Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ذوالقرنین نیکوں بدوں کا انجام بیان ہو رہا ہے ۔ اللہ رسول کو ماننے والے ، احکام کے پابند ، خبروں پر یقین رکھنے والے تو نیک بدلہ پائیں گے ۔ ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ظلم کرنے والے کو ہم بھی سزا دیں گے اور اللہ کے ہاں بھی سخت عذاب دیا جائے گا اور ایماندار اور نیک اعمال لوگ بہترین بدلہ پائیں گے اور ہم بھی ان سے نرمی کی باتیں کریں گے ۔ اور آیت میں فرمان ربی ہے نیکوں کے لئے نیک بدلہ ہے اور زیادتی بھی ۔ پھر فرماتا ہے جو لوگ اللہ کی باتیں نہیں مانتے یہ قیامت کے دن ایسے عذابوں کو دیکھیں گے کہ اگر ان کے پاس ساری زمین بھر کر سونا ہو تو وہ اپنے فدیے میں دینے کے لئے تیار ہو جائیں بلکہ اس جتنا اور بھی ۔ مگر قیامت کے روز نہ فدیہ ہوگا ، نہ بدلہ ، نہ عوض ، نہ معاوضہ ۔ ان سے سخت باز پرس ہو گی ایک ایک چھلکے اور ایک ایک دانے کا حساب لیا جائے گا حساب میں پورے نہ اتریں کم تو عذاب ہو گا ۔ جہنم ان کا ٹھکانا ہو گا جو بدترین جگہ ہو گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یہ مضمون اس سے قبل بھی دو تین جگہ گزر چکا ہے۔ 18۔ 2 کیونکہ ان سے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لیا جائے گا اور ان کا معاملہ (جس سے حساب میں جرح کی گئی اس کا بچنا مشکل ہوگا، وہ عذاب سے دو چار ہو کر ہی رہے گا) آئینہ دار ہوگا۔ اسی لئے آگے فرمایا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] دنیا کی زندگی میں ان کے لیے بھلائی یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کی طرف سے ایسی ہدایات اور احکام مل جاتے ہیں جن میں اس شخص کے دینی یا دنیوی مصالح مضمر ہوتے ہیں۔ دوسری بھلائی یہ ہوتی ہے کہ اسے قلبی اطمینان اور حقیقی خوشی میسر آجاتی ہے اور آخرت میں جو اس سے بہتر سلوک ہوگا وہ تو ان چیزوں سے بھی زیادہ یقینی اور پائیدار ہوگا۔- [٢٧] آسان حساب کیسے لیا جائے گا اور سخت کیسے ؟ جو لوگ اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ مختلف حیلوں سے ان کے چھوٹے چھوٹے گناہ دنیا میں ہی ختم ہوتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ مومن کو اگر ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پھر ان کے نیک اعمال سے چھوٹے گناہ ختم کردیئے جاتے ہیں اور اس مضمون پر بیشمار آیات و احادیث شاہد ہیں۔ پھر جب وہ آخرت میں اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ میں دئیے جائیں گے اور تمام اچھے اور برے اعمال سے آگاہ کیا جائے گا، لیکن ان سے کوئی سختی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کی کچھ چھان بین ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : قیامت کے دن جس شخص سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا میں نے کہا : یارسول اللہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، اس سے جلد ہی آسان سا حساب لیا جائے گا (٨٤: ٨) آپ نے فرمایا : یہ محض پیشی ہوگی۔ انھیں ان کے اعمال بتا دئیے جائیں گے اور جس کے حساب کی تحقیق شروع ہوگئی، سمجھ لو کہ وہ مارا گیا (بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب العلم، باب من سمع شیأا فلم یفھمہ) - اور جن لوگوں نے حق کو ٹھکرا دیا۔ ان کا پوری سختی سے حساب لیا جائے گا اور برے حساب سے یہی مراد ہے۔ اس کے چھوٹے اور بڑے سب گناہ کی تحقیق اور باز پرس ہوگی۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آقا کو اگر اپنے ملازم کے متعلق یہ اعتماد ہو کہ وہ اس کا وفادار اور دیانتدار ہے تو مالک اس کی چھوٹی موٹی لغزشوں اور غلطیوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ لیکن اگر آقا کو ملازم کی وفاداری کا ہی اعتماد نہ ہو تو وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر اس سے مزید باز پرس کرے گا یہی حال منکرین حق کا ہوگا اور انھیں اپنی نجات کی کوئی صورت نظر نہ آئے گی۔ چناچہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب پانے والے دوزخی سے پوچھیں گے : اگر تیرے پاس ساری دنیا کا مال موجود ہو تو کیا تو اسے اپنے فدیہ میں دینا پسند کرے گا ؟ وہ جواب دے گا ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جب تو انسانی شکل میں تھا، اس وقت تو میں نے تم سے اس سے آسان بات کا مطالبہ کیا تھا۔ (یعنی توحید پر قائم رہنا) اور کہا تھا کہ پھر میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ، باب طلب الکافر الفدائملء الارض ذھبا۔۔ )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا : ” الْحُسْنٰى“ ” اَلْاَحْسَنُ “ کی مؤنث ہے، بمعنی سب سے اچھی، جیسے ” حَسَنٌ“ اور ” اَحْسَنُ “ ہے، اسی طرح ” حَسَنَۃٌ“ اور ” حُسْنٰی “ ہے، اس کا موصوف محذوف ہے، یعنی ” اَلْجَزَاءُ الْحُسْنٰی “ کہ رب کی بات قبول کرنے والوں کے لیے سب سے اچھی جزا، یعنی جنت ہے۔ ” وَالَّذِيْنَ لَمْ يَسْتَجِيْبُوْا “ مبتدا ہے اور ” لَوْ اَنَّ لَهُمْ “ پورا جملہ شرطیہ اس کی خبر ہے، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ حق سے عناد رکھتے ہیں قیامت کے دن ان جو پر مصیبت آئے گی وہ اس سے رہائی کے لیے اس قدر مال و دولت کی بھی پروا نہیں کریں گے اور فدیہ میں دینے کو تیار ہوجائیں گے۔- اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ : یہ اس کے مقابلے میں ہے جو فرمایا تھا کہ اپنے رب کی بات قبول کرنے والوں کے لیے بھلائی (بہترین بدلہ) ہے، یعنی یہ دعوت قبول نہ کرنے والوں کا بہت برا حساب ہوگا، انھیں کسی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی اور ان کے ایک ایک گناہ پر بری طرح محاسبہ ہوگا۔ یہی مناقشہ فی الحساب ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ حُوْسِبَ عُذِّبَ ، قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَقُلْتُ أَوَ لَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی : (فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَّسِیْراً ) [ الإنشقاق : ٨ ] قَالَتْ ، فَقَالَ إِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ ، وَلَکِنْ مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ یَھْلِکْ ) [ بخاري، العلم، باب من سمع شیءًا فراجع ۔۔ : ١٠٣ ] ” جس کا حساب کیا گیا اسے عذاب دیا جائے گا۔ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس پر میں نے عرض کیا : ” اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا : (فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَّسِیْراً ) یعنی جسے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا گیا اس کا حساب آسان ہوگا (مطلب یہ ہے کہ یہاں حساب کے باوجود عذاب نہیں ہوگا تو اس کا مطلب کیا ہے) ؟ “ فرماتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ صرف پیش کیا جانا ہے اور لیکن جس سے مناقشہ ہوا (یعنی ایک ایک چیز کی پڑتال ہوئی) وہ ہلاک ہوجائے گا۔ “ - وَبِئْسَ الْمِهَادُ : مہد اور مہاد اصل میں بچے کے لیے تیار کردہ جگہ کو کہتے ہیں، گود ہو یا بچھونا، اسی طرح ہر اچھی طرح آرام کے لیے بنائی ہوئی جگہ کو مہاد کہتے ہیں۔ آپ سوچیں کہ بچے کو آرام کے لیے آگ پر لٹا دیا جائے تو اس کا کیا حال ہوگا ؟ اسی طرح اللہ کی دعوت قبول نہ کرنے والے کی آرام گاہ جہنم ہوگی۔ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْھَا ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جن لوگوں نے اپنے رب کا کہنا مان لیا (اور توحید اور اطاعت کو اختیار کرلیا) ان کے واسطے اچھا بدلہ (یعنی جنت مقرر) ہے اور جن لوگوں نے اس کا کہنا نہ مانا (اور کفر و معصیت پر قائم رہے) ان کے پاس (قیامت کے دن) اگر تمام دنیا بھر کی چیزیں (موجود) ہوں اور (بلکہ) اس کے ساتھ اسی کے برابر اور بھی (مال و دولت) ہو تو سب اپنی رہائی کے لئے دے ڈالیں ان لوگوں کا سخت حساب ہوگا ( جس کو دوسری آیت میں حساب عسیر فرمایا ہے) اور ان کا ٹھکانا (ہمیشہ کے لئے) دوزخ ہے اور وہ بری قرار گاہ ہے جو شخص یہ یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے وہ سب حق ہے کیا ایسا شخص اس کی طرح ہوسکتا ہے جو کہ (اس علم سے محض) اندھا ہے (یعنی کافر ومؤ من برابر نہیں) پس نصیحت تو سمجھدار ہی لوگ قبول کرتے ہیں (اور) یہ (سمجھدار) لوگ ایسے ہیں کہ اللہ سے جو کچھ انہوں نے عہد کیا ہے اس کو پورا کرتے ہیں اور (اس) عہد کو توڑتے نہیں اور یہ ایسے ہیں کہ اللہ نے جن علاقوں کے قائم رکھنے کا حکم کیا ہے ان کو قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت عذاب کا اندیشہ رکھتے ہیں (جو کفار کے ساتھ خاص ہوگا اس لئے کفر سے بچتے ہیں) اور یہ لوگ ایسے ہیں کہ اپنے رب کی رضا مندی کے جو یہاں رہ کر (دین حق پر) مضبوط رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو روزی دی ہے اس میں سے چپکے بھی اور ظاہر کر کے بھی (جیسا موقع ہوتا ہے) خرچ کرتے ہیں اور (لوگوں کی) بدسلوکی (جو ان کے ساتھ کی جاوے) حسن سلوک سے ٹال دیتے ہیں (یعنی کوئی ان کے ساتھ بدسلوکی کرے تو کچھ خیال نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں) اس جہان میں (یعنی آخرت میں) نیک انجام ان لوگوں کے واسطے ہے یعنی ہمیشہ رہنے کی جنتیں جن میں وہ لوگ بھی داخل ہوں گے اور ان کے ماں باپ اور بیبیوں اور اولاد میں جو (جنت کے) لائق (یعنی مؤ من) ہوں گے (گو ان موصوفین کے درجہ کے نہ ہوں) وہ بھی (جنت میں انکی برکت سے انہی کے درجوں میں) داخل ہوں گے اور فرشتے ان کے پاس ہر (سمت کے) دروازہ سے آتے ہوں گے (اور یہ کہتے ہوں گے) کہ تم (ہر آفت اور خطرہ سے) صحیح سلامت رہو گے بدولت اس کے کہ تم (دین حق پر) مضبوط رہے تھے سو اس جہان میں تمہارا انجام بہت اچھا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى ڼ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ ۭاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ ڏ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ 18۝ۧ- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] .- ( ج و ب ) الجوب - الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً- [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی:- فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم .- نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - مهد - المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] ، ومِهاداً [ النبأ 6] - م ھ د ) المھد - ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا :

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) یعنی جو دنیا میں توحید کے قائل ہوگئے ان کو آخرت میں جنت ملے گی اور جو توحید خداوندی کے قائل نہیں ہوئے تو ان کے پاس اگر تمام دنیا کی دولت ہو بلکہ اس کے ساتھ اسی کے برابر اور بھی ہو یہ سب کا سب اپنی جانوں کی رہائی کے لیے دے ڈالیں تب بھی ان لوگوں پر سخت عذاب ہوگا اور ان کے لوٹنے کی جگہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانا اور لوٹنے کا برا مقام ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ ڏ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ )- یعنی ان کے حساب کا جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ ان کے حق میں بہت برا ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :33 یعنی اس وقت ان پر ایسی مصیبت پڑے گی کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے دنیا و مافیہا کی دولت دے ڈالنے میں بھی تامل نہ کریں گے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :34 بری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی کسی خطا اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے ، کوئی قصور جو اس نے کیا ہو مؤاخذے کے بغیر نہ چھوڑا جائے ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اس طرح کا محاسبہ اپنے ان بندوں سے کرے گا جو اس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں ۔ بخلاف اس کے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے اور اس کے مطیع فرمان بن کر رہے ہیں ان سے حساب یسیر یعنی ہلکا حساب لیا جائے گا ، ان کی خدمات کے مقابلے میں ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور ان کے مجموعی طرز عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر ان کی بہت سی کوتاہیوں سے صرف نظر کر لیا جائے گا ۔ اس کی مزید توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ابوداؤد میں مروی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے نزدیک کتاب اللہ کی سب سے زیادہ خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ من یعمل سوء یجز بہ ، جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا ، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع فرمان بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے ، حتی کہ اگر کوئی کانٹا بھی اس کو چبھتا ہے ، تو اللہ اسے اس کے کسی نہ کسی قصور کی سزا قرار دے کر دنیا ہی میں اس کا حساب صاف کر دیتا ہے؟ آخرت میں تو جس سے بھی محاسبہ ہوگا وہ سزا پاکر رہے گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا پھر اللہ تعالی کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ فاما من اوتی کتابہ بیمیینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا ، حضور نے جواب دیا ، اس سے مراد ہے پیشی یعنی اس کی بھلائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی اللہ تعالی کے سامنے ضرور پیش ہوں گی ، مگر جس سے باز پرس ہوئی وہ تو بس سمجھ لو کہ مارا گیا ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص اپنے وفادار ملازم کی چھوٹی چھوٹی خطاؤں پر کبھی سخت گرفت نہیں کرتا بلکہ اس کے بڑے بڑے قصوروں کو بھی اس کی خدمات کے پیش نظر معاف کر دیتا ہے ۔ لیکن اگر کسی ملازم کی غداری وخیانت ثابت ہوجائے تو اس کی کوئی خدمت قابل لحاظ نہیں رہتی اور اس کے چھوٹے بڑے سب قصور شمار میں آجاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani