Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 یعنی اس تازہ صدمے نے یوسف (علیہ السلام) کی جدائی کے قدیم صدمے کو بھی تازہ کردیا۔ 84۔ 2 یعنی آنکھوں کی سیاہی، مارے غم کے، سفیدی میں بدل گئی تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٢] سیدنا یعقوب کی بینائی جانے کی وجہ :۔ یعنی اپنے بیٹوں کو کچھ لعنت ملامت نہیں کی اور درگزر سے کام لیا۔ حالانکہ اس واقعہ نے پرانے زخم کو پھر سے ہرا کردیا تھا۔ البتہ بےاختیار آپ کے منہ سے ہائے یوسف کے الفاظ نکل گئے جب کہ سیدنا یوسف کا غم آپ کی رگ رگ میں سرایت کرچکا تھا۔ کظیم اس مشک کو کہتے ہیں جسے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کردیا گیا ہو۔ بالفاظ دیگر یوسف کا غم آپ کے گلے تک پہنچ چکا تھا۔ مگر پھر بھی آپ شکوہ شکایت یا بےقراری کا کوئی لفظ زبان سے نکالنا گوارا نہیں کرتے تھے اور سب کچھ ضبط ہی کئے جارہے تھے جس کا اثر آپ کی آنکھوں پر پڑا اور آپ کی بینائی جاتی رہی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰٓاَسَفٰى ۔۔ : ” يٰٓاَسَفٰى“ اصل میں یائے متکلم کے ساتھ ” یَا اَسَفِیْ “ تھا، تخفیف اور اظہار غم کے لیے یاء کو الف سے بدل دیا ہے۔ (وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ ) ” غم سے اس کی آنکھیں سفید ہوگئیں “ یعنی آنسوؤں کے متواتر بہنے سے آنکھوں کی سیاہی پر سفیدی چھا گئی اور بینائی خراب ہوگئی۔ ” كَظِيْمٌ“ بمعنی ” مَکْظُوْمٌ“ ہے جو غم سے بھرا ہوا ہو، لیکن لوگوں سے چھپائے اور اظہار نہ کرے۔ اسی سے ہے : (وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ) [ آل عمران : ١٣٤ ] یعنی غصے کو روک لینے والے۔ ” کَظَمَ فُلَانٌ السِّقَاءَ “ یعنی فلاں نے بھرے ہوئے مشکیزے کا منہ بند کردیا۔ یعنی یعقوب (علیہ السلام) نے جب بیٹوں کی بات سن لی اور انھیں جواب دے دیا تو ان پر غموں کا سیلاب امڈ آیا اور دل کے تمام زخم تازہ ہوگئے، چناچہ انھوں نے بیٹوں کو چھوڑا اور مجلس سے چلے گئے اور کہنے لگے : ” ہائے میرا یوسف کا غم “ اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں، مگر غم سے بھرے ہوئے ہونے کے باوجود اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ رہ گیا دل کا غم اور مصیبت میں رونا اور آنسو بہانا تو یہ جائز ہے اور انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا : ( إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ إِلاَّ مَا یَرْضٰی رَبُّنَا وَ إِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاہِیْمُ إِنَّا لَمَحْزُوْنُوْنَ ) [ بخاري، الجنائز، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إنا بک لمحزونون : ١٣٠٣۔ مسلم : ٢٣١٥ ] ” بیشک آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے اور ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے جو ہمارے رب کو پسند ہو اور بیشک ہم تیری جدائی سے اے ابراہیم یقیناً غم زدہ ہیں۔ “ ہاں مصیبت کے وقت نوحہ کرنا، گریبان پھاڑنا اور منہ پر طمانچے مارنا سخت ممنوع ہے۔ - 3 اگرچہ خبر دوسرے دو بیٹوں کی آئی تھی مگر یعقوب (علیہ السلام) کے منہ سے یوسف پر غم کی شدت کے الفاظ نکلے، اس کی وجہ یہ تھی کہ زخم کے اوپر جب زخم لگے تو پہلا زخم زیادہ تکلیف دیتا ہے۔ ” وَلٰکِنْ نَکْأَ الْجُرْحِ بالْجُرْحِ أَوْجَعُ “ ” لیکن زخم کا نئے زخم سے چھل جانا زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس دوسرے صدمے کے بعد صاحبزادوں سے اس معاملہ میں گفتگو کو چھوڑ کر اپنے رب کے سامنے فریاد شروع کی اور فرمایا کہ مجھے سخت رنج وغم ہے یوسف پر اور اس رنج و غم میں روتے روتے ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں یعنی بینائی جاتی رہی یا بہت ضعیف ہوگئی مقاتل امام تفسیر نے فرمایا کہ یہ کیفیت یعقوب (علیہ السلام) کی چھ سال رہی کہ بینائی تقریباً جاتی رہی تھی فَهُوَ كَظِيْمٌ یعنی پھر وہ خاموش ہوگئے کسی سے اپنا دکھ نہ کہتے تھے کظیم کظم سے بنا ہے جس کے معنی بند ہوجانے اور بھر جانے کے ہیں مراد یہ ہے کہ غم واندوہ سے ان کا دل بھر گیا اور زبان بند ہوگئی کہ کسی سے اپنا رنج وغم بیان نہ کرتے تھے،- اسی لئے کظم کے معنی غصہ کو پی جانے کے آتے ہیں کہ غصہ دل میں بھرے ہوئے ہونے کے باوجود زبان یا ہاتھ سے کوئی چیز غصہ کے مقتضیٰ کے مطابق سرزد نہ ہو حدیث میں ہے وَمَن یکظم الغیظ یاجرُہ ُ اللہ یعنی جو شخص اپنے غصہ کو پی جائے اور اس کے تقاضے پر باوجود قدرت کے عمل نہ کرے اللہ تعالیٰ اس کو بڑا اجر دیں گے،- ایک حدیث میں ہے کہ حشر کے دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مجمع عام کے سامنے لاکر جنت کی نعمتوں میں اختیار دیں گے کہ جو چاہیں لے لیں۔- امام ابن جریر (رح) نے اس جگہ ایک حدیث نقل کی ہے کہ مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھنے کی تلقین اس امت کی خصوصیات میں سے ہیں اور یہ کلمہ انسان کو رنج وغم کی تکلیف سے نجات دینے میں بڑا مؤ ثر ہے خصوصیت امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس سے معلوم ہوئی کہ اس شدید غم و صدمہ کے وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس کلمہ کے بجائے يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ فرمایا بیہقی نے شعب الایمان میں بھی یہ حدیث ابن عباس (رض) کی روایت سے نقل کی ہے،- حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا شغف محبت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ کیوں تھا :- اس مقام پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ غیر معمولی محبت اور ان کے گم ہونے پر اتنا اثر کہ اس مفارقت کی ساری مدت میں جو بعض روایات کی بناء پر چالیس سال اور بعض کی بناء پر اسی سال بتلائی جاتی ہے مسلسل روتے رہنا یہاں تک کہ بنیائی جاتی رہی بظاہر ان کی پیغمبرانہ شان کے شایان نہیں کہ اولاد سے اتنی محبت کریں جب کہ قرآن کریم نے اولاد کو فتنہ قرار دیا ہے ارشاد ہے اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ یعنی تمہارے مال اور اولاد فتنہ اور آزمائش ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) کی شان قرآن کریم نے یہ بتلائی ہے کہ اِنَّآ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّار یعنی ہم نے انبیاء (علیہم السلام) کو ایک خاص صفت کے ساتھ مخصوص کردیا ہے وہ صفت ہی دار آخرت کی یاد۔ مالک بن دینار (رح) نے اس کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں کہ ہم نے ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکال دی اور صرف آخرت کی محبت سے ان کے قلوب کو معمور کردیا ان کا مطمح نظر کسی چیز کے لینے یا چھوڑ نے میں صرف آخرت ہوتی ہے،- اس مجموعہ سے یہ اشکال قوی ہو کر سامنے آتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اولاد کی محبت میں ایسا مشغول ہونا کس طرح صحیح ہوا ؟- حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں اس اشکال کو ذکر کر کے حضرت مجدد الف ثانی کی ایک خاص تحقیق نقل فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ دنیا اور متاع دنیا کی محبت مذموم ہے قرآن و حدیث کی نصوص بیشمار اس پر شاہد ہیں مگر دنیا میں جو چیزیں آخرت سے متعلق ہیں ان کی محبت درحقیقت آخرت ہی کی محبت میں داخل ہے یوسف (علیہ السلام) کے کمالات صرف حسن صورت ہی نہیں بلکہ پیغمبرانہ عفت اور حسن سیرت بھی ہیں اس مجموعہ کی وجہ سے ان کی محبت کسی دنیاوی سامان کی محبت نہ تھی بلکہ درحقیقت آخرت ہی کی محبت تھی انتہیٰ ۔- یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ یہ محبت اگرچہ درحقیقت دنیا کی محبت نہ تھی مگر بہرحال اس میں ایک حیثیت دنیوی بھی تھی اسی وجہ سے یہ محبت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ابتلاء اور امتحان کا ذریعہ بنی اور چالیس سال کی مفارقت کا ناقابل برداشت صدمہ برداشت کرنا پڑا اور اس واقعہ کے اجزاء اول سے آخر تک اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے کچھ ایسی صورتیں بنتی چلی گئیں کہ یہ صدمہ طویل سے طویل ہوتا چلا گیا ورنہ واقعہ کے شروع میں اتنی شدید محبت والے باپ سے یہ ممکن نہ ہوتا کہ وہ بیٹوں کی بات سن کر گھر میں بیٹھ رہتے، بلکہ موقع پر پہنچ کر تفتیش و تلاش کرتے تو اسی وقت پتہ چل جاتا مگر اللہ ہی کی طرف سے ایسی صورتیں بن گئیں کہ اس وقت یہ دھیان نہ آیا پھر یوسف (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اس سے روک دیا گیا کہ وہ اپنے حال کی اپنے والد کو خبر بھیجیں یہاں تک کہ مصر کی حکومت و اقتدار ملنے کے بعد بھی انہوں نے کوئی ایسا اقدام نہیں فرمایا اور اس سے بھی زیادہ صبر آزما وہ واقعات تھے جو باربار ان کے بھائیوں کے مصر جانے کے متعلق پیش آتے رہے اس وقت بھی نہ بھائیوں پر اظہار فرمایا نہ والد کو خبر بھیجنے کی کوشش فرمائی بلکہ دوسرے بھائی کو بھی اپنے پاس ایک تدبیر کے ذریعہ روک کر والد کے صدمہ کو دوہرا کردیا یہ سب چیزیں یوسف (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ پیغمبر سے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کو بذریعہ وحی اس سے نہ روک دیا گیا ہو اسی لئے قرطبی وغیرہ مفسرین نے یوسف (علیہ السلام) کے اس سارے عمل کو وحی خداوندی کی تلقین قرار دیا ہے اور كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ کے قرآنی ارشاد میں بھی اس طرف اشارہ موجود ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ 84؀- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - أسِف - الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف 55] أي : أغضبونا .- ( ا س ف ) الاسف - ۔ حزن اور غضب کے ممواعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔- كظم - الْكَظْمُ : مخرج النّفس، يقال : أخذ بِكَظَمِهِ ، والْكُظُومُ : احتباس النّفس، ويعبّر به عن السّكوت کقولهم : فلان لا يتنفّس : إذا وصف بالمبالغة في السّكوت، وكُظِمَ فلان : حبس نفسه . قال تعالی: إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم 48] ، وكَظْمُ الغَيْظِ : حبسه، قال :- وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] - ( ک ظ م ) الکظم - اصل میں مخروج النفس یعنی سانس کی نالي کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ احذ بکظمہ اس کی سانس کی نالي کو پکڑ لیا یعنی غم میں مبتلا کردیا ۔ الکظوم کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور خاموش ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ انتہائی خا موشی کے معیس کو ظاہر کرنے کے لئے فلان لا یتنفس کہا جاتا ہے ۔ فلاں سانس نہین لیتا یعنی خا موش ہے ۔ کظم فلان اس کا سانس بند کردیا گیا ( مراد نہایت غمگین ہونا ) چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم 48] کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم) غصہ میں بھرے تھے ۔ اور کظلم الغیظ کے معنی غصہ روکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ - وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو در کتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٤) اور ان سے الگ ہو کر کہنے لگے ہائے یوسف اور رنج وغم سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں، اور وہ غم سے دل ہی دل میں گھٹا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ)- حضرت یعقوب کو حضرت یوسف سے بہت محبت تھی۔ بیٹے کے ہجر اور فراق میں آپ کے دل پر جو گزری تھی خود قرآن کے یہ الفاظ اس پر گواہ ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے جسے یہاں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے بچے کا فوت ہوجانا یقیناً بہت بڑا صدمہ ہے لیکن بچے کا گم ہوجانا اس سے کئی گنا بڑا صدمہ ہے۔ فوت ہونے کی صورت میں اپنے سامنے تجہیز و تکفین ہونے سے اپنے ہاتھوں دفن کرنے اور قبر بنا لینے سے کسی قدر صبر کا دامن ہاتھ میں رہتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس صبر میں ثبات پیدا ہوتا جاتا ہے۔ مگر بچے کے گم ہونے کی صورت میں اس کی یاد مستقل طور پر انسان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ یہ خیال کسی وقت چین نہیں لینے دیتا کہ نہ معلوم بچہ زندہ ہے یا فوت ہوگیا ہے۔ اور اگر زندہ ہے تو کہاں ہے ؟ اور کس حال میں ہے ؟ یہی دکھ تھا جو حضرت یعقوب کو اندر ہی اندر کھا گیا تھا اور رو رو کر آپ کی آنکھیں سفید ہوچکی تھیں۔ آپ کو وحی کے ذریعے یہ تو بتلا دیا گیا تھا کہ یوسف زندہ ہیں اور آپ سے ضرور ملیں گے مگر کہاں ہیں ؟ کس حال میں ہیں ؟ اور کب ملیں گے ؟ یہ وہ سوالات تھے جو آپ کو سالہا سال سے مسلسل کرب میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔ اب بن یامین کی جدائی پر یوسف کا غم پوری شدت سے عود کر آیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani