رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے اس امت کی طرف ہم نے تجھے بھیجا کہ تو انہیں کلام الہٰی پڑھ کر سنائے ، اسی طرح تجھ سے پہلے اور رسولوں کو ان اگلی امتوں کی طرف بھیجا تھا انہوں نے بھی پیغام الہٰی اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا مگر انہوں نے جھٹلایا اسی طرح تو بھی جھٹلایا گیا تو تجھے تنگ دل نہ ہونا چاہئے ۔ ہاں ان جھٹلانے والوں کو ان کا انجام دیکھنا چاہئے جو ان سے پہلے تھے کہ عذاب الہٰی نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا پس تیری تکذیب تو ان کی تکذیب سے بھی ہمارے نزدیک زیادہ ناپسند ہے ۔ اب یہ دیکھ لیں کہ ان پر کیسے عذاب برستے ہیں؟ یہی فرمان آیت ( تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63 ) 16- النحل:63 ) میں اور آیت ( وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ 34 ) 6- الانعام:34 ) میں ہے کہ دیکھ لے ہم نے اپنے والوں کی کس طرح امداد فرمائی ؟ اور انہیں کیسے غالب کیا ؟ تیری قوم کو دیکھ کر رحمن سے کفر کر رہی ہے ۔ وہ اللہ کے وصف اور نام کو مانتی ہی نہیں ۔ حدیبیہ کا صلح نامہ لکھتے وقت اس پر بضد ہو گئے کہ ہم آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) نہیں لکھنے دیں گے ۔ ہم نہیں جانتے کہ رحمن اور رحیم کیا ہے ؟ پوری حدیث بخاری میں موجود ہے ۔ قرآن میں ہے آیت ( قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١١٠ ) 17- الإسراء:110 ) ، اللہ کہہ کر اسے پکارو یا رحمن کہہ کر جس نام سے پکارو وہ تمام بہترین ناموں والا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے نزدیک عبداللہ اور عبدالرحمن نہایت پیارے نام ہیں ۔ فرمایا جس سے تم کفر کر رہے ہو میں تو اسے مانتا ہوں وہی میرا پروردگار ہے میرے بھروسے اسی کے ساتھ ہیں اسی کی جانب میری تمام تر توجہ اور رجوع اور دل کا میل اس کے سوا کوئی ان باتوں کا مستحق نہیں ۔
30۔ 1 جس طرح ہم نے آپ کو تبلیغ رسالت کے لئے بھیجا ہے، اسی طرح آپ سے پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے تھے، ان کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی جس طرح آپ کی کی گئی اور جس طرح تکذیب کے نتیجے میں وہ قومیں عذاب الٰہی سے دو چار ہوئیں، انھیں بھی اس انجام سے بےفکر نہیں رہنا چاہیے۔ 30۔ 2 مشرکین مکہ رحمٰن کے لفظ سے بڑا بدکتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی جب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے الفاظ لکھے گئے تو انہوں نے کہا یہ رحمٰن رحیم کیا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ (ابن کثیر) 30۔ 3 یعنی رحمٰن، میرا وہ رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
[٣٩] رحمن سے کافروں کا چڑنا :۔ رحمن اللہ تعالیٰ کا دوسرے درجہ پر ذاتی نام ہے جیسے فرمایا ( قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١١٠۔ ) 17 ۔ الإسراء :110) اسی لیے یہ لفظ بھی اللہ کی طرح کسی مخلوق کے لیے استعمال نہیں ہوتا قریش مکہ کو اس لفظ سے خاص چڑ تھی۔ جیسے یہود کو جبریل اور مکائیل فرشتوں سے چڑ تھی۔ چناچہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب آپ نے صلح نامہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا تو اس پر قریش کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض کردیا کہ یہ رحمن کون ہے ہم اسے نہیں جانتے جب یہ جھگڑا بڑھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ جملہ مٹا کر قریش کے دستور کے مطابق باسمک اللہ لکھ دیا جائے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد و المصالحۃ مع اھل الحرب۔۔ )- [٤٠] اس جواب سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ رحمن اللہ تعالیٰ ہی کا دوسرا ذاتی نام ہے اور رحمن رحم سے مشتق ہے اور اسم مبالغہ ہے۔ جس میں بہت زیادہ بلاغت پائی جاتی ہے یعنی بےانتہا رحم کرنے والا اور یہ اس کی رحمت ہی کا تقاضا تھا کہ اللہ نے سابقہ امتوں کی طرح اس امت میں آپ کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا تاکہ ان کی ہدایت کے لیے آپ انھیں قرآن پڑھ کر سنائیں۔ مگر ان لوگوں کو قرآن سے چڑ ہوگئی اور اپنے معبودوں کو چھوڑنے پر قطعاً تیار نہ ہوئے اور آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور آپ کو اور آپ کے متبعین کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ انھیں کہہ دیجئے کہ تم لوگ جو کچھ کر رہے ہو کرتے جاؤ۔ میں اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتا ہوں۔ وہ خود ہی ان باتوں کا فیصلہ کردے گا۔
كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِيْٓ اُمَّةٍ : امت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ لوگ جن کی طرف رسول بھیجا جائے، وہ مسلمان ہوں یا کافر، جیسے قوم ثمود کا ہر مسلم و کافر صالح (علیہ السلام) کی امت تھا اور عاد کا ہر فرد ہود (علیہ السلام) کی امت میں سے تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے بعد قیامت تک ہر مسلم و کافر، یہودی، نصرانی، ہندو اور دہریہ، غرض ہر شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے ہے، اسے امت دعوت کہا جاتا ہے، پھر جو لوگ رسول کی دعوت کو قبول کرلیں وہ امت اجابت کہلاتے ہیں، اس آیت میں امت دعوت مراد ہے۔ - قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَآ اُمَمٌ : یعنی نہ آپ پہلے رسول ہیں نہ آپ کی امت دعوت کوئی پہلی امت ہے۔ اس سے مقصود آپ کی امت کو پہلی جھٹلانے والی امتوں کے انجام بد سے ڈرانا ہے۔ - لِّتَتْلُوَا۟ عَلَيْهِمُ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ : یعنی آپ کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ انھیں وہ آیات و احکام پڑھ کر سنائیں جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیے۔ ” عَلَيْهِمُ “ سے اولین مراد قریش مکہ ہیں اور پھر بعد میں قیامت تک آنے والے تمام لوگ بھی، جیسا کہ فرمایا : (هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ۙوَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) [ الجمعۃ : ٢، ٣ ] ” وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔ اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “ ” جو ابھی تک ان سے نہیں ملے “ سے مراد قیامت تک کے لوگ ہیں۔- وَهُمْ يَكْفُرُوْنَ بالرَّحْمٰنِ : یعنی اللہ نے اپنی رحمت سے ان لوگوں پر کرم فرمایا کہ آپ کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا، مگر ان کی ناشکری کا حال یہ ہے کہ اس کا حق پہچاننے سے منکر ہوگئے ہیں۔ کفار مکہ اللہ کے خالق ہونے کا تو اقرار کرتے تھے، مگر اس کے ” رحمان “ ہونے کے منکر تھے، بلکہ جب اللہ تعالیٰ کے رحمٰن ہونے اور اسے اس نام سے پکارنے کی دعوت دی جاتی تو اس سے چڑتے اور کہتے : (وَمَا الرَّحْمٰنُ ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا) [ الفرقان : ٦٠ ] ” رحمان کیا چیز ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو ہمیں حکم دیتا ہے اور یہ بات انھیں بدکنے میں بڑھا دیتی ہے۔ “ نیز حدیبیہ کے صلح نامہ پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “ لکھوانا چاہا تو کفار کے نمائندے سہیل بن عمرو نے کہا : ” اللہ کی قسم میں رحمٰن کو نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، آپ ” بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ “ لکھوائیے۔ “ [ بخاری، الشروط، باب الشروط في الجہاد ۔۔ : ٢٧٣١، ٢٧٣٢ ] ” الرَّحْمٰنُ “ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور اسم اللہ کے بعد سب سے محترم نام ہے۔ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَاءِکُمْ إِلَی اللّٰہِ عَبْدُ اللّٰہِ وَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ) ” اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پیارے نام عبداللہ اور عبد الرحمان ہیں۔ “ [ مسلم، الآداب، باب النھي عن التکني بأبی القاسم۔۔ : ٢١٣٢ ]
كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِيْٓ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَآ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَا۟ عَلَيْهِمُ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ ۭ قُلْ هُوَ رَبِّيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ مَتَابِ 30- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - خلا - الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] - ( خ ل و ) الخلاء - ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ - تلو - ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] ، أراد به هاهنا الاتباع علی سبیل الاقتداء والمرتبة،. والتلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة،- ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - التلاوۃ ۔- بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔
(٣٠) اسی طرح ہم نے آپ کو ایک ایسی امت میں رسول بنا کر بھیجا ہے کہ اس سے پہلے اور امتیں گزر چکی ہیں۔ آپ ان کو وہ قرآن حکیم پڑھ کر سنائیں جو ہم نے آپ پر بذریعہ جبریل امین نازل کیا ہے۔- اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو مسیلمہ کذاب کے علاوہ (جو رحمن کے ساتھ مشہور ہے) کسی اور رحمن کو نہیں جانتے۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ رحمن تو میرا پروردگار ہے، اس کے علاوہ اور کوئی عبادت کے لائق نہیں میں نے اس پر اعتماد اور بھروسہ کرلیا اور آخرت میں اسی کے پاس مجھے جانا ہے۔
آیت ٣٠ (كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِيْٓ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَآ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَا۟ عَلَيْهِمُ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُوْنَ بالرَّحْمٰنِ )- اگرچہ اللہ تعالیٰ کا نام ” الرحمن “ عرب میں پہلے سے متعارف تھا مگر مشرکین مکہ ” اللہ “ ہی کو جانتے اور مانتے تھے اس لیے وہ اس نام سے بدکتے تھے اور عجیب انداز میں پوچھتے تھے کہ یہ رحمن کون ہے ؟ ( الفرقان : ٦٠ )
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :45 یعنی کسی ایسی نشانی کے بغیر جس کا یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :46 یعنی اس کی بندگی سے منہ موڑے ہوئے ہیں ، اس کی صفات اور اختیارات اور حقوق میں دوسروں کو اس کا شریک بنا رہے ہیں ، اور اس کی نعمتوں کے شکریے دوسروں کو ادا کر رہے ہیں ۔