Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایک موازنہ ارشاد ہوتا ہے کہ ایک وہ شخص جو اللہ کے کلام کو جو آپ کی جانب اترا سراسر حق مانا ہو ، سب پر ایمان رکھتا ہو ، ایک کو دوسرے کی تصدیق کرنے والا اور موافقت کرنے والا جانا ہو ، سب خبروں کو سچ جانتا ہو ، سب حکموں کو مانتا ہو ، سب برائیوں کو جانتا ہو ، آپ کی سچائی کا قائل ہو ۔ اور دوسرا وہ شخص جو نابینا ہو ، بھلائی کو سمجھتا ہی نہیں اور اگر سمجھ بھی لے تو مانتا نہ ہو ، نہ سچا جانتا ہو ، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ جیسے فرمان ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ۔ جنتی خوش نصیب ہیں ، یہی فرمان یہاں ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ۔ باب یہ ہے کہ بھلی سمجھ سمجھ داروں کی ہی ہوتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہوگیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہوسکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے 19۔ 2 یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کرلیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کرسکتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨] یعنی ایک شخص اللہ کی نازل کردہ ہدایات کو حق سمجھ کر اپنی پوری زندگی اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے، حرام و حلال کی تمیز کرتا ہے۔ ظلم و زیادتی سے بچتا اور اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اور دوسرا شخص محض اپنے مفادات کے پیچھے پڑا رہا ہے اور اس غرض کے لیے وہ ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے اختیار کرتا، لوگوں کے حقوق غصب کرتا اور ان پر ظلم و زیادتی کرتا رہتا ہے۔ کیا یہ دونوں ایک جیسے ہوسکتے ہیں ؟ یا ان کا طرز عمل ایک جیسا ہوگا ؟ مگر یہ بات تو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو کچھ عقل و فکر سے کام لیتے ہیں اور خود اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر گامزن ہیں :

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ ۔۔ : یہاں یہ کہنے کے بجائے کہ کیا وہ شخص جو جانتا ہے اس شخص کی طرح ہے جو نہیں جانتا، یوں فرمایا کہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے ؟ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اللہ کی طرف سے آنے والی نشانیاں آنکھوں سے نظر آرہی ہیں، جو ان کا علم اور یقین نہیں رکھتا درحقیقت وہ اندھا ہے اور اس کا یہ اندھا پن قیامت کو اچھی طرح ظاہر ہوجائے گا۔ دیکھیے سورة طہ (١٢٤ تا ١٢٦) یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔” اُولُوا “ ” ذُوْ “ کی جمع ہے، بمعنی والے۔ ” الْاَلْبَابِ “ ” لُبٌّ“ کی جمع ہے، ہر چیز میں سے جو خالص ہو، خالص عقل جو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو۔ (مفردات) اس لیے ترجمہ ” عقل والوں “ کے بجائے ” عقلوں والے “ کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ نصیحت صرف خالص اور پاکیزہ عقل والے حاصل کرتے ہیں، الٹے دماغ والے نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- پچھلی آیتوں میں حق و باطل کو مثالوں کے ذریعہ واضح کیا گیا تھا مذکورہ آیات میں اہل حق اور اہل باطل کی علامات وصفات اور ان کے اچھے اور برے اعمال اور ان کے جزاء سزا کا بیان ہے۔- پہلی آیت میں احکام ربانی کی تعمیل و اطاعت کرنے والوں کے لئے اچھے بدلے کا اور نافرمانی کرنے والوں کے لئے عذاب شدید کا ذکر ہے - دوسری آیت میں ان دونوں کی مثال بینا اور نابینا سے دی گئی ہے اور اس کے آخر میں فرمایا اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَاب یعنی اگرچہ بات واضح ہے مگر اس کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو عقل والے ہیں جن کی عقلیں غفلت و معصیت نے بیکار کر رکھی ہیں وہ اتنے بڑے عظیم فرق کو بھی نہیں سمجھتے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ 19۝ۙ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا - لب - اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا .- ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269]- ( ل ب ب ) اللب - کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) جو شخص قرآن کریم کی حقانیات کی تصدیق کرتا ہو تو کیا یہ مومن کافر کی طرح ہوسکتا ہے، سو قرآن کریم سے نصیحت تو سمجھدار ہی لوگ قبول کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :35 یعنی نہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :36 یعنی خدا کی بھیجی ہوئی اس تعلیم اور خدا کے رسول کی اس دعوت کو جو لوگ قبول کیا کرتے ہیں وہ عقل کے اندھے نہیں بلکہ ہوش گوش رکھنے والے بیدار مغز لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ اور پھر دنیا میں ان کی سیرت و کردار کا وہ رنگ اور آخرت میں ان کا وہ انجام ہوتا ہے جو بعد کی آیتوں میں بیان ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani