سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ : ” سَلٰمٌ“ کا مطلب ہے کہ اب تم ہر مصیبت، رنج و غم اور پریشانی سے محفوظ ہوگئے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے اس کی مناسبت سے عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ھَلْ تَدْرُوْنَ أَوَّلَ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ ؟ قَالُوْا اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ أَوَّلُ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ الْفُقَرَاءُ وَالْمُھَاجِرُوْنَ الَّذِیْنَ تُسَدُّ بِھِمُ الثُّغُوْرُ وَیُتَّقٰی بِھِمُ الْمَکَارِہُ ، وَ یَمُوْتُ أَحَدُھُمْ وَ حَاجَتُہُ فِيْ صَدْرِہِ ، لاَ یَسْتَطِیْعُ لَہَا قَضَاءً ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ یَشَاءُ مِنْ مَلاَءِکَتِہِ إءْتُوْہُمْ فَحَیُّوْہُمْ فَتَقُوْلُ الْمَلاَءِکَۃُ نَحْنُ سُکَّانُ سَمَاءِکَ وَ خَیْرَتُکَ مِنْ خَلْقِکَ ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَّأْتِیَ ہٰؤُلاَءِ فَنُسَلِّمَ عَلَیْہِمْ ؟ قَالَ إِنَّہُمْ کَانُوْا عِبَادًا یَعْبُدُوْنِيْ ، لاَ یُشْرِکُوْنَ بِيْ شَیْءًا، وَ تُسَدُّ بِہِمُ الثُّغُوْرُ وَ یُتَّقَی بِہِمُ الْمَکَارِہُ ، وَ یَمُوْتُ أَحَدُہُمْ وَ حَاجَتُہُ فِيْ صَدْرِہِ ، لاَ یَسْتَطِیْعُ لَہَا قَضَاءً ، قَالَ فَتَأْتِیْہِمُ الْمَلاَءِکَۃُ عِنْدَ ذٰلِکَ ، فَیَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ : (سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ) [ مسند أحمد : ٢؍١٦٨، ح : ٦٥٧٨۔ ابن حبان : ٧٤٢١۔ قال شعیب الأرنؤط و إسنادہ جید ] ” کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے ؟ “ لوگوں نے کہا : ” اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ “ فرمایا : ” اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے فقراء اور مہاجرین داخل ہوں گے، جن کے ذریعے سے سرحدیں محفوظ کی جاتی تھیں اور ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا اور ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں باقی ہوتی تھی، وہ اسے پورا نہیں کرسکتا تھا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں میں سے جنھیں چاہے گا حکم دے گا کہ ان کے پاس جاؤ اور انھیں سلام کرو۔ فرشتے کہیں گے : ” ہم تیرے آسمان کے رہنے والے اور تیری مخلوق میں سے تیرے چنے ہوئے ہیں، کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں اور انھیں سلام پیش کریں۔ “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” یہ میرے بندے تھے، میری بندگی کرتے تھے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے تھے، ان کے ساتھ سرحدیں محفوظ رکھی جاتی تھیں اور ان کے ذریعے سے ناپسندیدہ حالات سے بچا جاتا تھا، ان میں سے کوئی فوت ہوتا تو اس حال میں کہ اس کی دلی خواہش اس کے سینے ہی میں ہوتی، وہ اسے پورا نہیں کرسکتا تھا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” چناچہ فرشتے اس وقت ان کے پاس آئیں گے اور ہر دروازے سے ان کے پاس داخل ہوں گے (اور کہیں گے) : ” سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا، سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔ “ - بِمَا صَبَرْتُمْ ۔۔ : معلوم ہوا ایمان قبول کرنے کے بعد ہر حکم بجا لانے پر ہمیشگی، ہر برائی سے اجتناب، اللہ کی ہر تقدیر پر قناعت کرتے ہوئے ہر مصیبت و راحت میں اللہ تعالیٰ پر خوش رہنا، غرض دین کی ہر بات پر استقامت کی بنیاد صبر ہی ہے اور اس کی جزا کا بھی کوئی حساب نہیں، فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر بغیر حساب دیا جائے گا۔ “
٦ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ سے معلوم ہوا کہ آخرت کی نجات اور درجات عالیہ سب اس کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ انسان دنیا میں صبر سے کام لے اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق کو ادا کرنے اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے پر اپنے نفس کو مجبور کرتا رہے
سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ 24ۭ- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - نعم - و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40]- ( ن ع م ) النعمۃ - نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے - عقبي - والعُقْبُ والعُقْبَى يختصّان بالثّواب نحو : خَيْرٌ ثَواباً وَخَيْرٌ عُقْباً [ الكهف 44] ، وقال تعالی: أُولئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ [ الرعد 22] ، والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] - ( ع ق ب ) العقب والعقیب - العقب والعقبی خاص کر ثواب یعنی اچھے بدلے پر بولے جاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ خَيْرٌ ثَواباً وَخَيْرٌ عُقْباً [ الكهف 44] اس کا صلہ بہتر اور ( اس کا ) بدلہ اچھا ہے ۔ أُولئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ [ الرعد 22] یہی لوگ ہیں جن کے لئے عافیت کا گھر ہے ۔ ۔ اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔
آیت ٢٤ (سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ )- جنت میں اپنے آباء و اَجداد اور اہل و عیال میں سے صالح لوگوں کی معیت گویا اللہ کی طرف سے اپنے نیک بندوں کے لیے ایک اعزاز ہوگا اور اس کے لیے اگر ضرورت ہوئی تو ان کے ان رشتہ داروں کے درجات بھی بڑھا دیے جائیں گے۔ مگر یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اہل جنت کے جو قرابت دار کفار اور مشرکین تھے ان کے لیے رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی بلکہ اس رعایت سے صرف وہ اہل ایمان مستفیض ہوں گے جو ” صالحین “ کی پر پہنچ چکے ہوں گے۔ یعنی سورة النساء ‘ آیت ٦٩ میں جو مدارج بیان ہوئے ہیں ان کے اعتبار سے جو مسلمان کم سے کم درجے کی جنت میں داخلے کا مستحق ہوچکا ہوگا اس کے مدارج اس کے کسی قرابت دار کی وجہ سے بڑھا دیے جائیں گے جو جنت میں اعلیٰ مراتب پر فائز ہوگا۔ مثلاً ایک شخص کو جنت میں بہت اعلیٰ مرتبہ عطا ہوا ہے اب اس کا باپ ایک صالح مسلمان کی پر پہنچ کر جنت میں داخل ہونے کا مستحق تو ہوچکا ہے مگر جنت میں اس کا درجہ بہت نیچے ہے تو ایسے شخص کے مراتب بڑھا کر اسے اپنے بیٹے کے ساتھ اعلیٰ درجے کی جنت میں پہنچا دیاجائے گا۔