بھائیوں کی زبانی یہ خبر سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے پیراہن یوسف خون آلود پیش کر کے اپنی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تھی کہ صبر ہی بہتر ہے ۔ آپ سمجھے کہ اسی کی طرح یہ بات بھی ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے بیٹوں سے یہ فرما کر اب اپنی امید ظاہر کی جو اللہ سے تھی کہ بہت ممکن ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ میرے تینوں بچوں کو مجھ سے ملا دے یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کو بنیامین کو اور آپ کے بڑے صاحبزادے روبیل کو جو مصر میں ٹھر گئے تھے اس امید پر کہ اگر موقعہ لگ جائے تو بنیامین کو خفیہ طور نکال لے جائیں یا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود حکم دے اور یہ اس کی رضامندی کے ساتھ واپس لوٹیں ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے میری حالت کو خوب جان رہا ہے ۔ حکیم ہے اس کی قضا وقدر اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اب آپ کے اس نئے رنج نے پرانا رنج بھی تازہ کر دیا اور حضرت یوسف کی یاد دل میں چٹکیاں لینے لگی ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں انا للہ الخ پڑھنے کی ہدایات صرف اسی امت کو کی گئی ہے اس نعمت سے اگلی امتیں مع اپنے نبیوں کے محروم تھیں ۔ دیکھئے حضرت یعقوب علیہ السلام بھی ایسے موقعہ پر آیت ( يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ 84 ) 12- یوسف:84 ) کہتے ہیں ۔ آپ کی آنکھیں جاتی رہی تھیں ۔ غم نے آپ کو نابینا کر دیا تھا اور زبان خاموش تھی ۔ مخلوق میں سے کسی شکایت وشکوہ نہیں کرتے تھے ۔ غمگین اور اندوہ گین رہا کرتے تھے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ لوگ تجھ سے یہ کہہ کر دعا مانگتے ہیں کہ اے ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے رب ، تو تو ایسا کر کہ ان تین ناموں میں چوتھا نام میرا بھی شامل ہو جائے ۔ جواب ملا کہ اے داؤد حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اور صبر کیا ۔ تیری آزائش ابھی ایسی نہیں ہوئی ۔ اسحاق علیہ السلام نے خود اپنی قربانی منظور کر لی اور اپنا گلا کٹوانے بیٹھ گئے ۔ تجھ پر یہ بات بھی نہیں آئی ۔ یعقوب علیہ السلام سے میں نے ان کے لخت جگر کو الگ کر دیا اس نے بھی صبر کیا تیرے ساتھ یہ واقعہ بھی نہیں ہوا یہ روایت مرسل ہے اور اس میں نکارت بھی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام تھے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ اس روایت کے راوی علی بن زید بن جدعان اکثر منکر اور غریب روایتیں بیان کر دیا کرتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے کہ احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت بنی اسرائیل سے لی ہو ، جیسے کعب وہب وغیرہ ۔ واللہ اعلم ۔ بنی اسرائیل کی ورایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف کو اس موقعہ پر جب کہ بنیامین قید میں تھے ۔ ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں رحم دلانے کے لئے لکھا تھا کہ ہم مصیبت زدہ لوگ ہیں ۔ میرے دادا حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے ۔ میرے والد حضرت اسحاق علیہ السلام ذبح کے ساتھ آزمائے گئے ۔ میں خود فراق یوسف میں مبتلا ہوں ۔ لیکن یہ روایت بھی سندا ثابت نہیں ۔ بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں ۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے ۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے ، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک مخلص دوست نے ایک مرتبہ آپ سے پوچھا کہ آپ کی بینائی کیسے جاتی رہی ؟ اور آپ کی کمر کیسے کبڑی ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا یوسف کو رو رو کر آنکھیں کھو بیھٹا اور بنیامین کے صدمے نے کمر توڑ دی ۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کے بعد کہتا ہے کہ میری شکایتیں دوسروں کے سامنے کرنے سے آپ شرماتے نہیں ؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسی وقت فرمایا کہ میری پریشانی اور غم کی شکایت اللہ ہی کے سامنے ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ کی شکایت کا اللہ کو خوب علم ہے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے اور اس میں بھی نکارت ہے ۔
83۔ 1 حضرت یعقوب (علیہ السلام) چونکہ حقیقت حال سے بیخبر تھے اور اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے انھیں حقیقت واقعہ سے آگاہ نہیں فرمایا۔ اس لئے وہ یہی سمجھے کہ میرے ان بیٹوں نے اپنی طرف سے بات بنا لی ہے۔ بنیامین کے ساتھ انہوں نے کیا معاملہ کیا ؟ اس کا یقینی علم تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس نہیں تھا، تاہم یوسف (علیہ السلام) کے واقعے پر قیاس کرتے ہوئے ان کی طرف سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں بجا طور پر شکوک شبہات تھے۔ 83۔ 2 اب پھر سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں تھا، تاہم صبر کے ساتھ امید کا دامن بھی نہیں چھوڑا یوسف علیہ السلام، بنیامین اور وہ بڑا بیٹا ہے جو مارے شرم کے وہیں مصر میں رک گیا تھا کہ یا تو والد صاحب مجھے اسی طرح آنے کی اجازت دے دیں یا پھر میں کسی طریقے سے بنیامین کو ساتھ لے کر آؤں گا۔
[٨٠] گمشدہ سامان کی برآمدگی سے چوری ثابت نہیں ہوجاتی :۔ یہ بعینہ وہی الفاظ ہیں جو سیدنا یعقوب نے اس وقت بھی کہے تھے جب برادران یوسف نے یوسف کو کنویں میں ڈالنے کے بعد رات کو روتے ہوئے باپ کے پاس آئے تھے اور ایک جھوٹا سا واقعہ بنا کر انھیں سنا دیا تھا۔ اب کی بار آپ نے بیٹوں سے پورا واقعہ سننے کے بعد جو انھیں تنبیہ کی تو اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ کیا تم یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ کسی شخص کے سامان سے کسی گم شدہ چیز کا برآمد ہونا اس بات کا یقینی ثبوت کب ہوتا ہے کہ اس شخص نے ضرور چوری کی ہے۔ ممکن ہے کسی دوسرے نے اس کے سامان میں وہ چیز رکھ دی ہو ؟ پھر تم نے یوسف پر چوری کا مزید الزام لگا کر بن یمین پر لگے ہوئے الزام کو پختہ تر بنادیا۔ اس تنبیہ سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ سیدنا یعقوب کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ میرے یہ بیٹے چور نہیں ہوسکتے اور دوسرے یہ کہ برادران یوسف اپنے ان دونوں چھوٹے بھائیوں سے ہمیشہ بدگمان ہی رہتے تھے۔- [٨١] سب سے مراد یوسف بن یمین اور ان کا وہ بڑا بھائی ہے جو شرم و ندامت کے مارے مصر میں ہی رہ گیا تھا۔
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ ۔۔ : جب بڑے بھائی کی تجویز کے مطابق باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے والد یعقوب (علیہ السلام) سے یہ سب کچھ بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اصل بات یہ نہیں بلکہ تمہارے دلوں نے تمہارے لیے ایک کام مزین کردیا ہے، اب میرا کام صبر جمیل ہے۔ وہی لفظ منہ سے نکلا جو یوسف کو بھیڑیے کے کھائے جانے کی خبر سن کر نکلا تھا۔ اللہ اپنے بندوں خصوصاً رسولوں کو کتنا بڑا حوصلہ دیتا ہے کہ جگر ٹکڑے ٹکڑے کردینے والی خبر سن کر بھی نہ شکوہ نہ شکایت، نہ جزع فزع نہ واویلا۔ پہلے ایک بیٹے کی خبر پر بھی صبر جمیل، اب مزید دو بیٹوں کی خبر پر بھی وہی صبر جمیل۔ پہلے بھی اللہ ہی سے مدد مانگی : (وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ ) [ یوسف : ١٨ ] اب بھی اسی کے سہارے پر دل میں امید کا چراغ روشن رکھا : (عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا) امید ہے کہ اللہ ان تینوں کو میرے پاس لے آئے گا، یقیناً وہی علیم و حکیم ہے، وہ سب کچھ جانتا بھی ہے اور اس کی حکمتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ - اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹے کی سچی بات کا بھی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ رہی یہ بات کہ یعقوب (علیہ السلام) کس طرح ان سب کی ملاقات کی امید ظاہر فرما رہے ہیں، تو ایک تو یہ کہ وہ اللہ کے نبی تھے اور دوسرے یہ کہ انھیں یوسف (علیہ السلام) کے خواب کی تعبیر سامنے آنے کا بھی یقین تھا، مگر پیارے بیٹے کی جدائی پھر لخت جگر کے حال سے بیخبر ی اور تعبیر کے ظہور کا وقت نامعلوم ہونے اور اب مزید دو بیٹوں کی گم شدگی کے پیہم صدمات اور انھیں دل ہی دل میں پی جانے کی کوشش نے یعقوب (علیہ السلام) کی طبیعت پر بہت ہی زیادہ اثر ڈالا۔
خلاصہ تفسیر :- یعقوب (علیہ السلام یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ان سب سے غیر مطمئن ہوچکے تھے تو سابق پر قیاس کر کے) فرمانے لگے (کہ بنیامین چوری میں ماخوذ نہیں ہوا) بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے سو (خیر مثل سابق) صبر ہی کروں گا جس میں شکایت کا نام نہ ہوگا (مجھ کو) اللہ سے امید ہے کہ ان سب کو (یعنی یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین اور جو بڑا بھائی اب مصر میں رہ گیا ہے ان تینوں کو) مجھ تک پہنچادے گا (کیونکہ) وہ (حقیقت حال سے) خوب واقف ہے (اس لئے اس کو سب کی خبر ہے کہ کہاں کہاں اور کس کس حال میں ہیں اور وہ) بڑی حکمت والا ہے (جب ملانا چاہے گا تو ہزاروں اسباب و تدابیر درست کر دے گا) اور (یہ جواب دے کر بوجہ اس کے ان سے رنج پہنچا تھا) ان سے دوسری طرف رخ کرلیا اور (بوجہ اس کے کہ اس نئے غم سے وہ پرانا غم اور تازہ ہوگیا، یوسف (علیہ السلام) کو یاد کر کے) کہنے لگے ہائے یوسف افسوس اور غم سے (روتے روتے) ان کی آنکھیں سفید پڑگئیں (کیونکہ زیادہ رونے سے سیاہی آنکھوں کی کم ہوجاتی ہے اور آنکھیں بےرونق یا بالکل بےنور ہوجاتی ہیں) اور وہ (غم سے جی ہی جی میں) گھٹا کرتے تھے (کیونکہ شدت غم کے ساتھ جب شدت ضبط ہوگا جیسا کہ صابرین کی شان ہے تو کظم کی کیفیت پیدا ہوگی) بیٹے کہنے لگے بخدا (معلوم ہوتا ہے) تو ہمیشہ ہمیشہ یوسف کی یادگاری میں لگے رہو گے یہاں تک کہ گھل گھل کر جاں بہ لب ہوجاؤ گے یا یہ کہ بالکل مر ہی جاؤ گے (تو اتنے غم سے فائدہ کیا) یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم کو میرے رونے سے کیا بحث میں تو اپنے رنج وغم کی صرف اللہ تعالیٰ سے شکایت کرتا ہوں (تم سے تو کچھ نہیں کہتا) اور اللہ کی باتوں کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے (باتوں سے مراد یا تو لطف و کرم و رحمت اتم ہے اور بامراد الہام ہے ان سب سے ملنے کا جو بلا واسطہ ہو یا بواسطہ خواب یوسف (علیہ السلام) کے جس کی تعبیر اب تک واقع نہیں ہوئی تھی اور واقع ہونا اس کا ضرور ہے) اے میرے بیٹو (اظہار غم تو صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں مسبب الاسباب وہی ہے لیکن ظاہری تدبیر تم بھی کرو کہ ایک بار پھر سفر میں) جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی تلاش کرو (یعنی اس فکر و تدبیر کی جستجو کرو جس سے یوسف (علیہ السلام) کا نشان ملے اور بنیامین کو رہائی ہو) اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو بیشک اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں،- معارف و مسائل :- یعقوب (علیہ السلام) کے چھوٹے صاحبزادے بنیامین کی مصر میں گرفتاری کے بعد ان کے بھائی وطن واپس آئے اور یعقوب (علیہ السلام) کو یہ ماجرا سنایا اور یقین دلانا چاہا کہ ہم اس واقعہ میں بالکل سچے ہیں آپ اس بات کی تصدیق مصر کے لوگوں سے بھی کرسکتے ہیں اور جو قافلہ ہمارے ساتھ مصر سے کنعان آیا ہے اس سے بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ بنیامین کی چوری پکڑی گئی اس لئے وہ گرفتار ہوگئے یعقوب (علیہ السلام) کو چونکہ یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ان صاحبزادوں کا جھوٹ ثابت ہوچکا تھا اس لئے اس مرتبہ بھی یقین نہیں آیا اگرچہ فی الواقع اس وقت انہوں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا اس لئے اس موقع پر بھی وہی کلمات فرمائے جو یوسف (علیہ السلام) کی گم شدگی کے وقت فرمائے تھے قال بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ یعنی یہ بات جو تم کہہ رہے ہو صحیح نہیں تم نے خود بات بنائی ہے مگر اب بھی صبر ہی کرتا ہوں وہی میرے لئے بہتر ہے،- قرطبی نے اسی سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مجتہد جو بات اپنے اجتہاد سے کہتا ہے اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے یہاں تک کہ پیغمبر بھی جو بات اپنے اجتہاد سے کہیں اس میں ابتداء غلطی ہوجانا ممکن ہے جیسے اس معاملہ میں پیش آیا کہ بیٹوں کے سچ کو جھوٹ قرار دے دیا مگر انبیاء (علیہم السلام) کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کو منجانب اللہ غلطی پر متنبہ کر کے اس سے ہٹا دیا جاتا ہے اور انجام کار وہ حق کو پالیتے ہیں - یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ذہن میں بات بنانے سے مراد وہ بات بنانا ہو جو مصر میں بنائی گئی کہ ایک خاص غرض کے ماتحت جعلی چوری دکھلا کر بنیامین کو گرفتار کیا گیا جس کا انجام آئندہ بہترین صورت میں کھل جانے والا تھا اس آیت کے اگلے جملے سے اس طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے جس میں فرمایا عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا یعنی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو مجھ سے ملا دے گا۔- خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس مرتبہ جو صاحبزادوں کی بات کو تسلیم نہیں کیا اس کا حاصل یہ تھا کہ درحقیقت نہ کوئی چوری ہوئی ہے اور نہ بنیامین گرفتار ہوئے ہیں بات کچھ اور ہے یہ اپنی جگہ صحیح تھا مگر صاحبزادوں نے اپنی دانست کے مطابق جو کچھ کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ 83- سول - والتَّسْوِيلُ : تزيين النّفس لما تحرص عليه، وتصویر القبیح منه بصورة الحسن، قال : بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف 18] - ( س و ل )- التسویل ۔ کے معنی نفس کے اس چیز کو مزین کرنا کے ہیں جس پر اسے حرص بھی ہو اور اس کے قبح کو خوشنما بناکر پیش کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف 18] بلکہ تم اپنے دل سے ( یہ ) بات بنا لائے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - جمیل - الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان :- أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله .- والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83]- ( ج م ل ) الجمال - کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔- (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ - وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔- فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے
(٨٣) یہ سن کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا یہ بات ممکن نہیں بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات نکال لی ہے لیکن میں صبر ہی کروں گا اور تم لوگوں سے کوئی شکایت نہیں کروں گا۔- مجھ کو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ یوسف، بنیامین اور یہودا کو مجھ تک پہنچا دے گا وہ اس بات سے خوب واقف ہے کہ وہ کہاں ہیں اور وہ ان سب کو مجھ سے ملانے میں بڑی حکمت والا ہے۔
آیت ٨٣ (قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ)- حضرت یعقوب نے یہاں پر پھر وہی فقرہ بولا جو حضرت یوسف کی موت کے بارے میں خبر ملنے پر بولا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو وہ بیان کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا : بہرحال میں اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔- (عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ )- حضرت یعقوب کے لیے حضرت یوسف کا غم ہی کیا کم تھا کہ اب دیار غیر میں دوسرے بیٹے کے مصیبت میں گرفتار ہونے کی خبر مل گئی ‘ اور پھر تیسرے بیٹے یہودا کا دکھ اس پر مستزاد جس نے مصر سے واپس آنے سے انکار کردیا تھا مگر پھر بھی آپ صبر کا دامن تھامے رہے۔ رنج وا لم کے سیل بےپناہ کا سامنا ہے مگر پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ بس اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا ہے اور اسی کی رحمت سے امید
٦٤ ۔ یعنی تمہارے نزدیک یہ باور کرلینا بہت آسان ہے کہ میرا بیٹا جس کے حسن سیرت سے میں خوب واقف ہوں ایک پیالے کی چوری کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔ پہلے تمہارے لیے اپنے ایک بھائی کو جان بوجھ کر گم کردینا اور اس کے قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لے آنا بہت آسان کام ہوگیا تھا ۔ اب ایک دوسرے بھائی کو واقعی چور مان لینا اور مجھے آکر اس کی خبر دینا بھی ویسا ہی آسان ہوگیا ۔
53: چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ بنیامین چوری نہیں کرسکتا۔ اس لیے انہوں نے یہ سمجھا کہ اس مرتبہ بھی ان لوگوں نے کوئی بہانہ بنایا ہے۔