Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رسالت کے منکر کافر تجھے جھٹلا رہے ہیں ۔ تیری رسالت کے منکر ہیں ۔ تو غم نہ کر کہہ دیا کر کہ اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ تیری نبوت کا وہ خود گواہ ہے ، میری تبلیغ پر ، تمہاری تکذیب پر ، وہ شاہد ہے ۔ میری سچائی ، تمہاری تکذیب کو وہ دیکھ رہا ہے ۔ علم کتاب جس کے پاس ہے اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں رضی اللہ عنہ ۔ یہ قول حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے لیکن بہت غریب قول ہے اس لئے کہ یہ آیت مکہ شریف میں اتری ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تو ہجرت کے بعد مدینے میں مسلمان ہوئے ہیں ۔ اس سے زیادہ ظاہر ابن عباس کا قول ہے کہ یہود و نصاری کے حق گو عالم مراد ہیں ہاں ان میں حضرت عبداللہ بن سلام بھی ہیں ، حضرت سلمان اور حضرت تمیم داری وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت میں مروی ہے کہ اس سے مراد بھی خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ اس سے انکاری تھے کہ اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام لئے جائیں کیونکہ یہ آیت مکیہ ہے اور آیت کو من عندہ پڑھتے تھے ۔ یہی قرأت مجاہد اور حسن بصری سے بھی مروی ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی قرأت ہے لیکن وہ حدیث ثابت نہیں ۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ اسم جنس ہے ہر وہ عالم جو اگلی کتاب کا علم ہے اس میں داخل ہے ان کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اور آپ کی بشارت موجود تھی ۔ ان کے نبیوں نے آپ کی بابت پیش گوئی کر دی تھی ۔ جیسے فرمان رب ذی شان ہے آیت ( ورحمتی وسعت کل شیئی ) یعنی میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے میں اسے ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو متقی ہیں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں ، ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں ، رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہیں ، جس کا ذکر اپنی کتاب تورات وانجیل میں موجود پاتے ہیں اور آیت میں ہے کہ کیا یہ بات بھی ان کے لئے کافی نہیں کہ اس کے حق ہونے کا علم علماء بنی اسرائیل کو بھی ہے ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علمائے یہود سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے باپ ابراہیم و اسماعیل کی مسجد میں جا کر عید منائیں مکے پہنچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہیں تھے یہ لوگ جب حج سے لوٹے تو آپ سے ملاقات ہوئی اس وقت آپ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ کے پاس تھے یہ بھی مع اپنے ساتھیوں کے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ آپ ہی عبداللہ بن سلام ہیں کہا ہاں فرمایا قریب آؤ جب قریب گئے تو آپ نے فرمایا کیا تم میرا ذکر تورات میں نہیں پاتے ؟ انہوں نے کہا آپ اللہ تعالیٰ کے اوصاف میرے سامنے بیان فرمائیے اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حکم دیا کہ کہو آیت ( قل ھو اللہ احد ) آپ نے پوری سورت پڑھ سنائی ۔ ابن سلام نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا ، مسلمان ہو گئے ، مدینے واپس چلے آئے لیکن اپنے اسلام کو چھپائے رہے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینے پہنچے اس وقت آپ کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے کھجوریں اتار رہے تھے جو آپ کو خبر پہنچی اسی وقت درخت سے کود پڑے ۔ ماں کہنے لگیں کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی آ جاتے تو تم درخت سے نہ کودتے ۔ کیا بات ہے؟ جواب دیا کہ اماں جی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے بھی زیادہ خوشی مجھے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی یہاں تشریف آوری سے ہوئی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 پس وہ جانتا ہے کہ میں اس کا سچا رسول اور اس کے پیغام کا داعی ہوں اور تم جھوٹے ہو۔ 43۔ 2 کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور مراد تورات اور انجیل کا علم ہے۔ یعنی اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں، جیسے عبد اللہ بن اسلام، سلمان فارسی اور تمیم داری وغیرہم (رض) یعنی یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ عرب کے مشرکین اہم معاملات میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرتے اور ان سے پوچھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی کہ اہل کتاب جانتے ہیں، ان سے تم پوچھ لو۔ بعض کہتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حاملین علم کتاب، مسلمان ہیں۔ اور بعض نے کتاب سے مراد لوح محفوظ لی ہے۔ یعنی جس کے پاس لوح محفوظ کا علم ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ، مگر پہلا مفہوم زیادہ درست ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] یعنی تمہارے جھٹلانے سے کیا بنتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ میری نبوت پر شاہد ہے۔ اور تمہیں میری صداقت کے کئی نشان دکھا چکا ہے اور دکھا رہا ہے اور اہل کتاب میں بھی منصف مزاج لوگ میری رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی کتابوں میں میرے متعلق کئی بشارتیں موجود ہیں پھر ان میں سے بعض اسلام بھی لاچکے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَسْتَ مُرْسَلًا : ” مُرْسَلًا “ کی تنوین کی وجہ سے ترجمہ ” کسی طرح رسول “ کیا گیا ہے۔ - وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ : یعنی یہود و نصاریٰ کے علماء جیسے عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی، تمیم داری (رض) اور ان میں سے دوسرے ایمان لانے والے۔ اہل کتاب کے علماء کی طرف رجوع کا حکم اس لیے دیا کہ مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں عموماً انھی کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کے علماء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور آپ کے متعلق بشارتوں سے آپ کے سچا رسول ہونے کو خوب سمجھتے تھے، جیسے فرمایا : (يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ) [ البقرۃ : ١٤٦ ] ” وہ آپ کو پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) اور شعراء (١٩٧) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا ۭ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ 43؀ۧ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- كتب) حكم)- قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٣) اور یہود وغیرہ یوں کہہ رہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں ورنہ ہمارے پاس اپنی نبوت کے لیے کوئی گواہ لے کر آؤ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ اور جس کے پاس کتاب آسمانی کا علم ہے یعنی حضرت عبداللہ بن سلام اور اس کے ساتھی تو وہ میری رسالت اور اس قرآن کریم کے کلام خداوندی ہونے کے لیے کافی گواہ ہیں۔- اور یا یہ کہ عبداللہ بن سلام کے علاوہ اس سے آصف بن برخیامراد ہیں کیوں کہ جس کے پاس اللہ کی طرف سے کتاب آسمانی کا علم ہوگا تو یقینی طور پر اس میں قرآن کریم کا ذکر اور بیان ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قُلْ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ )- اللہ جانتا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں اور اس کا جاننا میرے لیے کافی ہے۔- (وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ )- میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ میں اس کا رسول ہوں اور پھر ہر اس شخص کی گواہی جو کتاب آسمانی کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تو جانتا ہی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور میرا معاملہ اسی کے ساتھ ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہل کتاب بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اہل کتاب کے اس معاملے کو البقرۃ : ١٤٦ اور الانعام : ٢٠ میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے : (یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمُ ) کہ یہ آپ کو بحیثیت رسول ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :62 یعنی ہر وہ شخص جو واقعی آسمانی کتابوں کے علم سے بہرہ ور ہے اس بات کی شہادت دے گا کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء علیہم السلام لے کر آئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

41: یعنی تم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی رسالت کا انکار کررہے ہو اس سے کیا ہوتا ہے؟ تمہارے انکار سے حقیقت نہیں بدل سکتی، اللہ تعالیٰ بذات خود آپ کی رسالت کا گواہ ہے اور ہر وہ شخص جسے آسمانی کتابوں کا علم ہے اگر انصاف کے ساتھ اس علم کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات کا جائزہ لے گا تو وہ بھی یہ گواہی دئے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔