Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہر کام کا وقت مقرر ہے ارشاد ہے کہ جیسے آپ باوجود انسان ہونے کے رسول اللہ ہیں ۔ ایسے ہی آپ سے پہلے کے تمام رسول بھی انسان ہی تھے ، کھانا کھاتے تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے بیوی ، بچوں والے تھے ۔ اور آیت میں ہے کہ اے اشرف الرسل آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ آیت ( انما انا بشر مثلکم یوحی الی ) میں بھی تم جیسا ہی ایک انسان ہوں میری طرف وحی الہٰی کی جاتی ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا راتوں کو تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں گوشت بھی کھاتا ہوں اور عورتوں سے بھی ملتا ہوں جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑ لے وہ میرا نہیں ۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ چار چیزیں تمام انبیاء کا دریقہ رہیں خوشبو لگانا ، نکاح کرنا ، مسواک کرنا اور مہندی ، پھر فرماتا ہے کہ معجزے ظاہر کرنا کسی نبی کے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ عزوجل کے قبضے کی چیز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے ہر ایک بات مقررہ وقت اور معلوم مدت کتاب میں لکھی ہوئی ہے ، ہر شے کی ایک مقدار معین ہے ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا اللہ کو علم ہے سب کچھ کتاب میں لکھا موجود ہے یہ تو اللہ پر بہت ہی آسان ہے ۔ ہر کتاب کی جو آسمان سے اتری ہے اس کی ایک اجل ہے اور ایک مدت مقرر ہے ان میں سے جسے چاہتا ہے منسوخ کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے پس اس قرآن سے جو اس نے اپنے رسول صلوات اللہ وسلامہ علیہ پر نازل فرمایا ہے تمام اگلی کتابیں منسوخ ہو گئیں ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے سال بھر کے امور مقرر کر دئے لیکن اختیار سے باہر نہیں جو چاہا باقی رکھا جو چاہا بدل دیا ۔ سوائے شقاوت ، سعادت ، حیات و ممات کے ۔ کہ ان سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے ان میں تغیر نہیں ہونا ۔ منصور کہتے ہیں میں نے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کا یہ دعا کرنا کیسا ہے کہ الہٰی اگر میرا نام نیکوں میں ہے تو باقی رکھ اور اگر بدوں میں ہے تو اسے ہٹا دے اور نیکوں میں کر دے ۔ آپ نے فرمایا یہ تو اچھی دعا ہے سال بھر کے بعد پھر ملاقات ہوئی یا کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا تھا تو میں نے ان سے یہی بات دریافت کی آپ نے آیت ( انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ ) سے دو آیتوں کی تلاوت کی اور فرمایا لیلۃ القدر میں سال بھر کی روزیاں ، تکلیفیں مقرر ہو جاتی ہیں ۔ پھر جو اللہ چاہے مقدم موخر کرتا ہے ، ہاں سعادت شقاوت کی کتاب نہیں بدلتی ۔ حضرت شفیق بن سلمہ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ اگر تو نے ہمیں بدبختوں میں لکھا ہے تو اسے مٹار دے اور ہماری گنتی نیکوں میں لکھ لے اور اگر تو نے ہمیں نیک لوگوں میں لکھا ہے تو اسے باقی رکھ تو جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے باقی رکھے اصل کتاب تیرے ہی پاس ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے روتے روتے یہ دعا پڑھا کرتے تھے اے اللہ اگر تو نے مجھ پر برائی اور گناہ لکھ رکھے ہیں تو انہیں مٹا دے تو جسے چاہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے ام الکتاب تیرے پاس ہی ہے تو اسے سعادت اور رحمت کر دے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہی دعا کیا کرتے تھے ۔ کعب رحمۃ اللہ علیہ نے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر ایک آیت کتاب اللہ میں نہ ہوتی تو میں قیامت تک جو امور ہونے والے ہیں سب آپ کو بتا دیتا پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ان تمام اقوال کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر کی الٹ پلٹ اللہ کے اختیار کی چیز ہے ۔ چنانچہ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم کر دیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور عمر کی زیادتی کرنے والی بجز نیکی کے کوئی چیز نہیں ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ دعا اور قضا دونوں کی مڈ بھیڑ آسمان و زمین کے درمیان ہوتی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ عزوجل کے پاس لوح محفوظ ہے جو پانچ سو سال کے راستے کی چیز ہے سفید موتی کی ہے یاقوت کے دو پٹھوں کے درمیان ۔ تریسٹھ بار اللہ تعالیٰ اس پر توجہ فرماتا ہے ۔ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ام الکتاب اسی کے پاس ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رات کی تین ساعتیں باقی رہنے پر دفتر کھولا جاتا ہے پہلی ساعت میں اس دفتر پر نظر ڈالی جاتی ہے جسے اس کے سوا کوئی اور نہیں دیکھتا پس جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ۔ کلبی فرماتے ہیں روزی کو بڑھانا گھٹانا عمر کو بڑھانا گھٹانا اس سے مراد ہے ان سے پوچھا گیا کہ آپ سے یہ بات کس نے بیان کی ؟ فرمایا ابو صالح نے ان سے حضرت جابر بن عبداللہ بن رباب نے ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔ پھر ان سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو جواب دیا کہ جمعرات کے دن سب باتیں لکھی جاتی ہیں ان میں سے جو باتیں جزا سزا سے خالی ہوں نکال دی جاتی ہیں جیسے تیرا یہ قول کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں آیا میں گیا وغیرہ جو سچی باتیں ہیں اور ثواب عذاب کی چیزیں نہیں اور باقی جو ثواب عذاب کی چیزیں ہیں وہ رکھ لی جاتی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جو کتابیں ہیں ایک میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور اللہ کے پاس ہے اصل کتاب وہی ہے فرماتے ہیں مراد اس سے وہ شخص ہے جو ایک زمانے تک تو اللہ کی اطاعت میں لگا رہتا ہے پھر معصیت میں لگ جاتا ہے اور اسی پر مرتا ہے پس اس کی نیکی محو ہو جاتی ہے اور جس کے لئے ثابت رہتی ہے ۔ یہ وہ ہے جو اس وقت تو نافرمانیوں میں مشغول ہے لیکن اللہ کی طرف سے ، اس کے لئے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الہٰی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لئے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الہٰی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لئے ثابت رہتی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے نہ بخشے ۔ ابن عباس کا قول ہے جو چاہتا ہے منسوخ کرتا ہے جو چاہتا ہے تبدیل نہیں کرتا ناسخ کا اختیار اسی کے پاس ہے اور اول بدل بھی ۔ بقول قتادہ یہ آیت مثل آیت ( ما ننسخ الخ ، کے ہے یعنی جو چاہے منسوخ کر دے جو چاہے باقی اور جاری رکھے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب اس سے پہلے کی آیت اتری کہ کوئی رسول بغیر اللہ کے فرمان کے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا تو قریش کے کافروں نے کہا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بےبس ہیں کام سے تو فراغت حاصل ہو چکی ہے پس انہیں ڈرانے کے لئے یہ آیت اتری کہ ہم جو چاہیں تجدید کر دیں ہر رمضان میں تجدید ہوتی ہے پھر اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے روزی بھی تکلیف بھی دیتا ہے اور تقسیم بھی ۔ حسن بصری فرماتے ہیں جس کی اجل آ جائے چل بستا ہے نہ آئی ہو رہ جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے دن پورے کر لے ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ حلال حرام اس کے پاس ہے کتاب کا خلاصہ اور جڑ اسی کے ہاتھ ہے کتاب خود رب العلمین کے پاس ہی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعب سے ام الکتاب کی بابت دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مخلوق کو اور مخلوق کے اعمال کو جان لیا ۔ پھر کہا کہ کتاب کی صورت میں ہو جائے ہو گیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ام الکتاب سے مراد ذکر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 یعنی آپ سمیت جتنے بھی رسول اور نبی آئے، سب بشر ہی تھے، جن کا اپنا خاندان اور قبیلہ تھا اور بیوی بچے تھے وہ فرشتے تھے نہ انسانی شکل میں کوئی نوری مخلوق بلکہ جنس بشر ہی میں سے تھے کیونکہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو انسانوں کے لیے ان سے مانوس ہونا اور ان کے قریب ہونا ناممکن تھا جس سے ان کو بھیجنے کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا اور اگر وہ فرشتے بشری جامے میں آتے تو دنیا میں نہ ان کا خاندان اور قبیلہ ہوتا اور نہ ان کے بیوی بچے ہوتے جس سے یہ معلوم ہوا کہ تمام انبیاء بحثییت جنس کے بشر ہی تھے بشری شکل میں فرشتے یا کوئی نوری مخلوق نہیں تھے مزکورہ آیت میں ازواجا سے رہبانیت کی تردید اور ذریۃ سے خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ہوتی ہے کیونکہ ذریۃ جمع ہے کم از کم تین ہوں گے 38۔ 2 یعنی معجزات کا صدور، رسولوں کے اختیار میں نہیں کہ جب ان سے مطالبہ کیا جائے تو وہ صادر کر کے دکھا دیں بلکہ یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ معجزے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کس طرح اور کب دکھایا جائے۔ 38۔ 3 یعنی اللہ نے جس چیز کا وعدہ کیا، اس کا ایک وقت مقرر ہے، اس وقت پر یہ واقع ہو کر رہے گا اس لئے اللہ کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔ ہر وہ امر، جسے اللہ نے لکھ رکھا ہے، اس کا ایک وقت مقرر ہے، یعنی معاملہ، کفار کے ارادے اور منشاء پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٠] نبیوں اور اللہ والوں کو بال بچوں کے دھندوں سے کیا تعلق :۔ اس جملہ میں بھی ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ جاہل عوام کا یہ خیال ہوتا ہے کہ نکاح کرنا اور بال بچوں والا ہونا تو دنیادار لوگوں کا کام ہے۔ بھلا نبیوں اور اللہ والوں کو دنیا کے ان دھندوں سے کیا تعلق ؟ انھیں دنیا کے طالب نہیں بلکہ دنیا کا تارک ہونا چاہیے جیسا کہ یہود و نصاریٰ میں رہبانیت کا رواج پڑگیا تھا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو رسول پہلے گزر چکے ہیں سب بال بچوں والے تھے اور ان کے سچا ہونے پر تم ایمان رکھتے ہو پھر تم کس کس کا انکار کرو گے۔ وہ بشر ہی تھے اور بشری تقاضوں کو پورا کرتے تھے اور چونکہ وہ بشر تھے۔ اس لیے ان میں سے کسی میں یہ طاقت نہ تھی کہ اپنی مرضی سے یا اپنی قدرت سے کوئی معجزہ دکھا سکتے الا یہ کہ اللہ کے حکم سے ان کے ہاتھوں کسی معجزہ کا صدور ہوتا رہا اور اگر اب بھی اللہ چاہے اس نبی کے ہاتھوں معجزات دکھانے پر قادر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ ۔۔ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر مشرکین یہ بھی اعتراض کرتے کہ یہ عجیب پیغمبر ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح نکاح کرتے ہیں، ان کی اولاد بھی ہے، حالانکہ پیغمبر کو ان باتوں سے کیا واسطہ ؟ بلکہ انھیں اس پر بھی اعتراض تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ (دیکھیے فرقان : ٧) اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب ہے کہ نبوت عورتوں سے نکاح کے منافی نہیں، آپ سے پہلے جتنے بھی اللہ کے پیغمبر ہو گزرے ہیں وہ سب بشر ہی تھے اور ان میں اکثریت ان پیغمبروں کی ہے جو بیوی بچے رکھتے تھے۔ وہ سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ (دیکھیے فرقان : ٢٠) تمہیں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہونے پر فخر ہے تو کیا تم ان کی شادی کے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہو ؟ اسی طرح بنی اسرائیل اور ان کے انبیاء کو دیکھ لو۔ سلیمان (علیہ السلام) کی بیویوں اور لونڈیوں کی تعداد کی طرف دھیان کرو غرض تمہارا یہ اعتراض سرے سے ہے ہی لغو۔ ہمارے زمانے میں بھی کئی لوگ انھی لوگوں کو اللہ والے، ولی اور بزرگ سمجھتے ہیں جو نہ شادی کریں، نہ کمائی، راہب بن کر دین کی دعوت اور جہاد کے بجائے گوشہ نشینی اور خود محنت کرکے کھانے کے بجائے دوسروں کی کمائی پر زندگی بسر کریں، حالانکہ اسلام میں یہ کام حرام ہیں۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں : (جَاءَ ثَلَاثَۃُ رَھْطٍ إِلٰی بُیُوْتِ أَزْوَاج النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُوْنَ عَنْ عِبَادَۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أُخْبِرُوْا کَأَنَّھُمْ تَقَالُّوْھَا فَقَالُوْا وَأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النِّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ ، فَقَالَ أَحَدُھُمْ أَمَّا أَنَا فَأَنَا أُصَلِّي اللَّیْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُوْمُ الدَّھْرَ وَلَا أُفْطِرُ ، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ إِلَیْھِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّيْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہُ ، لٰکِنِّيْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ ، وَأُصَلِّيْ وَ أَرْقُدُ ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ ) [ بخاری، النکاح، باب الترغیب في النکاح : ٥٠٦٣۔ مسلم : ١٤٠١ ] ” تین آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کے گھروں کی طرف آئے، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ جب انھیں بتایا گیا تو گویا انھوں نے اسے کم سمجھا، کہنے لگے : ” ہماری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا نسبت ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہیں۔ “ چناچہ ان میں سے ایک نے کہا : ” میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔ “ دوسرے نے کہا : ” میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی روزے کے بغیر نہیں رہوں گا۔ “ تیسرے نے کہا : ” میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے (انھیں بلوایا) اور فرمایا : ” تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں، یاد رکھو اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خشیت والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ کے تقویٰ والا ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو میرے طریقے سے بےرغبتی کرے گا وہ مجھ سے نہیں۔ “ - وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ : مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر یہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) واقعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں تو ہماری طلب کے مطابق معجزے اور نشانیاں کیوں نہیں لاتے۔ ان کے جواب میں فرمایا کہ پہلے پیغمبر جتنے معجزے لائے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکم سے لائے ہیں، اب اگر اللہ کا حکم ہوگا تو وہ اپنے اس پیغمبر سے بھی معجزے ظاہر کر دے گا، ورنہ پیغمبر میں از خود یہ ہمت کہاں ہے کہ اپنی مرضی سے جو معجزہ چاہے ظاہر کر دے۔ یہی حال اولیاء کی کرامتوں کا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کرامت دکھلانے پر قادر نہیں ہوتے۔ یہاں آیت سے مراد قرآن کی آیت بھی ہوسکتی ہے جس میں ان کی مرضی کے مطابق کوئی حکم نازل ہوجائے۔ (ابن کثیر) - لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ : یعنی ہر وقت کے لیے ایک لکھا ہوا فیصلہ ہے جو اس وقت ہو کر رہے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (اہل کتاب میں سے بعضوں کا جو نبوت پر یہ طعن ہے کہ ان کے پاس متعدد بیبیاں ہیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ) ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیبیاں اور بچے بھی دیئے (یہ کونسا امر منافی رسالت ہے ایسا ہی مضمون دوسری آیت میں ہے اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰي مَآ اٰتٰىھُمُ الخ) اور (چونکہ اختلاف شرائع کا شبہ دیگر شبہات سے زیادہ مشہور اور اوپر محض اجمال کے ساتھ مذکور تھا اس لئے اس کو آگے مکرر و مفصل ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص نبی پر اختلاف شرائع کا شبہ کرتا ہے وہ در پردہ نبی کو مالک احکام سمجھتا ہے حالانکہ) کسی پیغمبر کے اختیار میں یہ امر نہیں کہ ایک آیت (یعنی ایک حکم) بدون خدا کے حکم کے (اپنی طرف سے) لا سکے (بلکہ احکام کو مقرر ہونا اذن واختیار خداوندی پر موقوف ہے اور خدا تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کے اعتبار سے یہ معمول مقرر ہے کہ) ہر زمانے کے مناسب خاص خاص احکام ہوتے ہیں (پھر دوسرے زمانے میں بعض امور میں دوسرے احکام آتے ہیں اور پہلے احکام موقوف ہوجاتے ہیں اور بعض بحالہ باقی رہتے ہیں پس) خدا تعالیٰ (ہی) جس حکم کو چاہیں موقوف کردیتے ہیں اور جس حکم کو چاہیں قائم رکھتے ہیں اور اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ) انہی کے پاس (رہتی) ہے (اور یہ سب احکام ناسخ و منسوخ و مستمر اس میں درج ہیں وہ سب کی جامع اور گویا میزان الکل ہے یعنی جہاں سے یہ احکام آتے ہیں وہ اللہ ہی کے قبضہ میں ہے پس احکام سابقہ کے موافق یا مغائر احکام لانے کی کسی کو گنجائش اور دسترس ہی نہیں ہو سکتی)- اور (یہ لوگ جو اس بنا پر انکار نبوت کرتے ہیں کہ اگر آپ نبی ہیں تو انکار نبوت پر جس عذاب کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ عذاب کیوں نہیں نازل ہوتا اس کے متعلق سن لیجئے کہ) جس بات کا (یعنی عذاب کا) ہم ان سے (انکار نبوت پر) وعدہ کر رہے ہیں اس میں کا بعض واقعہ اگر ہم آپ کو دکھلا دیں (یعنی آپ کی حیات میں کوئی عذاب ان پر نازل ہوجاوے) خواہ (قبل نزول اس عذاب کے) ہم آپ کو وفات دیدیں (پھر بعد میں وہ عذاب واقع ہو خواہ دنیا میں یا آخرت میں دنوں حالتوں میں آپ فکر و اہتمام نہ کریں کیونکہ) بس آپ کے ذمہ تو صرف (احکام کا) پہنچا دینا ہے اور دارو گیر کرنا تو ہمارا کام ہے (آپ اس فکر میں کیوں پڑیں کہ اگر واقع ہوجائے تو بہتر ہے شاید ایمان لے آویں اور ان لوگوں پر بھی تعجب ہے کہ وقوع عذاب علی الکفر کا کیسے یک لخت انکار کر رہے ہیں) کیا (مقدمات عذاب میں سے) اس امر کو نہیں دیکھ رہے کہ ہم (فتح اسلام کے ذریعہ سے انکی) زمین کو ہر چہار طرف سے برابر کم کرتے چلے آتے ہیں (یعنی ان کی عملداری بسبب کثرت فتوحات اسلامیہ کے روز بروز گھٹتی جا رہی ہے سو یہ بھی تو ایک قسم کا عذاب ہے جو مقدمہ ہے اصلی عذاب کا جیسا کہ دوسری آیت میں ہے (آیت) وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ ) اور اللہ (جو چاہتا ہے) حکم کرتا ہے اس کے حکم کو کوئی ہٹانے والا نہیں (پس عذاب ادنیٰ خواہ عذاب اکبر جو بھی ہو اس کو کوئی ان کے شرکاء یا غیر شرکاء میں سے رد نہیں کرسکتا) اور (اگر ان کو چندے مہلت بھی ہوگئی تو کیا ہے) وہ بڑی جلدی حساب لینے والا ہے (وقت کی دیر ہے پھر فورا ہی سزائے موعود شروع ہوجاوے گا) اور (یہ لوگ جو ایذاء رسول یا تنقیص اسلام میں طرح طرح کی تدبیریں کرتے ہیں تو ان سے کچھ نہیں ہوتا چنانچہ) ان سے پہلے جو (کافر) لوگ ہوچکے ہیں انہوں نے (بھی ان ہی اغراض کے لئے بڑی بڑی) تدبیریں کیں سو (کچھ بھی نہ ہوا کیونکہ) اصل تدبیر تو خدا ہی کی ہے (اس کے سامنے کسی کی نہیں چلتی سو اللہ نے ان کو وہ تدبیریں نہ چلنے دیں اور) اس کو سب خبر رہتی ہے جو شخص جو کچھ بھی کرتا ہے (پھر اس کو وقت پر سزا دیتا ہے) اور (اسی طرح) ان کفار (کے اعمال کی بھی سب اس کو خبر ہے سو ان) کو (بھی) ابھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم میں نیک انجامی کس کے حصہ میں ہے (آیا ان کے یا مسلمانوں کے یعنی عنقریب ان کو اپنی بدانجامی اور سزائے اعمال معلوم ہوجائے گی) اور یہ کافر لوگ (ان سزاؤں کو بھولے ہوئے) یوں کہہ رہے ہیں کہ (نعوذ باللہ) آپ پیغمبر نہیں آپ فرما دیجئے کہ (تمہارے انکار بےمعنی سے کیا ہوتا ہے) میرے اور تمہارے درمیان (میری نبوت پر) اللہ تعالیٰ اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (آسمانی) کا علم ہے (جس میں میری نبوت کی تصدیق ہے) کافی گواہ ہیں (مراد اس سے علماء اہل کتاب جو منصف تھے اور نبوت کی پیشینگوئی دیکھ کر ایمان لے آئے تھے مطلب یہ ہوا کہ میری نبوت کی دو دلیلیں ہیں عقلی اور نقلی، عقلی تو یہ کہ حق تعالیٰ نے مجھ کو معجزات عطا فرمائے جو دلیل نبوت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے گواہ ہونے کے یہی معنی ہیں اور نقلی یہ ہے کہ کتب سماویہ سابقہ میں اس کی خبر موجود ہے اگر یقین نہ آئے تو منصف علماء سے پوچھ لو وہ ظاہر کردیں گے پس دلائل نقلیہ وعقلیہ کے ہوتے ہوئے نبوت کا انکار کرنا بجز شقاوت کے اور کیا ہے کسی عاقل کو اس سے شبہ نہ ہونا چاہئے)- معارف و مسائل :- کفار و مشرکین کا رسول و نبی کے متعلق ایک عام تخیل یہ تھا کہ وہ جنس بشر اور انسان کے علاوہ کوئی مخلوق مثل فرشتوں کے ہونی چاہئے جس کی وجہ سے عام انسانوں سے ان کی برتری واضح ہوجائے قرآن کریم نے ان کے اس خیال فاسد کا جواب متعدد آیات میں دیا ہے کہ تم نے نبوت و رسالت کی حقیقت اور حکمت کو ہی نہیں پہچانا اس لئے ایسے تخیلات کے درپے ہوئے کیونکہ رسول کو حق تعالیٰ ایک نمونہ بنا کر بھیجتے ہیں کہ امت کے سارے انسان ان کی پیروی کریں انہی جیسے اعمال و اخلاق سیکھیں اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی انسان اپنے ہم جنس انسان ہی کی پیروی کریں اور اتباع کرسکتا ہے جو اس کی جنس کا نہ ہو اس کی پیروی انسان سے ناممکن ہے مثلا فرشتہ کو نہ بھوک لگے نہ پیاس نہ نفسانی خواہشات سے اس کو کوئی واسطہ نہ اس کو نیند آوے نہ تھکان ہو اب اگر انسانوں کو ان کے اتباع اور پیروی کا حکم دیا جاتا تو ان کے لئے ان کی قدرت سے زائد تکلیف ہوجاتی اس جگہ بھی مشرکین کا یہی اعتراض پیش ہوا خصوصا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعدد ازدواج سے ان کا یہ شبہ اور بڑھا اس کا جواب پہلی آیت کے ابتدائی جملوں میں یہ دیا گیا کہ ایک یا ایک سے زیادہ نکاح کرنے اور بیوی بچوں والا ہونے کو تم نے کس دلیل سے نبوت و رسالت کے خلاف سمجھ لیا، اللہ تعالیٰ کی تو آفرینش سے یہی سنت رہی ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کو صاحب اہل و عیال بناتے ہیں جتنے انبیاء (علیہم السلام) پہلے گذرے ہیں اور ان میں سے بعض کی نبوت کے تم بھی قائل ہو وہ سب متعدد بیویاں رکھتے تھے اور صاحب اولاد تھے اس کو نبوت و رسالت یا بزرگی اور ولایت کے خلاف سمجھنا نادانی ہے۔- صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں (یعنی ایسا نہیں کہ ہمیشہ روزے ہی رکھا کروں) اور فرمایا کہ میں رات میں سوتا بھی ہوں اور نماز کے لئے کھڑا بھی ہوتا ہوں (یعنی ایسا نہیں کہ ساری رات عبادت ہی کروں) اور گوشت بھی کھاتا ہوں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں جو شخص میری اس سنت کو قابل اعتراض سمجھے وہ مسلمان نہیں وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ یعنی کسی رسول کو اختیار نہیں کہ وہ ایک آیت بھی بغیر حکم خدا تعالیٰ کے خود لا سکے۔- کفار و مشرکین جو معاندانہ سوالات ہمیشہ انبیاء (علیہم السلام) کے سامنے پیش کرتے آئے ہیں اور آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بھی اس زمانہ کے مشرکین نے پیش کئے ان میں دو سوال بہت عام ہیں ایک یہ کہ اللہ کی کتاب میں ہماری خواہش کے مطابق احکام نازل ہوا کریں جیسے سورة یونس میں ان کی یہ درخواست مذکور ہے کہ ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْه یعنی یا تو آپ اس موجودہ قرآن کے بجائے بالکل ہی کوئی دوسرا قرآن لائیے جس میں ہمارے بتوں کی عبادت کو منع نہ کیا گیا ہو یا پھر آپ خود ہی اس کے لائے ہوئے احکام کو بدل دیجئے عذاب کی جگہ رحمت اور حرام کی جگہ حلال کر دیجئے۔- دوسرا سوال : انبیاء (علیہم السلام) کے واضح معجزات دیکھنے کے باوجود نئے نئے معجزات کا مطالبہ کرنا کہ فلاں قسم کا معجزہ دکھلائیے تو ہم مسلمان ہوں قرآن کریم کے اس جملہ میں لفظ آیۃ سے دونوں چیزیں مراد ہو سکتی ہیں کیونکہ اصطلاح قرآن میں قرآنی آیات کو بھی آیت کہا جاتا ہے اور معجزہ کو بھی اسی لئے اس آیت کی تفسیر میں حضرات مفسرین میں سے بعض نے آیت قرآنی مراد لے کر یہ مطلب بیان کیا کہ کسی پیغمبر کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ اپنی طرف سے اپنی کتاب میں کوئی آیت بنا لے اور بعض نے اس آیت سے مراد معجزہ لے کر یہ معنی قرار دیئے کہ کسی رسول و نبی کو اللہ نے یہ اختیار نہیں دیا کہ جس وقت چاہے اور جس طرح کا چاہے معجزہ ظاہر کردے تفسیر روح المعانی میں فرمایا کہ عموم مجاز کے قاعدہ پر اس جگہ یہ دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں اور دونوں تفسیریں صحیح ہو سکتی ہیں - اس لحاظ سے خلاصہ مضمون اس آیت کا یہ ہوا کہ ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآنی آیات کے بدلنے کا مطالبہ بےجا اور غلط ہے ہم نے ایسا اختیار کسی رسول کو نہیں دیا اسی طرح یہ مطالبہ کہ فلاں خاص قسم کا معجزہ دکھلائیے یہ بھی حقیقت نبوت سے ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ کسی نبی و رسول کے اختیار میں یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کی خواہش کے مطابق جو وہ چاہیں معجزہ ظاہر کردیں۔- لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ اجل کے معنی مدت معینہ اور میعاد کے آتے ہیں اور کتاب اس جگہ بمعنی مصدر ہے یعنی تحریر معنی یہ ہیں کہ ہر چیز کی میعاد اور مقدار اللہ تعالیٰ کے پاس لکھی ہوئی ہے اس نے ازل میں لکھ دیا ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت پیدا ہوگا اور اتنے دن زندہ رہے گا کہاں کہاں جائے گا کیا کیا کام کرے گا کس وقت اور کہاں مرے گا۔- اسی طرح یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ فلاں زمانے میں فلاں پیغمبر پر کیا وحی اور احکام نازل ہوں گے کیونکہ احکام کا ہر زمانے اور ہر قوم کے مناسب حال آتے رہنا ہی مقتضائے عقل و انصاف ہے اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ فلاں پیغمبر سے فلاں وقت کس کس معجزہ کا ظہور ہوگا۔- اس لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مطالبہ کہ فلاں قسم کے احکام قرآن میں تاویل کرائیں یا یہ مطالبہ کہ فلاں خاص معجزہ دکھلائیں ایک معاندانہ اور غلط مطالبہ ہے جو رسالت و نبوت کی حقیقت سے بیخبر ہونے پر مبنی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّيَّةً ۭ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ 38؁- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- كتب - قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨) اور جیسا کہ ہم نے آپ کو رسول بناکربھیجا اسی طرح اور بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں بھی دیں جیسا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو اور آپ کی اولاد سے زیادہ سے زیادہ اولاد بھی دی جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ آیت مبارکہ یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ کیوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہوتے تو نبوت انکو شادیاں کرنے میں مشغول نہ کرتی (تو اس کا جواب دیا کہ شادی کرنا نبوت کے خلاف نہیں بلکہ عین موافق ہے، ترجم) کسی پیغمبر کے اختیار میں میں کہ ایک دلیل بھی خدا کے حکم کے بغیر لاسکے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّيَّةً )- آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں وہ سب عام انسانوں کی طرح پیدا ہوئے (سوائے حضرت عیسیٰ کے) پھر انہوں نے نکاح بھی کیے اور ان کی اولادیں بھی ہوئیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :56 یہ ایک اور اعتراض کا جواب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ اچھا نبی ہے جو بیوی اور بچے رکھتا ہے ۔ بھلا پیغمبروں کو بھی خواہشات نفسانی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :57 یہ بھی ایک اعتراض کا جواب ہے ۔ مخالفین کہتے تھے کہ موسی علیہ السلام ید بیضا اور عصا لائے تھے ۔ مسیح اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے ۔ صالح علیہ السلام نے اونٹنی کا نشان دکھایا تھا ۔ تم کیا نشانی لے کر آئے ہو؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جس نبی نے جو چیز بھی دکھائی ہے اپنے اختیار اور اپنی طاقت سے نہیں دکھائی ہے ۔ اللہ نے جس وقت جس کے ذریعے سے جو کچھ ظاہر کرنا مناسب سمجھا وہ ظہور میں آیا ۔ اب اگر اللہ کی مصلحت ہوگی تو جو کچھ وہ چاہے گا دکھائے گا ۔ پیغمبر خود کسی خدائی اختیار کا مدعی نہیں ہے کہ تم اس سے نشانی دکھانے کا مطالبہ کرتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

37: اس آیت میں ایک تو کفار کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو آپ کی بیوی بچے کیوں ہیں؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ بیوی بچے ایک دو انبیاء کرام کو چھوڑ کر تقریباً سارے انبیاء کو بھی عطا فرمائے گئے ہیں ؛ کیونکہ نبوت کا ان سے کوئی تعارض نہیں ہے، بلکہ انبیاء کرام اپنے عمل سے واضح کرتے ہیں کہ ان کے حقوق کیسے ادا کئے جاتے ہیں اور ان کے حقوق اور اللہ تعالیٰ کے حقوق میں توازن کیسے قائم رکھا جاتا ہے، دوسرے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مختلف انبیاء کرام کی شریعتوں میں جزوی فرق ہوتا رہا ہے۔