39۔ 1 اس کے ایک معنی تو یہ ہیں وہ جس حکم کو چاہے منسوخ کردے اور جسے چاہے باقی رکھے۔ دوسرے معنی یہ ہیں اس نے جو تقدیر لکھ رکھی ہے، اس میں محو و اثبات کرتا رہتا ہے، اس کے پاس لوح محفوط ہے۔ اس کی تائید بعض احادیث و آثار سے ہوتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ آدمی گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے، دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اور صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے (مسند احمد جلد۔ 5 ص۔ 277) بعض صحابہ سے یہ دعا منقول ہے (اللَّھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَّنَا اٰشْقِیَاءَ فَامْحُنَا وَاَکْتُبْنَا سُعَدَاءَ وَاِنَّ کُنْتَ کَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَائُبِسْتُنَا فَاِنَّکَ تَمْحُوْ مَا تَشَآءُ وَ تُثْبْتُ وَ عِنْدَکَ اُ مُّ الْکِتَابِ ) حضرت عمر (رض) سے منقول ہے کہ وہ دوران طواف روتے ہوئے یہ دعا پڑھتے ـ اللھم ان کنت کتبت علی شقوۃ او ذنبا فامحہ فانک تمحو ما تشاء وتثبت وعندک ام الکتاب فاجعلہ سعادۃ ومغفرۃ۔ ابن کثیر۔ اے اللہ اگر تو نے مجھ پر بدبختی اور گناہ لکھا ہے تو اسے مٹا دے، اس لئے کہ تو جو چاہے مٹائے اور جو چاہے باقی رکھے، تیرے پاس ہی لوح محفوظ ہے، پس تو بدبختی کو سعادت اور مغفرت سے بدل دے (ابن کثیر) اس مفہم پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ حدیث میں تو آتا ہے جف القلم بما ہو کائن۔ صحیح بخاری۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ کر خشک ہوچکا ہے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ محو واثبات بھی منجملہ قضاء و تقدیر ہی کے ہے۔ فتح القدیر۔
[٥١] ہر دور کے لئے الگ شریعت :۔ یعنی ہر نبی ایک ہی جیسے دین کے اصول پیش کرتا رہا ہے۔ مگر ان کی شریعتوں میں ان کے دور کے تقاضوں کے مطابق فرق رہا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ موسوی شریعت میں قصاص کا حکم تھا۔ عفو و درگزر کا نہ تھا۔ پھر عیسوی شریعت میں قصاص کے حکم کو پس پشت ڈال دیا گیا اور سارا زور عفو و درگزر پر دیا گیا اور شریعت محمدی میں پھر سے قصاص کا حکم بحال کردیا گیا مگر افضلیت عفو و و درگز کو ہی دی گئی احکام میں اس قسم کا رد و بدل اس دور کے لوگوں کی طبیعتوں کی اصلاح کے لیے کیا گیا۔ اللہ نے جس حکم کو چاہا سابقہ شریعتوں سے بحال رکھا اور جسے چاہا منسوخ کرکے نئی قسم کے احکام دے دیئے اور یہ سب کچھ اللہ کے علم ازلی محیط کے مطابق ہوتا ہے جسے ام الکتاب یا لوح محفوظ کہا گیا ہے۔
يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ۔۔ : بظاہر یہ آیت اس حدیث کے خلاف ہے : ( جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ ) [ بخاری، النکاح، باب ما یکرہ من التبتل والخصاء : ٥٠٧٦ ] ” جس چیز یا حال کو تم ملنے والے ہو قلم اس کے ساتھ خشک ہوچکا ہے۔ “ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو فیصلہ ہوچکا وہ اب مٹنے والا نہیں، اس سوال کے حل کے لیے اس آیت کی تفسیر اہل علم نے دو طرح سے کی ہے، ایک تو یہ کہ جس طرح معجزہ اور کرامت اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، کسی دوسرے کا اس میں کچھ دخل نہیں، اسی طرح کسی حکم کو باقی رکھنا یا اسے منسوخ کردینا بھی اسی کے اختیار میں ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے جس میں یہ بھی لکھا ہے کہ کون سا حکم کب تک باقی رکھنا ہے اور کون سا حکم منسوخ کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ گویا یہ یہود پر رد ہے جو نسخ کے قائل نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں بھی ان پر رد فرمایا : (ما نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا ) [ البقرۃ : ١٠٦ ] یعنی جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں اور یہ سب باقی رکھنا یا منسوخ کرنا (محو و اثبات) ام الکتاب میں درج ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ سورة بقرہ کی آیت (١٠٦) کی تفسیر بھی ملاحظہ فرما لیں۔- اسی طرح اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے ایک رسول کے احکام پر عمل قائم رکھتا ہے، پھر جس وقت چاہتا ہے بعد میں آنے والے رسول کے احکام پر عمل فرض کردیتا ہے اور پہلے پر عمل ختم کردیتا ہے۔ ” يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ “ میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی بندے کے نامۂ اعمال میں کوئی بھی نیک یا بدعمل اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو باقی رکھتا ہے، چاہتا ہے تو مٹا دیتا ہے اور یہ نہیں کہ پہلے اسے علم نہیں تھا کہ میں نے کیا ثابت رکھنا ہے اور کیا مٹانا ہے، بلکہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے ۔- دوسری تفسیر یہ ہے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اسے قضائے مبرم کہتے ہیں اور یہ وہی ہے جس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوہریرہ (رض) سے فرمایا : ( جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ ) [ بخاری، النکاح، باب ما یکرہ من التبتل والخصاء : ٥٠٧٦ ] ” تم جس چیز یا حال کو ملنے والے ہو اس کے ساتھ قلم خشک ہوچکا ہے۔ “ اور ایک تقدیر وہ ہے جس میں تبدیلی ہوتی ہے، اسے تقدیر معلق کہتے ہیں اور وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ چناچہ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” دنیا میں ہر چیز اسباب سے ہے، بعض اسباب ظاہر ہیں اور بعض چھپے ہیں۔ اسباب کی تاثیر کا ایک اندازہ مقرر ہے، جب اللہ چاہے ان کی تاثیر اندازے سے کم یا زیادہ کر دے اور جب چاہے ویسی ہی رکھے۔ آدمی کبھی کنکر سے مرتا ہے اور گولی سے بچتا ہے اور ایک اندازہ ہر چیز کا اللہ کے علم میں ہے، وہ ہرگز نہیں بدلتا۔ اندازے کو تقدیر کہتے ہیں، یہ دو تقدیریں ہوئیں، ایک بدلتی ہے (تقدیر تاثیر اسباب) اور ایک نہیں بدلتی (یعنی علم الٰہی) ۔ “ (موضح)- شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ (٥٤٤٨) میں فرمایا : ” قرطبی نے بھی اپنی تفسیر ” الجامع (٥؍٣٣٢) “ میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے، وہ لکھتے ہیں : ” اور عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے (قضا) میں تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ محو و اثبات بھی ان چیزوں میں شامل ہے جن کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ قضا میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جو لازماً ہو کر رہنی ہیں، یہ وہ ہیں جو ثابت (مبرم) ہیں اور کچھ وہ ہیں جن میں بعض اسباب سے تبدیلی ہوجاتی ہے، یہ محو (مٹائی ہوئی) ہیں۔ (واللہ اعلم) غزنوی (رض) نے فرمایا : ” میرے نزدیک یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ ہے وہ غیب سے نکل چکا ہے، کیونکہ بعض فرشتے بھی اس سے واقف ہیں، اس لیے وہ تبدیل ہوسکتا ہے، کیونکہ مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے پورے علم سے واقف ہونا محال ہے اور اس کے علم میں اشیاء کی جو تقدیر اور طے شدہ بات ہے وہ کبھی نہیں بدلتی۔ “ (سلسلہ ضعیفہ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ غزنوی سے مراد عالی بن ابراہیم بن اسماعیل ہیں جن کا لقب ” تاج الشریعہ “ ہے، یہ ایک حنفی فقیہ مفسر ہیں، ان کی کتاب تفسیر التفسیر ہے جو بہت عمدہ ہے، جیسا کہ کئی علماء نے فرمایا ہے، ٥٨٢ ھ میں فوت ہوئے۔ الاعلام) خلاصہ یہ کہ اس ” محو و اثبات “ کا اس ” بدا “ کے غلط عقیدے سے کوئی تعلق نہیں جو بعض گمراہ لوگوں نے اختیار کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم کوئی کام کرو، پھر اس کا غلط ہونا تمہیں معلوم ہو تو اسے بدل دو ۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا حرام ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی جانتا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔ - اس تفصیل سے اللہ کے فیصلے کے بدل نہ سکنے کے عقیدے اور ان تمام احادیث و اقوال صحابہ کے متعلق اشکال ختم ہوجاتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات تقدیر بدل سکتی ہے، خصوصاً دعا سے، مثلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ( لاَ یَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلاَّ الدَّعَاءُ وَلَا یَزِیْدُ فِی الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ ) [ ترمذی، القدر، باب ما جاء لا یرد القدر إلا الدعاء : ٢١٣٩۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ١؍ ١٥٣، ح : ١٥٤ ] ” تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں ٹالتی اور عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز زیادہ نہیں کرتی۔ “ اسی طرح بعض صحابہ کی دعائیں کہ یا اللہ اگر تو نے مجھے شقی لکھا ہے تو اسے بدل کر سعید لکھ دے۔
(آیت) يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ ۔ ام الکتب کے لفظی معنی اصل کتاب کے ہیں مراد اس سے وہ لوح محفوظ ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا - معنی آیت کے یہ ہیں کہ حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت اور باقی رکھتا ہے اور اس محو و اثبات کے بعد جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے جس پر نہ کسی کی دسترس ہے نہ اس میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔- ائمہ تفسیر میں سے حضرت سعید بن جبیر (رض) اور قتادہ (رض) وغیرہ نے اس آیت کو بھی احکام و شرائع کے محو و اثبات یعنی مسئلہ نسخ کے متعلق قرار دیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جو ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے مختلف رسولوں کے ذریعہ اپنی کتابیں بھیجتے ہیں جن میں احکام شریعت اور فرائض کا بیان ہوتا ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ سب احکام دائمی ہوں اور ہمیشہ باقی رہیں بلکہ قوموں کے حالات اور زمانے کے تغیرات کے مناسب اپنی حکمت کے ذریعہ جس حکم کو چاہتے ہیں مٹا دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ثابت اور باقی رکھتے ہیں اور اصل کتاب بہرحال ان کے پاس محفوظ ہے جس میں پہلے ہی سے یہ لکھا ہوا ہے کہ فلاں حکم جو فلاں قوم کے لئے نازل کیا گیا ہے یہ ایک میعاد کے لئے یا خاص حالات کی بنا پر ہے جب وہ میعاد گذر جائیگی یا وہ حالات بدل جائیں گے تو یہ حکم بھی بدل جائے گا اس ام الکتب میں اس کی میعاد اور وقت مقرر بھی پوری تعیین کے ساتھ درج ہے اور یہ بھی کہ اس حکم کو بدل کو کونسا حکم لایا جائے گا اس سے یہ شبہ بھی جاتا رہا کہ احکام خداوندی کبھی منسوخ نہ ہونے چاہئیں کیونکہ کوئی حکم جاری کرنے کے بعد منسوخ کرنا علامت اس کی ہے کہ حکم جاری کرنے والے کو حالات کا اندازہ نہ تھا اس لئے حالات دیکھنے کے بعد اس کو منسوخ کرنا پڑا اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی شان اس سے بلند وبالا ہے کہ کوئی چیز اس کے علم سے باہر ہو کیونکہ تقریر مذکور سے معلوم ہوگیا کہ جس حکم کو منسوخ کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف اتنی مدت کے لئے جاری کیا گیا ہے اس کے بعد بدلا جائے گا اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کسی مریض کا حال دیکھ کر کوئی حکیم یا ڈاکٹر ایک دوا اس وقت کے مناسب حال تجویز کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس دوا کا یہ اثر ہوگا اس کے بعد اس دوا کو بدل کر فلاں دوسری دوا دی جائے گی خلاصہ یہ ہے کہ اس تفسیر کے مطابق آیت میں محو و اثبات سے مراد احکام کا منسوخ ہونا اور باقی رہنا ہے۔- اور ائمہ تفسیر کی ایک جماعت سفیان ثوری وکیع وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اس آیت کی دوسری تفسیر نقل کی جس میں مضمون آیت کو نوشتہ تقدیر کے متعلق قرار دیا ہے اور معنی آیت کے یہ بیان کئے گئے ہیں کہ قرآن و حدیث کی تصریحات کے مطابق مخلوقات کی تقدیریں اور ہر شخص کی عمر اور زندگی بھر میں ملنے والا رزق اور پیش آنے والی راحت یا مصیبت اور ان سب چیزوں کی مقداریں اللہ تعالیٰ نے ازل میں مخلوقات کی پیدائش سے بھی پہلے لکھی ہوئی ہیں پھر بچہ کی پیدائش کے وقت فرشتوں کو بھی لکھوا دیا جاتا ہے اور ہر سال شب قدر میں اس سال کے اندر پیش آنے والے معاملات کا چٹھا فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ ہر فرد مخلوق کی عمر رزق حرکات و سکنات سب متعین ہیں اور لکھے ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس نوشتہ تقدیر میں سے جس کو چاہتے ہیں مٹا دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں باقی رکھتے ہیں وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ یعنی اصل کتاب جس کے مطابق محو و اثبات کے بعد انجام کار عمل ہونا ہے وہ اللہ کے پاس ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔- تشریح اس کی یہ ہے کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اعمال سے انسان کی عمر اور رزق بڑھ جاتے ہیں بعض سے گھٹ جاتے ہیں صحیح بخاری میں ہے کہ صلہ رحمی عمر میں زیادتی کا سبب بنتی ہے اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ بعض اوقات آدمی کوئی ایسا گناہ کرتا ہے کہ اس کے سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے اور ماں باپ کی خدمت و اطاعت سے عمر بڑھ جاتی ہے اور تقدیر الہی کو کوئی چیز بجز دعاء کے ٹال نہیں سکتی - ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عمر یا رزق وغیر کسی کی تقدیر میں لکھ دیئے ہیں وہ بعض اعمال کی وجہ سے کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں اور دعا کی وجہ سے بھی تقدیر بدلی جاسکتی ہے اس آیت میں اسی مضمون کا بیان اس طرح کیا گیا کہ کتاب تقدیر میں لکھی ہوئی عمر یا رزق یا مصیبت یا راحت وغیرہ میں جو تغیر و تبدل کسی عمل یا دعا کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے مراد وہ کتاب ہے تقدیر ہے جو فرشتوں کے ہاتھ یا ان کے علم میں ہے اس میں بعض اوقات کوئی حکم کسی خاص شرط پر معلق ہوتا ہے جب وہ شرط نہ پائی جائے تو یہ حکم بھی نہیں رہتا اور پھر یہ شرط بعض اوقات تو تحریر میں لکھی ہوئی فرشتوں کے علم میں ہوتی ہے بعض اوقات لکھی نہیں ہوتی صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے جب وہ حکم بدلا جاتا ہے تو سب حیرت میں رہ جاتے ہیں اس طرح کی تقدیر معلق کہلاتی ہے جس میں اس آیت کی تصریح کے مطابق محو و اثبات ہوتا رہتا ہے لیکن آیت کے آخری جملہ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ نے بتلادیا کہ اس تقدیر معلق کے اوپر ایک تقدیر مبرم ہے جو ام اللکتاب میں لکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ صرف علم الہی کے لئے مخصوص ہے اس میں وہ احکام لکھے جاتے ہیں جو شرائط اعمال یا دعاء کے بعد آخری نتیجہ کے طور پر ہوتے ہیں اسی لئے وہ محو و اثبات اور کمی بیشی سے بالکل بری ہے (ابن کثیر)
يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ 39- محو - المَحْو : إزالة الأثر، ومنه قيل للشّمال : مَحْوَةٌ ، لأنها تَمْحُو السّحاب والأثر . قال تعالی:- يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] .- ( م ح و ) المحو - ( ن ) کے معنی کسی چیز کے اثر اور نشان کو زائل کرنا اور مٹا دینا کے ہیں ۔ اسی - سے بادشاہ کو محوۃ کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بادل کے آثار اور نشانات کے مٹادیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] خدا جس کو چاہتا ہے مٹادیتا ہے ۔ اور ( جس کو چاہتا ہے ) قائم رکھتا ہے ۔- ثبت - الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45]- ( ث ب ت ) الثبات - یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔- كتب) حكم)- قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔
(٣٩) اور ہر کتاب پر عمل کرنے کا اس کے ہاں ایک خاص وقت مقرر ہے اور فرشتوں کی عدالت میں سے جن باتوں پر ثواب و عذاب کچھ نہیں ہوتا، ان کو مٹا دیتے ہیں اور جن پر ثواب و عذاب ہوتا ہے ان کو باقی رہنے دیتے ہیں اور اصل کتاب یعنی لوح محفوظ ان ہی کے پاس ہے کہ جس میں زیادتی اور کمی کچھ نہیں ہوتی۔
آیت ٣٩ (يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ )- اُمّ الکتاب یعنی اصل کتاب اللہ کے پاس ہے۔ سورة الزخرف میں اس کے متعلق یوں فرمایا گیا ہے : (وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ) ” اور یہ اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں ہمارے پاس ہے جو بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے۔ “ آپ اسے لوح محفوظ کہیں ام الکتاب کہیں یا کتاب مکنون کہیں اصل قرآن اس کے اندر ہے۔ یہ قرآن جو ہمارے پاس ہے یہ اس کی مصدقہ نقل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت اور مہربانی سے حضور کی وساطت سے ہمیں دنیا میں عطا کردیا ہے۔
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :58 یہ بھی مخالفین کے ایک اعتراض کا جواب ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے آئی ہوئی کتابیں جب موجود تھیں تو اس نئی کتاب کی کیا ضرورت تھی؟ تم کہتے ہو کہ ان میں تحریف ہو گئی ہے ، اب وہ منسوخ ہیں اور اس نئی کتاب کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ۔ مگر خدا کی کتاب میں تحریف کیسے ہو سکتی ہے ؟ خدا نے اس کی حفاظت کیوں نہ کی ؟ اور کوئی خدائی کتاب منسوخ کیسے ہو سکتی ہے؟ تم کہتے ہو کہ یہ اسی خدا کی کتاب ہے جس نے توراۃ و انجیل نازل کی تھیں ۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ تمہارا طریقہ توراۃ کے بعض احکام کے خلاف ہے؟ مثلا بعض چیزیں جنہیں توراۃ والے حرام کہتے ہیں تم انہیں حلال سمجھ کر کھاتے ہو ۔ ان اعتراضات کے جوابات بعد کی سورتوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دیے گئے ہیں ۔ یہاں ان کا صرف ایک مختصر جامع جواب دے کر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ”اُمّ الکتاب“ کے معنی ہیں”اصل کتاب“ یعنی وہ منبع و سر چشمہ جس سے تمام کتب آسمانی نکلی ہیں ۔
38: تمام کتابوں کی اصل سے مراد لوح محفوظ ہے جس میں ازل سے یہ بات درج ہے کہ کس امت کو کون سی کتاب اور کیسے احکام دئے جائیں گے۔