91۔ 1 بھائیوں نے جب یوسف (علیہ السلام) کی شان دیکھی تو اپنی غلطی اور کوتاہی کا اعتراف کرلیا۔
[٨٨] سیدنا یوسف کے اس جواب پر ان کے سارے کارنامے ان کی آنکھوں کے سامنے پھرگئے اور برملا اعتراف کرنے لگے بیشک غلط کار ہم ہی تھے اور آپ اسی عزت کے مستحق تھے جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے پھر اس خیال سے کہ اگرچہ شاہ مصر ان کا بھائی ہے وہ اس وقت بادشاہ ہے۔ ممکن ہے ہمیں سابقہ خطاؤں پر مؤاخذہ کرے۔ لہذا دل ہی دل میں کچھ ڈر بھی رہے تھے۔
قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ ۔۔ : بھائیوں کے سامنے اپنے ظلم و ستم کا وہ سارا منظر آگیا جو ان کے ہاتھوں ہوا تھا تو انھوں نے قسم کھا کر اعتراف کیا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر، تقویٰ اور دوسری صفات حسنہ کی وجہ سے ہم پر برتری اور فوقیت عطا فرمائی ہے۔ ” وَاِنْ كُنَّا “ اصل میں ” اِنَّا کُنَّا “ تھا، جس کی دلیل ” خَاطِءِیْنَ “ پر آنے والا لام ہے۔ ” اِنَّ “ اور لام کے ساتھ تاکید بھی قسم ہی کی ایک صورت ہے کہ یقیناً ہم آپ پر ظلم کرکے جانتے بوجھتے ہوئے غلط اور گناہ کا کام کرنے والے تھے۔ ” خَاطِءِیْنَ “ اور ” مُخْطِءِیْنَ “ کے فرق کے لیے دیکھیے آیت (٢٩) کی تفسیر۔ بھائیوں کے اعتراف گناہ کے بعد یوسف (علیہ السلام) کی سینے کی وسعت اور حوصلہ مندی دیکھیے، ابھی انھوں نے صرف گناہ کا اعتراف اور عذر ہی کیا ہے، معافی مانگنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی بول اٹھے : (لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ) کہ آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔
اب تو برادران یوسف کے پاس بجز جرم وخطا کے اعتراف اور یوسف (علیہ السلام) کے فضل و کمال کے اقراء کے چارہ نہ تھا سب نے یک زبان ہو کر کہا (آیت) تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕيْنَ بخدا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم سب پر فضیلت اور برتری عطا فرمائی اور آپ اسی کے مستحق تھے اور ہم نے جو کچھ کیا بیشک ہم اس میں خطا وار تھے للہ معاف کر دیجئے یوسف (علیہ السلام) نے جواب میں اپنی پیغمبرانہ شان کے مطابق فرمایا،
قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕيْنَ 91- أثر - والإيثار للتفضل ومنه :[ آثرته، وقوله تعالی: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر 9] وقال : تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 91] وبَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ الأعلی 16] .- وفي الحدیث : «سيكون بعدي أثرة» «5» أي : يستأثر بعضکم علی بعض .- ( ا ث ر )- اور الایثار ( افعال ) کے معنی ہیں ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری پر ترجیح دینا اور پسندکرنا اس سے آثرتہ ہے یعنی میں نے اسے پسند کیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر : 9] دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا [يوسف : 91] بخدا اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت بخشی ہے ۔ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [ الأعلی : 16] مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ (5) حدیث میں ہے : سیکون بعدی اثرۃ ۔ ( میرے بعد تم میں خود پسندی آجائے گی ) یعنی تم میں سے ہر ایک اپنے کو دوسروں سے بہتر خیال کرے گا ۔ - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے
(٩١) چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی حضرت یوسف (علیہ السلام) سے بطور معذرت کہنے لگے بخدا تمہیں اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضیلت فرمائی ہے اور جو کچھ تم نے کیا بیشک اس میں ہم آپ کے ساتھ برائی کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے تھے۔
(قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕيْنَ )- یقیناً ہم خطاکار ہیں بلاشبہ ظلم و زیادتی کے مرتکب ہم ہی ہوئے تھے۔