Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دعوت حق حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے لئے دعوت حق ہے ، اس سے مراد توحید ہے ۔ محمد بن منکدر کہتے ہیں مراد لا الہ الا اللہ ہے ۔ پھر مشرکوں کافروں کی مثال بیان ہوئی کہ جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں خود بخود پہنچ جائے تو ایسا نہیں ہونے کا ۔ اسی طرح یہ کفار جنہیں پکارتے ہیں اور جن سے امیدیں رکھتے ہیں ، وہ ان کی امیدیں پوری نہیں کرنے کے ۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ جیسے کوئی اپنی مٹھیوں میں پانی بند کر لے تو وہ رہنے کا نہیں ۔ پس باسط قابض کے معنی میں ہے ۔ عربی شعر میں بھی قابض ماء آیا ہے پس جیسے پانی مٹھی میں روکنے والا اور جیسے پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والا پانی سے محروم ہے ، ایسے ہی یہ مشرک اللہ کے سوا دوسروں کو گو پکاریں لیکن رہیں گے محروم ہی دین دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نہ پہنچے گا ۔ ان کی پکار بےسود ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی خوف اور امید کے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے یا دعوت۔ عبادت کے معنی میں ہے یعنی، اسی کی عبادت حق اور صحیح ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر صرف وہی ہے اس لئے عبادت صرف اسی کا حق ہے۔ 14۔ 2 یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کے لئے پکارتا ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دور سے پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھلیاں پھیلا کر پانی سے کہے کہ میرے منہ تک آجا، ظاہر بات ہے کہ پانی جامد چیز ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ہتھیلیاں پھیلانے والے کی حاجت کیا ہے، اور نہ اسے پتہ ہے کہ وہ مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کر کے اس کے ہاتھ یا منہ تک پہنچ جائے اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیں نہ یہ پتہ ہے کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔ 14۔ 3 اور بےفائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے ان کو کئی نفع نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] من دون اللہ کو پکارنے کی مثال :۔ اس لیے کہ وہ پکار سنتا ہے پھر پکارنے والے کی پکار کو قبول کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ رہے مشرکین جو دوسرے معبودوں کو پکارتے ہیں تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پیاسا پانی دیکھ کر ہاتھ پھیلائے ہوئے اسے پکارے کہ آؤ ذرا آکر میری پیاس بجھاؤ۔ ظاہر ہے کہ پانی نہ تو کسی کی پکار سن سکتا ہے نہ ہی پیاسے کے پاس آنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہذا پیاسے کی ایسی پکار ایک لغو اور بےکار فعل ہوتا ہے۔ اسی طرح معبودان باطل کو ہزار بار بھی پکارا جائے تو وہ کچھ سن ہی نہیں سکتے، اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو ایسے بےبس اور مجبور محض ہیں کہ وہ دعا کو قبول کرنے کی قدرت ہی نہیں رکھتے۔ اب وہ خود ہی سوچ لیں کہ انھیں پکارنے کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ : یہاں موصوف اپنی صفت کی طرف مضاف ہے، یعنی سچا اور برحق پکارنا صرف اسی کو پکارنا ہے، دوسرے کسی کو بھی پکارنا باطل ہے۔ کیونکہ دور و نزدیک سے ہر ایک کی پکار سنتا بھی وہی ہے، ہر ایک کے احوال سے واقف بھی وہی ہے اور ہر ایک کی حاجت پوری کرنے کی قدرت بھی صرف وہی رکھتا ہے، کسی اور میں ان صفات میں سے کوئی صفت بھی نہیں۔ - وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۔۔ : ” يَدْعُوْنَ “ کی ضمیر مشرکین کے لیے ہے، یعنی اللہ کے سوا کسی کو بھی پکارنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، اب پانی نہ اس کی بات سنتا ہے، نہ سمجھتا ہے اور نہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ خود بخود اس کے منہ تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ان خود ساختہ خداؤں کی بےبضاعتی اور بےبسی بڑی تفصیل سے بیان فرمائی۔ دیکھیے سورة اعراف (١٩١ تا ١٩٨) ، سبا (٢٢) ، فاطر (١٣، ١٤) ، احقاف (٥) اور حج (٧٣) قارئین سے درخواست ہے کہ وہ یہ مقامات نکال کر ترجمہ ضرور پڑھیں، ان شاء اللہ توحید کی ٹھنڈک دل میں محسوس کریں گے۔- وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ : یعنی کافروں کا غیر اللہ کو پکارنا سراسر بےسود ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” کافر جن کو پکارتے ہیں بعض محض خیال ہیں، بعض جن اور بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں، لیکن وہ اپنے خواص کی مالک نہیں، پھر ان کے پکارنے سے کیا حاصل۔ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں، یہ اس کی مثال فرمائی۔ “ (موضح) اس کی مختصر سی تفصیل سمجھ لیں کہ فرشتے ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں، سنتے بھی ہیں، طاقت بھی رکھتے ہیں مگر وہ اللہ کے اذن کے بغیر کچھ بھی نہ کرسکتے ہیں اور نہ کرتے ہیں۔ تو انھیں پکارنا ایسے ہی ہے جیسے پانی کو اشارے سے یا زبان سے کہا جائے کہ وہ منہ میں آجائے، حالانکہ اس میں یہ قدرت ہی نہیں اور بالفرض ہو بھی تو وہ یہ اختیار نہیں رکھتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۭ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَهُمْ بِشَيْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهٖ ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ 14؀- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] .- ( ج و ب ) الجوب - الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔- بسط - بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، - ( ب س ط )- بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔- كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، - وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] - ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔- فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤) سچا پکارنا یعنی دین حق شہادۃ ان الاالہ الا اللہ “۔ اور یہی سچا پکارنا ہے اسی کے لیے خاص ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی پکار پر انکو اس سے زیادہ نفع نہیں پہنچا سکتے، جتنا کہ پانی اس شخص کو نفع پہنچاتا کہ وہ شخص دور دراز سے اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہوتا کہ پانی اس کے منہ میں اڑ کر پہنچ جائے اور اس حالت میں پانی کبھی بھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا سو جیسا کہ پانی کبھی بھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا اسی طرح بتوں کی پوجا بھی اسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی اور کافروں کی یہ عبادت محض باطل ہے جس سے یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ )- یعنی اللہ ہی ایک ہستی ہے جس کو پکارنا جس سے دعا کرنا برحق ہے کیونکہ ایک وہی ہے جو تمہاری پکار کو سنتا ہے تمہاری حاجت کو جانتا ہے تمہاری حاجت روائی کرنے پر قادر ہے اس لیے اس کو پکارنا حق بھی ہے اور سود مند بھی۔ اسے چھوڑ کر کسی اور کو پکارو گے چاہے وہ کوئی فرشتہ ہو ولی ہو یا نبی کوئی تمہاری پکار اور فریاد کو نہیں سنے گا اور جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے تمہاری ہر ایسی پکار اکارت جائے گی۔ اس فقرے کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ” اسی کی دعوت حق ہے “۔ یعنی جس چیز کی دعوت وہ دے رہا ہے جس راستے کی طرف وہ بلا رہا ہے وہی حق ہے۔ - (وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَهُمْ بِشَيْءٍ )- وہ ان کی کوئی بھی داد رسی نہیں کرسکتے۔- (اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهٖ )- جیسے اپنے ہاتھ پھیلا کر پانی کو اپنے منہ کی طرف بلانا ایک کار عبث ہے ‘ اسی طرح کسی غیر اللہ کو پکارنا اس کے سامنے گڑ گڑانا اور اس سے داد رسی کی امید رکھنا بھی کار عبث ہے۔- (وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ )- یہ لوگ جو اللہ کے علاوہ کسی کو پکارتے ہیں ان کی یہ پکار لاحاصل ہے ایک تیر بےہدف اور صدا بہ صحرا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :23 پکارنے سے مراد اپنی حاجتوں میں مدد کے لیے پکارنا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ حاجت روائی و مشکل کشائی کے سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں ، اس لیے صرف اسی سے دعائیں مانگنا برحق ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani