Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مومنین کی صفات مومنوں کی صفتیں اوپر بیان ہوئیں کہ وہ وعدے کے پورے ، رشتوں ناتوں کے ملانے والے ہوتے ہیں ۔ پھر ان کا اجر بیان ہوا کہ وہ جنتوں کے مالک بینں گے ۔ اب یہاں ان بدنصیبوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ان کے خلاف خصائل رکھتے تھے نہ اللہ کے وعدوں کا لحاظ کرتے تھے نہ صلہ رحمی اور احکام الہٰی کی پابندی کا خیال رکھتے تھے یہ لعنتی گروہ ہے اور برے انجام والا ہے ۔ حدیث میں ہے منافق کی تین نشانیاں ہیں باتوں میں جھوٹ بولنا ، وعدوں کا خلاف کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ۔ ایک حدیث میں ہے جھگڑوں میں گالیاں بکنا اس قسم کے لوگ رحمت الہٰی سے دور ہیں ان کا انجام برا ہے یہ جہنمی گروہ ہے ۔ یہ چھ خصلتیں ہوئیں جو منافقین سے اپنے غلبہ کے وقت ظاہر ہوتی ہیں باتوں میں جھوٹ ، وعدہ خلافی ، امانت میں خیانت ، اللہ کے عہد کو توڑ دینا اللہ کے ملانے کے حکم کی چیزوں کو نہ ملانا ۔ ملک میں فساد پھیلانا ۔ اور یہ دبے ہوئے ہوتے ہیں تب بھی جھوٹ وعدہ خلافی اور خیانت کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 یہ نیکوں کے ساتھ بروں کا حشر بیان فرما دیا تاکہ انسان اس حشر سے بچنے کی کوشش کرے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] سنت الٰہی کے مطابق یہاں بھی اہل جنت کے ساتھ اہل دوزخ کا ذکر آیا ہے اور ان کی صفات ایسی بیان کی گئی ہیں جو مومنوں کی صفات کے بالکل برعکس ہیں۔ لہذا ان کا انجام بھی اہل جنت کے انجام کے عین ضد ہوگا۔ جنت کے بجائے انھیں دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ اور سلامتی کی دعاؤں کے بجائے ان پر لعنت اور پھٹکار پڑتی رہے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ ۔۔ : قرآن مجید نے اپنے اسلوب کے مطابق کہ وہ ایمان کے ساتھ کفر، نیکی کے ساتھ بدی، جنت کے ساتھ جہنم کا ذکر کرتا ہے، عہد وفا کرنے والوں کی صفات اور ان کے اچھے انجام کے بعد عہد توڑنے والوں کی صفات بد اور ان کا برا انجام ذکر فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور جو لوگ خدا تعالیٰ کے معاہدوں کو ان کی پختگی کے بعد توڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے جن علاقوں کے قائم رکھنے کا حکم فرمایا ہے ان کو قطع کرتے ہیں اور دنیا میں فساد کرتے ہیں ایسے لوگوں پر لعنت ہوگی اور ان کے لئے اس جہان میں خرابی ہوگی (یعنی ظاہری دولت و ثروت کو دیکھ کر یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ یہ لوگ مورد رحمت ہیں کیونکہ رزق کی تو یہ کیفت ہے کہ) اللہ جس کو چاہئے زیادہ رزق دیتا ہے (اور جس کے لئے چاہتا ہے) تنگی کردیتا ہے (رحمت وغضب کا یہ معیار نہیں) اور یہ (کفار) لوگ دنیوی زندگانی پر ( اور اسکے عیش و عشرت پر) اتراتے ہیں اور (ان کا اترانا بالکل فضول اور غلطی ہے کیونکہ) یہ دنیوی زندگی (اور اس کی عیش و عشرت) آخرت کے مقابلہ میں بجز ایک متاع قلیل کے اور کچھ بھی نہیں اور یہ کافر لوگ (آپ کی نبوت میں طعن و اعتراض کرنے کے لئے یوں) کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر) پر کوئی معجزہ (ہمارے فرمائشی معجزوں میں سے) ان کے رب کی طرف سے کیوں نہیں نازل کیا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ واقعی (تمھاری ان بیہودہ فرمائشوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ) اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گمراہ کردیتے ہیں (وجہ معلوم ہونے کی ظاہر ہے کہ باوجود معجزات کافیہ کے جن میں سب سے اعظم قرآن ہے پھر فضول باتیں کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قسمت ہی میں گمراہی لکھی ہے) اور (جس طرح معاندین کو قرآن جو اعظم معجزات ہے ہدایت کے لئے کافی نہ ہوا اور گمراہی ان کو نصیب ہوئی اسی طرح) جو شخص ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے (اور طریق حق کا طالب ہوتا ہے جس کا مصداق آگے آتا ہے (آیت) اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ الخ) اس کو اپنی طرف (رسائی دینے کے لئے) ہدایت کردیتے ہیں (اور گمراہی سے بچا لیتے ہیں) مراد اس سے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے (جس کی بڑی فرد قرآن ہے) ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے (جس کی بڑی فرد ایمان ہے یعنی وہ قرآن اعجاز کو دلالت علی النبوۃ کے لئے کافی سمجھتے ہیں اور واہی تباہی فرمائش نہیں کرتے پھر خدا کی یاد اور اطاعت میں ان کی ایسی رغبت ہوتی ہے کہ متاع حیات دنیا سے مثل کفار کے ان کو رغبت اور فرحت نہیں ہوتی اور) خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر (کی ایسی ہی خاصیت ہے کہ اس) سے دل کو اطمینان ہوجاتا ہے (یعنی جس مرتبے کا ذکر ہو اسی مرتبہ کا اطمینان چناچہ قرآن سے ایمان اور اعمال صالحہ سے اطاعت کا شدت تعلق اور توجہ الی اللہ میسر ہوتا ہے غرض) جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے (جن کا ذکر اوپر ہوا) ان کے لئے (دنیا میں) خوش حالی اور (آخرت میں) نیک انجامی ہے (جس کو دوسری (آیت) میں فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ الخ سے تعبیر فرمایا ہے اسی طرح) ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک ایسی امت میں رسول بنا کر بھیجا ہے کہ اس (امت) سے پہلے اور بہت سی امتیں گذر چکی ہیں (اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی طرف اس لئے رسول بنا کر بھیجا ہے) تاکہ آپ ان کو وہ کتاب پڑھ کر سنا دیں جو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ بھیجی ہے اور (ان کو چاہئے تھا کہ اس نعمت عظمی کی قدر کرتے اور اس کتاب پر کہ وہ معجزہ بھی ہے ایمان لے آتے مگر) وہ لوگ ایسے بڑے رحمت والے کی ناسپاہی کرتے ہیں (اور قرآن پر ایمان نہیں لاتے) آپ فرما دیجئے کہ (تمہارے ایمان نہ لانے سے میرا کوئی ضرر نہیں کیونکہ تم زیادہ سے زیادہ میرے ساتھ مخالفت کرو گے سو اس سے مجھ کو اس لئے اندیشہ نہیں کہ) وہ میرا مربی (اور نگہبانی ہے) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں (پس لامحالہ وہ کامل الصفات ہوگا اور حفاظت کے لئے کافی ہوگا اس لئے) میں نے اسی پر بھروسہ کرلیا اور اسی کے پاس مجھ کو جانا ہے (خلاصہ یہ کہ میری حفاظت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کافی ہے تم مخالفت کر کے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ تمہارا ہی ضرر ہے)- معارف و مسائل :- شروع رکوع میں کل انسانوں کی دو قسم کرکے بتلایا گیا تھا کہ ان میں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں کچھ نافرمان، پھر فرمانبردار بندوں کی چند صفات و علامات بیان کی گئیں اور آخرت میں ان کے لئے بہترین جزا کا ذکر کیا گیا۔- اب دوسری قسم کے لوگوں کی علامات وصفات اور ان کی سزا کا بیان ان آیات میں ہے اس میں ان سرکش اور نافرمان بندوں کی ایک خصلت تو یہ بتلائی گئی،- الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِه یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عہد میں وہ عہد بھی داخل ہے جو ازل میں حق تعالیٰ کی ربوبیت اور وحدانیت کے متعلق تمام پیدا ہونے والی روحوں سے لیا گیا تھا جس کو کفار و مشرکین نے دنیا میں آ کر توڑ ڈالا اور اللہ کے ساتھ سینکڑوں ہزاروں رب اور معبود بنا بیٹھے - اور وہ تمام عہد بھی اس میں داخل ہیں جن کی پابندی عہد لا الہ الا اللہ کے ضمن میں انسان پر لازم ہوجاتی ہے کیونکہ کلمہ طبیہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ دراصل ایک عظٰیم معاہدہ کا عنوان ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتلائے ہوئے تمام احکام کی پابندی اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان سے پرہیز کا عہد بھی آجاتا ہے اس لئے جب کوئی انسان کسی حکم خداوندی یا حکم رسول سے انحراف کرتا ہے تو اس عہد ایمانی کی عہد شکنی کرتا ہے،- دوسری خصلت ان نافرمان بندوں کی یہ بتلائی گئی :- وَ يَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ یعنی یہ لوگ ان تعلقات کو قطع کردیتی ہیں جن کو قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا ان میں انسان کا وہ تعلق بھی شامل ہے جو اس کو اللہ جل شانہ اور اس کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اس کا قطع کرنا یہی ہے کہ ان کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے اور رشتہ داری کے وہ تعلقات بھی اس میں شامل ہیں جن کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی قرآن کریم میں جا بجا ہدایت کی گئی ہے - اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے ان حقوق و تعلقات کو بھی توڑ ڈالتے ہیں مثلا ماں باپ، بھائی بہن، پڑوسی، اور دوسرے متعلقین کے جو حقوق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے انسان پر عائد کئے ہیں یہ لوگ ان کو ادا نہیں کرتے۔- تیسری خصلت یہ بتلائی ہے۔- وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ یعنی یہ لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں اور یہ تیسری خصلت درحقیقت پہلی ہی دو خصلتوں کا نتیجہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے عہد کی پرواہ نہیں کرتے اور کسی کے حقوق و تعلقات کی رعایت نہیں کرتے ظاہر ہے کہ ان کے اعمال و افعال دوسرے لوگوں کے لئے مضرت اور ایذاء کا سبب بنیں گے لڑائی جھگڑے، قتل و قتال کے بازار گرم ہوں گے یہی زمین کا سب سے بڑا فساد ہے،- سرکش اور نافرمان بندوں کی یہ تین خصلتیں بتلانے کے بعد ان کی سزا یہ بتلائی گئی ہے،- اُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ یعنی ان کے لئے لعنت ہے اور برا ٹھکانا ہے لعنت کے معنی اللہ کی رحمت سے دور اور محروم ہونے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کی رحمت سے دور ہونا سب عذابوں سے بڑا عذاب اور ساری مصیتوں سے بڑی مصیبت ہے۔- (آیت) اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ جس طرح پہلی آیات میں فرشتے ان کو سلام کریں گے اور بتلائیں گے کہ یہ جنت کی دائمی نعمتیں سب تمہارے صبر وثبات اور فرمانبرداری کا نتیجہ ہیں اسی طرح اس آیت میں نافرمان سرکش لوگوں کا انجام بد یہ بتلایا ہے کی ان پر اللہ کی لعنت ہے یعنی وہ رحمت سے دور ہیں اور ان کے لئے جہنم کا ٹھکانا مقرر ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ عہد شکنی اور رشتہ داروں و عزیزوں سے قطع رحمی لعنت اور جہنم کا سبب ہے نعوذ باللہ منہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ 25 ؁- نقض - النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] ، - ( ن ق ض ) النقض - یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل 91]- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥) اور جو لوگ فرائض خداوندی کو ان کی تاکید اور پختگی کے بعد چھوڑتے ہیں اور صلہ رحمی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لانے کو ترک کرتے اور کفر وشرک کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے اور ان کی پوجا پات کرتے ہیں ایسے لوگوں پر دنیا میں بھی عذاب نازل ہوگا اور آخرت میں بھی جہنم میں جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ )- قبل ازیں سورة البقرۃ ‘ آیت ٢٧ میں بھی ہم بعینہٖ یہ الفاظ پڑھ آئے ہیں : (اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ) وہاں اس حوالے سے کچھ وضاحت بھی ہوچکی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani