Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یہ تہدید و توبیخ ہے کہ دنیا میں تم جو کچھ چاہو کرلو، مگر کب تک ؟ بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا۔۔ : ” اَنْدَادًا “ ” نِدٌّ“ کی جمع ہے۔ راغب نے لکھا ہے : ” نَدِیْدُ الشَّیْءِ مُشَارِکُہُ فِیْ جَوْھَرِہِ “ کہ جو کسی چیز کے اصل میں شریک ہو، جبکہ مثل کا لفظ ہر مشارک پر بولا جاتا ہے، چناچہ ہر ” ند “ مثل ہے مگر ہر مثل ” ند “ نہیں۔ (اس لیے اس کا ترجمہ شریک کیا جاتا ہے) یعنی وہ ان کی پوجا کرنے لگے اور دکھ درد میں انھیں پکارنے لگے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا جرم شرک کا ارتکاب اور لوگوں میں اس کی اشاعت کے ذریعے سے انھیں اسلام سے روکنا اور گمراہ کرنا قرار دیا ہے۔ ” تَمَتُّعٌ“ کچھ وقت تک فائدہ اٹھانے کو کہتے ہیں۔ قرآن میں جہاں بھی یہ لفظ ” تمتع “ یا ” تَمَتَّعُوْا “ (یعنی فائدہ اٹھاؤ) آیا ہے، اس کا مطلب اس کی اجازت دینا نہیں بلکہ اس پر ڈانٹنا اور ڈرانا ہے، یعنی اچھا اگر تم باز نہیں آتے تو چند روز کے مزے اڑا لو، مگر کب تک ؟ آخر کار تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : - اور (اوپر جو کہا گیا ہے کہ ان لوگوں نے شکر نعمت کی جگہ کفر کیا اور اپنی قوم کو جہنم میں پہنچایا اس کفر اور پہنچانے کا بیان یہ ہے کہ) ان لوگوں نے اللہ کے ساجھی قرار دیئے تاکہ (دوسروں کو بھی) اس کے دین سے گمراہ کریں (پس ساجھی قرار دینا کفر ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنا جہنم میں پہچانا ہے) آپ (ان سب سے) کہہ دیجئے کہ چندے عیش کرلو کیونکہ آخر انجام تمہارا دوزخ میں جانا ہے (عیش سے مراد حالت کفر میں رہنا ہے کیونکہ ہر شخص کو اپنے مذہب میں لذت ہوتی ہے یعنی اور چندے کفر کرلو یہ تہدید ہے اور مطلب کیونکہ کا یہ ہے کہ چونکہ جہنم میں جانا تو تمہارا ضروری ہے اس واسطے کفر سے باز آنا تمہارا مشکل ہے خیر اور چندے گذار لو پھر تو اس مصیبت کا سامنا ہوگا ہی اور) جو میرے خاص ایمان والے بندے ہیں (ان کو اس کفر نعمت کے وبال پر متنبہ کر کے اس سے محفوظ رکھنے کے لئے) ان سے کہہ دیجئے کہ وہ (نعمت الہی کے اس طرح شکر گذار رہیں کہ) نماز کی پابندی رکھیں اور ہم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس میں سے (حسب قواعد شرعیہ) پوشیدہ اور آشکارا (جیسا موقع ہو) خرچ کیا کریں ایسے دن کے آنے سے پہلے پہلے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی اور نہ دوستی ہوگی (مطلب یہ کہ عبادات بدنیہ ومالیہ کو ادا کرتے رہیں کہ یہی شکر ہے نعمت کا) اللہ ایسا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس پانی سے پھلوں کی قسم سے تمہارے لئے رزق پیدا کیا اور تمہارے نفع کے واسطے کشتی (اور جہاز) کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا تاکہ وہ خدا کے حکم (وقدرت) سے دریا میں چلے (اور تمہاری تجارت اور سفر کی غرض حاصل ہو) اور تمہارے نفع کے واسطے نہروں کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا (تاکہ اسی سے پانی پیو اور آب پاشی کرو اور اس میں کشتی چلاؤ) اور تمہارے نفع کے واسطے سورج اور چاند کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا جو ہمیشہ چلنے ہی میں رہتے ہیں (تاکہ تم کو روشنی اور گرمی وغیرہ کا فائدہ ہو) اور تمہارے نفع کے واسطے رات اور دن کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا (تاکہ تم کو معیشت اور آسائش کا نفع حاصل ہو) اور جو جو چیز تم نے مانگی (اور وہ تمہارے مناسب حال ہوئی) تم کو ہر چیز دی اور (اشیائے مذکورہ ہی پر کیا منحصر ہے) اللہ تعالیٰ کی نعمتیں (تو اس قدر بیشمار ہیں کہ) اگر (ان کو) شمار کرنے لگو تو شمار میں نہیں لا سکتے (مگر) سچ یہ ہے کہ آدمی بہت ہی بےانصاف بڑا ہی ناشکرا ہے (اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر اور شکر نہیں کرتا بلکہ اور بالعکس کفر و معصیت کرنے لگتا ہے جیسا اوپر آیا ہے (آیت) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا - معارف و مسائل :- سورة ابراہیم کے شروع میں رسالت ونبوت اور میعاد وآخرت کے متعلق مضامین تھے اس کے بعد توحید کی فضیلت اور کلمہ کفرو شرک کی مذمت کا بیان مثالوں کے ذریعہ کیا گیا پھر مشرکین کی مذمت اس بات پر کی گئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری اور کفر کا راستہ اختیار کیا۔- مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں کفار و مشرکین کی مذمت اور ان کے انجام بد کا ذکر ہے دوسری آیت میں مؤمنین کی فضیلت اور ان کو ادائے شکر کے لئے کچھ احکام الہیہ کی تاکید کی گئی ہے تیسری چوتھی اور پانچویں آیات میں اللہ جل شانہ کی عظیم نعمتوں کا ذکر فرما کر اس پر آمادہ کیا گیا کہ وہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں صرف نہ کریں۔- تفسیر و تشریح :- انداد، ند کی جمع ہے جس کے معنی مثل اور برابر کے ہیں بتوں کو انداد اس لئے کہا جاتا ہے کہ مشرکین نے ان کو اپنے عمل میں خدا کی مثل یا برابر قرار دے رکھا تھا تمتع کے معنی کس چیز سے چند روزہ عارضی فائدہ حاصل کرنے کے ہیں اس آیت میں مشرکین کے اس غلط نظریہ پر نکیر ہے کہ انہوں نے بتوں کو خدا کے مثل اور اس کا شریک ٹھہرا دیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ ان لوگوں کو جتلا دیں کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے فرمایا کہ چند روزہ دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا لو مگر تمہارا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے۔- دوسری آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہے کہ (کفار مکہ نے تو اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا اب) آپ میرے مومن بندوں سے فرما دیں کہ نماز کی پابندی رکھیں اور ہم نے جو رزق ان کو دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا کریں پوشیدہ اور علانیہ طور پر اس آیت میں مومن بندوں کے لئے بڑی بشارت اور اعزاز ہے اول تو اللہ تعالیٰ نے اپنا بندہ کہہ کر پکارا پھر صفت ایمان کے ساتھ موصوف کیا پھر ان کو دائمی راحت اور اعزاز دینے کی ترکیب بتلائی کہ نماز کی پابندی کریں نہ ان کے اوقات میں سستی کریں نہ آداب میں کوتاہی اور اللہ تعالیٰ ہی کے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ اس کی راہ میں بھی کرچ کیا کریں خرچ کرنے کی دونوں صورتوں کو جائز قرار دیا کہ پوشیدہ طور پر صدقہ خیرات کریں یا اعلان و اظہار کے ساتھ کریں بعض علماء نے فرمایا کہ زکوٰۃ فرض صدقہ الفطر وغیرہ علانیہ ہونے چاہیں تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور نفلی صدقہ خیرات کو پوشیدہ دنیا بہتر ہے کہ نام ونمود کا خطرہ نہ رہے اور اصل مدار نیت اور حالات پر ہے اگر اعلان و اظہار میں نام و نمود کا شائبہ آجائے تو صدقہ کی فضیلت ختم ہوجاتی ہے خواہ فرض ہو یا نفل اور اگر نیت یہ ہو کہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو تو فرض اور نفل دونوں میں اعلان و اظہار جائز ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭ قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِيْرَكُمْ اِلَى النَّارِ 30؁- ندد - نَدِيدُ الشیءِ : مُشارِكه في جَوْهَره، وذلک ضربٌ من المماثلة، فإنّ المِثْل يقال في أيِّ مشارکةٍ کانتْ ، فكلّ نِدٍّ مثلٌ ، ولیس کلّ مثلٍ نِدّاً ، ويقال : نِدُّهُ ونَدِيدُهُ ونَدِيدَتُهُ ، قال تعالی:- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] ، وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] وقرئ : (يوم التَّنَادِّ ) [ غافر 32] «2» أي : يَنِدُّ بعضُهم من بعض . نحو : يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] .- ( ن د د )- ندید الشئی ۔ وہ جو کسی چیز کی ذات یا جوہر میں اس کا شریک ہو اور یہ ممانعت کی ایک قسم ہے کیونکہ مثل کا لفظ ہر قسم کی مشارکت پر بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر ہرند کو مثل کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر مثل ند نہیں ہوتا ۔ اور ند ، ندید ندید ۃ تینوں ہم معنی ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک خدا بناتے ہیں ۔ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] اور بتوں کو اس کا مد مقابل بناتے ہو ۔ اور ایک قرات میں یوم التناد تشدید دال کے ساتھ ہے اور یہ نذ یند سے مشتق ہے جس کے معنی دور بھاگنے کے ہیں اور قیامت کے روز بھی چونکہ لوگ اپنے قرابتدروں سے دور بھاگیں گے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] میں مذکور ہے اس لئے روز قیامت کو یو م التناد بتشدید الدال کہا گیا ہے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠) اور ان لوگوں نے بتوں کو اللہ کے شریک قرار دے کر ان کی پوجا شروع کردی تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی اطاعت سے دوسروں کو بھی گمراہ کریں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ مکہ والو اپنے کفر میں مت رہو پھر قیامت کے دن تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ )- یعنی انہوں نے جھوٹے معبودوں کا ڈھونگ اس لیے رچایا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کی بندگی سے ہٹا کر گمراہ کردیں۔ ” اَنداد “ جمع ہے ’ نِد ‘ کی اس کے معنی مدمقابل کے ہیں۔ سورة البقرۃ کی آیت ٢٢ میں بھی ہم پڑھ آئے ہیں : (فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا ) ” تو اللہ کے مدمقابل نہ ٹھہرایا کرو “۔ اس معاملے کی نزاکت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صحابی نے حضور سے محاورۃً عرض کیا : مَاشَاء اللّٰہُ وَمَا شِءْتَ ” جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں “ تو آپ نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور فرمایا : (أَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا ؟ مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہٗ ) (١) ” کیا تو نے مجھے اللہ کا مد مقابل بنا دیا ؟ (بلکہ وہی ہوگا) جو تنہا اللہ چاہے “ یعنی مشیت تو اللہ ہی کی ہے ‘ جو ہوگا اسی کی مشیت اور مرضی سے ہوگا۔ اختیار صرف اسی کا ہے اور کسی کا کوئی اختیار نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani