیتے کہ اسے اپنے ساتھ ضرور واپس لائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْكُمْ یعنی بڑے بھائی نے کہا کہ میں تو یہیں رہوں گا آپ سب لوگ اپنے والد کے پاس واپس جائیں اور ان کو بتلائیں کہ آپ کے صاحبزادہ نے چوری کی اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اپنے چشم دید حالات ہیں کہ مال مسروقہ ان کے سامان میں سے ہمارے سامنے برآمد ہوا،- وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْن یعنی ہم نے جو آپ سے عہد کیا تھا کہ ہم بنیامین کو ضرور واپس لائیں گے یہ عہد ظاہری حالات کے اعتبار سے تھا غیب کا حال تو ہم نہ جانتے تھے کہ یہ چوری کر کے گرفتار اور ہم مجبور ہوجائیں گے اور اس جملے کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے بھائی بنیامین کی پوری حفاظت کی کہ کوئی ایسا کام ان سے نہ ہوجائے جس کے باعث وہ تکلیف میں پڑیں مگر ہماری یہ کوشش ظاہری احوال ہی کی حد تک ہو سکتی تھی ہماری نظروں سے غائب لاعلمی میں ان سے یہ کام ہوجائے گا ہم کو اس کا کوئی علم نہ تھا،- چونکہ برادران یوسف اس سے پہلے ایک فریب اپنے والد کو دے چکے تھے اور یہ جانتے تھے کہ ہمارے مذکور الصدر بیان سے والد کا ہرگز اطمینان نہ ہوگا اور وہ ہماری بات پر یقین نہ کرینگے اس لئے مزید تاکید کے لئے کہا کہ آپ کو ہمارا یقین نہ آئے تو آپ اس شہر کے لوگوں سے تحقیق کرلیں جس میں ہم تھے یعنی شہر مصر اور آپ اس قافلہ سے بھی تحقیق کرسکتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہی مصر سے کنعان آیا ہے اور ہم اس بات میں بالکل سچے ہیں۔- تفسیر مظہری میں اس جگہ اس سوال کا اعادہ کیا گیا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے والد کے ساتھ اس قدر بےرحمی کا معاملہ کیسے گوارا کرلیا کہ خود اپنے حالات سے بھی اطلاع نہیں دی پھر چھوٹے بھائی کو بھی روک لیا جبکہ بار بار یہ بھائی مصر آتے رہے نہ ان کو اپنا راز بتایا نہ والد کے پاس اطلاع بھیجی ان سب باتوں کا جواب تفسیر مظہری نے یہی دیا ہے، انہ عمل ذالک بامر اللہ تعالیٰ لیزید فی بلآء یعقوب، یعنی یوسف (علیہ السلام) نے یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کئے جن کا منشاء حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے امتحان اور ابتلاء کی تکمیل تھی ،- احکام و مسائل :- وَمَا شَهِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا سے ثابت ہوا کہ انسان جب کسی سے کوئی معاملہ اور معاہدہ کرتا ہے تو وہ ظاہری حالات ہی پر محمول ہوتا ہے ایسی چیزوں پر حاوی نہیں ہوتا جو کسی کے علم میں نہیں برادران یوسف نے والد سے جو بھائی کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا وہ اپنے اختیاری امور کے متعلق تھا اور یہ معاملہ کہ ان پر چوری کا الزام آ گیا اور اس میں پکڑے گئے اس سے معاہدہ پر کچھ اثر نہیں پڑتا،- دوسرا مسئلہ تفسیر قرطبی میں اس آیت سے یہ نکالا گیا ہے کہ اس جملہ سے ثابت ہوا کہ شہادت کا مدار علم پر ہے علم خواہ کسی طریق سے حاصل ہو اس کے مطابق شہادت دی جاسکتی ہے اس لئے کسی واقعہ کی شہادت جس طرح اس کو بچشم خود دیکھ کردی جاسکتی ہے اس طرح کسی معتبر ثقہ سے سنکر بھی دی جاسکتی ہے شرط یہ ہے کہ اصل معاملہ کو چھپائے نہیں بیان کر دے کہ یہ واقعہ خود نہیں دیکھا فلاں ثقہ آدمی سے سنا ہے اسی اصول کی بناء پر فقہاء مالکیہ نے نابینا کی شہادت کو بھی جائز قرار دیا ہے،- مسئلہ : آیات مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص حق اور راستی پر ہے مگر موقع ایسا ہے کہ دیکھنے والوں کو ناحق یا گناہ کا شبہ ہوسکتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس اشتباہ کو دور کر دے تاکہ دیکھنے والے بدگمانی کے گناہ میں مبتلا نہ ہوں جیسے اس واقعہ بنیامین میں پچھلے واقعہ یوسف (علیہ السلام) کی بناء پر موقع تہمت اور شبہ کا پیدا ہوگیا تھا اس لئے اس کی صفائی کے لئے اہل بستی کی گواہی اور قافلہ والوں کی گواہی پیش کی گئی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل سے بھی اس کی تاکید فرمائی ہے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت صفیہ (رض) ام المؤ منین کے ساتھ مسجد سے ایک کوچہ میں تشریف لے جا رہے تھے تو اس کوچہ کے سرے پر دو شخص نظر آئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دور ہی سے فرما دیا کہ میرے ساتھ صفیہ بنت حیی ہیں ان دو حضرات نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کے بارے میں کسی کو کوئی بدگمانی ہو سکتی ہے ؟ تو فرمایا کہ ہاں شیطان انسان کی رگ رگ میں سرایت کرتا ہے ہوسکتا ہے کہ کسی کے دل میں شبہ ڈال دے (بخاری، مسلم) (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْكُمْ فَقُوْلُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ ۚ وَمَا شَهِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْنَ 81 ؀- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - سرق - السَّرِقَةُ : أخذ ما ليس له أخذه في خفاء، وصار ذلک في الشّرع لتناول الشیء من موضع مخصوص، وقدر مخصوص، قال تعالی: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة 38] ، وقال تعالی: قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ- [يوسف 77] ، وقال : أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، - ( س ر ق )- السرقتہ ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی خفیہ طور پر اس چیز کے لے لینے کے ہیں جس کو لینے کا حق نہ ہوا اور اصطلاح شریعت میں کسی چیز کو محفوظ جگہ سے مخصوص مقدار میں لے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة 38] اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ۔ - قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف 77] ( برداران یوسف نے ) کہا اگر اس نے چوری کی ہو تو ( کچھ عجب نہیں کہ ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] کہ قافلہ والو تم تو چور - شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سرقہ کے بارے میں حکم - قول باری ہے (ارجعوا الی ابیکم فقولوا یا ابانا ان ابنک سرق و ما شھدنا الا بما علمنا وما کنا للغیب حافظین۔ تم جا کر اپنے والد سے کہو کہ ” ابا جان آپ کے صاحبزادے نے چوری کی۔ ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کرسکتے تھے) برادران یوسف نے صرف ظاہری حالت کی خبر دی۔ اس لئے کہ انہیں باطنی حالت یعنی اصل بات کا کوئی علم نہیں تھا اسی بنا پر انہوں نے کہا (وما کنا للغیب حافظین) ظاہری طور پر یہی کچھ ہوا تھا کہ شاہی پیمانہ ان کے بھائی کے سامان سے برآمد ہوا تھا اس لئے بھائی ہی اس پیمانے کو چرانے والا قرار پایا، چناچہ بھائیوں نے کہا (وما شھدنا الا بما علمنا) یعنی ہمیں جو کچھ ظاہری طور پر معلوم ہوا ہم وہی بیان کر رہے ہیں۔ حقیقت حال نہیں بیان کر رہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایک چیز کے متعلق ظاہری طور پر حاصل ہونے والے معلومات پر علم کے اسم کا اطلاق جائز ہے خواہ اس چیز کی حقیقت کا علم نہ بھی ہو۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (وان علمتمو من مومنات فلا ترجعوھن الی الکفار۔ اگر تم ان عورتوں کو مسلمان سمجھ لو تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو) یہ بات تو واضح ہے کہ ہمیں ان عورتوں کے ضمائر اور ان کے دل کی باتوں کا علم نہیں ہوسکتا۔ ہمیں تو صرف ان کے ظاہری ایمان پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ قول باری (وما کنا للغیب حافظین) کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ ایک تو وہ ہے جو حسن، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ ہمیں اس کا احساس نہیں تھا کہ تمہارا بیٹا چوری کا ارتکاب کر بیٹھے گا۔ “ دوسرا قول وہ ہے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں یعنی ہمیں اس چوری کے متعلق حقیقت حال کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لئے اپنے بھائی کے سامان سے ایسی حالت میں شاہی پیمانہ برآمد کرلینا کس طرح جائز ہوگیا جو لوگوں کے نزدیک بھائی کے مہتمم ہوجانے کی موجب بن گئی حالانکہ اس کا دامن اس سے پاک تھا اور دوسری طرف اس فعل کی وجہ سے اس کے بھائی اور والد اس کے غم میں مبتلا ہوگئے ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس طریق کار میں بھلائی کے کئی پہلو تھے اور یہ سب کچھ بھائی کو اپنے اعتماد میں لینے اور اسے صورت حال سے آگاہ کرنے کے بعد انہوں نے کیا تھا۔ اس اقدام کے ذریعہ انہوں نے گویا بڑے لطیف انداز میں اپنی اور اپنے بھائی کی سلامتی کا پیغام حضرت یعقوب کو پہنچا دیا تھا، نیز کسی کے لئے ان کے بھائی پر چوری کا الزام عائد کرنے کی گنجائش نہیں تھی اس لئے کہ قافلے کا معاملہ تھا جس میں یہ بات عین ممکن تھی کہ کسی نے ان کے سامان میں شاہی پیمانہ رکھ دیا ہو، جہاں تک حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے غم کا تعلق تھا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس اقدام کا حکم ہی اس لئے دیا تھا کہ دوسرے بیٹے سے محرومی کی بنا پر ان کا غم بڑھ جائے، وہ اس پر صبر کریں اور پھر دونوں بیٹوں سے محرومی کے غم پر صبر کرنے کی وجہ سے اجر عظیم کے مستحق قرار پائیں۔- حقوق برآمد کرنے پر حیلہ - اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فلما جھزھم بجھانھم جب یوسف اپنے بھائیوں کا سامان لدوانے لگا) تاقول باری (کذلک کدنا لیوسف۔ اس طرح ہم نے یوسف کی تائید اپنی تدبیر سے کی) میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا معاملہ اور بھائیوں کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا جو ذکر فرمایا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ایک صباح چیز تک رسائی اور دبے ہوئے حقوق کو برآمد کرنے کے لئے حیلہ اختیار کرنا جائز ہے۔ وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تدبیر پر انہیں نہیں ٹوکا بلکہ اس کی رضامندی حضرت یوسف کے شامل حال رہی اور آخر پر فرمایا (کذلک کدنا لیوسف) اسی طرح یہ قول باری بھی ہے (وخدبیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث اور اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا خشک و تر گھاس کالے لو اور اسی سے مارو) اور اپنی قسم نہ توڑو) حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اپنی بیماری کے دوران بیوی کو ایک خاص تعداد میں کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ گھاس کا مٹھا بنا کر اپنی قسم پوری کرنے کے لئے بیوی کو اس سے ماریں اور اس طرح اسے سخت تکلیف پہنچانے سے بچ جائیں۔ اسی طرح حیلہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ عدت گزارنے والی عورت کو کھلم کھلا پیغام نکاح بھیجنے سے منع کردیا گیا لیکن اشارہں کنایوں میں اس کی ذات کے ساتھ اپنی دلچسپی سے آگاہ کرنے کو مبدح قرار دیا گیا۔ سنت کی جہت سے اس پر حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو خیبر پر مقرر کیا۔ وہ شخص کھجور لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ آیا خیبر کے تمام کھجور اسی طرح کے ہوتے ہیں ؟ اس نے نفی میں جواب دیا اور عرض کیا : بخدا ہم دو صاع کے بدلے ایک صاع اور تین صاع کے بدلے دو صاح کھجور لیتے ہیں “۔ یعنی جو کھجور میں لایا ہوں یہ خیبر کا عمدہ کھجور ہے اور عام کھجور اگر دو صاع دیئے جائیں تو ان کے بدلے میں اس کھجور کا ایک صاع ملتا ہے (صاع ایک پیمانے کا نام ہے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات سن کر فرمایا : ایسا نہ کرو بلکہ بڑھیا اور گھٹیا کھجوروں کو دراہم کے بدلے فروخت کر دو اور پھر ان دراہم سے ایک جیسے کھجور خرید لو “۔ امام مالک بن انس نے عبد المجید بن سہیل سے انہوں نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس کی روایت کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کی خرید و فروخت میں کمی بیشی کی ممانعت کردی اور پھر آپ نے مباح طریقے سے یہ کھجور حاصل کرنے کا طریقہ بتادیا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بھی دلالت کرتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو سفیان کی بیوی ہندہ سے فرمایا تھا کہ ” ابو سفیان کے مال میں سے اتنی مقدار حاصل کرلو جو تمہارے اور تمہارے بیٹے کے لئے معروف طریقے سے کافی ہوجائے “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہندہ کو اپنے اور اپنے بیٹے کے حق کے حصول تک رسائی کا حکم دیا۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اصل مقصد پوشیدہ رکھ کر اظہار کسی اور چیز کا کرتے اسے توریہ کہا جاتا ہے۔ یونس اور معمر نے زہری سے روایت کی ہے کہ بنو قریظہ نے جو مدینہ کے یہودی باشندے تھے، ابو سفیان بن حرب کو جنگ خندق کے موقع پر پیغام بھیجا کہ ہماری مدد کو پہنچو، ہم مسلمانوں کے گڑھ یعنی مدینہ پر ان کے پیچھے سے حملہ کرنے والے ہیں “ یہ بات نعیم بن مسعود نے سن لی۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح کر رکھی تھی۔ جب بنو قریظہ نے یہ پیغام ابو سفیان اور اس کے اتحادیوں کی طرف جنہوں نے مدینہ کا محاصرہ کر رکھا تھا، ارسال کیا تو اس وقت نعیم بن مسعود عینیہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، چناچہ وہ وہاں سے اٹھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ کر بنو قریظہ کی اس کارستانی کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دے دی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : ” شاید ہمیں اس کا حکم مل گیا ہے “ ، نعیم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی باتیں کرتے ہوئے آپ کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ زہری کہتے ہیں کہ نعیم اس طبیعت کے انسان تھے کہ وہ کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ جب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے اٹھ کر جو عطفان کی طرف چلے گئے تو حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو ابھی فرمایا ہے اگر یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے تو اسے کر ڈالئے اور اگر یہ آپ کیذاتی رائے ہے تو پھر بنی قریظہ کی حیثیت اس سے کم تر ہے کہ آپ ان کے بارے میں کوئی ایسی بات فرمائیں جسے آپ کی طرف سے آگے نقل کی جائے “ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بلکہ میری ذاتی رائے ہے اور جنگ تو دشمن کو دھوکے میں رکھنے کا نام ہے : ” ابو عثمان النھدی نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : تعریض کے طور پر کہی ہوئی بات میں جھوٹ سے بچنے کی گنجائش ہوئی ہے۔- حسن بن عمارہ نے الحکم سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ اگر مبہم کلام یعنی تعریض کے طور پر کہی ہوئی بات کے بدلے مجھے سرخ اونٹ مل رہے ہوں تو ان سے مجھے خوشی نہیں ہوگی۔ ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بادشاہ کے اس سوال پر جو اس نے آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ کے متعلق کیا تھا کہ ” یہ تمہاری کیا لگتی ہے “ جواب میں فرمایا : ” یہ میری بہن ہے “ آپ نے یہ فقرہ اس لئے کہا تھا کہ بادشاہ حضرت سارہ کو آپ سے چھین نہ لے، بہن کہہ کر آپ نے دینی بہن مراد لیا تھا۔ اسی طرح آپ نے اپنی بت پرست قوم سے کہا تھا کہ ” میں بیمار ہوں “۔ یہ کہہ کر آپ ان کے ساتھ نہیں گئے تھے بلکہ بت خانہ کے بتوں کو توڑنے کے لئے پیچھے رہ گئے تھے۔ آپ کے کہے ہوئے فقرے کا مفہوم یہ تھا کہ میں جلد ہی بیمار ہو جائوں گا “ یعنی مر جائوں گا جس طرح یہ قول باری ہے (انک میت۔ آپ کو بھی مرنا ہے) آپ کی قوم نے آپ سے جو بات پوچھی تھی اس کے جواب میں تعریض کے طور پر آپ نے اس طرح بات کی تھی جس سے آپ پر کذب بیانی کا کوئی الزام عائد نہیں ہوسکتا تھا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول روایات میں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے آپ نے مباح چیز تک رسائی کی خاطر حیلہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ حیلہ اختیار کرنے کا جواز ہے بشرطیکہ حیلہ کی صورت ممنوع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کے ذریعے جنسی پیاس کے بجھانے کی ممانعت فرما دی ہے اور ہمیں عقد نکاح کے ذریعے جنسی ملاپ تک رسائی حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح باطل طریقوں سے دوسروں کا مال کھانا ہم پر حرام قرار دیا ہے لیکن خرید و فروخت، ہبہ اور اسی طرح کے جائز طریقوں سے دوسروں کے مال تک رسائی کو مباح قرار دیا ہے۔ اس لئے جو شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ایک ممنوع چیز کو اس جہت سے مباح کرنے کے لئے چارہ کیا جاسکتا ہے جس جہت سے شریعت نے اسے مباح قرار دیا ہے وہ گویا دین کے اصول کو رد کرتا اور شریعت سے ثابت شدہ ایک چیز کو ٹھکرا دیتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود پر ہفتہ کے دن مچھلیوں کے شکار کی ممانعت کردی تھی، وہ ہفتے کے دن مچھلیوں کو گھیر رکھتے تھے اور اتوار کے دن انہیں پکڑ لیتے تھے، ان کی اس حرکت پر اللہ نے انہیں سزا دی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ یہود نے ہفتے کے دن کا قانون توڑا تھا۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ مچھلیوں کو ہفتے کے دن گھیر کر رکھنے کی بھی ممانعت تھی۔ اگر یہودیوں کو اس چیز کی ممانعت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا (اعتدوا فی السبت۔ انہوں نے ہفتے کے دن کا قانون توڑا تھا) قول باری ہے (یا ایھا العذیز مسنا واھلنا اختو۔ اے سردار با اقتدار ہم اور ہمارے عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں “ ) تا قول باری (وتصدق علینا۔ اور ہم کو خیرات دیں) جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کے قول (مسنا واھلنا الضر) پر کوئی نکیر نہیں کی تو اس سے دلالت حاصل ہوئی کہ ضرورت کے موقعہ پر اس قسم کے اظہار و بیان کا جو از ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کی صورت نہیں پائی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨١) پھر یہودا نے اپنے بھائیوں سے کہا میرے بھائیوں تم اپنے باپ کے پاس واپس جاؤ اور کہو کہ آپ کے بیٹے نے بادشاہ کے پیمانہ کی جو کہ سونے کا تھا چوری کرلی ہے اور ہم تو وہی بیان کرتے ہیں جو ہمیں مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ وہ چرائی ہوئی چیز بنیامین کے سامان میں سے ملی ہے۔- اور اگر ہم غیب کی باتوں سے واقف ہوتے تو ہم ان کو ہرگز اپنے ساتھ لے کر نہ جاتے اور رات کے وقت تو ہم ان کی نگرانی نہیں کر رہے تھے کہ انہوں نے کیا کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَمَا شَهِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْنَ )- ابا جان ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہم تو آپ کو وہی حقیقت بتا رہے ہیں جو ہمارے علم میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بن یا میں نے چوری کی ہے اور اس جرم میں وہ وہاں پکڑا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani