باطل بےثبات ہے حق وباطل کے فرق ، حق کی پائیداری اور باطل کی بےثباتی کی یہ دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں سے مینہ برساتا ہے ، چشموں دریاؤں نالیوں وغیرہ کے ذریعے برسات کا پانی بہنے لگتا ہے ۔ کسی میں کم ، کسی میں زیادہ ، کوئی چھوٹی ، کوئی بڑی ۔ یہ دلوں کی مثال ہے اور ان کے تفاوت کی ۔ کوئی آسمانی علم بہت زیادہ حاصل کرتا ہے کوئی کم ۔ پھر پانی کی اس رو پر جھاگ تیرنے لگتا ہے ۔ ایک مثال تو یہ ہوئی ۔ دوسری مثال سونے چاندی لوہے تانبے کی ہے کہ اسے آگ میں تپایا جاتا ہے سونے چاندی زیور کے لئے لوہا تانبا برتن بھانڈے وغیرہ کے لئے ان میں بھی جھاگ ہوتے ہیں تو جیسے ان دونوں چیزوں کے جھاگ مٹ جاتے ہیں ، اسی طرح باطل جو کبھی حق پر چھا جاتا ہے ، آخر چھٹ جاتا ہے اور حق نتھر آتا ہے جیسے پانی نتھر کر صاف ہو کر رہ جاتا ہے اور جیسے چاندی سونا وغیرہ تپا کر کھوٹ سے الگ کر لئے جاتے ہیں ۔ اب سونے چاندی پانی وغیرہ سے تو دنیا نفع اٹھاتی رہتی ہے اور ان پر جو کھوٹ اور جھاگ آ گیا تھا ، اس کا نام ونشان بھی نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سمجھانے کے لئے کتنی صاف صاف مثالیں بیان فرما رہا ہے ۔ کہ سوچیں سمجھیں ۔ جیسے فرمایا ہے کہ ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے بیان فرماتے ہیں لیکن اسے علماء خوب سمجھتے ہیں ۔ بعض سلف کی سمجھ میں جو کوئی مثال نہیں آتی تھی تو وہ رونے لگتے تھے کیونکہ انہیں نہ سمجھنا علم سے خالی لوگوں کا وصف ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلی مثال میں بیان ہے ان لوگوں کا جن کے دل یقین کے ساتھ علم الہٰی کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دل وہ بھی ہیں ، جن میں رشک باقی رہ جاتا ہے پس شک کے ساتھ کا علم بےسود ہوتا ہے ۔ یقین پورا فائدہ دیتا ہے ۔ ابد سے مراد شک ہے جو کمتر چیز ہے ، یقین کار آمد چیز ہے ، جو باقی رہنے والی ہے ۔ جیسے زیور جو آگ میں تپایا جاتا ہے تو کھوٹ جل جاتا ہے اور کھری چیز رہ جاتی ہے ، اسی طرح اللہ کے ہاں یقین مقبول ہے شک مردود ہے ۔ پس جس طرح پانی رہ گیا اور پینے وغیرہ کا کام آیا اور جس طرح سونا چاندی اصلی رہ گیا اور اس کے سازو سامان بنے ، اسی طرح نیک اور خالص اعمال عامل کو نفع دیتے ہیں اور باقی رہتے ہیں ۔ ہدایت وحق پر جو عامل رہے ، وہ نفع پاتا ہے جیسے لوہے کی چھری تلوار بغیر تپائے بن نہیں سکتی ۔ اسی طرح باطل ، شک اور ریاکاری والے اعمال اللہ کے ہاں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ قیامت کے دن باطل ضائع ہو جائے گا ۔ اور اہل حق کو حق نفع دے گا ۔ سورہ بقرہ کے شروع میں منافقوں کی دو مثالیں اللہ رب العزت نے بیان فرمائیں ۔ ایک پانی کی ایک آگ کی ۔ سورہ نور میں کافروں کی دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ایک سراب یعنی ریت کی دوسری سمندر کی تہ کے اندھیروں کی ۔ ریت کا میدان موسم گرما میں دور سے بالکل لہریں لیتا ہوا دریا کا پانی معلوم ہوتا ہے ۔ چنانچہ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن یہودیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا مانگتے ہو ؟ کہیں گے پیاسے ہو رہے ہیں ، پانی چاہئے تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر جاتے کیوں نہیں ہو؟ چنانچہ جہنم انہیں ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں ریتلے میدان ۔ دوسری آیت میں فرمایا آیت ( او کظلمات فی البحر لجی ) الخ بخری ومسلم میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس ہدایت وعلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی ۔ زمین کے ایک حصہ نے تو پانی کو قبول کیا ، گھاس چارہ بکثرت آ گیا ۔ بعض زمین جاذب تھی ، اس نے پانی کو روک لیا پس اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا ۔ پانی ان کے پینے کے ، پلانے کے ، کھیت کے کام آیا اور جو ٹکڑا زمین کا سنگلاخ اور سخت تھا نہ اس میں پانی ٹھیرا نہ وہاں کچھ بیداوار ہوئی ۔ پس یہ اس کی مثال ہے جس نے دین میں سمجھ حاصل کی اور میری بعثت سے اللہ نے اسے فائدہ پہنچایا اس نے خود علم سیکھا دوسروں کو سکھایا اور مثال ہے اس کی جس نے اس کے لئے سر بھی نہ اٹھایا اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ۔ پس وہ سنگلاخ زمین کی مثل ہے ایک اور حدیث میں ہے میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی جب آگ نے اپنے آس پاس کی جیزیں روشن کر دیں تو پتنگے اور پروانے وغیرہ کیڑے اس میں گر گر کر جان دینے لگے وہ انہیں ہر چند روکتا ہے لیکن بس پھر بھی وہ برابر گر رہے ہیں بالکل یہی مثال میری اور تمہاری ہے کہ میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں روکتا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ آگ سے پرے ہٹو لیکن تم میری نہیں سنتے ، نہیں مانتے ، مجھ سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گرے چلے جاتے ہو ۔ پس حدیث میں بھی پانی اور آگ کی دونوں مثالیں آ چکی ہیں ۔
17۔ 1 بقدرھا وسعت کے مطابق کا مطلب ہے نالے یعنی وادی دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ تنگ ہو تو کم پانی کشادہ ہو تو زیادہ پانی اٹھاتی ہے یعنی نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان کا جاع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے اس لیے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو تشبیہ دی ہے دلوں کے ساتھ اس لیے کہ وادیوں نالوں میں پانی جا کر ٹھرتا ہے جس طرح قرآن کا اور ایمان مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔ 17۔ 1 اس جھاگ سے جب پانی اوپر آجاتا ہے اور جو ناکارہ ہو ختم ہوجاتا ہے اور ہوائیں جسے اڑا لے جاتی ہیں کفر مراد ہے، جو جھاگ ہی کی طرح اڑ جانے والا اور ختم ہوجانے والا ہے۔ 17۔ 2 یہ دوسری شکل ہے کہ تانبے پیتل، سیسے یا سونے چاندی کو زیور یا سامان وغیرہ بنانے کے لئے آگ میں تپایا جاتا ہے تو اس پر بھی جھاگ کی شکل میں اوپر آجاتا ہے۔ پھر یہ جھاگ دیکھتے دیکھتے ختم ہوجاتا ہے اور دھات اصلی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔ 17۔ 3 یعی جب حق اور باطل کا آپس میں اجتماع اور ٹکراؤ ہوتا ہے تو باطل کو اسی طرح اثبات اور دوام نہیں ہوتا، جس طرح سیلابی ریلے کا جھاگ پانی کے ساتھ، دھاتوں کا جھاگ، جن کو آگ میں تپایا جاتا ہے دھاتوں کے ساتھ باقی نہیں رہتا بلکہ ناکارہ اور ختم ہوجاتا ہے۔ 17۔ 4 یعنی اس سے کوئی نفع نہیں ہوتا، کیونکہ جھاگ پانی یا دھات کے باقی رہتا ہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ بیٹھ جاتا ہے یا ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں۔ باطل کی مثال بھی جھاگ ہی کی طرح ہے۔ 17۔ 5 یعنی پانی اور سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرۃ یہ چیزیں باقی رہتی ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے اور فیض یاب ہوتے ہیں، اسی طرح حق باقی رہتا ہے جس کے وجود کو بھی زوال نہیں اور جس کا نفع بھی دائمی ہے۔ 17۔ 6 یعنی بات کو سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، جیسے یہیں دو مثالیں بیان فرمائیں اور اسی طرح سورة بقرہ کے آغاز میں منافقین کے لئے مثالیں بیان فرمائیں۔ اسی طرح سورة نور، آیات 39، 40 میں کافروں کے لئے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ اور احادیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثالوں کے ذریعے سے لوگوں کو بہت سی باتیں سمجھائیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر
[٢٥] معرکہ حق وباطل کی دو مثالیں اور بقائے انفع :۔ اس مثال میں علم وحی کو باران رحمت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ندی نالوں سے، جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق اس باران رحمت سے بھرپور ہو کر رواں دواں ہوجاتے ہیں اور دعوت حق کے مقابلہ میں معاندین اور منکرین جو شورش برپا کرتے ہیں اسے اس جھاگ اور خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے سیلاب میں پانی کی سطح کے اوپر آجاتا ہے۔ لیکن اس جھاگ اور خس و خاشاک کی حقیقت صرف اتنی ہی ہوتی ہے کہ کسی وقت بھی دریا اچھل کر اسے کناروں پر پھینک دیتا ہے۔ جہاں ہوا اور دھوپ اسے خشک کرکے ختم کردیتی ہے اور یہ سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے اور پانی جو انسانوں کو نفع دینے والی چیز ہے، وہی باقی رہتی ہے۔ خواہ اس کا کچھ حصہ زمین جذب کرلے یا اکثر حصہ زمین کو سیراب کرنے کے لیے آگے رواں کردے کہ وہ کسی دوسرے علاقہ کو سیراب کرے۔- حق و باطل کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب دھاتوں کو، جن سے زیورات یا دوسری کارآمد اشیاء بنتی ہیں۔ کٹھالی میں تپایا جاتا ہے تو اس کا ناکارہ حصہ اور کھوٹ سب کچھ ایک دم اوپر آکر کام کی چیز کو چھپاتا ہی نہیں بلکہ اس پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ با لآخر جل جاتا ہے اور اسے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور مائع دھات جس کا زیور وغیرہ بنتا ہے وہ نیچے ہوتی ہے اسی طرح معرکہ حق و باطل میں ایک دفعہ باطل ضرور حق پر چھا جاتا ہے۔ لیکن بالآخر حق ہی باقی رہتا ہے کیونکہ وہی لوگوں کے فائدہ کی چیز ہوتی ہے۔- ان دونوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی تعلیم جو لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیز ہے، جاودانی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ہر دور میں قرآن کے بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ باطل ان کے مقابلہ پر اتر آتا ہے اور ابتداء ًحق پر چھا جاتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ حق سے باطل پر یا وحی الٰہی کے عالموں سے معاندین اور منکرین حق پر ضربیں اور چوٹیں لگاتا ہے تو باطل جلد ہی خس و خاشاک اور جھاگ کی طرح ختم ہوجاتا ہے اور حق ہی باقی رہ جاتا ہے اور اس کے باقی رہنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔- واضح رہے کہ ڈارون نے اپنے نظریہ ارتقاء میں بقائللاصلاح صلح کی اصطلاح ( ) استعمال کی تھی۔ یعنی جس چیز میں باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہو وہی باقی رہتی ہے۔ قرآن نے اس کے مقابلہ میں بقاء للانفع کا ذکر فرمایا ہے جو عقل کو ڈارونی اصطلاح سے بہت زیادہ اپیل کرتا ہے۔ یعنی ڈارون کا نظریہ یہ ہے کہ کسی چیز میں باقی رہنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ اگر صلاحیت نہیں تو وہ باقی نہ رہے گی۔ جب کہ قرآن یہ بتلاتا ہے کہ جس چیز میں لوگوں کے لیے فائدہ ہو صرف وہی باقی رہتی ہے۔ کھوٹ میں لوگوں کے لیے کچھ فائدہ نہ تھا۔ لہذا وہ جل گیا۔ سونے میں لوگوں کے لیے فائدہ تھا۔ لہذا وہ باقی رہ گیا۔
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۔۔ : ” اَوْدِيَةٌ“ (نالے) وادی کی جمع ہے جو اصل میں پانی بہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ دو پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ کو بھی کہہ لیتے ہیں، کبھی راستے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ پہاڑوں میں عموماً راستے پہاڑی نالوں کے کناروں کے ساتھ چلتے ہیں۔ ” زَبَدًا “ وہ کوڑا کرکٹ اور جھاگ جو پانی کی تیز رفتاری کے باعث اس کی سطح پر ابھر آتا ہے، یا ہانڈی کے اوپر ابھر آتا ہے۔ ” رَّابِيًا “ ” رَبَا یَرْبُوْ رَبْوًا “ (ن) سے اسم فاعل ہے، بمعنی بڑھنے والا، ابھرنے والا۔ ” حِلْيَةٍ “ سونے چاندی وغیر کا زیور جس سے انسان زینت حاصل کرتا ہے۔ ” جُفَاۗءً “ نالہ یا ہانڈی جو خس و خاشاک یا جھاگ وغیرہ کناروں پر پھینک دیتے ہیں، اسے ” جُفَاۗءً “ کہتے ہیں۔ - شوکانی (رض) نے فرمایا کہ یہ دو مثالیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی بیان فرمائی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ باطل بعض اوقات حق کے اوپر غالب آجائے، مگر آخر کار اللہ تعالیٰ اسے مٹا دیتا ہے اور بےقدر و قیمت بنا دیتا ہے، حسن انجام حق اور اہل حق ہی کا ہوتا ہے۔ جیسا کہ جھاگ اور خس و خاشاک بیشک پانی کو ڈھانپ لیتے ہیں، مگر آخر کار پانی انھیں کناروں پر پھینک کر بےکار کردیتا ہے اور خالص پانی سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح سونا چاندی اور دوسری دھاتوں کو پگھلایا جائے تو ان کا میل کچیل بھی اوپر آجاتا ہے مگر آخر کار کچھ اتار کر پھینک دیا جاتا ہے اور کچھ جل جاتا ہے۔ غرض، سارا میل کچیل بےکار جاتا ہے اور لوگوں کے لیے نفع مند دھات خالص حالت میں باقی رہ جاتی ہے، جیسے سونا اور چاندی، جس سے وہ زیور بناتے ہیں، یا لوہا، تانبا اور پیتل وغیرہ جس سے برتن، اسلحہ اور دوسرا سامان بنتا ہے۔ استاذ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں کہ ان دونوں مثالوں میں حق (قرآن) کو پانی سے تشبیہ دی ہے اور نالوں سے مراد انسانوں کے دل ہیں جو اپنے اپنے ظرف و استعداد کے مطابق حق سے فیض حاصل کرتے ہیں، یا حق وہ زیور ہے جس سے نفوس انسانی آراستہ ہوتے ہیں اور لوگ معاش و معاد میں اس سے انواع و اقسام کے منافع اور فوائد حاصل کرتے ہیں۔ باطل کی مثال جھاگ کی سی ہے جو حق سے کشمکش کے موقع پر وقتی طور پر ابھر کر اوپر آجاتا ہے مگر آخر کار مٹ جاتا ہے۔ ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَثَلُ مَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ مِنَ الْھُدَی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ الْغَیْثِ الْکَثِیْرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَکَانَ مِنْھَا نَقِیَّۃٌ، قَبِلَتِ الْمَاءَ ، فَأَنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ وَکَانَتْ مِنْھَا أَجَادِبُ أَمْسَکَتِ الْمَاءَ ، فَنَفَعَ اللّٰہُ بِھَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا، وَأَصَابَ مِنْھَا طَاءِفَۃً أُخْرَی، إِنَّمَا ھِيَ قِیْعَانٌ لَا تُمْسِکُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ کَلَأً فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِيْ دِیْنِ اللّٰہِ وَنَفَعَہُ مَا بَعَثَنِيَ اللّٰہُ بِہِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ یَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا وَلَمْ یَقْبَلْ ھُدَی اللّٰہِ الَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِہِ ) [ بخاری، العلم، باب فضل من علم و علّم : ٧٩ ] ” اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال بہت زیادہ بارش کی ہے جو ایک زمین پر برسی۔ اس زمین کا ایک حصہ بہت عمدہ (زرخیز) تھا، اس نے پانی قبول کیا (جذب کرلیا) ، پھر بہت سی گھاس اور چارا اگایا اور اس کے کچھ حصے سخت زمین کے گڑھے تھے جنھوں نے پانی روک لیا تو اللہ نے اس کے ساتھ لوگوں کو نفع پہنچایا، چناچہ انھوں نے پیا اور پلایا اور کھیتی باڑی کی اور اس کے بعض حصے چٹیل میدان تھے جو نہ پانی روکتے تھے اور نہ گھاس اگاتے تھے، تو یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور اسے اس (علم و ہدایت) نے نفع دیا جسے دے کر مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور اس شخص کی مثال جس نے اس کی طرف نہ سر اٹھایا اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جو دے کر مجھے بھیجا گیا (ان تینوں میں سے آخری مثال کافر کی ہے) ۔ “ - كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ : یعنی بات سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے جیسے یہاں دو مثالیں بیان فرمائیں، ایک صحرائی اور پہاڑی لوگوں کو پیش آنے والی (نالوں کی) اور ایک شہری لوگوں کو پیش آنے والی (دھاتوں کی) ۔ اسی طرح سورة بقرہ کے شروع میں منافقین کی دو مثالیں اور سورة نور (٣٩، ٤٠) میں کافروں کی دو مثالیں بیان فرمائیں۔ غرض قرآن و حدیث میں بہت سی مثالیں دے کر سمجھایا گیا ہے۔
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا ۭ وَمِمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗ ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ڛ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاۗءً ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ 17ۭ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سال - سَالَ الشیء يَسِيلُ ، وأَسَلْتُهُ أنا، قال : وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، أي : أذبنا له، والْإِسَالَةُ في الحقیقة : حالة في القطر تحصل بعد الإذابة، والسَّيْلُ أصله مصدر، وجعل اسما للماء الذي يأتيك ولم يصبک مطره، قال : فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] - ( س ی ل )- سال الشئی یسبیل کے معنی کسی چیز کے بہنے کے ہیں اور اسلنا کے معنی بہا دینے کے ۔ قرآن - میں ہے : ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کے لئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا ۔ یاہں اسلنا کے معنی پگھلا دینے کے ہیں ۔ لیکن فی الحقیقت اسالۃ کا لفظ قطر کی اس حالت پر بولا جا تا ہے جو پگھلا نے کے بعد ہوتی ہے ۔ السیل ( ض ) یہ اصل میں سال یسبیل کا مصدر ہے جس کے معنی بہنے کے ہیں اور بطور اسم اس پانی پر بولا جاتا ہے ۔ جو دور سے بہہ کر کسی جگہ پر آجائے اور وہاں بر سانہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] پھر اور رساتی ) نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا ۔ - وادي - قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی:- أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460-- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً- «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] أي : بقَدْرِ مياهها . - ( و د ی ) الوادی - ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔ - احتمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، واحْتَمَلَه وحَمَلَه، وقال تعالی: فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17]- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔- تحمل واحتمل وحمل اس کے مطاوع آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] پھر نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا ۔- زبد - الزَّبَدُ : زَبَدُ الماء، وقد أَزْبَدَ ، أي : صار ذا زَبَدٍ ، قال : فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفاءً [ الرعد 17] ، والزُّبْدُ اشتقّ منه لمشابهته إيّاه في اللّون، وزَبَدْتُهُ زَبَداً : أعطیته مالا کالزّبد کثرة، وأطعمته الزُّبْدَ ، والزَّبَادُ : نور يشبهه بياضا .- ( ( زب د ) الزبد - جھاگ کو کہتے ہیں اور ازبد الماء کے معنی ہیں پانی کے اوپر جھاگ آگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ - فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفاءً [ الرعد 17] سو جھاگ تو رائیگاں جاتا ہے ۔ پھر محض رنگ میں مشابہت کی وجہ سے مسکہ کو بھی زبد کہا جاتا ہے - ربو - رَبْوَة ورِبْوَة ورُبْوَة ورِبَاوَة ورُبَاوَة، قال تعالی:إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ- [ المؤمنون 50] ، قال (أبو الحسن) : الرَّبْوَة أجود لقولهم ربی - فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] ، فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً- [ الحاقة 10] ،- ( ر ب و ) ربوۃ - ( مثلثلہ الراء ) ورباوۃ ( بفتح الرء وکسر ھما ) بلند جگہ یا ٹیلے کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو ٹھہر نے کے قابل اور شاداب ( بھی تھی ) ابوا حسن نے کہا ہے کہ ربوۃ کا لفظ زیادہ جید ہے ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] پھر نالے پر پھولا ہوا اجھاگ آگیا ۔- وقد - يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ- [ آل عمران 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ- ( و ق د )- وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ - حلی - الحُلِيّ جمع الحَلْي، نحو : ثدي وثديّ ، قال تعالی: مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] ، يقال : حَلِيَ يَحْلَى «4» ، قال اللہ تعالی: يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف 31] ،- ( ح ل ی ) الحلی - ( زیورات ) یہ حلی کی جمع ہے جیسے ثدی کی جمع ثدی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] اپنے زیور کا ایک بچھڑا ( بنالیا ) وہ ایک جسم ( تھا ) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی حلی یحلٰی آراستہ ہونا اور حلی آراستہ کرنا ) قرآن میں ہے ۔ يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف 31] ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔- وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 21] اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ اور حلیتہ کے معنی زیور کے ہیں ۔- باطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ اور باطل کا لفظ قول وفعل دونوں پہ بولا جاتا ہے ۔- جفأ - قال تعالی: فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفاءً [ الرعد 17] ، وهو ما يرمي به الوادي أو القدر من الغثاء إلى جو انبه .- ( ج ف و ) الجفاء - وہ کوڑا کرکٹ جو وادی کے دونوں کناروں پر وہ جاتا ہے ہانڈی کا میل کچیل جو ابال آنے سے ادھر ادھر گر جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے اجفاء تالقدر زبدھا ہینڈیا نے اپنا ابال کر پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفاءً [ الرعد 17] سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے ۔ اور بےفائدہ اور بےکار چیز کو بھی جفاء کہا جاتا ہے - مكث - المکث : ثبات مع انتظار، يقال : مَكَثَ مکثا . قال تعالی: فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ، وقرئ : مکث «5» ، قال : إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] ، قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29]- ( م ک ث ) المکث - کسی چیز کے انتظار میں ٹھہرے رہنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔ ایک قرات میں مکث ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] تم ہمیشہ ( اسی حالت میں ) رہو گے ۔ قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29] تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ تم یہاں ٹھہرو ۔ - ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔
(١٧) اب اللہ تعالیٰ حق و باطل کے امتیاز کو ایک مثال سے سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبریل امین قرآن کریم اتارا اور اس قرآن پاک میں حق اور باطل کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا تو روشن دلوں نے اپنی وسعت اور اپنے نور کے اعتبار سے قرآن حکیم کو اپنے سینوں میں جگہ دے لی اور اندھیرے والے دل اپنی باطل خواہشوں کے پیروکار ہوئے۔- اور اس پانی کی طرح اللہ تعالیٰ دوسری مثال بیان فرماتے کہ سونے اور چاندی کو جس وقت آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں تو دریائی جھاگوں کے اوپر جو میل کچیل اوپر آجاتا ہے اسی طرح اس میں بھی آجاتا ہے تو حق سونے اور چاندی کی طرح ہے کہ جیسے سونے چاندی کو نفع حاصل کرنے اور زیور بنانے کے لیے تباتے ہیں اسی طرح حق سے صاحب حق نفع حاصل کرتا ہے اور باطل سونے چاندی کے میل کچیل کی طرح ہے جیسا کہ وہ کسی کام میں نہیں آتا، اسی طرح باطل سے بھی اہل باطل نفع نہیں حاصل کرسکتے۔- اور اسی طرح لوہے اور پیتل میں بھی تپانے سے میل اوپر آجاتا ہے تو حق لوہے اور پیتل کی طرح ہے جیسا کہ یہ چیزیں کام میں آتی ہیں اسی طرح حق سے بھی نفع پہنچتا ہے اور جیسا کہ ان کا میل کچیل کسی کام کا نہیں ہوتا، اسی طرح باطل سے بھی کسی قسم کا کوئی نفع نہیں ملتا تو میل کچیل پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح باطل بھی کارآمد نہیں اور نفع کی چیزیں وہ خالص پانی، سونا چاندی اور لوہا، پتیل ہے کہ دنیا میں ان سے نفع حاصل ہوتا ہے ایسے ہی حق سے نفع حاصل کیا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ اور باطل کی مثالیں بیان فرماتے ہیں۔
آیت ١٧ (اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَا)- قرآن چونکہ حجاز میں نازل ہورہا تھا اس لیے اس میں زیادہ تر مثالیں بھی اسی سرزمین سے دی گئی ہیں۔ اس مثال میں بھی علاقہ حجاز کے پہاڑی سلسلوں اور وادیوں کا ذکر ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو ہر وادی میں اس کی وسعت کے مطابق سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کسی وادی کا زیادہ ہے تو وہاں زیادہ زوردار سیلاب آجاتا ہے اور جس کا کم ہے وہاں تھوڑا سیلاب آجاتا ہے۔- (فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا)- پانی جب زور سے بہتا ہے تو اس کے اوپر جھاگ سا بن جاتا ہے۔ لیکن اس جھاگ کی کوئی حقیقت اور وقعت نہیں ہوتی۔- (كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ )- اس کا دوسرا ترجمہ یوں ہوگا : ” اسی طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ “- (فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاۗءً )- جھاگ کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہوتی اصل نتائج کے اعتبار سے اس کا ہونا یا نہ ہونا گویا برابر ہے۔- (وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ )- سیلاب کا پانی زمین میں جذب ہو کر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جبکہ جھاگ ضائع ہوجاتا ہے اسی طرح پگھلی ہوئی دھات کے اوپر پھولا ہواجھاگ اور میل کچیل فضول چیز ہے اصل خالص دھات اس جھاگ کے نیچے کٹھالی کی تہہ میں موجود ہوتی ہے جس سے زیور یا کوئی دوسری قیمتی چیز بنائی جاتی ہے۔- (كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ )- یہ آیت کارل مارکس کے کے فلسفے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اس فلسفے کا جتنا حصہ درست ہے وہ اس آیت میں موجود ہے۔ دور جدید کے یہ جتنے بھی نظریے ( ) ہیں ان میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ سچائی موجود ہے۔ ڈارون کا نظریۂ ارتقاء ہو یا فرائیڈ اور مارکس کے نظریات ان میں سے کوئی بھی سو فیصد غلط نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان نظریات میں غلط اور درست خیالات گڈ مڈ ہیں۔ جہاں تک مارکس کے نظریہ جدلیاتی مادیت ) ( کا تعلق ہے اس کے مطابق کسی معاشرے میں ایک خیال یا نظریہ جنم لیتا ہے جس کو کہا جاتا ہے۔ اس کے ردِّعمل کے طور پر اینٹی تھیسس ( ) وجود میں آتا ہے۔ پھر یہ تھیسس اور اینٹی تھیسس ٹکراتے ہیں اور ان کے ٹکرانے سے ایک نئی شکل پیدا ہوتی ہے جسے سِن تھیسس ( ) کہا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ اس نظریہ کی بہتر شکل ہوتی ہے مگر یہ بھی اپنی جگہ کامل نہیں ہوتی اس کے اندر بھی نقائص موجود ہوتے ہیں۔ چناچہ اسی سن تھیسس کی کو کھ سے ایک اور اینٹی تھیسس جنم لیتا ہے۔ ان کا پھر آپس میں اسی طرح ٹکراؤ ہوتا ہے اور پھر ایک نیا سن تھیسس وجود میں آتا ہے۔ یہ عمل ( ) اسی طرح بتدریج آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس تصادم میں جو چیز فضول غلط اور بیکار ہوتی ہے وہ ضائع ہوتی رہتی ہے مگر جو علم اور خیال معاشرے اور نسل انسانی کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔- دور جدید کے بیشتر نظریے ( ) ایسے لوگوں کی تخلیق ہیں جن کے علم اور سوچ کا انحصار کلی طور پر مادے پر تھا۔ یہ لوگ روح اور اس کی حقیقت سے بالکل نابلد تھے۔ بنیادی طور پر یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں کے اخذ کردہ نتائج اکثر و بیشتر غلط اور گمراہ کن تھے۔ بہرحال اس سارے عمل ( ) میں غلط اور باطل خیالات و مفروضات خود بخود چھٹتے رہتے ہیں اور نسل انسانی کے لیے مفید علوم کی تطہیر ( ) ہوتی رہتی ہے۔ سورة الانبیاء کی آیت ١٨ میں یہ حقیقت اس طرح واضح کی گئی ہے : (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ) ” ہم دے مارتے ہیں حق کو باطل پر ‘ تو وہ باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے ‘ پھر وہ (باطل) غائب ہوجاتا ہے “۔ حق و باطل اور خیر و شر کی اس کش مکش کے ذریعے سے گویا نسل انسانی تدریجاً تمدن اور ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے رفتہ رفتہ بہتری کی طرف آرہی ہے۔ - علامہ اقبال کے مطابق نسل انسانی کے لیے کامل بہتری یا حتمی کامیابی اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کی تعمیل میں پوشیدہ ہے جس کا کامل عملی نمونہ اس دنیا میں پندرہ سو سال پہلے نبی آخر الزماں نے پیش کیا تھا۔ ارتقاء فکر انسانی کے سفر کے نام پر انسانی تمدن کے چھوٹے بڑے تمام قافلے شعوری یا غیر شعوری طور پر اسی مینارۂ نور ( ) کی طرف رواں دواں ہیں۔ اگر کسی ماحول میں روشنی کی کوئی کرن اجالا بکھیرتی نظر آتی ہے تو وہ اسی منبع نور کی مرہون منت ہے۔ اور اگر کسی ماحول کے حصے کی تاریکیاں ابھی تک گہری ہیں تو جان لیجئے کہ وہ اپنی اس فطری اور حتمی منزل سے ہنوز دور ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں :- ہر کجا بینی جہان رنگ و بو - زانکہ از خاکش بروید آرزو - یاز نور مصطفٰے اور ابہاست - یا ہنوز اندر تلاش مصطفے ٰ است
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :31 اس تمثیل میں اس علم کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے سے نازل کیا گیا تھا ، آسمانی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ان ندی نالوں کے مانند ٹھیرایا گیا ہے جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق باران رحمت سے بھرپور ہو کر رواں دواں ہو جاتے ہیں ۔ ۔ اور اس ہنگامہ و شورش کو جو تحریک اسلامی کے خلاف منکرین و مخالفین نے برپا کر رکھی تھی اس جھاگ اور اس خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہمیشہ سیلاب کے اٹھتے ہی سطح پر اپنی اچھل کود دکھانی شروع کر دیتا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :32 یعنی بھٹی جس کام کے لیے گرم کی جاتی ہے وہ تو ہے خالص دھات کو تپا کر کارآمد بنانا ۔ مگر یہ کام جب بھی کیا جاتا ہے میل کچیل ضرور ابھر آتا ہے اور اس شان سے چرخ کھاتا ہے کہ کچھ دیر تک سطح پر بس وہی وہ نظر آتا رہتا ہے ۔
20: یعنی باطل، چاہے کچھ عرصے غالب نظر آئے لیکن وہ جھاگ کی طرح بے فائدہ اور فنا ہوجانے والا ہے اور حق پانی اور دوسری نفع بخش چیزوں کی طرح فائدہ مند اور باقی رہنے والا ہے