Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

چونکہ اللہ کے رسول حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے رنج وغم میں روتے روتے نابینا ہو گئے تھے ، اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ میرا یہ کرتہ لے کر تم ابا کے پاس جاؤ ، اسے ان کے منہ پر ڈالتے ہی انشاء اللہ ان کی نگاہ روشن ہو جائے گی ۔ پھر انہیں اور اپنے گھرانے کے تمام اور لوگوں کو یہیں میرے پاس لے آؤ ۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے نکلا ، ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف کی خوشبو بہنچا دی تو آپ نے اپنے ان بچوں سے جو آپ کے پاس تھے فرمایا کہ مجھے تو میرے پیارے فرزند یوسف کی خوشبو آ رہی ہے لیکن تم تو مجھے سترا بہترا کم عقل بڈھا کہہ کر میری اس بات کو باور نہیں کرنے کے ۔ ابھی قافلہ کنعان سے آٹھ دن کے فاصلے پر تھا جو بحکم الہی ہوا نے حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کے پیراہن کی خوشبو پہنچا دی ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کی مدت اسی سال کی گزر چکی تھی اور قافلہ اسی فرسخ آپ سے دور تھا ۔ لیکن بھائیوں نے کہا آپ تو یوسف کی محبت میں غلطی میں پڑے ہوئے ہیں نہ غم آپ کے دل سے دور ہو نہ آپ کو تسلی ہو ۔ ان کا یہ کلمہ بڑا سخت تھا کسی لائق اولاد کو لائق نہیں کہ اپنے باپ سے یہ کہے نہ کسی امتی کو لائق ہے کہ اپنی نبی سے یہ کہے.

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 قمیص کے چہرے پر پڑنے سے آنکھوں کی بینائی کا بحال ہونا، ایک اعجاز اور کرامت کے طور پر تھا۔ 93۔ 2 یہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے پورے خاندان کو مصر آنے کی دعوت دی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٠] بھائیوں کے ہاتھ قمیص بھیجنا اور سارے خاندان کو مصر لانے کی تاکید کرنا :۔ برادران یوسف کی سیدنا یوسف سے اس طرح حیرت انگیز ملاقات کے نتیجہ میں دو مسئلے از خود حل ہوگئے۔ ایک وہ مہم جس پر باپ نے ان بیٹوں کو بھیجا تھا۔ یعنی وہ جاکر یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کریں اور دوسرے غلہ کی فراہمی کا مسئلہ جس کے لیے برادران یوسف تھوڑا عرصہ پہلے شاہ مصر کے سامنے نہایت عاجزی سے التجا کر رہے تھے۔ اب وہ بس سیدنا یوسف کے حکم کے منتظر تھے چناچہ سیدنا یوسف نے کہا کہ تم اب واپس جاؤ اور اپنے پورے خاندان کو میرے ہاں لے آؤ اور یہ میری قمیص لے جاؤ اسے میرے والد کے چہرے پر پھراؤ گے تو انشاء اللہ ان کی بینائی بحال ہوجائے گی۔ بینائی کی واپسی کی وجہ کچھ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جس کے فراق میں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔ اسی کے وصال سے وہ مصیبت دور بھی ہوجاتی اور اس طرح بینائی واپس آنا ممکن ہوتا ہے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شدید مرض میں مبتلا مریض کے پاس جب کوئی ایسا قریبی رشتہ دار آجاتا ہے جس سے اسے دلی لگاؤ ہو تو مریض خود بخود ہی تندرست ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ ایسا بھی کسی سخت صدمہ یا غیر معمولی خوشی کے اثر سے بعض نابینا دفعتًا بینا بن گئے۔ تاہم اگر اس بات کو سیدنا یوسف کے معجزہ پر محمول کیا جائے تو بھی کچھ مضائقہ نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ۔۔ : بھائیوں کو معاف کردینے کے بعد گھر کے حالات کا تذکرہ ہوا، والد کے نابینا ہونے کی خبر پر ان کے علاج کے لیے اپنی قمیص بھیجی اور اپنے سارے گھر والوں کو اپنے پاس مصر میں لانے کا حکم دیا۔ یہ قمیص بھی عجیب تھی، کبھی یوسف (علیہ السلام) کو بھیڑیے کے کھا جانے کے ثبوت پر پیش کی گئی اور والد کو نابینا کرگئی اور کبھی یوسف (علیہ السلام) پر ارادۂ زنا کی تہمت لگی تو یہ ان کی صفائی بن گئی، اب اللہ کا حکم ہوا تو یعقوب (علیہ السلام) کی بینائی واپس ملنے کا ذریعہ بن گئی۔ یہ سب میرے مالک کی قدرت و مشیت ہے : (فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) [ یسٓ : ٨٣ ] ” سو پاک ہے وہ کہ اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی کامل بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ “ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی ہر مرض کی اللہ کے ہاں دوا ہے، ایک شخص کے فراق میں یعقوب (علیہ السلام) کی آنکھیں ضائع ہوگئیں، اس کے بدن کی چیز ملنے سے درست ہوگئیں، یہ یوسف (علیہ السلام) کی کرامت تھی۔ “ (موضح) اور خوشی کی شدت سے بینائی میں قوت پیدا ہوجانا طبی طور پر ثابت ہے۔ (رازی) مگر طبی طور پر اس کی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں کہ خوشی سے نابینا بینا ہوجائے، اس لیے اسے معجزہ ہی کہا جائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اب تم (میرے باپ کو جا کر بشارت دو اور بشارت کے ساتھ) میرا یہ کرتہ (بھی) لیتے جاؤ اور اس کو میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو (اس سے) ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں گے (اور یہاں تشریف لے آئیں گے) اور اپنے (باقی) گھر والوں کو (بھی) سب کو میرے پاس لے آؤ (کہ سب ملیں اور خوش ہوں کیونکہ حالت موجودہ میں میرا جانا مشکل ہے اس لئے گھر والے ہی چلے آئیں) اور جب (یوسف (علیہ السلام) سے بات چیت ہوچکی اور آپ کے فرمانے کے موافق کرتہ لے کر چلنے کی تیاری کی اور) قافلہ (شہر مصر سے) چلا (جس میں یہ لوگ بھی تھے) تو انکے باپ نے (پاس والوں سے) کہنا شروع کیا کہ اگر تم مجھ کو بڑھاپے میں بہکی باتیں کرنے والا نہ سمجھو تو ایک بات کہوں کہ مجھ کو تو یوسف کی خوشبو آ رہی ہے (معجزہ اختیاری نہیں ہوتا اس لئے اس سے پہلے یہ ادراک نہ ہوا) وہ (پاس والے) کہنے لگے کہ بخدا آپ تو اپنے اسی پرانے غلط خیال میں مبتلا ہیں (کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ ہیں اور ملیں گے اسی خیال کے غلبہ سے اب خوشبو کا وہم ہوگیا اور واقع میں نہ خوشبو ہے کہ کچھ اور ہے یعقوب (علیہ السلام) خاموش ہو رہے) پس جب (یوسف (علیہ السلام) کے صحیح سلامت ہونے کی) خوش خبری لانے والا (مع کرتہ کے یہاں) آپہنچا تو (آتے ہی) اس نے وہ کرتہ ان کے منہ پر لاکر ڈال دیا پس (آنکھوں کو لگنا تھا اور دماغ میں خوشبو پہنچنا کہ فوراً ہی ان کی آنکھیں کھل گئیں (اور انہوں نے سارا ماجرا آپ سے بیان کیا) آپ نے (بیٹوں سے) فرمایا کیوں میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ اللہ کی باتوں کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے (اور اس لئے میں نے تم کو یوسف (علیہ السلام) کے تجسس کے لئے بھیجا تھا دیکھو آخر اللہ تعالیٰ میری امید راست لایا ان کا یہ قول اس سے اوپر کے رکوع میں آچکا ہے اس وقت) سب بیٹوں نے کہا کہ اے ہمارے باپ ہمارے لئے (خدا سے) ہمارے گناہوں کی دعاء مغفرت کیجئے (ہم نے جو کچھ آپ کو یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں تکلیف دی) ہم بیشک خطا وار تھے (مطلب یہ ہے کہ آپ بھی معاف کر دیجئے کیونکہ عادۃ کسی کے لئے استغفار وہی کرتا ہے جو خود بھی مواخذہ کرنا نہیں چاہتا) یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا عنقریب تمہارے اپنے رب سے دعائے مغفرت کروں گا بیشک وہ غفور رحیم ہے (اور اسی سے ان کا معاف کر دنیا بھی معلوم ہوگیا اور عنقریب کا مطلب یہ ہے کہ تہجد کا وقت آنے دو جو کہ قبولیت کی ساعت ہے کذا فی الدر المنثور مرفوعاً غرض سب مصر کو تیار ہو کر چل دیئے اور یوسف (علیہ السلام) خبر سن کر استقبال کے لئے مصر سے باہر تشریف لائے اور باہر ہی ملاقات کا سامان کیا گیا) پھر جب سب کے سب یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہوں نے (سب سے مل کر ملا کر) اپنے والدین کو اپنے پاس (تعظیماً ) جگہ دی اور (بات چیت سے فارغ ہو کر) کہا سب مصر میں چلیے (اور) انشاء اللہ تعالیٰ (وہاں) امن چین سے رہیے (مفارقت کا غم اور قحط کا الم سب کافور ہوگئے غرض سب مصر میں پہنچے) اور (وہاں پہنچ کر تعظیماً ) اپنے والدین کو تخت (شاہی) پر اونچا بٹھایا اور (اس وقت سب کے قلوب پر یوسف (علیہ السلام) کی ایسی عظمت غالب ہوئی کہ) سب کے سب ان کے سامنے سجدہ میں گر گئے اور (یہ حالت دیکھ کر) وہ کہنے لگے کہ اے ابا یہ ہے میرے خواب کی تعبیر جو پہلے زمانہ میں دیکھا تھا (کہ شمس و قمر اور گیارہ ستارے مجھ کو سجدہ کرتے ہیں) میرے رب نے مجھ پر اور انعامات بھی فرمائے چنانچہ) میرے ساتھ (ایک) اس وقت احسان فرمایا جس وقت مجھ کو قید سے نکالا (اور اس مرتبہ سلطنت تک پہنچایا) اور (دوسرا یہ انعام فرمایا کہ) بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان میں فساد ڈلوا دیا تھا (جس کا مقتضاء یہ تھا کہ عمر بھر میں مجتمع و متفق نہ ہوتے مگر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ وہ) تم سب کو (جن میں میرے بھائی بھی ہیں) باہر سے (یہاں) لے آیا (اور سب کو ملادیا) بلاشبہ میرا رب جو چاہتا ہے اس کی تدبیر لطیف کردیتا ہے بلاشبہ وہ بڑا علم اور حکمت والا ہے (اپنے علم و حکمت سے سب امور کی تدبیر درست کردیتا)- معارف و مسائل :- حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ سے متعلق سابقہ آیات میں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ جب باذن خداوندی اس کا وقت آ گیا کہ یوسف (علیہ السلام) اپنا راز بھائیوں پر ظاہر کردیں تو انہوں نے حقیقت ظاہر کردی بھائیوں نے معافی مانگی انہوں نے نہ صرف یہ کہ معاف کردیا بلکہ گذشتہ واقعات پر کوئی ملامت کرنا بھی پسند نہ کیا ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی اور اب والد سے ملاقات کی فکر ہوئی حالات کے لحاظ سے مناسب یہ سمجھا کہ والد صاحب ہی مع خاندان کے یہاں تشریف لائیں مگر معلوم ہوچکا تھا کہ ان کی بینائی اس مفارقت میں جاتی رہی اس لئے سب سے پہلے اس کی فکر ہوئی اور بھائیوں سے کہا،- اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰي وَجْهِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا یعنی تم میرا یہ کرتا لے جاؤ اور میرے والد کے چہرے پر ڈال دو تو ان کی بینائی عود کر آئے گی یہ ظاہر ہے کہ کسی کے کرتے کا چہرہ پر ڈال دینا بینائی کے عود کرنے کا کوئی مادی سبب نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ایک معجزہ تھا حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کہ ان کو باذن خداوندی معلوم ہوگیا کہ جب انکا کرتہ والد کے چہرے پر ڈالا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی بینائی بحال فرمادیں گے،- اور ضحاک اور مجاہد وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ یہ اس کرتے کی خصوصیت تھی کیونکہ یہ عام کپڑوں کی طرح نہ تھا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے جنت سے اس وقت لایا گیا تھا جب ان کو برہنہ کر کے نمرود نے آگ میں ڈالا تھا پھر یہ جنت کا لباس ہمیشہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس محفوظ رہا اور ان کی وفات کے بعد حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے پاس رہا ان کی وفات کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ملا آپ نے اس کو ایک بڑی متبرک شے کی حیثیت سے ایک نلکی میں بند کر کے یوسف (علیہ السلام) کے گلے میں بطور تعویذ کے ڈال دیا تھا تاکہ نظر بد سے محفوظ رہیں برادران یوسف نے جب ان کا کرتہ والد کو دھوکہ دینے کے لئے اتار لیا اور وہ برہنہ کر کے کنویں میں ڈال دیئے گئے تو جبرئیل امین تشریف لائے اور گلے میں پڑی ہوئی نلکی کھول کر اس سے یہ کرتہ برآمد کیا اور یوسف (علیہ السلام) کو پہنا دیا اور یہ ان کے پاس برابر محفوظ چلا آیا اس وقت بھی جبرئیل امین ہی نے یوسف (علیہ السلام) کو یہ مشورہ دیا کہ یہ جنت کا لباس ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ نابینا کے چہرے پر ڈال دو تو وہ بینا ہوجاتا ہے اور فرمایا کہ اس کو اپنے والد کے پاس بھیج دیجئے تو وہ بینا ہوجائیں گے،- حضرت مجدد الف ثانی (رح) کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال اور ان کا وجود خود جنت ہی کی ایک چیز تھی اس لئے ان کے جسم سے متصل ہونیوالے ہر کرتے میں یہ خاصیت ہو سکتی ہے (مظہری)- وَاْتُوْنِيْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِيْنَ یعنی تم سب بھائی اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس مصر لے آؤ اصل مقصد تو والد محترم کو بلانے کا تھا مگر یہاں بالتصریح والد کے بجائے خاندان کو لانے کا ذکر کیا شاید اس لئے کہ والد کو یہاں لانے کے لئے کہنا ادب کے خلاف سمجھا اور یہ یقین تھا ہی کہ جب والد کی بینائی عود کر آئے گی اور یہاں آنے سے کوئی عذر مانع نہیں رہے گا تو وہ خود ہی ضرور تشریف لائیں گے قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ برادران یوسف میں سے یہودا نے کہا کہ یہ کرتہ میں لے جاؤں گا کیونکہ ان کے کرتے پر جھوٹاخون لگا کر بھی میں ہی لے گیا تھا جس سے والد کو صدمات پہنچے اب اس کی مکافات بھی میرے ہی ہاتھ سے ہونا چاہئے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰي وَجْهِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا ۚ وَاْتُوْنِيْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِيْنَ 93؀ۧ- قمیص - الْقَمِيصُ معروف، وجمعه قُمُصٌ وأَقْمِصَةٌ وقُمْصَانٌ. قال تعالی: إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف 26] ، وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] وتَقَمَّصَهُ : لبسه، وقَمَصَ البعیر يَقْمُصُ ويَقْمِصُ : إذا نزا، والقُمْاصُ : داء يأخذه فلا يستقرّ به موضعه ومنه ( القَامِصَةُ ) في الحدیث .- ( ق م ص ) القمیص - قمیص ۔ کرتہ ۔ جمع قمص واقمصتہ وقمصان قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف 26] اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو ۔ وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو ۔ تقمصتہ قمیص پہنا ۔ قمص ( ن ۔ ض ) البعیر اونٹ کا جست کرنا ۔ القماص اونٹ کا ایک مرض جو اسے چین سے کھڑا ہونے نہیں دیتا اور اسی سے لفظ قامصتہ ہے جس کو ذکر حدیث میں آیا ہے ( 85 )- لقی - والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٣) اب تم جاکر میرے باپ کو بشارت دو اور میری یہ قمیص بھی لیے جاؤ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی یہ قمیص جنت سے آیا ہوا لباس تھا اور ان کو ان کے چہرہ پر ڈال دو اس سے انکی آنکھیں روشن ہوجائیں گی اور باقی اپنے سب گھر والوں کو بھی جو تقریبا ستر اشخاص تھے میرے پاس لے آؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

57: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام یقینا جانتے ہوں گے کہ ان کی جدائی سے ان کے والد بزرگوار پر کیا گذر رہی ہوگی۔ اس کے باوجود اتنے لمبے عرصے تک انہوں نے کسی بھی ذریعے سے اپنی خیریت کی کوئی خبر اپنے والد کو بھیجنے کی کوشش نہیں کی۔ اوّل تو عزیز کے گھر میں رہنے کے دوران خبر بھیجنا کچھ مشکل نہ ہونا چاہئے تھا، پھر قید سے آزادی کے بعد تو ان کو ملک پر مکمل اِقتدار بھی حاصل ہوچکا تھا، وہ شروع ہی میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور اپنے سارے گھر والوں کو مصر بلانے کا انتظام کرسکتے تھے، اور جو بات اِنہوں نے اپنے بھائیوں سے اب کہی، وہ ان کی پہلی آمد کے موقع پر بھی فرما سکتے تھے، اور اس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے رنج و غم کا زمانہ مختصر ہوسکتا تھا، لیکن اِنہوں نے ایسا کوئی اِقدام نہیں کیا۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان سارے واقعات میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کی بڑی حکمتیں پوشیدہ تھیں، اور اﷲ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے اور رسول حضرت یعقوب علیہ السلام کے صبر و ضبط کا امتحان لینا تھا، اس لئے اُس پورے عرصے میں حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے والد سے رابطہ کریں۔ واللہ سبحانہ اعلم۔