Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عظمت وسطوت الہٰی اللہ تعالیٰ اپنی عظمت وسلطنت کو بیان فرما رہا ہے کہ ہر چیز اس کے سامنے پست ہے اور ہر ایک اس کی سرکار میں اپنی عاجزی کا اظہار کرتی ہے ۔ مومن خوشی سے اور کافر بزور اس کے سامنے سجدہ میں ہے ۔ ان کی پرچھائیں صبح شام اس کے سامنے جھکتی رہتی ہے ۔ اصال جمع ہے اصیل کی ۔ اور آیت میں بھی اس کا بیان ہوا ہے ۔ فرمان ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ 48؀ ) 16- النحل:48 ) یعنی کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ تمام مخلوق اللہ کے سامنے دائیں بائیں جھک کر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت وقدرت کا بیان ہے کہ ہر چیز پر اس کا غلبہ ہے اور ہر چیز اس کے ما تحت اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے، چاہے مومنوں کی طرح خوشی سے کریں یا مشرکوں کی طرح ناخوشی سے۔ اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ (اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ ) 16 ۔ النحل :48) سورة النحل کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ان کے سائے داہنے اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی کرتے ہیں اس سجدے کی کیفیت کیا ہے ؟ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے یا دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ کافر سمیت تمام مخلوق اللہ کے حکم کے تابع ہے کسی میں اسی سے سرتابی کی مجال نہیں اللہ تعالیٰ کسی کو صحت دے بیمار کرے غنی کر دے یا فقیر بنا دے زندگی دے یا موت سے ہمکنار کرے ان تکوینی احکام میں کسی کافر کو بھی مجال انکار نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] کائنات کی چیزوں کا اللہ کو سجدہ کرنے کے مطلب :۔ یعنی کائنات کی ہر چیز ان طبعی قوانین کی پابند اور ان کے آگے بےبس اور مجبور ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنا دیئے ہیں۔ مثلاً پانی کے لیے یہ قانون ہے کہ وہ نشیب کی طرف بہے اور یہ ناممکن ہے کہ پانی اس قانون کے خلاف بلندی کی طرف بہنا شروع کردے۔ اسی طرح پانی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اپنی سطح ہموار نہ رکھے۔ بس یہی چیز اس کا اللہ کے حضور سجدہ ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ حتیٰ کہ ان قوانین کا انسان بھی پابند اور ان کے آگے مجبور اور بےبس ہے۔ مثلاً اگر وہ چاہے کہ کھانے پینے کے بغیر زندہ رہے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا، یا اگر وہ چاہے کہ موت کو اپنے آپ سے روک دے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا اس کا اختیار صرف ان باتوں میں ہے جن میں اسے قوت ارادہ و اختیار دیا گیا ہے اور انہی میں اس کا امتحان ہے۔- [٢٣] یعنی سایوں کے لیے جو قانون مقرر ہے وہ اس کے پابند ہیں اور وہ یہ ہے کہ روشنی ہمیشہ صراط مستقیم میں سفر کرتی ہے اور صبح و شام کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ان اوقات میں سائے بہت زیادہ لمبے اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اور سایوں کے گھٹنے بڑھنے میں تدریج اسی نسبت سے ہوتی ہے۔ جس نسبت سے سورج کسی جانب سفر کرتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : سجدے کا معنی ہے جسم کے سب سے اونچے اور باعزت حصے کو کسی کے سامنے نیچے سے نیچا لے جا کر اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی کا اظہار کرنا۔ تو کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے اسی طرح اپنی عاجزی اور بےبسی کا اظہار کر رہی ہے۔ اس میں مسلمان اور کافر کا کوئی فرق نہیں، ہاں انسان کو تھوڑا سا اختیار جنت یا جہنم کے راستے پر چلنے کا دیا ہے، اس کے علاوہ اللہ کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی ہر طرح سجدہ ریز ہے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار کے مقابلے میں اپنے آپ پر اس کا اختیار ایک فی صد کیا ایک فی ہزار بھی نہیں، اگر کسی کو شک ہے تو ذرا اپنا سانس روک کر دکھائے، بھوک پیاس روک لے، پیشاب یا پاخانہ روک لے، بیماری آئے تو ڈٹ جائے کہ میں بیمار نہیں ہوتا، بڑھاپے کو آنے سے اور بالوں کو سفید ہونے سے روک دے، حرکت قلب بند ہوجائے تو اسے چلا کر دکھائے، گردے فیل ہوجائیں تو چالو کرکے دکھائے، ایک ٹانگ اٹھا سکتا ہے دوسری بھی اٹھا کر دکھائے، موت کے فرشتے کے سامنے اکڑ جائے، غرض ہر عاقل و غیر عاقل اور ان کے سائے خوشی و ناخوشی سے اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ پھر ایسے بےبس سے فریاد کرنا، کسی کو داتا، کسی کو دستگیر، کسی کو غریب نواز، کسی کو مشکل کشا کہنا کتنی بڑی حماقت ہے۔ یہاں سورة حج کی آیت (١٨) کا ترجمہ و تفسیر بھی ملاحظہ فرما لیں۔ - وَّظِلٰلُهُمْ بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ : یعنی ان کے سایوں کا گھٹنا اور بڑھنا بھی اسی کے ارادہ و مشیت سے ہے۔ پہلے اور پچھلے پہر کا ذکر اس لیے کیا کہ ان وقتوں میں زمین پر ہر چیز کا سایہ نمایاں ہوتا ہے اور عبادت کے لحاظ سے یہ دونوں عمدہ وقت ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اور پرچھائیاں صبح و شام کے وقت زمین پر پسر (پھیل) جاتی ہیں، یہی ان کا سجدہ ہے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ 15۝۞- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ،- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - غدا - الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ- [ الأعراف 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] - ( غ د و ) الغدوۃ - والغراۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔- أصل - بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح 9] .- ( ا ص ل ) اصل - الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) اور اللہ ہی کے سامنے سب سرجھکائے ہوئے ہیں کہ اس کی عبادت اور نماز میں مصروف ہیں جو کہ آسمانوں میں فرشتے اور زمین میں مومن لوگ ہیں، آسمان والے خوشی سے جھکائے ہوئے ہیں، کیوں کہ انکو عبادت میں ناگواری نہیں ہوتی، اور زمین والے مجبورا جھکائے ہوئے ہیں کیوں کہ ان کو عبادت میں ناگواری ہوتی ہے یا یہ کہ مخلصین خوشی سے اور منافقین مجبوری سے جھکائے ہوئے ہیں اور اہل زمین سے جو لوگ سرجھکائے ہوئے ہیں، ان کے سائے بھی صبح وشام سرخم کیے ہوئے ہیں کہ صبح کو دائیں جانب اور شام کو بائیں جانب۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ )- صبح کے وقت جب سورج نکلتا ہے اور سائے زمین پر لمبے ہو کر پڑے ہوتے ہیں وہ اس حالت میں اللہ کو سجدہ کر رہے ہوتے ہیں اور اسی طرح شام کو غروب آفتاب کے وقت بھی یہ سائے حالت سجدہ میں ہوتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :24 سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا ، حکم بجا لانا اور سرتسلیم خم کرنا ہے ۔ زمین و آسمان کی ہر مخلوق اس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہی ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کر سکتی ۔ مومن اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبورا جھکنا پڑتا ہے ، کیونکہ خدا کے قانون فطرت سے ہٹنا اس کی مقدرت سے باہر ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :25 سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیاء کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی کے امر کی مطیع اور کسی کے قانون سے مسخر ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: سجدہ کرنے سے یہاں مراد اﷲ تعالیٰ کے احکام کے آگے جھک جانا ہے۔ مومن خوشی خوشی ان اَحکام کے آگے جھکتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی رہتا ہے، اور کافر اﷲ تعالیٰ کے تکوینی فیصلوں کے آگے مجبور ہے، اس لئے وہ چاہے یا نہ چاہے، اﷲ تعالیٰ کائنات میں جو فیصلے فرماتا ہے، مجبوراً اُن کے آگے سرجھکانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ واضح رہے کہ یہ سجدے کی آیت ہے۔ اس کی تلاوت یا سننے سے سجدہ واجب ہوتا ہے۔