Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اندھیرا اور روشنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ۔ یہ مشرکین بھی اس کے قائل ہیں کہ زمین وآسمان کا رب اور مدبر اللہ ہی ہے ۔ اس کے باوجود دوسرے اولیا کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سب عاجز بندے ہیں ۔ ان کے تو کیا خود اپنے بھی نفع نقصان کا انہیں کوئی اختیار نہیں پس یہ اور اللہ کے عابد یکساں نہیں ہو سکتے ۔ یہ تو اندھیروں میں ہیں اور بندہ رب نور میں ہے ۔ جتنا فرق اندھے میں اور دیکھنے والے میں ہے ، جتنا فرق اندھیروں اور روشنی میں ہے اتنا ہی فرق ان دونوں میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا ان مشرکین کے مقرر کردہ شریک اللہ ان کے نزدیک کسی چیز کے خالق ہیں ؟ کہ ان پر تمیز مشکل ہو گئی کہ کسی چیز کا خالق اللہ ہے ؟ اور کس چیز کے خالق ان کے معبود ہیں ؟ حالانکہ ایسا نہیں اللہ کے مشابہ اس جیسا اس کے برابر کا اور اس کی مثل کا کوئی نہیں ۔ وہ وزیر سے ، شریک سے ، اولاد سے ، بیوی سے ، پاک ہے اور ان سب سے اس کی ذات بلند و بالا ہے ۔ یہ تو مشرکین کی پوری بیوقوفی ہے کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو اللہ کا پیدا کیا ہوا ، اس کی مملوک سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں ۔ لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک کہ وہ خود تیری ملکیت میں ہے اور جس چیز کا وہ مالک ہے ، وہ بھی دراصل تیری ہی ملکیت ہے ۔ قرآن نے اور جگہ ان کا مقولہ بیان فرمایا ہے کہ آیت ( مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى Ǽ۝ ) 39- الزمر:3 ) یعنی ہم تو ان کی عبادت صرف اس لالچ میں کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں ۔ ان کے اس اعتقاد کی رگ گردن توڑتے ہوئے ارشاد ربانی ہوا کہ اس کے پاس کوئی بھی اس کی اجازت بغیر لب نہیں ہلا سکتا ۔ آسمانوں کے فرشتے بھی شفاعت اس کی اجازت بغیر کر نہیں سکتے ۔ سورۃ مریم میں فرمایا زمین وآسمان کی تمام مخلوق اللہ کے سامنے غلام بن کر آنے والی ہے ، سب اس کی نگاہ میں اور اس کی گنتی میں ہیں اور ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے قیامت کے دن حاضری دینے والا ہے ۔ پس جبکہ سب کے سب بندے اور غلام ہونے کی حیثیت میں یکساں ہیں پھر ایک کا دوسرے کی عبادت کرنا بڑی حماقت اور کھلی بے انصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟ پھر اس نے رسولوں کا سلسلہ شروع دنیا سے جاری رکھا ۔ ہر ایک نے لوگوں کو سبق یہ دیا کہ اللہ ایک ہی عبادت کے لائق ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں لیکن انہوں نے نہ اپنے اقرار کا پاس کیا نہ رسولوں کی متفقہ تعلیم کا لحاظ کیا ، بلکہ مخالفت کی ، رسولوں کو جھٹلایا تو کلمہ عذاب ان پر صادق آ گیا ۔ یہ رب کا ظلم نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یہاں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار ہے۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ مشرکین کا جواب بھی یہی ہوتا تھا۔ 16۔ 2 یعنی جب تمہیں اقرار و اعتراف ہے کہ آسمان و زمین کا رب اللہ ہے جو تمام اختیارات کا بلا شرکت غیر مالک ہے پھر تم اسے چھوڑ کر ایسوں کو کیوں دوست اور حمائتی سمجھتے ہو جو اپنی بابت بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ 16۔ 3 یعنی جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہوسکتے اس لئے کہ موحد توحید کی بصیرت سے معمور ہے جب کہ مشرک اس سے محروم ہے۔ موحد کی آنکھیں ہیں، وہ توحید کا نور دیکھتا ہے اور مشرک کو یہ نور توحید نظر نہیں آتا، اس لئے وہ اندھا ہے۔ اسی طرح، جس طرح اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں ہوسکتی۔ ایک اللہ کا پجاری، جس کا دل نورانیت سے بھرا ہوا ہے، اور ایک مشرک، جو جہالت و توہمات کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، برابر نہیں ہوسکتے۔ 16۔ 4 یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ یہ کسی شبے کا شکار ہوگئے ہوں بلکہ یہ مانتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] من دون اللہ کسی چیز کے خالق ومالک نہیں تو ان کا تصرف کہاں سے آگیا ؟:۔ مشرکین مکہ یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ آسمانوں اور زمین کا نیز کائنات کی ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔ تخلیق کائنات میں ان کے معبودوں کا کوئی حصہ نہیں اور یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ خالق اپنے مخلوق پر پورا پورا تصرف رکھتا ہے۔ اب ان سے سوال یہ ہے کہ جب تمہارے معبودوں نے کوئی چیز بنائی ہی نہیں تو وہ تصرف کائنات میں شریک کیسے بن گئے اور تمہیں یہ کہاں سے اشتباہ پیدا ہوگیا کہ وہ بھی تصرف کائنات میں شریک اور حصہ دار ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کوئی چیز پیدا کرنا تو درکنار وہ تو خودمخلوق اور محتاج ہیں جو اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں تو وہ تمہیں کیا فائدہ پہنچا سکیں گے یا تمہاری تکلیف کیا دور کرسکیں گے۔ اب ایک شخص ان دلائل کی روشنی میں چلتا ہے۔ اور صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ کیونکہ وہی خالق اور نفع و نقصان کا مالک ہے اور دوسرا دلائل کی طرف نظر ہی نہیں کرتا اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید پر ہی جم رہا ہے تو کیا ان دونوں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : یعنی اگر ایسا ہوتا کہ دنیا میں کچھ چیزیں تو اللہ نے پیدا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے، یا بعض کی پرورش اور روزی کا سامان کرنے والا رب اللہ تعالیٰ ہوتا اور بعض کا کوئی دوسرا، یا کسی نفع نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہوتا اور کسی کا مالک دوسرا، تب تو ان مشرکوں کے شرک کی کوئی بنیاد ہوسکتی تھی کہ یہ بھی خالق ہونے کی وجہ سے مستحق عبادت ہیں، مگر جب یہ خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز پیدا کرنے والا اللہ اور صرف اللہ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک قرار دیں۔ - قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۔۔ : یہ مشرک اور موحد کی مثال ہے، کیونکہ موحد دیکھنے والی آنکھ، سوچنے والا دل رکھتا ہے، جبکہ مشرک بصارت اور بصیرت دونوں سے خالی سر ا سر اندھا ہے۔ موحد نور توحید سے روشن ہوتا ہے، جبکہ مشرک ایک نہیں ہزاروں اندھیروں میں ہے۔ نور کو واحد اور ظلمات کو جمع لائے، کیونکہ ہدایت اور سیدھا راستہ ایک اور گمراہی کے راستے بیشمار ہیں۔ - وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ : وہی ہے جو ایک ہے، سب پر غالب ہے، کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے کہئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار (یعنی موجد و مبقی یعنی خالق وحافظ) کون ہے (اور چونکہ اس کا جواب متعین ہے اس لئے جواب بھی) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہے کہ اللہ ہے (پھر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہئے کہ کیا (یہ دلائل توحید سن کر) پھر بھی تم نے خدا کے سوا دوسرے مددگار (یعنی معبودین) قرار دے رکھے ہیں جو (بوجہ غایت عجز کے) خود اپنی ذات کے نفع نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے (اور پھر شرک کے ابطال اور توحید کے احقاق کے بعد اہل توحید واہل شرک اور خود توحید و شرک کے درمیان اظہار فرق کے لئے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ (بھی) کہئے کہ کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوسکتا ہے (یہ مثال ہے مشرک اور موحد کی) یا کہیں تاریکی اور روشنی برابر ہو سکتی ہے (یہ مثال ہے شرک اور توحید کی) یا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک قرار دے رکھے ہیں کہ انہوں نے بھی (کسی چیز کو) پیدا کیا ہو جیسا خدا (ان کے اعتراف کے موافق بھی) پیدا کرتا ہے پھر (اس وجہ سے) ان کو (دونوں کا) پیدا کرنا ایک سا معلوم ہواہو (اور اس سے استدلال کیا ہو کہ جب دونوں یکساں خالق ہیں تو دونوں یکساں معبود بھی ہوں گے اس کے متعلق بھی) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی (اپنی ذات وصفات کمال میں) واحد ہے (اور سب مخلوقات پر) غالب ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا پھر (اس پانی سے) نالے (بھر کر) اپنی مقدار کے موافق چلنے لگے (یعنی چھوٹے نالے میں تھوڑا پانی اور بڑے نالے میں زیادہ پانی) پھر وہ سیلاب (کا پانی ) خس و خاشاک کو بہا لایا جو اس (پانی) کی (سطح کے) اوپر (آرہا) ہے (ایک کوڑا کرکٹ تو یہ ہے) اور جن چیزوں کو آگ کے اندر ( رکھ کر) زیور یا اور اسباب (ظروف وغیرہ) بنانے کی غرض سے تپاتے ہیں اس میں بھی ایسا ہی میل کچیل (اوپر آجاتا) ہے (پس ان دو مثالوں میں دو چیزیں ہیں ایک کار آمد چیز کہ اصل پانی اور اصل مال ہے اور ایک ناکارہ چیز کہ کوڑا کرکٹ میل کچیل ہی غرض) اللہ تعالیٰ حق (یعنی توحید و ایمان وغیرہ) اور باطل (یعنی کفر و شرک وغیرہ) کی اسی طرح کی مثال بیان کر رہا ہے (جس کی تکمیل اگلے مضمون سے ہوتی ہے) سو (ان دونوں مذکورہ مثالوں میں) جو میل کچیل تھا وہ تو پھینک دیا جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے کارآمد ہے وہ دنیا میں (نفع رسانی کے ساتھ) رہتی ہے (اور جس طرح حق و باطل کی مثال بیان کی گئی) اللہ تعالیٰ اسی طرح (ہر ضروری مضمون میں) مثالیں بیان کیا کرتے ہیں،- معارف و مسائل :- حاصل دونوں مثالوں کا یہ ہے کہ جیسا کہ ان مثالوں میں میل کچیل برائے چندے اصلی چیز کے اوپر نظر آتا ہے لیکن انجام کار وہ پھینک دیا جاتا ہے اور اصلی چیز رہ جاتی ہے،- اسی طرح گو چند روز حق کے اوپر غالب نظر آئے لیکن آخر کار باطل محو اور مغلوب ہوجاتا ہے اور حق باقی اور ثابت رہتا ہے کذا فی الجلالین۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ قُلِ اللّٰهُ ۭ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا ۭ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ڏ اَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ ڬ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۭ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ 16 ؁- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- شبه - الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ : حقیقتها في المماثلة من جهة الكيفيّة، کاللّون والطّعم، وکالعدالة والظّلم، والشُّبْهَةُ : هو أن لا يتميّز أحد الشّيئين من الآخر لما بينهما من التّشابه، عينا کان أو معنی، قال : وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، أي : يشبه بعضه بعضا لونا لا طعما وحقیقة، - ( ش ب ہ )- الشیبۃ والشبۃ کے اصل معنی مماثلت بلحاظ کیف کے ہیں مثلا لون اور طعم میں باہم مماثل ہونا یا عدل ظلم میں اور دو چیزوں کا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو سکیں شبھۃ کہلاتا ہے پس آیت کریمہ : ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے میں متشابھا کے معنی یہ ہیں کہ وہ میوے اصل اور مزہ میں مختلف ہونے کے باوجود رنگت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - قهر - القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] - ( ق ھ ر ) القھر ۔- کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔ - قهر - القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] - ( ق ھ ر ) القھر ۔- کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں سے کہئے کہ آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے ؟ سو اگر وہ جواب میں اللہ کہہ دیں تو ٹھیک ورنہ آپ ہی فرمادیجیے کہ اللہ خالق ہے پھر یہ کہیے کہ کیا پھر بھی تم نے اللہ کے علاوہ دوسرے معبود بنارکھے ہیں۔ جو خود اپنی ذات کو بھی نفع پہنچانے اور نقصان کے دور کرنے پر طاقت نہیں رکھتے ،- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے یہ فرما دیجیے کیا کافر اور مومن دونوں برابر ہوسکتے ہیں یا کہیں کفر و ایمان میں برابری ہوسکتی ہے یا انہوں نے اللہ کے ایسے بتوں کو شریک قرار دے رکھا ہے کہ انہوں نے بھی کسی چیز کو پیدا کیا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا تو اس واسطے ان کو تمام مخلوق ایک سی معلوم ہوئی جس کی وجہ سے انکو مخلوقات خداوندی اور اپنے بتوں کی پیدا کردہ چیز میں امتیاز باقی نہ رہا ہو تو آپ اس کے متعلق فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے یہ بت کسی چیز کے خالق نہیں، اس کے علاوہ اور کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں اور وہ واحد ہے اور اپنی تمام مخلوق پر غالب ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ )- یعنی ان مشرکین کا معاملہ تو یوں لگتا ہے جیسے ان کے معبودوں نے بھی کچھ مخلوق پیدا کر رکھی ہے اور کچھ مخلوق اللہ کی ہے۔ اب وہ بےچارے اس شش و پنج میں پڑے ہوئے ہیں کہ کون سی مخلوق کو اللہ سے منسوب کریں اور کس کس کو اپنے ان معبودوں کی مخلوق مانیں جب ایسا نہیں ہے اور وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اس کا خالق اور مالک اللہ ہے تو پھر اللہ کو اکیلا اور واحد معبود ماننے میں وہ کیوں شکوک و شبہات کا شکار ہو رہے ہیں ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :26 واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہ انکار خود ان کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے ، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آجاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد باقی نہیں رہتی تھی ۔ اس لیے اپنے مؤقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کائنات کا رب کون ہے؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ ، اور اس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :27 اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرے ذرے اور پتے پتے میں معرفت کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالی کے اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :28 روشنی سے مراد علم حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو حاصل تھی ۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے ۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے؟ تم اگر نور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی ۔ لیکن جس نے اسے پالیا ہے ، جو نور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے ، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے ، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :29 اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے ، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا ، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی ۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے ، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :30 اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں” وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے“ ۔ یہ بات کہ ” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے “ ، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا ۔ اور یہ بات کہ ” وہ یکتا اور قہار ہے“ اس تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا ، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد ، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے ، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے ، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے ، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلوق اپنے خالق کی ذات ، یا صفات ، یا اختیارات ، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے ، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصور مخلوقیت میں شامل ہے ۔ غلبہ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے ۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا ، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھیرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: مشرکین عرب جن دیوتاؤں کو خدا مان کر ان کی عبادت کرتے تھے، عام طور سے وہ یہ مانتے تھے کہ انہوں نے کائنات کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں لیا ؛ بلکہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کی ہے، لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خدائی کے بہت سے اختیارات ان کو دے رکھے ہیں، اس لئے ان کی عبادت کرنی چاہئے، تاکہ وہ اپنے اختیارات ہمارے حق میں استعمال کریں، اور اللہ تعالیٰ سے ہماری سفارش بھی کریں، اس آیت میں اول تو یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ من گھڑت دیوتا کوئی نفع یا نقصان اپنے آپ کو بھی نہیں پہنچا سکتے، دوسروں کو تو کیا پہنچائیں گے، پھر فرمایا گیا ہے کہ اگر ان دیوتاؤں نے بھی اللہ تعالیٰ کی طرح کچھ پیدا کیا ہوتا تب بھی ان کو خدا کا شریک ماننے کی کوئی وجہ ہوسکتی تھی، لیکن نہ واقعۃ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے اور نہ اکثر اہل عرب کا ایسا عقیدہ ہے، پھر ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے کر ان کی عبادت کرنے کا آخر کیا جواز ہے؟