41۔ 1 یعنی عرب کی سرزمین مشرکین پر بتدریج تنگ ہو رہی ہے اور اسلام کو غلبہ عروج حاصل ہو رہا ہے۔ 41۔ 2 یعنی کوئی اللہ کے حکموں کو رد نہیں کرسکتا۔
[٥٣] زمین کو ہر طرف سے کم کرنے سے مراد ؟:۔ یعنی اسلام چاروں طرف پھیلتا جارہا ہے اور کفر کی سرزمین ہر طرف سے سمٹتی اور کم ہوتی جارہی ہے اور اس کا حلقہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا ہے۔ اسلام کو غلبہ دینا اور اسے پھیلانا ایسی بات ہے جس کا اللہ فیصلہ کرچکا ہے جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور جوں جوں اسلام پھیلتا ہے ان پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ ۔ : یہ کفار کے لیے وعید اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے، یعنی کیا ان کفار نے نہیں دیکھا کہ ہم ان کی زمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے آ رہے ہیں، ان کے شہر اور علاقے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے قبضے میں آتے جا رہے ہیں، ایک وقت آ رہا ہے کہ انھیں زمین کے مرکز ام القریٰ یعنی مکہ سے بھی بےدخل ہونا پڑے گا۔ چونکہ مکہ میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، اس لیے بعض مفسرین نے اس سورت کو مدنی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو اپنی پیش قدمی قرار دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا دین آگے بڑھ رہا تھا اور مسلمانوں کا آگے بڑھنا صرف اللہ ہی کی مدد سے تھا، ورنہ وہ کفار کی متحدہ قوتوں کے سامنے اکیلے اپنی طاقت سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں کی پیش قدمی کو ” اَنَّا نَاْتِي “ (اپنے آنے) کے الفاظ کے ساتھ بیان کرنے میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال کا جو اظہار ہو رہا ہے وہ اللہ کے کلام ہی کی خصوصیت ہے، جیسے فرمایا : ( فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ ) [ النحل : ٢٦ ] ”(یعنی ان کفار سے پہلے لوگوں نے سازشیں کیں) تو اللہ ان کی عمارت کو بنیادوں سے آیا، پس ان پر ان کے اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔ “ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ پر کھڑے ہو کر ان الفاظ میں کیا : ( لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَ نَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ ) [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨ ] ” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے ہی نے تمام جماعتوں کو شکست دی۔ “ کفار پر تعجب ہے کہ یہ دیکھ کر بھی کہ دن بدن اسلام کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور کفر و شرک سمٹ رہا ہے، یہ لوگ اسلام نہیں لاتے۔ اللہ تعالیٰ کی بشارت کے مطابق پھر وہ وقت آیا کہ مشرق اور مغرب کے آخر تک اسلام کا علم لہرانے لگا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی کے مطابق ہر صورت وہ وقت آنے والا ہے جو مقداد بن الاسود (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، فرماتے تھے : ( لاَ یَبْقَی عَلَی ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہٗ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الإِْسْلاَمِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیْلٍ أَمَّا یُعِزُّہُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَجْعَلُہُمْ مِنْ أَہْلِہَا أَوْ یُذِلُّہُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَہَا ) [ أحمد : ٦؍٤، ح : ٢٣٨٧٦ وصححہ الألبانی ]” زمین کی پشت پر اینٹوں یا بالوں کا بنا ہوا کوئی گھر (یا خیمہ) باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کر دے گا، عزت والوں کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت دے گا اور انھیں یہ کلمہ پڑھنے والوں میں داخل کر دے گا، یا انھیں ذلیل کرے گا اور وہ اس کے محکوم بن جائیں گے۔ “ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٤٤) ۔- وَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ : کیونکہ اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرکے اسے وہی بدل سکتا ہے جو اس پر غالب ہو، جب کہ ایسی کسی ہستی کا کہیں وجود ہی نہیں۔ - وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ : یعنی اس کے حساب لینے کا وقت نہایت تیزی کے ساتھ آ رہا ہے، حتیٰ کہ اس کے آنے پر مجرم قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک گھڑی رہے ہیں۔ (روم : ٥٥) دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسے حساب لینے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگتی بلکہ قیامت کے دن پل بھر میں سارا حساب سامنے آجائے گا۔
(٤١) کیا مکہ والے اس چیز کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ان کی زمین کو چاروں طرف سے فتح کرتے جارہے ہیں یا یہ کہ ہر طرف سے کمی سے مراد علماء کا اٹھ جانا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی شہروں کی فتوحات اور علمائے کرام کے انتقال کرنے بارے میں فیصلہ فرماتا ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور وہ ان پر سخت قسم کا عذاب نازل کرنے والا ہے یا یہ کہ جس وقت وہ ان سے حساب لینا شروع کرے گا تو اس کا حساب بڑی جلدی ہوگا۔
(وَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ ۭ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ )- یہ مضمون سورة الانبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے : (اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَاط اَفَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ) ” کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں تو کیا اب یہ غالب آنے والے ہیں ؟ “ یہ اس دور کی طرف اشارہ ہے جب مشرکین مکہ نے مکہ کے اندر رسول اللہ اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کی بھٹی پورے زور شور سے دہکا رکھی تھی اور وہ لوگ اس میں اپنے سارے وسائل اس امید پر جھونکے جا رہے تھے کہ ایک دن محمد اور آپ کی اس تحریک کو نیچا دکھا کر رہیں گے۔ اس صورت حال میں انہیں مکہ کے مضافاتی علاقوں (اُمّ القریٰ وَ مَنْ حَوْلَھَا) کے معروضی حالات کے حوالے سے مستقبل کی ایک امکانی جھلک دکھائی جا رہی ہے کہ بیشک ابھی تک مکہ کے اندر تمہاری حکمت عملی کسی حد تک کامیاب ہے لیکن کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ مکہ کے آس پاس کے قبائل کے اندر اس دعوت کے اثر و نفوذ میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے مقابلے میں تمہارا حلقہ اثر روز بروز سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ جیسے قبیلہ بنی غفار کے ایک نوجوان ابوذر یہ دعوت قبول کر کے اپنے قبیلے میں ایک مبلغ کی حیثیت سے واپس گئے ہیں اور آپ کی وساطت سے یہ دعوت اس قبیلے میں بھی پہنچ گئی ہے۔ یہی حال اردگرد کے دوسرے قبائل کا ہے۔ ان حالات میں کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ دعوت رفتہ رفتہ تمہارے چاروں طرف سے تمہارے گرد گھیرا تنگ کرتی چلی جا رہی ہے ؟ اب وہ وقت بہت قریب نظر آ رہا ہے جب تمہارے ارد گرد کا ماحول اسلام قبول کرلے گا اور تم لوگ اس کے دائرہ اثر کے اندر محصور ہو کر رہ جاؤ گے۔- اس آیت میں جس صورت حال کا ذکر ہے اس کا عملی مظاہرہ ہجرت کے بعد بہت تیزی کے ساتھ سامنے آیا۔ حضور نے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایک طرف قریش مکہ کے لیے ان کی تجارتی شاہراہوں کو مخدوش بنا دیا تو دوسری طرف مدینہ کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ سیاسی معاہدات کر کے اس پورے علاقے سے قریش مکہ کے اثر و رسوخ کی بساط لپیٹ دی۔ مدینہ کے مضافات میں آباد بیشتر قبائل قریش مکہ کے حلیف تھے مگر اب ان میں سے اکثر یا تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے یا انہوں نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کردیا۔ قریش مکہ کی معاشی ناکہ بندی ( ) اور سیاسی انقطاع ( ) کے لیے رسول اللہ کے یہ اقدامات اس قدر مؤثر تھے کہ اس کے بعد انہیں اپنے اردگرد سے سکڑتی ہوئی زمین بہت واضح انداز میں دکھائی دینے لگی۔ - دراصل فلسفہ سیرت کے اعتبار سے یہ بہت اہم موضوع ہے مگر بہت کم لوگوں نے اس پر توجہ دی ہے۔ میں نے اپنی کتاب ” منہج انقلاب نبوی “ میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :60 یعنی کیا تمہارے مخلافین کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اسلام کا اثر سر زمین عرب کے گوشے گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے ان پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے؟ یہ ان کی شامت کے آثار نہیں ہیں تو کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ” ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں“ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے ۔ کیونکہ دعوت حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے ، اس لیے کسی سر زمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالی یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں ۔
40: مطلب یہ ہے کہ جزیرۂ عرب پر مشرکین اور ان کے عقائد کا جو تسلط تھا، وہ رفتہ رفتہ سمٹ رہا ہے، اور مشرکین کے اثر ورسوخ کا دائرہ کار روز بروز کم ہو کر سکڑ رہا ہے، اور اس کی جگہ اسلام کے اثرات پھیل رہے ہیں، یہ ایک تازیانہ ہے جس سے ان مشرکین کو سبق لینا چاہئے۔