کہتے ہیں کہ پیراہن یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے یہودا لائے تھے ۔ اس لئے کہ انہوں نے ہی پہلے جھوٹ موٹ وہ کرتا پیش کیا تھا ۔ جسے خون آلود کر کے لائے تھے اور باپ کو یہ سمجھایا تھا کہ یوسف کا خون ہے ، اب بدلے کے لئے یہ کرتہ بھی یہی لائے کہ برائی کے بدلے بھلائی ہو جائے بری خبر کے بدلے خوشخبری ہو جائے ۔ آتے ہی باپ کے منہ پر ڈالا ۔ اسی وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں کھل گئیں اور بچوں سے کہنے لگے دیکھو میں تو ہمیشہ تم سے کہا کرتا تھا کہ اللہ کی بعض وہ باتیں میں جانتا ہوں جن سے تم محض بےخبر ہو ۔ میں تم سے کہا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے یوسف کو ضرور مجھ سے ملائے گا ، ابھی تھوڑے دنوں کا ذکر ہے کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے آج میرے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے ۔ باپ جواب میں فرماتے ہیں کہ مجھے اس سے انکار نہیں اور مجھے اپنے رب سے یہ بھی امید ہے کہ وہ تمہاری خطائیں معاف فرما دے گا اس لئے کہ وہ بخششوں اور مہربانیوں والا ہے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرما لیا کرتا ہے میں صبح سحری کے وقت تمہارے لئے استغفار کروں گا ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں آتے تو سنتے کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ اللہ تو نے پکارا ، میں نے مان لیا تو نے حکم دیا میں بجا لایا ، یہ سحر کا وقت ہے ، پس تو مجھے بخش دے ، آپ نے کان لگا کر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر سے یہ آواز آ رہی ہے ۔ آپ نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا یہی وہ وقت ہے جس کے لئے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ میں تمہارے لئے تھوڑی دیر بعد استغفار کروں گا ۔ حدیث میں ہے کہ یہ رات جمعہ کی رات تھی ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جب جمعہ کی رات آ جائے ۔ لیکن یہ حدیث غریب ہے ۔ بلکہ اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے واللہ اعلم ۔
96۔ 1 یعنی جب وہ خوشخبری دینے والا آگیا اور آکر وہ قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دی تو اس سے معجزانہ طور پر ان کی بینائی بحال ہوگئی۔ 96۔ 2 کیونکہ میرے پاس ایک ذریعہ علم وحی بھی ہے، جو تم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو حالات سے مشیت و مصلحت آگاہ کرتا رہتا ہے۔
[٩٢] یعقوب کی بینائی کی واپسی :۔ یہ خوشخبری دینے والا ان کا بڑا بھائی یہودا تھا۔ یہودا ہی تھا جس نے سیدنا یوسف کو قتل کرنے سے بھائیوں کو روکا تھا اور کہا تھا کہ قتل کے بجائے اسے کسی گمنام کنویں میں ڈال دیا جائے نیز وہ یہودا ہی تھا جس نے کہا تھا کہ میں اب واپس جاکر کیسے اپنا منہ اپنے باپ کو دکھاؤں۔ لہذا میں اب یہاں مصر میں رہوں گا اور یہ یہودا ہی تھا جو قافلہ سے پہلے سیدنا یوسف کی قمیص لے کر اپنے باپ کے پاس پہنچ گیا اور انھیں یوسف اور بن یمین کے مل جانے کی خوشخبری سنائی۔ پھر قمیص آپ کے چہرہ پر ڈالی تو دفعتًا آپ کی بینائی لوٹ آئی، آنکھیں درست ہوگئیں اور سب کچھ نظر آنے لگا۔ پھر اسی نے بتایا کہ میرے باقی بھائی بھی پہنچ رہے ہیں نیز یہ کہ یوسف نے ہم سب کو اور ہمارے سارے خاندان کو اپنے پاس بلایا ہے اور اب ہم اسی غرض سے یہاں آئے ہیں۔ اس وقت سیدنا یعقوب نے سب گھر والوں سے کہا کہ اب تو تم اس حقیقت کو جان ہی گئے ہوگے کہ جو کچھ میں کہتا تھا درست تھا۔ اس لیے کہ میں وہ کچھ جانتا تھا جو تم جان ہی نہیں سکتے تھے اور وہ باتیں یہ تھیں کہ یوسف یقینا زندہ ہے اسی لئے آپ نے بیٹوں کو اس کی تلاش میں بھیجا تھا نیز یہ کہ اس سے ملاقات ضرور ہوگی اور اللہ ہم سب کو کسی وقت اکٹھا کردے گا، اور ان باتوں کا ماخذ علم وحی بھی ہوسکتا ہے جو صرف انبیاء کو عطا ہوتا ہے اور وہ خواب بھی جسے آپ اور سیدنا یوسف کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔
” فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ “ اور ” فَلَمَّا جَاءَ الْبَشِیْرُ “ کے ترجمے کے فرق کی تفصیل کے لیے دیکھیے اسی مترجم قرآن کے عرض مترجم میں سے فائدہ (٨) خوش خبری لانے والے نے آتے ہی چہرے پر قمیص ڈالی اور یوسف (علیہ السلام) کے زندہ ہونے کی خوش خبری دی تو اسی وقت آنکھیں دوبارہ روشن ہوگئیں۔ - مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : یوسف (علیہ السلام) کی قمیص سے آنکھیں روشن ہونے اور ان کے زندہ ہونے کی خوش خبری آنے پر فرمایا کہ میں نے تمہیں کہا نہ تھا : (اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) یعنی مجھے وحی الٰہی سے وہ باتیں معلوم ہوتی ہیں جو تم نہیں جانتے۔ مراد اپنے بچوں کو ملامت کرنا نہ تھا بلکہ تربیت کرنا تھا، تاکہ وہ نبوت کے مقام کو سمجھیں اور نبی کی بات کو محبت کے غلو پر یا عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے خرابی عقل پر محمول نہ کریں، مثلاً یہ یقین کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ ہے، اللہ تعالیٰ اسے ضرور ملائے گا، یا یہ بات کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔
(آیت) فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ یعنی جب یہ بشارت دینے والا کنعان پہنچا اور قمیص یوسف (علیہ السلام) کو یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو فورا ان کی بنیائی عود کر آئی بشارت دینے والا وہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بھائی یہودا تھا جو ان کا کرتہ مصر سے لایا تھا،- قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ ڌ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی کیا میں نہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ علم حاصل ہے جس کی آپ لوگوں کو خبر نہیں کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ ہیں اور وہ پھر ملیں گے
فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًا ۚ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ ڌ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ - بشیر - ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64]- والبشیر : المُبَشِّر، قال تعالی: فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] - ( ب ش ر ) البشر - اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- البشیر - خوشخبری دینے والا ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا پہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہوگئے ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - رد - والارْتِدَادُ والرِّدَّةُ : الرّجوع في الطّريق الذي جاء منه، لکن الرّدّة تختصّ بالکفر، والارتداد يستعمل فيه وفي غيره، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] - وقوله عزّ وجلّ : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] ، أي : عاد إليه البصر، - ( رد د ) الرد ( ن )- الارتدادؤالردۃ اس راستہ پر پلٹنے کو کہتے ہیں جس سے کوئی آیا ہو ۔ لیکن ردۃ کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے کے ساتھ مختض ہوچکا ہے اور ارتداد عام ہے جو حالت کفر اور دونوں کی طرف لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] بیشک جو لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے ( اس کے ) بعد کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی ۔ - فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] پھر جب ( یوسف (علیہ السلام) کے زندہ و سلامت ہونے ) خوشخبری دینے والا ( یعقوب (علیہ السلام) کے پاس ) آپہنچا تو اس نے آنے کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ) یعقوب (علیہ السلام) ) کے چہرہ پر ڈال دیا تو وہ فورا بینا ہوگئے ۔ یعنی ان کی بینائی ان کی طرف لوٹ آئی
(٩٦۔ ٩٧) چناچہ جب یہودا حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص لے کر انکی سلامتی کی خوشخبری لے کر آیا آپہنچا تو اس نے وہ کرتہ ان کے پر پر لا کر ڈال دیا، فورا ہی ان کی آنکھیں کھل گئیں تو آپ نے اپنے بیٹوں اور پوتوں سے فرمایا کیوں میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے وہ یہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) زندہ ہیں۔ مرے نہیں تو ان کے بیٹوں اور پوتوں نے کہا کہ اے ہمارے باپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کیجیے ہم بیشک گناہ گار اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان تھے۔
آیت ٩٦ (فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًا)- یوسف کی قمیص چہرے پر ڈالتے ہی حضرت یعقوب کی بصارت لوٹ آئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت یعقوب کے سامنے زندگی کا سب سے اندوہناک غم بھی حضرت یوسف کے کرتے ہی کی صورت میں سامنے آیا تھا جب برادران یوسف نے اس پر خون لگا کر ان کے سامنے پیش کردیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا اور اب زندگی کی سب سے بڑی خوشی بھی یوسف کے کرتے ہی کی صورت میں نمودار ہوگئی۔
60: ’’خوشخبری دینے والے‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام کے سب سے بڑے بھائی تھے جن کا نام بعض روایات میں یہوداہ اور بعض میں روبن آیا ہے۔ اور خوشخبری دینے سے مراد یہ خوشخبری ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام ابھی زندہ ہیں، اور انہوں نے سب گھر والوں کو اپنے پاس بلایا ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص چہرے پر ڈالنے سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آگئی۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص سے کئی اہم واقعات ظاہر ہوئے۔ اِنہی کی قمیص کو ان کے بھائی خون لگا کر لائے تھے، اور اس کو صحیح سالم دیکھ کر حضرت یعقوب علیہ السلام یہ سمجھ گئے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیئے نے نہیں کھایا، اور انہی کی قمیص تھی جو زلیخا نے پیچھے سے پھاڑا اور اس سے ان کی بے گناہی ثابت ہوئی، اور اب یہی قمیص تھی جس کی خوشبو حضرت یعقوب علیہ السلام کو دُور سے محسوس ہوئی، بالآخر اسی سے ان کی بینائی واپس آئی۔