Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آپ کے انتقال کے بعد تیرے دشمنوں پر جو ہمارے عذاب آنے والے ہیں وہ ہم تیری زندگی میں لائیں تو اور تیرے انتقال کے بعد لائے تو تجھے کیا ؟ تیرا کام تو صرف ہمارے پیغام پہنچا دینا ہے وہ تو کر چکا ۔ ان کا حساب ان کا بدلہ ہمارے ہاتھ ہے ۔ تو صرف انہیں نصیحت کر دے تو ان پر کوئی جاروغہ اور نگہبان نہیں ۔ جو منہ پھیرے گا اور کفر کرے گا اسے اللہ ہی بڑی سزاؤں میں داخل کر دے گا ان کا لوٹنا تو ہماری طرف ہی ہے اور ان کا حساب بھی ہمارے ذمے ہے ۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تیرے قبضے میں دیتے آ رہے ہیں ؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ آباد اور عالی شان محل کھنڈر اور ویرانے بنتے جا رہے ہیں ؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ مسلمان کافروں کو دباتے چلے آ رہے کیا وہ نہیں دیکھتے کہ برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں خرابیاں آتی جا رہی ہیں ؟ لوگ مرتے جا رہے ہیں زمین اجڑتی جا رہی ہے ؟ خود زمین ہی اگر تنگ ہوتی جاتی تو تو انسان کو چھپڑ ڈالنا بھی محال ہو جاتا مقصد انسان کا اور درختوں کا کم ہوتے رہنا ہے ۔ مراد اس سے زمین کی تنگی نہیں بلکہ لوگوں کی موت ہے علماء فقہا اور بھلے لوگوں کی موت بھی زمین کی بربادی ہے ۔ عرب شاعر کہتا ہے الارض تحیا اذا ما عاش عالمہا متی یمت عالم منہا یمت طرف کالارض تحیا اذا ما الغیث حل بہا وان ابی عارفی اکنا فہا التلف یعنی جہاں کہیں جو عالم دین ہے وہاں کی زمین کی زندگی اسی سے ہے ۔ اس کی موت اس زمین کی ویرانی اور خرابی ہے ۔ جیسے کہ بارش جس زمین پر برسے لہلہانے لگتی ہے اور اگر نہ برسے تو سوکھنے اور بنجر ہونے لگتی ہے ۔ پس آیت میں مراد اسلام کا شرک پر غالب آنا ہے ، ایک کے بعد ایک بستی کو تابع کرنا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( ولقد اھلکنا ما حولکم من القری ، ) الخ ، یہی قول امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا بھی پسندیدہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] کفار مکہ پر عذاب آپ کے جیتے بھی اور بعد میں بھی :۔ اس آیت میں بھی کافروں کے اس مطالبہ کا جواب ہے کہ اگر تم سچے ہو تو اب تک ہم پر عذاب آجانا چاہیے تھا یا کیوں نہیں آتا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ آپ کے ذمہ صرف دعوت دین اور اس کی تبلیغ ہے آپ یہی کام کرتے جائیے۔ ان منکرین سے نمٹنا اللہ کا کام ہے اور جس عذاب کا یہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ بھی ان پر آکے رہے گا۔ اس عذاب کا کچھ حصہ تو آپ اپنی زندگی میں جیتے جی دیکھ لیں گے اور کچھ حصہ آپ کی زندگی کے بعد ان کو دیا جائے گا اور اس طرح ان کا یہ مطالبہ بھی پوراکر دیا جائے گا۔ پھر ان منکرین کو آپ کے جیتے جی جو سزائیں ملیں ان کا ذکر قرآن اور حدیث میں وضاحت سے موجود ہے اور جو آپ کی زندگی کے بعد ملیں ان کا ذکر احادیث و آثار و تاریخ میں مل جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ۔۔ : ” مَا “ شرط کے معنی کی تاکید کے لیے ہے جو ” اِنْ “ کا مفہوم ہے۔ اس لیے ترجمہ کیا ہے ” اور اگر کبھی ہم واقعی تجھے دکھا دیں۔ “ یہاں ” نُرِيَنَّكَ “ کا معنی آنکھوں سے دکھانا ہے، دل سے یا گمان اور خیال سے نہیں۔ شرط میں مذکور ” نُرِيَنَّكَ “ اور ” نَتَوَفَّيَنَّكَ “ دونوں کا جواب محذوف ہے، یعنی ضروری نہیں کہ دنیا میں انھیں دی جانے والی سزا ہم آپ کی زندگی ہی میں آپ کو دکھا کردیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ان کی سزا کا وقت آئے، اگر ہم آپ کو آنکھوں سے ان کی کچھ دنیوی سزا دکھا دیں تو یہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے سینوں اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوگا اور اگر پہلے فوت کرلیں تب بھی آپ فکر نہ کریں، کیونکہ آپ کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔ رہا ان کے اعمال پر محاسبہ اور مؤاخذہ تو وہ ہمارے ذمے ہے۔ اس آیت میں اشارہ ہے کہ کچھ وعدے تو آپ کی زندگی میں پورے ہوں گے اور کچھ آپ کی وفات کے بعد۔ باغبان پودے لگاتا ہے، کچھ اس کی زندگی میں پھل دے دیتے ہیں اور کچھ کئی سالوں کے بعد آنے والی نسل کو پھل دیتے ہیں، لہٰذا آپ کو اس کے لیے جلدی نہیں کرنی چاہیے اور انھیں بےفکر اور غافل نہیں رہنا چاہیے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے اور مطمئن رکھنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے آپ سے کئے ہیں کہ اسلام کی مکمل فتح ہوگی اور کفر و کافر ذلیل و خوار ہوں گے یہ تو ہو کر رہے گا مگر آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ فتح مکمل کب ہوگی ممکن ہے کہ آپ کی زندگی میں ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وفات کے بعد ہو اور آپ کے اطمینان کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ آپ برابر دیکھ رہے ہیں کہ ہم کفار کی زمینوں کو ان کے اطراف سے گھٹاتے چلے جاتے ہیں یعنی یہ اطراف مسلمانوں کے قبضہ میں آجاتے ہیں اس طرح ان کی مقبوضہ زمین گھٹتی جاتی ہے اور مسلمانوں کے لئے کشایش ہوتی جاتی ہے اس طرح ایک دن اس فتح کی تکمیل بھی ہوجائے گی حکم اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور بہت جلد حساب لینے والا ہے - سورة رعد تمام شد :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ 40؁- وفی - وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] - ( و ف ی) الوافی - اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ - نقص - النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود 109] ،- ( ن ق ص ) النقص - ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔ - طرف - طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ- [هود 114] - ( ط رف ) الطرف - کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ - تَّعْقيبُ :- أن يأتي بشیء بعد آخر، يقال : عَقَّبَ الفرسُ في عدوه . قال : لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] ، أي : ملائكة يتعاقبون عليه حافظین له . وقوله : لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد 41] ، أي : لا أحد يتعقّبه ويبحث عن فعله - ( ع ق ب ) العقب والعقیب - التعقیب ایک چیز کے بعد دوسری لانا ۔ عقب الفرس فی عدوہ گھوڑے نے ایک دوڑ کے بعد دوسری دوڑ لگائی قرآن میں ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے اور پیچھے خدا کے چوکیدار ہیں اور آیت کریمہ :۔- لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد 41] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ اس پر بحث کرسکتا ہے ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٠) اور جس عذاب کا ہم ان سے وعدہ کررہے اس میں اگر کچھ آپ کی زندگی دکھا دیں یا اس عذاب کے دکھانے سے پہلے ہم آپ کو وفات دے دیں تو کسی بھی صورت میں آپ فکر نہ کریں کیوں کہ آپ کے ذمہ تو صرف احکام الہی کا پہنچا دینا ہے اور ثواب و عذاب دینا تو ہمارا کام ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ )- یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی زندگی ہی میں ان کو عذاب الٰہی میں سے کچھ حصہ مل جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی زندگی میں ان پر ایسا وقت نہ آئے بلکہ عذاب کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم آپ کو وفات دے دیں۔- (فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ )- آپ پر ہمارا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری تھی سو آپ نے یہ ذمہ داری احسن طریقہ سے ادا کردی۔ اب ان کو ہدایت دینا یا نہ دینا ان پر عذاب بھیجنا یا نہ بھیجنا اور ان کا حساب لینا یہ سب کچھ ہمارے ذمے ہے اور ہم یہ فیصلے اپنی مشیت کے مطابق کریں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :59 مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اس دعوت حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے ۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو ۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر دراصل بات ان مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آکیوں نہیں جاتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ ان کافروں کی سرکشی کے باوجود ان پر کوئی عذاب کیوں نہیں آرہا ہے ؟ اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ عذاب کا صحیح وقت اللہ تعالیٰ ہی نے اپنی حکمت کے تحت مقرر فرمایا ہوا ہے، وہ کسی وقت بھی آئے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا ذہن فارغ رکھنا چاہئے کہ ان کی ذمہ داری تبلیغ کی ہے، ان کافروں کا محاسبہ کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو وہ اپنی حکمت کے تحت مناسب وقت پر انجام دے گا۔ (توضیح القرآن)