Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی پیغمبرانہ عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ جو ہوا سو ہوا۔ آج تمہیں کوئی سرزنش اور ملامت نہیں کی جائے گی۔ فتح مکہ والے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مکہ کے ان کفار اور سردران قریش کو، جو آپ کے خون کے پیاسے تھے اور آپ کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی تھیں، یہی الفاظ ارشاد فرما کر انھیں معاف فرما دیا تھا۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٩] سیدنا یوسف (علیہ السلام) کا بھائیوں کو فراخدلی سے معاف کردینا :۔ سیدنا یوسف نے ان کے اس اندیشہ کو بھانپ لیا اور انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا جو ہوچکا سو ہوچکا۔ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، کوئی سرزنش نہیں اور آئندہ میں تمہاری ایسی تقصیر کا ذکر بھی نہ کروں گا۔ میں نے سب کچھ تمہیں معاف کیا اور اللہ سے دست بدعا ہوں کہ وہ بھی تمہیں معاف فرما دے اور مجھے قوی امید ہے کہ وہ ضرور تمہیں معاف فرما دے گا، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ :” تَثْرِيْبَ “ کے معنی ملامت، ڈانٹ ڈپٹ، گناہ یاد دلانا سبھی آتے ہیں۔ فرمایا تمہیں ہرگز کوئی ملامت نہیں کرتا، نہ ڈانٹ ڈپٹ، نہ تمہیں کوئی یہ زیادتی یاد دلائے گا۔ ” الْيَوْمَ “ کا معنی صرف آج کا دن نہیں بلکہ مطلق زمانے کے لیے ہے، یعنی اب آئندہ تم پر کوئی ملامت نہیں۔- 3 یہ ہے شان نبوت، اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو ایسے قصور واروں پر قابو پالینے کے بعد انھیں ہرگز معاف نہ کرتا۔ یہی سلوک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد وہاں کے رہنے والوں سے فرمایا۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) قریش کے سرداروں اور بڑے بڑے لوگوں نے کعبہ میں پنا لی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، بیت اللہ کا طواف کیا اور ان (٣٦٠) بتوں کے پاس سے گزرتے ہوئے انھیں کمان کے کنارے کے ساتھ ٹھوکا مارتے گئے اور یہ فرماتے گئے : (جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا) [ بنی إسرائیل : ٨١ ] جب فارغ ہوئے اور نماز پڑھ لی تو آکر دروازے کی چوکھٹ کے دونوں کناروں کو پکڑا، پھر فرمایا : ” اے معشر قریش (بولو) کیا کہتے ہو ؟ “ انھوں نے کہا : ” ہم کہتے ہیں (آپ) رحیم و کریم بھتیجے اور چچا زاد (بھائی) ہیں۔ “ آپ نے پھر ان کے سامنے اپنی بات دہرائی، انھوں نے وہی جواب دیا، تو آپ نے فرمایا : ” پھر میں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا : (لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۭ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ۡ وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ) چناچہ وہ سب نکل کر آئے اور آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی۔ [ سنن الکبریٰ للنساءي : ٦؍٣٨٢، ٣٨٣ ح : ١١٢٩٨ ] یہ ہے اصل صلہ رحمی، عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَافِئِ وَلَکِنَّ الْوَاصِلُ الَّذِيْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا ) [ بخاري، الأدب، باب لیس الواصل بالمکافأ : ٥٩٩١ ] ” صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو صلہ رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی کرتا ہے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی رشتہ داری قطع کی جائے تو وہ اسے ملائے۔ “- يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) نے نہ صرف انھیں معاف فرما دیا بلکہ ان کی درخواست کے بغیر ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحم کی دعا بھی کردی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ یعنی میں تم سے تمہارے مظالم کا انتقام تو کیا لیتا، آج تم پر کوئی ملامت بھی نہیں کرتا، یہ تو اپنی طرف سے معافی کی خوشخبری سنا دی، پھر اللہ تعالیٰ سے سے دعاء کی يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ۡ وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ " یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں کو معاف فرما دیں، وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں "- اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰي وَجْهِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرً آ وَاْتُوْنِيْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِيْنَ یعنی میں تم سے تمہارے مظالم کا انتقام تو کیا لیتا آج تم پر کوئی ملامت بھی نہیں کرتا یہ تو اپنی طرف سے معافی کی خوش خبری سنا دی پھر اللہ تعالیٰ سے دعاء کی يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ۡ وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں کو معاف فرما دیں وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں - پھر فرمایا اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰي وَجْهِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرً آ وَاْتُوْنِيْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِيْنَ یعنی میرا یہ کرتہ لے جاؤ اور اس کو میرے والد کے چہرے پر ڈال دو اس سے ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں گی جس سے وہ یہاں تشریف لا سکیں گے اور اپنے باقی گھر والوں کو بھی سب کو میرے پاس لے آؤ (تاکہ سب ملیں اور خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں اور شکر گذار ہوں)- احکام و ہدایات :- آیات مذکورہ سے بہت سے احکام و مسائل اور انسانی زندگی کے لئے اہم ہدایات حاصل ہوئیں - اول : لفظ تَصَدَّقْ عَلَيْنَا سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ برادران یوسف (علیہ السلام) اولاد انبیاء ہیں ان کے لئے صدقہ و خیرات کیسے حلال تھا ؟ دوسرے اگر صدقہ حلال بھی ہو تو سوال کرنا کیسے جائز تھا برادران یوسف اگر انبیاء بھی نہ ہوں تو بھی یوسف (علیہ السلام) تو پیغمبر تھے انہوں نے اس غلطی پر کیوں متنبہ نہیں فرمایا ؟- اس کا ایک واضح جواب تو یہ ہے کہ یہاں لفظ صدقہ سے حقیقی صدقہ مراد نہیں بلکہ معاملے میں رعایت کرنے کو صدقہ و خیرات کرنے سے تعبیر کردیا ہے کیونکہ بالکل مفت غلہ کا سوال تو انہوں نے کیا ہی نہ تھا بلکہ کچھ نکمی چیزیں پیش کی تھیں اور درخواست کا حاصل یہ تھا کہ ان کم قیمت چیزوں کو رعایت کر کے قبول فرما لیں اس کے علاوہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اولاد انبیاء کے لئے صدقہ و خیرات کی حرمت صرف امت محمدیہ کے ساتھ مخصوص ہو جیسا کہ ائمہ تفسیر میں سے مجاہد (رح) کا یہی قول ہے (بیان القرآن )- اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ صدقہ و خیرات کرنے والوں کو جزائے خیر دیتے ہیں مگر اس میں تفصیل یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کی ایک جزاء تو عام ہے جو ہر مومن کافر کو دنیا میں ملتی ہے وہ ہے رَدّبلا اور دفع مصائب اور ایک جزاء آخرت کے ساتھ مخصوص ہے یعنی جنت وہ صرف اہل ایمان کا حصہ ہے یہاں چونکہ مخاطب عزیز مصر ہے اور برادران یوسف (علیہ السلام) کو ابھی تک یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مومن ہے یا نہیں اس لئے ایسا عام جملہ اختیار کیا جس میں دنیا و آخرت دونوں کی جزاء شامل ہے (بیان القرآن)- اس کے علاوہ یہ معلوم بظاہر موقع تو اس جگہ اس کا تھا کہ چونکہ عزیز مصر سے خطاب تھا اس لئے اس جملہ میں بھی خطاب ہی کے صیغہ سے یہ کہا جاتا کہ تم کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دیں گے لیکن چونکہ ان کا تو مومن ہونا معلوم نہ تھا اس لئے عام عنوان اختیار کیا اور خصوصی طور پر ان کو جزا ملنے کا ذکر نہیں کیا (قرطبی)- قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا سے ثابت ہوا کہ جب انسان کسی تکلیف و مصیبت میں گرفتار ہو اور پھر اللہ تعالیٰ اس سے نجات عطا فرما کر اپنی نعمت سے نوازیں تو اب اس کو گذشتہ مصائب کا ذکر کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے اس انعام و احسان ہی کا ذکر کرنا چاہئے جو اب حاصل ہوا ہے مصیبت سے انعام الہی کے حصول کے بعد بھی پچھلی تکلیف و مصیبت کو روتے رہنا ناشکری ہے ایسے ہی ناشکرے کو قرآن عزیز میں كَنُوْدٌ کہا گیا ہے اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ، کنود کہتے ہیں اس شخص کو جو احسانات کو یاد نہ رکھے صرف تکلیفوں اور مصیبتوں کو یاد رکھے، اسی لئے یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں کے عمل سے عرصہ دراز تک جن مصیبتوں سے سابقہ پڑا تھا ان کا اس وقت کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات ہی کا ذکر فرمایا۔- صبر وتقویٰ ہر مصیبت کا علاج ہے :- اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ سے معلوم ہوا کہ تقوٰی یعنی گناہوں سے بچنا اور تکلیفوں پر صبر و اثبات قدم، یہ دو صفتیں ایسی ہیں جو انسان کو ہر بلاء و مصیبت سے نکال دیتی ہیں قرآن کریم نے بہت سے مواقع میں انہی دو صفتوں پر انسان کی فلاح و کامیابی کا مدار رکھا ہے ارشاد ہے وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا یعنی اگر تم نے صبر وتقویٰ اختیار کرلیا تو دشمنوں کی مخالفانہ تدبیریں تمہیں کوئی گزند اور نقصان نہ پہنچا سکیں گی، یہاں بظاہر یہ دعویٰ معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اپنے متقی اور صابر ہونے کا ادعاء کر رہے ہیں کہ ہمارے صبر وتقویٰ کی وجہ سے ہمیں مشکلات سے نجات اور درجات عالیہ نصیب ہوئے مگر کسی کو خود اپنے تقوے کا دعویٰ کرنا بنص قرآن ممنوع ہے فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى یعنی اپنی پاکی نہ جتلاؤ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ کون متقی ہے مگر یہاں درحقیقت دعویٰ نہیں بلکہ تحدیث بالنعمۃ اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر ہے کہ اس نے اول ہم کو صبر وتقویٰ کی توفیق عطا فرمائی پھر اس کے ذریعہ تمام نعمتیں عطا فرمائیں لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ یعنی آج تم پر کوئی ملامت نہیں یہ اخلاق کریمانہ کا اعلیٰ مقام ہے کہ ظالم کو صرف معاف ہی نہیں کردیا بلکہ یہ بھی واضح کردیا کہ اب تم پر کوئی ملامت بھی نہیں ،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۭ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ۡ وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ 92؁- ثرب - التَّثْرِيب : التقریع والتقریر بالذنب . قال تعالی: لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ [يوسف 92] ، وروي : «إذا زنت أمة أحدکم فلیجلدها ولا يثرّبها» «1» ، ولا يعرف من لفظه إلا قولهم :- الثَّرْبُ ، وهو شحمة رقیقة، وقوله تعالی: يا أَهْلَ يَثْرِبَ [ الأحزاب 13] ، أي : أهل المدینة، يصح أن يكون أصله من هذا الباب والیاء تکون فيه زائدة .- ( ث ر ب ) التثریب - ( تفیل ) کے معنی ہیں کسی کو اس کی پر سر زنش اور زجرو توبیخ کرنا قرآن میں ہے ؛۔ - لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ [يوسف 92] یوسف نے کہا کہ آج کے دن ( سے ) تم پر کچھ عتاب ( وملامت ) نہیں ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ «إذا زنت أمة أحدکم فلیجلدها ولا يثرّبها»جب کوئی لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑی لگائیں اور صرف ملامت پر اکتفا نہ کرے ۔ اور عربی زبان میں اس سے صرف ثرب کا لفظ معروف ہے جس کے معنی باریک اور پتلی سی چربی کے ہیں ( جو انتڑیوں کے ساتھ ہوتی ہے ) اور آیت کریمہ :۔ يا أَهْلَ يَثْرِبَ [ الأحزاب 13] اسی مادہ سے ہوا ور اس میں یاء زائدہ ہو ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٢) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا تم پر آج کے بعد میری طرف سے کوئی الزام نہیں جو کچھ تم سے قصور ہوا اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمائے وہ والدین سے زیادہ مہربان ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ )- یہ اس قدر معمولی بات نہیں تھی جسے اس ایک فقرے میں ختم کردیا جاتا ‘ مگر حضرت یوسف کی شخصیت کے ترفع اور اخلاق کی عظمت کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے ان خطا کار بھائیوں کو فوراً غیر مشروط طور پر معاف کردیا۔ - یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ نبی اکرم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مخالفین جن کے جرائم کی فہرست بڑی طویل اور سنگین تھی کو معاف کرتے ہوئے حضرت یوسف کے اسی قول کا تذکرہ کیا تھا۔ آپ نے فرمایا : (اَنَا اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ یُوْسُفُ : لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ) ” میں آج (تمہارے بارے میں) وہی کہوں گا جو میرے بھائی حضرت یوسف نے (اپنے بھائیوں سے) کہا تھا : (جاؤ) تم پر آج کوئی گرفت نہیں ہے “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani