کافروں کے شرمناک کارنامے اگلے کافروں نے بھی اپنے نبیوں کے ساٹھ مکر کیا ، انہیں نکالنا چاہا ، اللہ نے ان کے مکر کا بدلہ لیا ۔ انجام کار پرہیز گاروں کا ہی بھلا ہوا ۔ اس سے پہلے آپ کے زمانے کے کافروں کی کارستانی بیان ہو چکی ہے کہ وہ آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے یا دیس سے نکال دینے کا مشورہ کر رہے تھے وہ گھات میں تھے اور اللہ ان کی گھات میں تھا ۔ بھلا اللہ سے زیادہ اچھی پوشیدہ تدبیر کس کی ہو سکتی ہے ؟ ان کے مکر پر ہم نے بھی یہی کیا اور یہ بےخبر رہے ۔ دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ یہی کہ ہم نے انہیں غارت کر دیا اور ان کی ساری قوم کو برباد کر دیا انکے ظلم کی شہادت دینے والے ان کی غیر آباد بستیوں کے کھنڈرات ابھی موجود ہیں ۔ ہر ایک کے ہر ایک عمل سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے پوشیدہ عمل دل کے خوف اس پر ظاہر ہیں ہر عامل کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا الکفار کی دوسری قرأت الکافر بھی ہے ۔ ان کافروں کو ابھی معلوم ہو جائے گا کہ انجام کار کس کا اچھا رہتا ہے ، ان کا یا مسلمانوں کا ؟ الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ حق والوں کو ہی غالب رکھا ہے انجام کے اعتبار سے یہی اچھے رہتے ہیں دنیا آخرت انہی کی سنورتی ہے ۔
42۔ 1 یعنی مشرکین مکہ سے قبل بھی لوگ رسولوں کے مقابلے میں مکر کرتے رہے ہیں، لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلے میں ان کی کوئی تدبیر اور حیلہ کارگر نہیں ہوا، اسی طرح آئندہ بھی ان کا کوئی مکر اللہ کی مشیت کے سامنے نہیں ٹھر سکے گا۔ 42۔ 2 وہ اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیک کو اس کی نیکی کی جزا دیتا ہے اور بد کو اس کی بد کی سزا دیتا ہے۔
[٥٤] یعنی آپ کی قوم سے پہلی قومیں بھی دین حق کی دعوت کو روکنے اور اس کے آگے بند باندھنے کی سرتوڑ کوششیں کرتی رہیں۔ مگر بالآخر وہی کچھ ہوا جو اللہ کو منظور تھا۔ اللہ کی تقدیر کے سامنے ان کی تدبیریں کچھ بھی کام نہ آسکیں اور اب بھی یہی کچھ ہوگا۔ ان منکرین حق کو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ انجام بخیر کس فریق کے حق میں ہوتا ہے، اور جو کچھ یہ لوگ اسلام کو ختم کرنے کے سلسلہ میں تدبیریں کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے علم میں ہیں اور ان کا توڑ وہ خوب جانتا ہے۔
وَقَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ ۔۔ : یعنی ان سے پہلے کفار نے بھی اپنے رسولوں کو ستانے اور اسلام کو نیچا دکھانے کی بہت تدبیریں کیں، یہ کوئی نئی بات آپ ہی کو پیش نہیں آرہی، پھر کوئی تدبیر اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ اختیار ہر چیز کا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ سو اگر ان کی کوئی تدبیر کامیاب ہوئی تو وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہی کا تقاضا تھا، لہٰذا آپ پریشان نہ ہوں۔ ان کافروں کو بھی بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس دنیا کے گھر کا اچھا انجام کس کے حق میں ہوتا ہے۔
وَقَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِيْعًا ۭ يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ ۭ وَسَيَعْلَمُ الْكُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ 42- مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے ۔- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔
(٤٢) اور ان کفار مکہ سے پہلے بھی اور لوگوں نے تدبیریں کیں جیسا کہ نمرود وغیرہ اور اس کے ساتھی تو کچھ بھی نہ ہوا کیوں کہ ان سب کی تدبیر کی سزا اللہ تعالیٰ کے پاس موجود ہے، نیک وبد جو نیکی اور برائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس کی سب خبر رہتی ہے اور اسی طرح ان یہودیوں اور تمام کفار کو ابھی معلوم ہوجائے گا کہ نیک انجام یعنی جنت اور فتح بدر اور فتح مکہ کسی کے حصہ میں ہے۔
آیت ٤٢ (وَقَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ )- اپنے اپنے دور میں منکرین حق نے انبیاء و رسل کی دعوت حق کو روکنے کے لیے سازشوں کے خوب جال پھیلائے تھے اور بڑی بڑی منصوبہ بندیاں کی تھیں۔- (فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِيْعًا)- اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی تدبیروں اور سازشوں کا مکمل طور پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کی مشیت کے خلاف ان کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔- (يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ ۭ وَسَيَعْلَمُ الْكُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ )- دارِآخرت کی بھلائی اور اس کا آرام کس کے لیے ہے انہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا۔
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :61 یعنی آج یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ حق کی آواز کو دبانے کے لیے جھوٹ اور فریب اور ظلم کے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ پچھلی تاریخ میں بارہا ایسی ہی چالوں سے دعوت حق کو شکست دینے کی کوششیں کی جا چکی ہیں ۔