Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شاداں و فرحاں لوگ جو لوگ اس سے پہلے کتاب دئیے گئے ہیں اور وہ اس کے عامل ہیں وہ تو تجھ پر اس قرآن کے اترنے سے شاداں و فرحاں ہو رہے ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں اس کی بشارت اور اس کی صداقت موجود ہے ۔ جیسے آیت ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ:121 ) میں ہے کہ اگلی کتابوں کو اچھی طور سے پڑھنے اس آخری کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی خبر ہے اور وہ اس وعدے کو پوار دیکھ کر خوشی سے مان لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے وعدے غلط نکلیں اس کے فرمان صحیح ثابت نہ ہوں پس وہ شادماں ہوتے ہوئے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ ہاں ان جماعتوں میں ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے ، غرض بعض اہل کتاب مسلمان ہیں بعض نہیں ، تو اے نبی اعلان کر دے کہ مجھے صرف اللہ واحد کی عبادت کا حکم ملا ہوا ہے کہ دوسرے کی شرکت کے بغیر صرف اسی کی عبادت اس کی ہی توحید کے ساتھ کروں یہی حکم مجھ سے پہلے کے تمام نبیوں اور رسولوں کو ملا تھا ، اسی راہ کی طرف اسی الہٰی عبادت کی طرف میں تمام دنیا کو دعوت دیتا ہوں ۔ اسی اللہ کی طرف سب کو بلاتا ہوں اور اسی اللہ کی طرف میرا لوٹنا ہے ۔ جس طرح ہم نے تم سے پہلے نبی بھیجے ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں اسی طرح یہ قرآن جو محکم اور مضبوط ہے عربی زبان میں جو تیری اور تیری قوم کی زبان ہے اس قرآن کو ہم نے تجھ پر نازل فرمایا ۔ یہ بھی تجھ پر خاص احسان ہے کہ اس واضح اظہار مفصل اور محکم کتاب کے ساتھ تجھے ہم نے نوازا کہ نہ اس کے آگے سے باطل آ سکے نہ اس کے پیچھے سے آ کر اس میں مل سکے یہ حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتری ہے ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس الہامی علم آسمانی وحی آ چکی ہے اب بھی اگر تو نے ان کی خواہش کی ماتحتی کی تو یاد رکھ کہ اللہ کے عذابوں سے تجھے کوئی بھی نہ بچا سکے گا ۔ نہ کوئی تیری حمایت پر کھڑا ہوگا ۔ سنت نبویہ اور طریقہ محمدیہ کے علم کے بعد جو گمراہی والوں کے راستوں کو اختیار کریں ان علماء کے لئے اس آیت میں زبردست وعید ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 اس سے مراد مسلمان ہیں اور مطلب ہے جو قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ 36۔ 2 یعنی قرآن کے صدق کے دلائل و شواہد دیکھ کر مذید خوش ہوتے ہیں۔ 36۔ 3 اس سے مراد یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین ہیں۔ بعض کے نزدیک کتاب سے مراد تورات و انجیل ہے، ان میں سے جو مسلمان ہوئے، وہ خوش ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے وہ یہود و انصاریٰ ہیں جو مسلمان نہیں ہوئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦] یعنی یہود و نصاریٰ اس کتاب یعنی قرآن سے اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ یہ ان کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کے انبیاء کی تعظیم و تکریم سکھلاتی ہے۔ اس لحاظ سے تو سارے اہل کتاب قرآن سے خوش ہیں۔ پھر ان میں سے کچھ منصف مزاج ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور جن باتوں سے وہ انکار کرتے ہیں۔ وہ وہی باتیں ہیں جن میں انہوں نے تحریف کر ڈالی تھی۔ کتاب کے کچھ احکام چھپا جاتے تھے اور کچھ باتیں انہوں نے خود ہی تصنیف کرکے اللہ سے منسوب کردی تھیں۔ قرآن نے ایسی تمام باتوں سے پردہ اٹھا دیا اور جو حقیقت تھی اسے واشگاف الفاظ میں بیان کیا۔ اس وجہ سے ان لوگوں نے قرآن کے بعض حصوں کا انکار کیا پھر بعد میں پورے قرآن ہی سے انکار کردیا۔- [ ٤٧] اہل کتاب کی تحریف لفظی و معنوی اور شرک کی راہ کھولنا :۔ اہل کتاب نے جن باتوں میں تحریف کی تھی، خواہ یہ تحریف لفظی تھی یا معنوی تھی، ان میں سے سب سے بری بات یہ تھی کہ انہوں نے شرک کی راہیں اختیار کرلی تھیں۔ یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔ نیز اللہ کی بہت سی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے لیا تھا اور نصاریٰ نے پہلے تو خدائی کے تین حصے کئے اور کہا کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ بعد میں سیدہ مریم کو الوہیت کا درجہ دے ڈالا اور یہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں تحریف لفظی یا معنوی کا نتیجہ تھا۔ پھر وہ اپنے ان اعتقادات کی صحت پر مصر بھی تھے اور نجران کے عیسائی تو آپ سے مباحثہ کرنے کے لیے مدینہ بھی آئے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کو جواب دیتے ہوئے اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان سے صاف طور پر کہہ دیجئے کہ میں تمہاری اس قسم کی باتوں کو تسلیم کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ میں اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں سمجھتا۔ اسی بات کی تم سب کو دعوت دیتا ہوں اور تمہارے انبیاء نے خود بھی اسی بات کی طرف دعوت دی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ ۔۔ : ” الْكِتٰبَ “ سے مراد یا تو پہلی کتابیں ہیں، یعنی تورات و انجیل، مطلب یہ ہوگا کہ پہلی کتب میں چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے رسول ہونے کے بہت سے شواہد اور بشارتیں موجود ہیں، اس لیے جن لوگوں کو وہ کتابیں دی گئی ہیں وہ آپ کی طرف اترنے والی آیات پر خوش ہوتے ہیں۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٤٧) اور آل عمران (١١٣) کیونکہ وہ آپ کو پہچان کر ایمان لا چکے ہیں، ہاں ان کے کئی گروہ قرآن کی بعض چیزوں کا انکار کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان کی ان باتوں کا رد کرتا ہے جو انھوں نے اپنے پاس سے داخل کرلی تھیں، یا ان میں تبدیلی اور تحریف کردی تھی، مثلاً یہود کا عزیر (علیہ السلام) اور نصاریٰ کا مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دینا اور وہ باتیں ظاہر کرنا ہے جو وہ چھپاتے تھے، مثلاً رجم کی حد، سود کی حرمت، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات وغیرہ، لہٰذا وہ پہچاننے کے باوجود عناد کی وجہ سے ان باتوں کا انکار کرتے اور اپنے کفر پر اڑے ہوئے تھے۔ دیکھیے سورة توبہ (٣٠، ٣١) یا پھر ” الْكِتٰبَ “ سے مراد قرآن مجید ہے اور ” جن لوگوں کو یہ کتاب دی “ سے مراد مسلمان ہیں کہ وہ آپ پر اترنے والی آیات پر دل سے خوش ہوتے ہیں اور ” الْاَحْزَابِ “ سے مراد عرب کے وہ جاہل اور ضدی لوگ ہیں جنھوں نے قرآن کی بعض باتیں اپنی مرضی کے خلاف ہونے کی وجہ سے نہ مانیں اور مسلمان نہ ہوئے۔ یہ لوگ خوش ہونے کے بجائے ناراض اور سیخ پا ہوتے ہیں۔ - قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ ۔۔ : تو جو شخص نہیں مانتا وہ گویا اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت سے انکار کرتا ہے۔ - وَاِلَيْهِ مَاٰبِ : ” مَاٰبِ “ یہ ” اٰبَ یَؤُوْبُ “ (ن، اجوف واوی) سے مصدر میمی ہے، اصل ” مَاٰبِیْ “ تھا، یعنی میرا لوٹنا، ” یاء “ حذف کر کے کسرہ اس پر دلالت کے لیے باقی رکھا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ يُّنْكِرُ بَعْضَهٗ ۭ قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۭ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ 36؀- فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم خوش کرتے تھے - حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے - نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٦) یعنی جن لوگوں کو ہم نے توریت کا علم عطا کیا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور انکے ساتھی تو وہ رحمان (اللہ تعالیٰ ) کے اس ذکر سے جو آپ پر نازل کیا گیا خوش ہوتے ہیں۔- اور ان یہود ہی میں بعض ایسے ہیں کہ سورة یوسف اور رحمن (اللہ تعالیٰ ) کے ذکرکے علاوہ بعض قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں یا یہ کہ کفار وغیرہ میں سے بعض گروہ قرآن کریم کے اس حصے کا انکار کرتے ہیں جس میں رحمن (اللہ تعالیٰ ) کا ذکر ہے۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ مجھے اس بات کا حکم ہوا ہے کہ میں خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں اور مخلوق کو میں اللہ ہی کی طرف بلاتا ہوں اور آخرت میں مجھے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ )- یہ مدینہ کے اہل کتاب میں سے نیک سرشت لوگوں کا ذکر ہے۔ ان کو جب خبریں ملتی تھیں کہ مکہ میں آخری نبی کا ظہور ہوچکا ہے تو وہ ان خبروں سے خوش ہوتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :55 یہ ایک خاص بات کا جواب ہے جو اس وقت مخالفین کی طرف سے کہی جا رہی تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ اگر صاحب واقعی وہی تعلیم لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیاء علیہم السلام لائے تھے جیسا کہ ان کا دعوی ہے ، تو آخر کیا بات ہے کہ یہود و نصاری ، جو پچھلے انبیاء علیہم السلام کے پیرو ہیں ، آگے بڑھ کر ان کا استقبال نہیں کرتے ۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ اس پر خوش ہیں اور بعض ناراض ، مگر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، خواہ کوئی خوش ہو یا ناراض ، تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو خدا کی طرف سے یہ تعلیم دی گئی ہے اور میں بہرحال اسی کی پیروی کروں گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: اِس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے مختلف گروہوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو قرآنِ کریم کی آیات سن کر خوش ہوتے ہیں کہ یہ وہی اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جس کی پیشینگوئی پچھلی آسمانی کتابوں میں کی گئی تھی،، چنانچہ اس گروہ کے بہت سے افراد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے، عیسائیوں میں سے بھی، اور یہودیوں میں سے بھی۔ یہ حقیقت ذِکر فرماکر ایک طرف تو کفارِ مکہ کو شرم دِلائی گئی ہے کہ جن لوگوں کے پاس آسمانی ہدایت موجود ہے، وہ تو اِیمان لارہے ہیں، اور جن لوگوں کے پاس نہ کوئی کتاب ہے، نہ کوئی اور آسمانی ہدایت، وہ ایمان لانے سے کترارہے ہیں، اور دوسری طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ جہاں اسلام کے دُشمن موجود ہیں، وہاں بہت سے لوگ اس پیغامِ ہدایت کو قبول بھی کررہے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں میں دوسرا گر وہ کافروں کا ہے ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے بعض حصوں کا انکار کرتے ہیں بعض حصوں کا ذکر کرکے اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائے، وہ بھی قرآنِ کریم کی ساری باتوں کا انکار نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کی بہت سی باتیں وہ ہیں جوتوارت یا اِنجیل میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً توحید، پچھلے انبیائے کرام پر ایمان اور اِن کے واقعات، آخرت کا عقیدہ وغیرہ۔ اِس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ یہ سوچتے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان باتوں کے معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ آپ کے پاس نہیں ہے، اس لئے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کو یہ باتیں وحی سے معلوم ہوئی ہیں۔ اس صورت میں آپ کی رسالت کو تسلیم کرنا چاہئے۔ 34: اس آیت میں اسلام کے تین بنیادی عقائد توحید رسالت اور آخرت کا بیان فرمایا گیا ہے۔ پہلا فقرہ توحید کے اعلان پر مشتمل ہے، دوسرے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’اسی بات کی میں دعوت دیتا ہوں‘‘۔ اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا اثبات کیا گیا ہے، اور آخری فقرہ یعنی: ’’اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے‘‘۔ آخرت کے عقیدے کو ظاہر کرتا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ یہ تینوں عقائد پچھلی کتابوں میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ پھر قرآنِ کریم کے انکار کا کیا جواز ہے؟