Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں مقامی زبانوں میں نازل کیں، اسی طرح آپ پر قرآن ہم نے عربی زبان میں اتارا، اس لئے کہ آپ کے مخاطب اولین اہل عرب ہیں، جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں۔ اگر قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ان کی سمجھ سے بالا ہوتا اور قبول ہدایت میں ان کے لئے عذر بن جاتا۔ ہم نے قرآن کو عربی میں اتار کر یہ عذر بھی دور کردیا۔ 37۔ 2 اس سے مراد اہل کتاب کی بعض وہ خواہشیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ پیغمبر آخر الزماں انھیں اختیار کریں۔ مثلاً بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے قبلہ بنائے رکھنا اور ان کے معتقدات کی مخالفت نہ کرنا وغیرہ۔ 37۔ 3 اس سے مراد علم ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ کو عطا کیا گیا، جس میں اہل کتاب کے معتقدات کی حقیقت بھی آپ پر واضح کردی گئی۔ 37۔ 4 یہ دراصل امت کے اہل علم کو تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو انھیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٨] قرآن سابقہ کتابوں کے لئے حَکَمَ ہے :۔ یعنی جس طرح ہم نے سابقہ انبیاء کی کتابوں کو ان کی قومی زبان میں نازل کیا تھا۔ اسی طرح محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہم نے یہ قرآن ان کی قومی زبان یعنی عربی میں نازل کیا ہے اور اسے حکم بنا کر نازل کیا ہے۔ یعنی یہ سابقہ الہامی کتابوں کے لیے ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بیان سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں کہاں کہاں تحریف کی، کون سے احکام و آیات کو چھپاتے رہے اور اپنے دین میں از خود کون کون سے اضافے کرلیے۔- [٤٩] العلم سے کیا مراد ہے ؟:۔ اس آیت میں خطاب عام مسلمانوں کے لیے ہے۔ مگر بطور تاکید مزید آپ کو مخاطب کیا گیا ہے اور علم سے مراد علم وحی ہے یعنی منزل من اللہ احکام آجانے کے بعد نہ کسی کے قول کو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی شخص یہ بات جان لینے کے بعد کہ یہ بات واقعی منزل من اللہ ہے کوئی ایسا کام کرے گا تو اس کو اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہ سکے گا۔- واضح رہے کہ کسی حدیث کی صحت معلوم ہوجانے کے بعد اتباع کے لحاظ سے کتاب اور سنت دونوں ایک ہی درجہ پر ہیں اور قرون اولیٰ میں علم حدیث کے لیے بھی العلم کا لفظ عام استعمال ہوتا رہا ہے اور جو لوگ تقلید شخصی کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے اس آیت میں عبرت ہے۔ کیونکہ کسی بھی امام کی فقہ پر العلم کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں تقلید شخصی ہی وہ قباحت ہے جو امت مسلمہ میں تفرقہ بازی کا ایک بڑا سبب بنی ہوئی ہے اور جب تک امت تقلیدشخصی کے وجوب کے دعویٰ سے دستبردار نہیں ہوگی اس میں اتحاد کا پیدا ہونا ناممکن ہے اور تفرقہ بازی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ اپنے اختلاف میں صرف کتاب و سنت ہی کی طرف رجوع کیا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا : یعنی جس طرح پہلے انبیاء کی طرف کتابیں اتریں اسی طرح ہم نے آپ پر یہ قرآن اتارا اور جس طرح ہر نبی پر اس کی قوم کی زبان میں وحی اور کتاب نازل کی اسی طرح عربوں پر بھی انھی کی زبان میں کتاب اتاری، کسی دوسری زبان میں نہیں، تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم تو یہ زبان جانتے ہی نہیں۔ ” اَنْزَلْنٰهُ “ (ہم نے اسے اتارا) سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید اور وحی الٰہی اوپر کی جانب سے آئی ہیں۔ اس سے ان لوگوں کا صاف رد ہوگیا جو اللہ تعالیٰ کے لیے اوپر کی جانب ہونے یا عرش پر ہونے کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ کبھی کہتے ہیں کہ وہ لامکان ہے، یعنی کہیں بھی نہیں اور کبھی کہتے ہیں وہ ہر جگہ ہے، حالانکہ قرآن نے کئی جگہ صراحت فرما دی ہے کہ وہ اوپر کی جانب ہے اور عرش پر ہے، فرمایا : (قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ) [ البقرۃ : ١٤٤ ] ” یقیناً ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں۔ “ اور فرمایا : (ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ) [ الأعراف : ٥٤ ] ” پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ “ اور دیگر متعدد آیات۔ پھر آپ کے مخاطب اگرچہ قیامت تک کے تمام جن و انس ہیں، تاہم سب سے اول مخاطب عرب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کی رہنمائی کے لیے ان کا اور ان کی زبان کا انتخاب ان کی فطری خوبیوں اور ان کی زبان کی جامعیت، فصاحت و بلاغت، حسن ادا، آسان ہونے اور دوسری خوبیوں کی وجہ سے فرمایا اور اسے اہل عرب پر احسان قرار دیا : (وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ ) [ الزخرف : ٤٤ ] ” اور بیشک وہ تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے نصیحت (یا شہرت کا باعث) ہے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔ “ پھر اس قرآن نے عربی زبان کو ایسا محفوظ کیا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود عربی زبان اصل صورت میں موجود ہے، جبکہ دوسری تمام زبانیں کچھ عرصہ بعد بدل جاتی ہیں، حتیٰ کہ پہلے لفظ بالکل ہی متروک ہوجاتے ہیں، جیسا کہ انگریزی وغیرہ کا حال ہے۔ خود عربی کو دیکھ لیجیے کہ قرآن کی وجہ سے فصیح عربی محفوظ ہے، مگر عام لوگوں کی عربی بھی مختلف علاقوں اور مختلف ادوار کے لحاظ سے اتنی مختلف ہے کہ ایک علاقے کا عرب دوسرے علاقے کی عامی زبان نہیں سمجھتا۔ البتہ اصل عربی کو قرآن نے صدیوں سے اصل صورت میں باندھ رکھا ہے، وہ دنیا بھر میں ایک ہی ہے۔ - وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَاۗءَهُمْ ۔۔ : یہ خطاب بظاہر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اور اس کے غصے سے ڈرنے والا ہے اور اس میں وعید ہے ان علماء کے لیے جو جانتے بوجھتے سنت کی راہ چھوڑ کر بدعت و ضلالت اور قرآن و حدیث چھوڑ کر اقوال رجال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَاۗءَهُمْ بَعْدَمَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا وَاقٍ 37؀ۧ- عَرَبيُّ :- الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ- [ الشعراء 195] ،- العربی - واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195]- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) اور اسی طرح ہم نے قرآن حکیم کو جبریل امین کے ذریعے اس طرح نازل کیا ہے کہ وہ پورا کا پورا اللہ تعالیٰ کا ایک خاص حکم ہے، عربی زبان میں اور بالفرض اگر آپ انکے دین اور ان کے قبلہ کی پیروی کرنے لگیں جبکہ آپ کے پاس دین ابراہیمی اور قبلہ ابراہیمی کا کھلا بیان پہنچ چکا ہے تو عذاب الہی کے مقابلہ میں نہ آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار آپ کو فائدہ پہنچائے گا اور نہ کوئی اس عذاب کو آپ سے روکنے والا ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا)- ” حکم “ بمعنی ” فیصلہ “ یعنی یہ قرآن عربی قول فیصل بن کر آیا ہے۔ جیسا کہ سورة الطارق میں فرمایا : (اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا ہُوَ بالْہَزْلِ ) ” یہ کلام (حق کو باطل سے) جدا کرنے والا ہے اور کوئی بےہودہ بات نہیں ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: یہاں سے آیت 38 تک اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ قرآنِ کریم کے جن حصوں کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں، اس کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ لوگ قرآنِ کریم کے ان احکام پر اِعتراض کرتے تھے جو تورات اور اِنجیل کے احکام سے مختلف ہیں۔ ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ بنیادی عقیدے تو تمام انبیائے کرام کی دعوت میں مشترک رہے ہیں لیکن فروعی اور جزوی احکام مختلف انبیائے کرام کی شریعتوں میں مختلف ہوتے رہے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر ُامت کے حالات مختلف ہوتے ہیں، اُس کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت مختلف زمانوں میں احکام بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یعنی بہت سی چیزیں جو ایک نبی کی شریعت میں جائز تھیں، دوسرے نبی کی شریعت میں حلال کردی گئیں۔ اور بعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوا ہے۔ تو جس طرح پچھلی اُمتوں میں احکام کی تبدیلی کا یہ سلسلہ چلتا رہا ہے، اسی طرح یہ قرآن بھی ایک نیا حکم نامہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے، اور اُس کے عربی زبان میں ہونے سے اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ یہ ان حالات سے بالکل مختلف حالات میں نازل ہوا ہے جن میں پچھلی کتابیں نازل ہوئی تھیں، اس لئے اُسے عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جو رہتی دُنیا تک باقی رہنے والی زبان ہے، اور اِس میں اس آخری دور کے حالات کی رعایت رکھی گئی ہے۔ 36: یعنی قرآنِ کریم کے جو احکام ان کافروں کو اپنی خواہشات کے خلاف نظر آرہے ہیں، ان میں آپ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ان کی رعایت سے ان میں کوئی تبدیلی کرسکیں۔ اگرچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بات کا تصور بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے اَحکام میں کوئی تبدیلی فرمائیں، لیکن ایک اُصول کے طور پر یہ بات ارشاد فرما کر ساری دُنیا کے لوگوں کو متنبہ کردیا گیا ہے۔