مشرکین کے اعتراض مشرکین کا ایک اعتراض بیان ہو رہا ہے کہ اگلے نبیوں کی طرح یہ ہمیں ہمارا کہا ہوا کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتا ؟ اس کی پوری بحث کئی بار گزر چکی کہ اللہ کو قدرت تو ہے لیکن اگر پھر بھی یہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی کہ ان کی چاہت کے مطابق میں صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیتا ہوں ، زمین عرب میں میٹھے دریاؤں کی ریل پیل کر دیتا ہوں ، پہاڑی زمین کو زراعتی زمین سے بدل دیتا ہوں لیکن پھر بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو انہیں وہ سزا دوں گا جو کسی کو نہ ہوتی ہو ۔ اگر چاہوں تو یہ کر دوں اور اگر چاہوں تو ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھلا رہنے دوں تو آپ نے دوسری صورت پسند فرمائی ۔ سچ ہے ہدایت ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے وہ کسی معجزے کے دیکھنے پر موقوف نہیں بے ایمانوں کے لئے نشانات اور ڈراوے سب بےسود ہیں جن پر کلمہ عذاب صادق ہو چکا ہے وہ تمام تر نشانات دیکھ کر بھی مان کر نہ دیں گے ہاں عذابوں کو دیکھ تو پورے ایماندار بن جائیں گے لیکن وہ محض بیکار چیز ہے فرماتا ہے ولو اننا الخ ، یعنی اگر ہم ان پر فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہر چھپی چیز ان کے سامنے ظاہر کر دیتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں اکثر جاہل ہیں ۔ جو اللہ کی طرف جھکے اس سے مدد چاہے اس کی طرف عاجزی کرے وہ راہ یافتہ ہو جاتا ہے ۔ جن کے دلوں میں ایمان جم گیا ہے جن کے دل اللہ کی طرف جھکتے ہیں ، اس کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ، راضی خوشی ہو جاتے ہیں اور فی الواقع ذکر اللہ اطمینان دل کی چیز بھی ہے ۔ ایمانداروں اور نیک کاروں کے لئے خوشی ، نیک فالی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ ان کا انجام اچھا ہے ، یہ مستحق مبارک باد ہیں یہ بھلائی کو سمیٹنے والے ہیں ان کا لوٹنا بہتر ہے ، ان کا مال نیک ہے ۔ مروی ہے کہ طوبی سے مراد ملک حبش ہے اور نام ہے جنت کا اور اس سے مراد جنت ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت کی جب پیدائش ہو چکی اس وقت جناب باری نے یہی فرمایا تھا ۔ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت کا نام بھی طوبی ہے کہ ساری جنت میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ، ہر گھر میں اس کی شاخ موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے ، لولو کے دانے سے پیدا کیا ہے اور بحکم الہٰی یہ بڑھا اور پھیلا ہے ۔ اس کی جڑوں سے جنتی شہد ، شراب ، پانی اور دودھ کی نہریں جاری ہوتی ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے طوبی نامی جنت کا ایک درخت ہے سوا سال کے راستے کا ۔ اسی کے خوشوں سے جنتیوں کے لباس نکلتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس نے آپ کو دیکھ لیا اور آپ پر ایمان لایا اسے مبارک ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسے بھی مبارک ہو ۔ اور اسے دوگنا مبارک ہو جس نے مجھے نہ دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا ۔ ایک شخص نے پوچھا طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جنتی درخت ہے جو سو سال کی راہ تک پھیلا ہوا ہے جنتیوں کے لباس اس کی شاخوں سے نکلتے ہیں ۔ بخاری مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے کہ سوار ایک سو سال تک اس کے سائے میں چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا اور روایت میں ہے کہ چال بھی تیز اور سواری بھی تیز چلنے والی ۔ صحیح بخاری شریف میں آیت ( وظل ممدود ) کی تفسیر میں بھی یہی ہے ۔ اور حدیث میں ہے ستر یا سو سال اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ۔ سدرۃ المنتہی کے ذکر میں آپ نے فرمایا ہے اس کی شاخ کے سائے تلے ایک سو سال تک سوار چلتا رہے گا اور سو سو سوار اس کی ایک ایک شاخ تلے ٹھیر سکتے ہیں ۔ اس میں سونے کی ٹڈیاں ہیں ، اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں ( ترمذی ) آپ فرماتے ہیں ہر جنتی کو طوبیٰ کے پاس لے جائیں گے اور اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس شاخ کو چاہے پسند کرے ۔ سفید ، سرخ ، زرد سیاہ جو نہایت خوبصورت نرم اور اچھی ہوں گی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں طوبٰی کو حکم ہو گا کہ میرے بندوں کے لئے بہترین لباس وغیرہ ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے ۔ رہب رحمۃ اللہ عیہ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلتا رہے گا لیکن راستہ ختم نہ ہوگا ۔ اس کی تروتازگی کھلے ہوئے چمن کی طرح ہے اس کے پتے بہترین اور عمدہ ہیں اس کے خوشے عنبریں ہیں اس کے کنکر یاقوت ہیں اس کی مٹی کافور ہے اس کا گارا مشک ہے اس کی جڑ سے شراب ، دودھ ، اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ۔ اس کے نیچے جنتیوں کی مجلسیں ہوں گی ، یہ بیٹھے ہوئے ہوں گے جو ان کے پاس فرشتے اونٹنیاں لے کر آیئں گے ۔ جن کی زنجریں سونے کی ہوں گی ، جن پر یاقوت کے پالان ہوں گے جن پر سونا جڑاؤ ہو رہا ہوگا جن پر ریشمی جھولیں ہوں گی ۔ وہ انٹنیاں ان کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں گے کہ یہ سواریاں تمہیں بھجوائی گئی ہیں اور دربار الہٰی میں تمہارا بلاوا ہے ، یہ ان پر سوار ہوں گے ، وہ پرندوں کی پرواز سے بھی تیز رفتار ہوں گی ۔ جنتی ایک دوسرے سے مل کر چلیں گے وہ خود بخود ہٹ جائیں گے کہ کسی کو اپنے ساتھی سے الگ نہ ہونا پڑے یونہی رحمن و رحیم رب کے پاس پہنچیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردے ہٹا دے گا یہ اپنے رب کے چہرہ کو دیکھیں گے اور کہیں گے دعا ( اللہم انت السلام والیک السلام وحق لک الجلال والاکرام ) ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ رب العزت فرمائے گا دعا ( انا السلام ومنی السلام ) تم پر میری رحمت ثابت ہو چکی اور محبت بھی ۔ میرے ان بندوں کو مرحبا ہو جو بن دیکھے مجھ سے ڈرتے رہے میری فرماں برداری کرتے رہے جنتی کہیں گے باری تعالیٰ نہ تو ہم سے تیری عبادت کا حق ادا ہوا نہ تیری پوری قدر ہوئی ہمیں اجازت دے کہ تیرے سامنے سجدہ کریں اللہ فرمائے گا یہ محنت کی جگہ نہیں نہ عبادت کی یہ تو نعمتوں راحتوں اور مالا مال ہونے کی جگہ ہے ۔ عبادتوں کی تکلیف جاتی رہی مزے لوٹنے کے دن آ گئے جو چاہو مانگو ، پاؤ گے ۔ تم میں سے جو شخص جو مانگے میں اسے دوں گا ۔ پس یہ مانگیں گے کم سے کم سوال والا کہے گا کہ اللہ تو نے دنیا میں جو پیدا کیا تھا جس میں تیرے بندے ہائے وائے کر رہے تھے ۔ میں چاہتا ہوں کہ شروع دنیا سے ختم دنیا تک دنیا میں جتنا کچھ تھا مجھے عطا فرما ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے تو کچھ نہ مانگا اپنے مرتبے سے بہت کم چیز مانگی ، اچھا ہم نے دی ۔ میری بخشش اور دین میں کیا کمی ہے ؟ پھر فرمائے گا جن چیزوں تک میرے ان بندوں کے خیالات کی رسائی بھی نہیں وہ انہیں دو چنانچہ دی جائیں گی یہاں تک کہ ان کی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ان چیزوں میں جو انہیں یہاں ملیں گی تیز رو گھوڑے ہوں گے ہر چار پر یاقوتی تخت ہو گا ہر تخت پر سونے کا ایک ڈیرا ہو گا ہر ڈیرے میں جنتی فرش ہو گا جن پر بڑی بڑی آنکھوں والی دو دو حوریں ہوں گی جو دو دو حلے پہنے ہوئے ہوں گی جن میں جنت کے تمام رنگ ہوں گے اور تمام خشبوئیں ۔ ان خیموں کے باہر سے ان کے چہرے ایسے چمکتے ہوں گے گو یا وہ باہر بیٹھی ہیں ان کی پنڈلی کے اندر کا گودا باہر سے نظر آ رہا ہو گا جیسے سرخ یاقوت میں ڈورا پرویا ہوا ہو اور وہ اوپر سے نظر آ رہا ہو ۔ ہر ایک دوسری پر اپنی فضیلت ایسی جانتی ہو گی جیسی فضیلت سورج کی پتھر پر اس طرح جنتی کی نگاہ میں بھی دونوں ایسی ہی ہوں گی ۔ یہ ان کے پاس جائے گا اور ان سے بوس وکنار میں مشغول ہو جائے گا ۔ وہ دونوں اسے دیکھ کر کہیں گی واللہ ہمارے تو خیال میں بھی نہ تھا کہ اللہ تم جیسا خاوند ہمیں دے گا ۔ اب بحکم الہٰی اسی طرح صف بندی کے ساتھ سواریوں پر یہ واپس ہوں گے اور اپنی منزلوں میں پہنچیں گے ۔ دیکھو تو سہی کہ رب وہاب نے انہیں کیا کیا نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں ؟ وہاں بلند درجہ لوگوں میں اونچے اونچے بالا خانوں میں جو نرے موتی کے بنے ہوئے ہوں گے جن کے دروازے سونے کے ہوں گے ، جن کے منبر نور کے ہوں گے جن کی چمک سورج سے بالا تر ہو گی ۔ اعلیٰ علیین میں ان کے محل ہوں گے ۔ یاقوت کے بنے ہوئے ۔ نورانی ۔ جن کے نور سے آنکھوں کی روشنی جاتی رہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں ایسی نہ کر دے گا ۔ جو محلات یاقوت سرخ کے ہوں گے ان میں سبز ریشمی فرش ہوں گے اور جو زمرد و یاقوت کے ہوں گے ان کے فرش سرخ مخمل کے ہوں گے ۔ جو زمرد اور سونے کے جڑاؤ کے ہوں گے ان تختوں کے پائے جواہر کے ہوں گے ، ان پر چھتیں لولو کی ہوں گی ، ان کے برج مرجان کے ہوں گے ۔ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی رحمانی تحفے وہاں پہنچ چکے ہوں گے ۔ سفید یاقوتی گھوڑے غلمان لئے کھڑے ہوں گے جن کا سامان چاندی کا جڑاؤ ہو گا ۔ ان کے تخت پر اعلیٰ ریشمی نرم و دبیز فرش بچھے ہوئے ہوں گے یہ ان سواریوں پر سوار ہو کر بےتکلف جنت میں جائیں گے دیکھیں گے کہ ان کے گھروں کے پاس نورانی ممبروں پر فرشتے ان کے استقبال کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کا شاندار استقبال کریں گے ۔ ، مبارک باد دیں گے ، مصافحہ کریں گے ، پھر یہ اپنے گھروں میں داخل ہوں گے ۔ انعامات الہٰی وہاں موجود پائیں گے ، اپنے محلات کے پاس وہ جنتیں ہری بھری پائیں گے اور جو پھلی پھولی جن میں دو چشمے پوری روانی سے جاری ہوں گے اور ہر قسم کے جوڑ دار میوے ہوں گے اور خیموں میں پاک دامن بھولی بھالی پردہ نشین حوریں ہوں گی ۔ جب یہ یہاں پہنچ کر راحت وآرام میں ہوں گے اس وقت اللہ رب العزت فرمائے گا میرے پیارے بندو تم نے میرے وعدے سچے پائے ؟ کیا تم میرے ثوابوں سے خوش ہو گئے ؟ وہ کہیں گے اللہ ہم خوب خوش ہو گئے ؟ بہت ہی راضی رضامند ہیں دل سے راضی ہیں کلی کلی کھلی ہوئی ہے تو بھی ہم سے خوش رہ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اگر میری رضامندی نہ ہوتی تو میں اپنے اس مہمان خانے میں تمہیں کیسے داخل ہونے دیتا ؟ اپنا دیدار کیسے کراتا ؟ میرے فرشتے تم سے مصافحہ کیوں کرتے ؟ تم خوش رہو باآرام رہو تمہیں مبارک ہو تم پھلو پھولو اور سکھ چین اٹھاؤ میرے یہ انعامات گھٹنے اور ختم ہونے والے نہیں ۔ اس وقت وہ کہیں گے اللہ ہی کی ذات سزا وار تعریف ہے جس نے ہم سے غم و رنج کو دور کر دیا اور ایسے مقام پر پہنچایا کہ جہاں ہمیں کوئی تکلیف کوئی مشقت نہیں یہ اسی کا فضل ہے وہ بڑا ہی بخشنے والا اور قدر دان ہے ۔ یہ سیاق غریب ہے اور یہ اثر عجیب ہے ہاں اس کے بعض شواہد بھی موجود ہیں ۔ چنانچہ صحیین میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے جو سب سے اخیر میں جنت میں جائے گا فرمائے گا مانگ جو مانگتا جائے گا اور اللہ کریم دیتا جائے گا یہاں تک کہ اس کا سوال پوار ہو جائے گا اور پائے گا ۔ اب اس کے سامنے کوئی خواہش باقی نہیں رہے گی تو اب اللہ تعالیٰ خود اسے یاد دلائے گا کہ یہ مانگ یہ مانگ یہ مانگے گا اور پائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب میں نے تجھے دیا اور اتنا ہی اور بھی دس مرتبہ عطا فرمایا ۔ صحیح مسلم شریف کی قدسی حدیث میں ہے کہ اے میرے بندو تمہارے اگلے پچھلے انسان جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے دعائیں کریں اور مانگیں میں ہر ایک کے تمام سوالات پورے کروں گا لیکن میرے ملک میں اتنی بھی کمی نہ آئے گی جتنی کسی سوئی کو سمندر میں ڈوبونے سے سمندر کے پانی میں آئے ، الخ ۔ خالد بن معدان کہتے ہیں جنت کے ایک درخت کا نام طوبیٰ ہے اس میں تھن ہیں جن سے جنتیوں کے بچے دودھ پیتے ہیں کچے گرے ہوئے بچے جنت کی نہروں میں ہیں قیامت کے قائم ہونے تک پھر چالیس سال کے بن کر اپنے ماں باپ کے ساتھ جنت میں رہیں گے ۔
[٣٦] ایک ہی نشانی سے ہدایت بھی اور گمراہی بھی :۔ منکرین حق کا یہی اعتراض اس سورة کی آیت ٧ میں بھی گزر چکا ہے وہاں جواب اور پہلو سے دیا گیا ہے اور یہاں ایک دوسرے پہلو سے دیا گیا ہے جو یہ ہے کہ ایک ہی چیز سے مختلف ذہن رکھنے والے لوگ مختلف نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ مثلا قرآن ہو یا قرآن کی آیات کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی آیات ہوں یا حسی معجزات انہی چیزوں سے ہدایت کے طالب ہدایت حاصل کرلیتے ہیں اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر انہی چیزوں سے ہٹ دھرم لوگ انکار کردیتے ہیں۔ پھر یہی چیزیں ان کے انکار عناد اور ہٹ دھرمی اور گمراہی میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا اگر ان کا مطالبہ پورا کر بھی دیا جائے تب بھی ان کی گمراہی میں مزید اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : ایسی نشانی کیوں نہیں اتری جسے دیکھ کر ہم اسے اللہ کا رسول مان لینے پر مجبور ہوجاتے، مثلاً دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں ان کی فرمائشیں۔ - قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ ۔۔ : یعنی نشانی کے اترنے سے کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ تمہارے اب تک ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تم نے کوئی نشانی نہیں دیکھی، نشانیاں تو بیحد و حساب موجود ہیں، مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کمال حکمت والا ہے اور اپنی رحمت کا خود مالک ہے، جسے چاہے اپنی حکمت کی بنا پر اپنی رحمت و ہدایت سے محروم، یعنی گمراہ رکھے اور جسے چاہے اپنی رحمت و ہدایت سے نواز دے۔ دوسری بات یہ کہ تم اللہ کے راستے کی طرف آتے ہی نہیں، اگر تمہاری سیدھے راستے کی طرف آنے کی خواہش اور جستجو ہوتی تو تم صرف قرآن کی نشانی کو دیکھ کر راہ حق کو پالیتے، کیونکہ یہ کتاب واضح دلائل سے لبریز ہے۔ اب اگر تم اپنی خواہشات اور شیطان ہی کے پیچھے چلتے جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف لوٹ کر آنے کی رغبت ہی نہ رکھو تو تمہیں اللہ کے راستے پر چلنا کیسے نصیب ہو، وہ تو اپنی طرف آنے کے راستے پر چلنے کی توفیق انھی کو دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع رکھیں اور لوٹ کر آنا چاہیں۔
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ 27 ڻ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف، - وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] ، وقوله : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس 9] ، وقوله : وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [ العنکبوت 69] ، وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [ مریم 76] ، فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 213] ، وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ البقرة 213] .- الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] إلى قوله : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذا «1» .- وهذه الهدایات الأربع مترتّبة، فإنّ من لم تحصل له الأولی لا تحصل له الثّانية بل لا يصحّ تكليفه، ومن لم تحصل له الثّانية لا تحصل له الثّالثة والرّابعة، ومن حصل له الرّابع فقد حصل له الثلاث التي قبلها، ومن حصل له الثالث فقد حصل له اللّذان قبله «2» . ثمّ ينعكس، فقد تحصل الأولی ولا يحصل له الثاني ولا يحصل الثالث، والإنسان لا يقدر أن يهدي أحدا إلّا بالدّعاء وتعریف الطّرق دون سائر أنواع الهدایات، وإلى الأوّل أشار بقوله : وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الشوری 52] ، يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ السجدة 24] ، وَلِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ [ الرعد 7] أي : داع، وإلى سائر الهدایات أشار بقوله تعالی: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ [ القصص 56] وكلّ هداية ذکر اللہ عزّ وجلّ أنه منع الظالمین والکافرین فهي الهداية الثالثة، وهي التّوفیق الذي يختصّ به المهتدون، والرّابعة التي هي الثّواب في الآخرة، وإدخال الجنّة . نحو قوله عزّ وجلّ : كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْماً إلى قوله : وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ «3» [ آل عمران 86] وکقوله : ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَياةَ الدُّنْيا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ [ النحل 107] - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں اور اسی سے ھدیتہ ( فعلیتہ ) ہے جس کے معنی اس تحفہ کے ہیں جو بغیر معاوضہ دیا جائے ۔ اور ھوادی الوحش جنگلی جانوروں کے پیش رو دستے کو کہتے ہیں جو گلے کا رہنما ہوتا ہے ،۔ عرف میں دلالت اور رہنمائی کے لئے ھدیت ( افعال ) استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے اھدیت الھدیتہ میں نے ہدیہ بھیجا اور اھدیت الی البیت میں بیت اللہ کی طرف ہدیہ بھیجی ۔ یہاں پر شبہ ہوسکتا ہے ۔ کہ اگر ھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ رہنمائی کرنے کے ہیں تو پھر کفار کو دوزخ کی طرف دھکیلنے کے لئے یہ لفظ کیوں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : ۔ فَاهْدُوهُمْ إِلى صِراطِ الْجَحِيمِ [ الصافات 23] پھر ان کو جہنم کے راستے پر چلا دو ۔ وَيَهْدِيهِ إِلى عَذابِ السَّعِيرِ [ الحج 4] اور دوزخ کے عذاب کا رستہ دکھائے گا ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک ہدایت کے اصل بمعنی تو لطف وکرم کے ساتھ رہنمائی کے ہی ہیں لیکن یہاں کفار کے متعلق مبالغہ کے لئے بطور تیکم یہ لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] تو ( اے پیغمبر ) انہیں عذاب الیم کی خوشخبری سنادو ۔ میں عذاب کے متعلق لفظ بشارت استعمال کیا ہے اور شاعر نے اپنے کلام ( 452 ) تحیتہ بینھم ضرب وجیع ان کا باہمی تحیہ تلوار کی دردناک ضرب ہے ) میں ضرب وجیع کے متعلق کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ - انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ - ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔- ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص - ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس 9] جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل ( بھی ) کئے ان کے ) ایمان کی برکت سے ان کو ان کا پروردگار ( نجات ) کا رستہ دکائیگا ۔ وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [ العنکبوت 69] اور جن لوگوں نے ہمارے دین ( کے کام ) میں کوشش کی ۔ ہم ( بھی ) ان کو ضرور اپنے رستے دکھائیں گے ۔ وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [ مریم 76] اور جو لوگ راہ راست پر ہیں اللہ ان کو روز بروز زیادہ ہدایت دیتا چلا جاتا ہے ۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 213] تو خدا نے ( اپنی عنایت سے ) مسلمانوں کو راہ دکھا دی ۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ البقرة 213] جس کو چاہتا ہے ۔ ( دین کا ) سیدھا راستہ دکھا تا ہے - ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا : ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذاخدا کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا رستہ دکھایا اور اگر خدا ہم کو رستہ نہ دکھاتا تو ہم رستہ نہ پاسکتے ۔ ہدایت کے یہ چاروں اقسام تر تیبتی درجات کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی جسے پہلے درجہ کی ہدایت حاصل نہ وہ ۔ وہ دوسرے درجہ ہدایت پر فائز نہیں ہوسکتا ، بلکہ وہ تو شرعا مکلف ہی نہیں رہتا ۔ علٰی اہزا لقیاس جسے دوسرے درجہ کی ہدایت حاصل نہ ہو وہ تیسرے اور چوتھے درجہ کی ہدایت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتا اور جسے چوتھے درجہ کی ہدایت حاصل ہو تو اسے پہلے تینوں درجات لازم حاصل ہوں گے ۔ اسی طرح تیسرے درجہ کی ہدایت کا حصول پہلے دو درجوں کی ہدایت کو مستلزم ہے اور اس کے بر عکس درجہ اولٰی کا حصول درجہ ثانیہ کو اور ثانیہ کا حصول ثالثہ کو مستلزم نہیں ہے ۔ ایہک انسان کسی دوسرے کو صرف دعوت الی الخیر اور رہنمائی کے ذریعہ ہی ہدایت کرسکتا ہے باقی اقسام ہدایت اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں لہذا جن آیات میں ہدائیت کی نسبت پیغمبر یا کتاب یا دوسرے انسانوں کی طرف کی گئی ہے وہاں صرف راہ حق کی طرف رہنمائی کرنا مراد ہے ، چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الشوری 52] اور بیشک ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) سیدھا رستہ دکھاتے ہیں ۔ يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ السجدة 24] جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے ۔ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ [ الرعد 7] اور ہر ایک قوم کے لئے رہنما ہوا کرتے ہیں ۔ اور جن آیات میں پیغمبروں یا دوسرے لوگوں سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے وہاں باقی اقسام ہدایت مراد میں چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ [ القصص 56] ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں کرسکتے ۔ اور قرآن میں جہاں کہیں ظالموں اور کافروں کو ہدایت سے روک دینے کا ذکر آیا ہے ۔ وہاں یا تو ہدایت بمعنی ثالث ہے یعنی وہ توفیق خاص جو ہدایت یافتہ کو عطا ہوتی ہے ان سے سلب کرلی جاتی ہے اور یاہدایت معنی رابع ہے کہ اللہ انہیں آخرت میں ثواب کی طرف ہدایت نہیں دیگا اور نہ ہی انہیں جنت میں داخل کرے گا ۔ چناچہ آیت کے آخر میں دفرمایا ۔ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ «3» [ آل عمران 86] اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۔ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَياةَ الدُّنْيا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ [ النحل 107] یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز رکھا اور اس لئے کہ خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔- نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔
(٢٧) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر یوں کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انکی نبوت کی تصدیق کے لیے کوئی معجزہ کیوں نازل نہیں کیا گیا جیسا کہ سابقہ رسولوں پر معجزات نازل کیے گئے۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہیں اپنے دین سے بےپرواہ کردیں جو اسی چیز کا مستحق ہو اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اسے اپنے دین کی ہدایت کردیتے ہیں۔
آیت ٢٧ (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ )- مشرکین مکہ کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو بار بار ان کی اسی بات اور اسی دلیل کا ذکر ہو رہا ہے کہ محمد رسول اللہ پر کوئی حسی معجزہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟- (قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ )- جو لوگ خود ہدایت کے طالب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ انہیں نعمت ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :43 اس سے پہلے آیت ۷ میں اس سوال کا جو جواب دیا جا چکا ہے اسے پیش نظر رکھا جائے ۔ اب دوبارہ ان کے اسی اعتراض کو نقل کر کے ایک دوسرے طریقے سے اس کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :44 یعنی جو اللہ کی طرف خود رجوع نہیں کرتا اور اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے اسے زبردستی راہ راست دکھانے کا طریقہ اللہ کے ہاں رائج نہیں ہے ۔ وہ ایسے شخص کو انہی راستوں میں بھٹکنے کو توفیق دے دیتا ہے جن میں وہ خود بھٹکنا چاہتا ہے ۔ وہی سارے اسباب جو کسی ہدایت طلب انسان کے لیے سبب ہدایت بنتے ہیں ، ایک ضلالت طلب انسان کے لیے سبب ضلالت بنا دیے جاتےہیں ۔ شمع روشن بھی اس کے سامنے آتی ہے تو راستہ دکھانے کے بجائے اس کی آنکھیں خیرہ ہی کرنے کا کام دیتی ہے ۔ یہی مطلب ہے اللہ کے کسی شخص کو گمراہ کرنے کا ۔
26:: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت سے معجزات دیئے گئے تھے، لیکن کفار مکہ اپنی طرف سے نت نئے معجزات کی فرمائش کرتے رہتے تھے۔ اور جب ان کا کوئی مطالبہ پورا نہ ہوتا تو وہ یہ بات کہتے تھے جو اس آیت میں مذکور ہے، اور پیچھے آیت نمبر : ۷ میں بھی گزری ہے، اس کا جواب آگے آیت نمبر ۱۳ میں آرہا ہے۔ یہاں اس کا جواب دینے کے بجائے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ مطالبات اُن کی گمراہی کی دلیل ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے، اور ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے، جو اﷲ تعالیٰ سے رجوع کرکے ہدایت مانگے، اور حق کی طلب رکھتا ہو۔ ایسا شخص ایمان لانے کے بعد اس کے حقوق ادا کرتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ کی یاد میں سکون حاصل کرلیتا ہے۔ پھر اس کو اس قسم کے شکوک ا نہیں ستاتے، وہ ہرحال کو اﷲ تعالیٰ کی مشیت پر چھوڑ کر اس پر مطمئن رہتا ہے اگر اچھی حالت ہو تو اس پر شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی تکلیف ہو تو اس پر صبر کرکے اﷲ تعالیٰ سے اس کے دور ہونے کی دعا کرتا ہے اور اس پر مطمئن رہتا ہے۔ اگر اچھی حالت ہو تو اس پر شکر اَدا کرتا ہے، اور اگر کوئی تکلیف ہو تو اِس پر صبر کرکے اﷲ تعالیٰ سے اِس کے دُور ہونے کی دُعا کرتا ہے، اور اِس بات پر مطمئن ہوتا ہے کہ جب تک یہ تکلیف ہے، اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت کے تحت ہے، اس لئے مجھے اس سے شکوہ نہیں ہے۔ اس طرح اسے تکلیف کے حالات میں بھی اطمینانِ قلب نصیب رہتا ہے۔ اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیماری دور کرنے کے لئے آپریشن کروائے تو آپریشن کی تکلیف کے باوجود اسے اطمینان رہتا ہے کہ یہ عمل عین حکمت کے مطابق ہے۔