82۔ 1 اَلْقَرْیَۃَ مراد مصر ہے جہاں وہ غلہ لینے گئے تھے۔ مطلب اہل مصر ہیں۔ اسی طرح والْعِیرَ سے مراد اصحاب العیر یعنی اہل قافلہ ہیں۔ آپ مصر جا کر اہل مصر سے اور اس قافلے والوں سے، جو ہمارے ساتھ آیا ہے، پوچھ لیں کہ ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں، وہ سچ ہے، اس میں جھوٹ کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔
[٧٩] یعنی اگر آپ ہم پر اعتبار نہیں کرتے تو اہل مصر سے دریافت کرلیجئے یا اس قافلہ والوں سے پوچھ لیجئے جو ہمارے ہمراہی تھے۔ ان شہادتوں سے آپ کو یقین آجائے گا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں سچی بات ہی کہہ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں قریۃ کا لفظ اہل لقریہ یعنی بستی والوں کے معنی میں اور العیر قافلہ والوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا ۔۔ : اس میں انھوں نے اپنی صفائی کے لیے تین چیزیں بتائیں : 1 اس بستی (والوں) سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے۔ 2 اس قافلے (والوں) سے بھی جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ 3 اور (قسم ہے کہ) بیشک ہم یقیناً سچے ہیں۔ اپنی صفائی میں اتنی شہادتیں پیش کرنے کا باعث یہ تھا کہ انھیں معلوم تھا کہ والد ہماری بات پر اعتبار نہیں کریں گے۔
وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَالْعِيْرَ الَّتِيْٓ اَقْبَلْنَا فِيْهَا ۭ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ 82- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - عير - العِيرُ : القوم الذین معهم أحمال المیرة، وذلک اسم للرّجال والجمال الحاملة للمیرة، وإن کان قد يستعمل في كلّ واحد من دون الآخر . قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف 94] ، أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] ، وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف 82] ، - ( ع ی ر ) العیر - قافلہ جو غذائی سامان لاد کر لاتا ہے اصل میں یہ لفظ غلہ بردار اونٹوں اور ان کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے مجموعہ پر بولاجاتا ہے مگر کبھی اس کا استعمال صرف ان اونٹوں پر ہوتا ہے جو غذائی سامان اٹھا کر لاتے ہیں اور کبھی ان لوگوں پر بولا جاتا ہے جو کہیں سے غذائی سامان لاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف 94] جب قافلہ مصر سے ردانہ ہوا ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] کہ قافلے والوں تم تو چور ہو ۔ وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف 82] اور جس قافلے میں ہم آئے ۔ اور عیر کا لفظ متعدد ومعنوں میں استعمال ہوتا ہے ( 1 ) گور کر ( 2 ) پاؤں کی پشت پرا بھری ہوئی پڈی ( 3 ) آنکھوں کی پتلی ، ( 4 ) کان کی پچھلی طرف ابھری ہوئی نرم ہڈی ( 5 ) خس وخا شاک جو پانی کے اوپر جمع ہوجاتا ہے ( 6 ) میخ ( 7 ) تیر کے پھل کا درمیانی حصہ جو اوپر ابھرا ہوا ہونا ہے - إِقْبَالُ- التّوجّه نحو الْقُبُلِ ، كَالاسْتِقْبَالِ. قال تعالی: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات 50] ، وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف 71] ، فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ [ الذاریات 29]- اقبال - اور استقبال کی طرح اقبال کے معنی بھی کی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو نیکے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات 50] پھر لگے ایک دوسرے کو رو ور ود ملا مت کرنے ۔ - وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف 71] ، اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوکر - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
(٨٢) اور اگر یقین نہ ہو تو اس بستی والوں میں سے جو مصر ہی کی ایک بستی ہے کسی سے پوچھ لیجیے اور اس قافلہ والوں سے پوچھ لیجیے جن میں شامل ہو کر ہم یہاں آئے ہیں اور ان کے ساتھ قبیلہ کنعان کے کچھ لوگ آئے تھے اور ہم نے جو کچھ آپ سے بیان کیا اس میں ہم بالکل سچے ہیں، چناچہ سب بھائیوں نے واپس آکر حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے یہ ساری بات بیان کردی۔
(وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَالْعِيْرَ الَّتِيْٓ اَقْبَلْنَا فِيْهَا ۭ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ )- آپ مصر سے بھی حقیقت حال معلوم کرا سکتے ہیں یا پھر جس قافلے کے ساتھ ہم گئے تھے اس کے سب لوگ وہاں موجود تھے ان کے سامنے یہ سب کچھ ہوا تھا۔ آپ ان میں سے کسی سے بھی پوچھ لیں وہ سارا ماجرا آپ کو بتادیں گے۔