28۔ 1 اللہ کا ذکر سے مراد، اس کی توحید کا بیان ہے، جس سے مشرکوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے، یا اس کی عبادت، تلاوت قرآن، نوافل اور دعا و مناجات ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام و فرامین کی اطاعت و بجا آوری ہے، جس کے بغیر اہل ایمان وتقویٰ بےقرار رہتے ہیں۔
[٣٧] اللہ کا ذکر دو طرح سے ہے۔ ایک ہر وقت اللہ کو اپنے دل میں یاد رکھنا۔ دوسرے زبان سے اس کے نام کا ورد کرتے رہنا اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے یا پھر یہ قرآن ہے۔ جس کے متعلق فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) 15 ۔ الحجر :9) ذکر کے بیشمار فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے اللہ پر توکل پیدا ہوتا ہے اور جس شخص کو صحیح معنوں میں صرف اللہ پر توکل کی نعمت نصیب ہوگئی۔ وہ مصائب و آلام میں کبھی نہیں گھبراتا، نہ اس کا دل ہی لذائذ دنیا پر ریجھتا ہے وہ ہر حال میں اللہ پر نظر رکھتا ہے اور اسے ایسا قلبی سکون اور راحت نصیب ہوتی ہے جس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اللہ نے اس نعمت سے نوازا ہو اور ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے دل معجزہ دیکھنے کے بغیر بھی مطمئن ہوجاتے ہیں اور بات ہے بھی یہی کہ دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے نصیب ہوتا ہے معجزات سے نہیں۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ ۔۔ : یہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی صفت ہے، ذکر کا معنی نصیحت بھی ہے اور یاد کرنا بھی۔ اس لحاظ سے آیت کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ انھی کو اپنی طرف ہدایت دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل کو وحی الٰہی سے ملنے والی نصیحت سے پوری تسلی ہوجاتی ہے، اس کے سوا انھیں کہیں سے تسلی نہیں ہوتی، کوئی دوسرا اپنے خیال میں کیسی اچھی بات کیوں نہ کہے انھیں اس پر یقین نہیں ہوتا، کیونکہ وہ بھی ان جیسا انسان ہے، اس کی بات درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی، اس لیے اس پر انھیں اطمینان نہیں ہوتا، صرف اللہ کی بات ایسی ہے جو غلط نہیں ہوتی، اس لیے اسی پر ان کے دل کو یقین و اطمینان ہوتا ہے۔ ” ذکر اللہ “ یعنی اللہ کی نصیحت صرف رسول پر نازل ہوئی، قرآن کی صورت میں بھی اور حدیث کی صورت میں بھی، پھر اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود اٹھایا، فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) [ الحجر : ٩ ] ” بیشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بیشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔ “ کافر اس نعمت سے محروم ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت کی نعمت صرف اسی کو ملتی ہے جو اس کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرے، ایمان لائے اور وحی الٰہی سے اسے پوری تسلی حاصل ہوجائے۔ کوئی شخص اگر ایمان کا دعویٰ کرے مگر اسے قرآن و حدیث کے بجائے تسلی کسی اور کی بات سے ہوتی ہو تو وہ بدنصیب بھی ہدایت الٰہی سے محروم ہے۔ - ” ذکر اللہ “ کا دوسرا معنی یاد الٰہی ہے۔ مولانا محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” یہ ایمان کے خالص اور پختہ ہونے کی علامت ہے کہ ذہن خواہ کتنی ہی فکروں میں الجھا ہوا ہو لیکن جوں ہی نماز شروع کرے یا اللہ کو یاد کرے تو تمام فکر بھول جائیں اور انسان حقیقی اطمینان قلب سے بہرہ ور ہوجائے۔ “ یہاں اگرچہ دونوں معنوں کی گنجائش ہے مگر پہلا معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ کافر نشانی مانگ رہے ہیں جبکہ سب سے بڑی نشانی قرآن موجود ہے۔ اہل ایمان کو اسی سے اطمینان ہوجاتا ہے، جبکہ کافر بدنصیب شک ہی میں مارا جاتا ہے اور مزید معجزے مانگتا رہتا ہے ۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ 28ۭ- طمن - الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] - ( ط م ن ) الطمانینۃ - والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ - وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ - وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔
(٢٨) مراد اس سے وہ لوگ ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور قرآن کریم اور حلف باللہ سے ان کے دلوں کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے اچھی طرح جان لو کہ قرآن کریم سے دل کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔
آیت ٢٨ (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ )- دل اور روح کے لیے تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے اس لیے کہ انسان کی روح اس کے دل کی مکین ہے اور روح کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت ٨٥ میں فرمایا گیا : (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ) ” اور (اے نبی ) یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمائیں کہ روح میرے پروردگار کے امر میں سے ہے “۔ لہٰذا جس طرح انسانی جسم کی حیات کا منبع ( ) یہ زمین ہے اور جسم کی نشوونما اور تقویت کا سارا سامان زمین ہی سے مہیا ہوتا ہے اسی طرح انسانی روح کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے اور اس کی نشوونما اور تقویت کے لیے غذا کا سامان بھی وہیں سے آتا ہے۔ چناچہ روح امر اللہ ہے اور اس کی غذا ذکر اللہ اور کلام اللہ ہے۔- (اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ )- دنیوی مال ومتاع اور سامان عیش و آسائش کی بہتات سے نفس اور جسم کی تسکین کا سامان تو ہوسکتا ہے یہ چیزیں دل کے سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتیں۔ دل کو یہ دولت نصیب ہوگی تو اللہ کے ذکر سے ہوگی۔