Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 ادھر یہ قمیص لے کر قافلہ مصر سے اور ادھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعجاز کے طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگ گئی یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ کے پیغمبر کو بھی، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع نہ پہنچے، پیغمبر بیخبر ہوتا ہے، چاہے بیٹا اپنے شہر کے کسی کنوئیں ہی میں کیوں نہ ہو، اور جب اللہ تعالیٰ انتظام فرما دے تو پھر مصر جیسے دور دراز کے علاقے سے بھی بیٹے کی خوشبو آجاتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩١] سیدنا یعقوب کا بیٹوں کو یوسف کے زندہ ہونے کی خبر دینا اور ان کا مذاق اڑانا :۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ادھر سینکڑوں میل دور کنعان میں سیدنا یعقوب اپنے جدا شدہ بیٹے یوسف کی بو محسوس کرنے لگے۔ مگر جب ان کے پاس ہی ان کی بستی کے ایک کنوئیں میں پڑے رہے اس وقت اس کا علم نہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ غیب کا اتنا ہی علم عطا کرتا ہے جتنا وہ چاہتا ہے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب چاہتا ہے۔ سیدنا یوسف کی زندگی کے تمام تر واقعات میں اللہ کی مشیئت ہی کام کرتی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب کے صبر و تحمل اور توکل علی اللہ کا پورا پورا امتحان لیا۔ پھر جب اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد اس کے ثمرہ کا وقت آیا تو ملاقات سے پہلے ہی سیدنا یعقوب پر وجدانی کیفیت طاری کردی۔ یا وحی سے مطلع کردیا۔ مگر اس کیفیت کا آپ گھر والوں سے کھل کر اظہار کرنے سے بھی ہچکچا رہے تھے اور جب کہی تو اس انداز سے کہی کہ اگر تم لوگ یوں نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے کی وجہ سے کچھ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہوں تو بات یہ ہے کہ مجھے آج یوسف کی خوشبو آرہی ہے اور مشکل یہ ہے کہ یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ چناچہ گھر والوں نے ویسی ہی باتیں کیں جیسا کہ آپ کو اندیشہ تھا۔ کہنے لگے : یوسف کا ذکر تو تم اکثر کرتے ہی رہتے ہوں، اس کی محبت، اس کے زندہ ہونے اور اس سے دوبارہ ملنے کا یقین تو تمہارے دل میں گھر کرچکا ہے یہ تو وہی پرانی باتیں ہیں جو یوسف کی خوشبو بن کر تمہارے دماغ میں آرہی ہیں۔ یوسف سے والہانہ محبت مختلف تخیلات کی صورت میں تمہارے دل میں گردش کرتی رہتی ہے اور وہی تخیل ہمیں بتانے لگتے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ ۔۔ : اس سے انبیاء کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کا اندازہ ہوتا ہے اور اس حقیقت کا بھی کہ خود ان کے پاس کتنا علم ہوتا ہے۔ یہی قمیص تھی، اسی راستے سے آئی تھی، چند میل دور کنویں میں پڑے ہوئے لخت جگر کا علم نہ ہوسکا، نہ اس کی خوشبو آئی اور جب اللہ تعالیٰ نے بتایا تو قافلے کے نکلتے ہی یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنا شروع ہوگئی۔ یہ واقعہ ان بیشمار دلائل میں سے ایک واضح دلیل ہے کہ انبیاء عالم الغیب نہیں ہوتے، ہاں جتنی بات انھیں وحی کے ذریعے سے بتائی جاتی ہے وہ انھیں معلوم ہوجاتی ہے اور یہی عام آدمی اور نبی کا فرق ہے کہ نبی کو وحی الٰہی ہوتی ہے، دوسرے اس نعمت سے محروم ہیں۔ اس بات کو شیخ سعدی نے کمال خوبی کے ساتھ ” گلستان “ میں نظم کیا ہے ؂- یکے پر سید ازاں گم کردہ فرزند - کہ اے روشن گہر پیر خردمند - زمصرش بوئے پیراہن شمیدی - چرا درچاہ کنعانش ندیدی - بگفت احوال ما برق جہان است - دمے پیدا و دیگردم نہان ست - گہے برطارم اعلی نشینم - گہے برپشتِ پائے خود نہ بینیم - ” یعنی کسی نے اس فرزند کو گم کردینے والے سے پوچھا کہ اے روشن نسب والے عقل مند بزرگ تو نے مصر سے اس کی قمیص کی خوشبو پا لی، تونے اسے کنعان کے کنویں میں کیوں نہ دیکھا، اس نے کہا ہمارے (انبیاء کے) احوال کوندنے والی بجلی کی طرح ہیں، ایک دم ظاہر ہوتے اور دوسرے لمحے پوشیدہ ہوجاتے ہیں، کبھی ہم اعلیٰ و بلند مقام پر بیٹھے ہوتے ہیں، کبھی ہم اپنے پاؤں کی پشت پر (لگی چیز) نہیں دیکھتے۔ “ آخری شعر کے پہلے مصرع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معراج کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے میں جبریل (علیہ السلام) کے نماز کے دوران میں آ کر بتانے کی طرف کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوتے پر نجاست لگی ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوتے نماز ہی میں اتار دیے۔- لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ : یعنی اگر یہ نہ ہو کہ تم کہو گے کہ بڑھاپے اور یوسف کی محبت کی وجہ سے میری عقل میں خلل پڑگیا ہے۔ : یعنی اگر یہ نہ ہو کہ تم کہو گے کہ بڑھاپے اور یوسف کی محبت کی وجہ سے میری عقل میں خلل پڑگیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ یعنی جب قافلہ شہر سے باہر نکلا ہی تھا تو یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے پاس والوں سے کہا کہ اگر تم مجھے بیوقوف نہ کہو تو میں تمہیں بتلاؤں کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے شہر مصر سے کنعان تک ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق آٹھ دن کی مسافت کا راستہ تھا اور حضرت حسن (رض) نے فرمایا کہ اسی ٨٠ فرسخ یعنی تقریبا ڈھائی سو میل کا فاصلہ تھا اللہ تعالیٰ نے اتنی دور سے قمیص یوسف (علیہ السلام) کے ذریعہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو یعقوب (علیہ السلام) کے دماغ تک پہنچا دی اور یہ عجائب میں سے ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے وطن کنعان ہی کے ایک کنویں میں تین روز تک پڑے رہی تو اس وقت یہ خوشبو محسوس نہیں ہوئی یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی معجزہ پیغمبر کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ در حقیقت معجزہ پیغمبر کا اپنا فعل و عمل بھی نہیں ہوتا یہ براہ راست فعل اللہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتے ہیں تو معجزہ ظاہر کردیتے ہیں اور جب اذن خداوندی نہیں ہوتا تو قریب سے قریب بھی بعید ہوجاتا ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ 94؀- فصل - الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] - ( ف ص ل ) الفصل - کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔ - عير - العِيرُ : القوم الذین معهم أحمال المیرة، وذلک اسم للرّجال والجمال الحاملة للمیرة، وإن کان قد يستعمل في كلّ واحد من دون الآخر . قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف 94] ، أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] ، وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف 82] ، - ( ع ی ر ) العیر - قافلہ جو غذائی سامان لاد کر لاتا ہے اصل میں یہ لفظ غلہ بردار اونٹوں اور ان کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے مجموعہ پر بولاجاتا ہے مگر کبھی اس کا استعمال صرف ان اونٹوں پر ہوتا ہے جو غذائی سامان اٹھا کر لاتے ہیں اور کبھی ان لوگوں پر بولا جاتا ہے جو کہیں سے غذائی سامان لاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف 94] جب قافلہ مصر سے ردانہ ہوا ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] کہ قافلے والوں تم تو چور ہو ۔ وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف 82] اور جس قافلے میں ہم آئے ۔ اور عیر کا لفظ متعدد ومعنوں میں استعمال ہوتا ہے ( 1 ) گور کر ( 2 ) پاؤں کی پشت پرا بھری ہوئی پڈی ( 3 ) آنکھوں کی پتلی ، ( 4 ) کان کی پچھلی طرف ابھری ہوئی نرم ہڈی ( 5 ) خس وخا شاک جو پانی کے اوپر جمع ہوجاتا ہے ( 6 ) میخ ( 7 ) تیر کے پھل کا درمیانی حصہ جو اوپر ابھرا ہوا ہونا ہے - فند - التَّفْنِيدُ : نسبة الإنسان إلى الْفَنَدِ ، وهو ضعف الرّأي . قال تعالی: لَوْلا أَنْ تُفَنِّدُونِ- [يوسف 94] ، قيل : أن تلوموني «1» ، وحقیقته ما ذکرت، والْإِفْنَادُ : أن يظهر من الإنسان ذلك، والْفَنَدُ : شمراخ الجبل، وبه سمّي الرّجل فَنَداً.- ( ف ن د ) الفند - کے معنی رائے کی کمزوری کے ہیں اس سے التفنید ( تفعیل ہے جس کے معنی کسی کو کمزور رائے یا فاتر العقل بتانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تُفَنِّدُونِ [يوسف 94] اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی تلومونی یعنی ملامت کے لکھے ہیں لیکن اس کے اصل معنی وہی ہیں ہو جو ہم نے بیان کئے ہیں اور لافناد ( افعال ) کے معنی بہکی بہکی باتیں کرنے کے ہیں ۔ اور فند اصل میں پہاڑ کی چوٹی کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے بوڑھے کھوسٹ کو فند کہا جاتا ہے ( کیونکہ وہ بھی عمر کی انہتا کو پہنچ چکا ہوتا ہے ) ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٤۔ ٩٥) چناچہ جب قافلہ مقام عریش سے جو کہ مصر اور کنعان کے درمیان ایک بستی تھی قمیص لے کر چل پڑا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ارد گرد کے لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ اگر تم مجھ کو بہکی باتیں کرنے والا نہ سمجھو اور میری بات کو جھوٹ نہ سمجھو تو ایک بات کہتا ہوں کہ مجھے یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آرہی ہے انکے پاس جو انکے پوتے پڑپوتے موجود تھے وہ کہنے لگے بخدا آپ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں اپنی اسی خام خیالی پر قائم ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ )- یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ جونہی حضرت یوسف کی قمیص لے کر قافلہ مصر سے چلا اسی لمحے کنعان میں حضرت یعقوب کو اپنے بیٹے کی خوشبو پہنچ گئی۔ مگر اس سے پہلے ایک طویل عرصے تک آپ نے اپنے بیٹے کے ہجر میں رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کرلیں مگر یہ خوشبو نہیں آئی۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی نبی ہو یا ولی ‘ کسی معجزے یا کرامت کا ظہور کسی بھی شخصیت کا ذاتی کمال نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ وہ جس کو جس وقت جو علم چاہے عطا فرما دے یا اس کے ہاتھوں جو چاہے دکھا دے۔ جیسے ایک دفعہ حضرت عمر کو مسجد نبوی میں خطبہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے شام کے علاقے میں واقع اس میدان جنگ کا نقشہ دکھا دیا جہاں اس وقت اسلامی افواج برسر پیکار تھیں اور آپ نے فوج کے کمانڈر ساریہ کو ایک حربی تدبیر اختیار کرنے کی بآواز بلند تلقین فرمائی۔ جناب ساریہ نے میدان جنگ میں حضرت عمر کی آواز سنی اور آپ کی ہدایت پر عمل کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر کو اختیار تھا کہ جب چاہتے ایسا منظر دیکھ لیتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

٦٦ ۔ اس سے انبیاء علیہم السلام کی غیر معمولی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی قافلہ حضرت یوسف کا قمیص لیکر مصر سے چلا ہے اور ادھر سیکڑوں میل کے فاصلے پر حضرت یعقوب اس کی مہک پا لیتے ہیں ، مگر اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ قوتیں کچھ ان کی ذاتی نہ تھیں بلکہ اللہ کی بخشش سے ان کو ملی تھیں اور اللہ جب اور جس قدر چاہتا تھا انہیں کام کرنے کا موقع دیتا تھا ۔ حضرت یوسف برسوں مصر میں موجود رہے اور کبھی حضرت یعقوب کو ان کی خوشبو نہ آئی ۔ مگر اب یکایک قوت ادراک کی تیزی کا یہ عالم ہوگیا کہ ابھی ان کا قمیص مصر سے چلا ہے اور وہاں ان کی مہک آنی شروع ہوگئی ۔ یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ایک طرف قرآن حضرت یعقوب کو اس پیغمرانہ شان کے ساتھ پیش کر رہا ہے ، اور دوسری طرف بنی اسرائیل ان کو ایسے رنگ میں دکھاتے ہیں جیسا عرب کا ہر معمولی بد ہوسکتا ہے ، بائیبل کا بیان ہے کہ جب بیٹوں نے آکر خبر دی کہ یوسف اب تک جیتا ہے اور وہی سارے ملک مصر کا حاکم ہے تو یعقوب کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ اس نے ان کا یقین نہ کیا ، اور جب ان کے باپ یعقوب نے وہ گاڑیاں دیکھ لیں جو یوسف نے ان کو لانے کے لیے بھیجی تھیں تب اس کی جان میں جان آئی ، پیدائش: ٤۵ ، ۲٦ ، ۲۷ٌ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

58: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے سب گھر والوں کو مصر لے آئیں۔ چنانچہ وہ ایک قافلے کی صورت میں مصر سے روانہ ہوئے۔ ادھر وہ مصر سے نکلے اور اُدھرکنعان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو آنے لگی۔ یہ دونوں پیغمبروں کا ایک معجزہ تھا، اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے لئے بشارت کہ ان کی آزمائش کا زمانہ ختم ہونے والا ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کنعان کے قریب ہی کنویں میں موجود تھے، اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کی خوشبو نہیں آئی۔ اس کے علاوہ مصر میں قیام کے دوران بھی اِنہیں اِس سے پہلے اس کا اِحساس نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ کسی نبی کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ جب چاہتے ہیں، اس کا مظاہرہ فرما دیتے ہیں۔