احسان اور احسن سلوک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی اطاعت کا اور اپنے حق ماننے کا اور مخلوق رب سے احسان وسلوک کرنے کا حکم دے رہا ہے فرماتا ہے کہ نماز برابر پڑھتے رہیں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت ہے اور زکوٰۃ ضرور دیتے رہیں قرابت داروں کو بھی اور انجان لوگوں کو بھی ۔ اقامت سے مراد وقت کی ، حد کی ، رکوع کی ، خشوع کی ، سجدے کی حفاظت کرنا ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی روزی اس کی راہ میں پوشیدہ اور کھلے طور پر اس کی خوشنودی کے لئے اوروں کو بھی دینی چاہئے تاکہ اس دن نجات ملے جس دن کوئی خرید و فروخت نہ ہو گی نہ کوئی دوستی آشنائی ہو گی ۔ کوئی اپنے آپ کو بطور فدیے کے بیچنا بھی چاہے تو بھی ناممکن جیسے فرمان ہے آیت ( فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَّلَا مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ ۭ هِىَ مَوْلٰىكُمْ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 15 ) 57- الحديد:15 ) یعنی آج تم سے اور کافروں سے کوئی فدیہ اور بدلہ نہ لیا جائے گا ۔ وہاں کسی کی دوستی کی وجہ سے کوئی چھوٹے گا نہیں بلکہ وہاں عدل و انصاف ہی ہو گا ۔ خلال مصدر ہے ۔ امراء لقیس کے شعر میں بھی یہ لفظ ہے ۔ دنیا میں لین دین ، محبت دوستی کام آ جاتی ہے لیکن وہاں یہ چیز اگر اللہ کے لئے نہ ہو تو محض بےسود رہے گی ۔ کوئی سودا گری ۔ کوئی شناسا وہاں کام نہ آئے گا ۔ زمین بھر کر سونا فدیے میں دینا چاہے لیکن رد ہے کسی کی دوستی کسی کی سفارش کافر کو کام نہ دے گی ۔ فرمان الہٰی ہے آیت ( وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ 48 ) 2- البقرة:48 ) اس دن کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو ، جس دن کوئی کسی کو کچھ کام نہ آئے گا ، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا ، نہ کسی کو کسی کی شفاعت نفع دے گی نہ کوئی کسی کی مدد کر سکے گا ۔ فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ۭ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٢٥٤ ) 2- البقرة:254 ) ایمان دارو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے ، تم اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ بیوپار ہے نہ دوستی نہ شفاعت ۔ کافر ہی دراصل ظالم ہیں ۔
31۔ 1 نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر اور نماز کو ٹھیک طریقہ کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ انفاق کا مطلب ہے زکوٰۃ ادا کی جائے، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیا جائے یہ نہیں کہ صرف اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بلا دریغ خوب خرچ کیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔ قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جہاں نہ خریدو فروخت ممکن ہوگی نہ کوئی دوستی ہی کسی کام آئے گی۔
قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : انسان سارے ہی اللہ کے بندے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کا ” عِبَادِیْ “ (میرے بندے) کہنا بہت بڑی عزت افزائی ہے، جیسا کہ فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا) [ بنی إسرائیل : ١ ] ” پاک ہے وہ جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا۔ “ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان لوگوں سے کہہ دیں جن میں دو وصف ہیں، ایک تو یہ کہ وہ صرف میرے بندے ہیں، کسی غیر کے نہیں، جو اپنے نام عبداللہ، عبد الرحمٰن اور ان جیسے رکھتے ہیں، نہ کہ عبد الحسین، عبد النبی، پیراں دتہ، غوث بخش وغیرہ اور جو قولاً و عملاً صرف میری عبادت اور بندگی کرتے ہیں، نہ کہ کسی غیر کی اور دوسرا وصف یہ کہ وہ ایمان لے آئے ہیں۔ - يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا ۔۔ : یہ دونوں فعل لام امر مقدر کی وجہ سے مجزوم ہیں۔ اقامت کا معنی ہے سیدھا کرنا، یعنی نماز کو درست کرکے پڑھیں، اس میں ہمیشگی، وقت پر ادا کرنا، تمام ارکان کو صحیح ادا کرنا اور خشوع کے ساتھ ادا کرنا سب کچھ آجاتا ہے۔ نماز میں بندگی کی ہر قسم کا کچھ نہ کچھ حصہ آجاتا ہے، قبلہ کی طرف رخ حج سے مناسبت رکھتا ہے، قیام، رکوع سجود اور دو زانو ہونا غلامی اور بندگی کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں، نماز کے دوران میں کھانے پینے وغیرہ سے اجتناب روزے سے مناسبت رکھتا ہے، کاروبار چھوڑ کر آنا اس شخص کے لیے ممکن ہی نہیں جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے پر تیار ہی نہیں اور کئی اور چیزیں ایسی ہیں جو صرف نماز ہی میں ہیں، کسی اور عبادت میں نہیں۔ قرآن مجید میں اکثر نماز اور زکوٰۃ یا خرچ کرنا اکٹھا آیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی ان دونوں کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ - مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً : اس میں دو باتوں کی طرف توجہ لازم ہے۔ ایک تو لفظ ” مِنْ “ ہے کہ اللہ نے ہمیں جو کچھ دیا ہے جان، مال، اولاد، قوت، علم، عزت، غرض جو شمار ہی نہیں ہوسکتا، وہ سارے کا سارا ہم سے خرچ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، کیونکہ اسے ہماری کمزوری کا علم ہے جو اس نے سورة محمد کی آیت (٣٦، ٣٧) میں ذکر فرمائی ہے۔ دوسرا لفظ ” رَزَقْنَا “ ہے کہ تم نے جو کچھ خرچ کرنا ہے ہمارے دیے ہوئے میں سے کرنا ہے، اگر یہ سوچو گے تو دل میں بخل نہیں آئے گا اور اگر سب کچھ اپنا سمجھو گے تو مشکل ہی سے خرچ کرسکو گے۔ ” سِرًّا “ یعنی پوشیدہ اس لیے کہ وہ ریا سے پاک ہے اور ” وَّعَلَانِيَةً “ یعنی علانیہ اس لیے کہ دوسروں کو رغبت ہو، یا فرض زکوٰۃ ہو تو علانیہ دو ، کیونکہ چھپا کردینے سے زکوٰۃ نہ دینے کی تہمت کا خطرہ ہے۔ - مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ : ” خِلٰلٌ“ یہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے، بمعنی دلی دوستی، مراد ہے قیامت کا دن کہ جس میں نیک اعمال خریدے جاسکیں گے نہ کسی کی دوستی اور محبت کام آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچا سکے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی نیک عمل بکتے نہیں اور کوئی دوستی سے رعایت نہیں کرتا۔ “ (موضح) اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : (اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ) [ الزخرف : ٦٧ ] ” سب خلیل (دلی دوست) اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔ “
(آیت) مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ۔ لفظ خلال خلۃ کی جمع بھی ہو سکتی ہے جس کے معنی بےغرض دوستی کے ہیں اور اس لفظ کو باب مفاعلۃ کا مصدر بھی کہہ سکتے ہیں جیسے قتال دفاع وغیرہ اس صورت میں اس کے معنی دو شخصوں کے آپس میں دونوں طرف سے مخلصانہ دوستی کرنے کے ہوں گے اس جملہ کا تعلق اوپر کے بیان کئے ہوئے دونوں حکم یعنی نماز اور صدقہ کے ساتھ ہے۔- مطلب یہ ہے کہ آج تو اللہ تعالیٰ نے طاقت فرصت عطا فرما رکھی ہے کہ نماز ادا کریں اور اگر پچھلی عمر میں غفلت سے کوئی نماز رہ گئی ہے تو اس کی قضاء کریں اسی طرح آج مال تمہاری ملک اور قبضہ میں ہے اس کو اللہ کے لئے خرچ کر کے دائمی زندگی کا کام بنا سکتے ہو لیکن وہ دن قریب آنے والا ہے جب کہ یہ دنوں قوتیں اور قدرتیں تم سے لے لی جائیں گی نہ تمہارے بدن نماز پڑھنے کے قابل رہیں گے نہ تمہاری ملک اور قبضہ میں کوئی مال رہے گا جس سے ضائع شدہ حقوق کی ادائیگی کرسکو اور اس دن میں کوئی بیع وشرا اور خریدو فروخت بھی نہ ہو سکے گی کہ آپ کوئی ایسی چیز خرید لیں جس کے ذریعہ اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کا کفارہ کرسکیں اور اس دن میں آپس کی دوستیاں اور تعلقات بھی کام نہ آسکیں گے کوئی عزیز دوست کسی کے گناہوں کا بار نہ اٹھا سکے گا اور نہ اس کے عذاب کو کسی طرح ہٹا سکے گا اس دن سے مراد بظاہر حشر و قیامت کا دن ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ موت کا دن ہو کیونکہ یہ سب آثار موت ہی کے وقت سے ظاہر ہوجاتے ہیں نہ بدن میں کسی عمل کی صلاحیت رہتی ہے نہ مال ہی اس کی ملک میں رہتا ہے۔- احکام و ہدایات :- اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ قیامت کے روز کسی کی دوستی کسی کے کام نہ آئے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ محض دنیاوی دوستیاں اس روز کام نہ آئیں گی لیکن جن لوگوں کی دوستی اور تعلقات اللہ کے لئے اور اس کے دین کے کاموں کے لئے ہوں ان کی دوستی اس وقت بھی کام آئے گی کہ اللہ کے نیک اور مقبول بندے دوسروں کی شفاعت کریں گے جیسا کہ احادیث کیثرہ میں منقول ہے اور قرآن عزیز میں ارشاد ہے (آیت) اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ۔ یعنی وہ لوگ جو دنیا میں باہم دوست تھے اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے کہ یہ چاہیں گے کہ دوست پر اپنا گناہ ڈال کر خود بری ہوجائیں مگر وہ لوگ جو تقوی شعار ہیں کیونکہ اہل تقوی وہاں بھی ایک دوسرے کی مدد بطریق شفاعت کرسکیں گے۔- تیسری، چوتھی اور پانچویں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نعمتوں کی یاد دہانی کرا کے انسان کو اس کی عبادت و اطاعت کی طرف دعوت دی گئی ہے ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے جس پر انسانی وجود کی ابتداء اور بقاء موقوف ہے پھر آسمان سے پانی اتارا جس کے ذریعہ طرح طرح کے ثمرات پیدا کئے تاکہ وہ تمہارا رزق بن سکیں لفظ ثمرات، ثمرہ کی جمع ہے ہر چیز سے حاصل ہونے والے نتیجہ کو اس کا ثمرہ کہا جاتا ہے اس لئے لفظ ثمرات میں وہ تمام چیزیں بھی شامل ہیں جو انسان کی غذا بنتی ہیں اور وہ چیزیں بھی جو اس کا لباس بنتی ہیں اور وہ چیزیں بھی جو اس کے رہنے سہنے کا مکان بنتی ہیں کیونکہ لفظ رزق جو اس آیت میں مذکور ہے وہ ان تمام ضروریات انسانی پر حاوی اور شامل ہے (مظہری)
قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ 31- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - سرر - الْإِسْرَارُ : خلاف الإعلان، قال تعالی: سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم 31] ، وقال تعالی:- وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن 4] ، وقال تعالی: وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ- [ الملک 13] ، ويستعمل في الأعيان والمعاني، والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] ، وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ- [يونس 54] ، أي : کتموها - ( س ر ر ) الاسرار - کسی بات کو چھپانا یہ اعلان کی ضد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم 31] اور پوشیدہ اور ظاہر اور فرمایا : ۔ وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن 4]( کہ ) جو کچھ - یہ چھپاتے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں خدا کو ( سب ) معلوم ہے ۔ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ [ الملک 13] اور تم ( لوگ ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر ۔ اور اس کا استعمال اعیال ومعانی دونوں میں ہوتا ہے السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ نیز فرمایا۔ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] کہ خدا ان کے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے ۔ سارۃ ( مفاعلہ ) کے معنی ہیں کسی بات کو چھپانے کی وصیت کرنا - بيع - البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء :إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع :- الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه .- ( ب ی ع )- البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں ؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔- خُلَّةُ :- المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك)- الخلتہ - ۔ مودت دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ یو تا اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر ہال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ - میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ ( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔
(٣١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے مومن بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ پانچوں نمازوں کی کمال وضو، رکوع وجود اور تمام آداب اور اس کے تمام واجبات اور اہتمام کے ساتھ پابندی رکھیں اور جو ہم نے ان کو اموال دیے ہیں ان میں سے چھپا کر اور ظاہر کر کے صدقہ کیا کریں۔- قیامت کے آنے سے پہلے کہ جس میں نہ فدیہ ہوگا اور نہ دوستی کافر و مومن کسی کو کسی کی دوستی فائدہ مند نہ ہوگی ان خوبیوں کے مالک اصحاب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
آیت ٣١ (قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ )- یہاں یہ نکتہ لائقِ توجہ ہے کہ قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے رسول اللہ کو مخاطب کر کے اہل ایمان کو بالواسطہ حکم دیا جا رہا ہے اور یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے اہل ایمان کو براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ پورے مکی قرآن میں یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے براہ راست مسلمانوں سے خطاب نہیں کیا گیا۔ (سورۃ الحج میں ایک مقام پر یہ الفاظ آئے ہیں مگر اس سورة کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ ) اس میں جو حکمت ہے وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ جہاں تک مجھے اس کی وجہ سمجھ میں آئی ہے وہ میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا طرز خطاب امت کے لیے ہے اور مکی دور میں مسلمان ابھی ایک امت نہیں بنے تھے۔ مسلمانوں کو امت کا درجہ مدینہ میں آکر تحویل قبلہ کے بعد ملا۔ پچھلے دو ہزار برس سے امت مسلمہ کے منصب پر یہودی فائز تھے۔ انہیں اس منصب سے معزول کر کے محمد رسول اللہ کی امت کو امت مسلمہ کا درجہ دیا گیا اور تحویل قبلہ اس تبدیلی کی ظاہری علامت قرار پایا۔ یعنی یہودیوں کے قبلہ کی حیثیت بطور قبلہ ختم کرنے کا مطلب یہ قرار پایا کہ انہیں امت مسلمہ کے منصب سے معزول کردیا گیا ہے۔ چناچہ قرآن میں یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ کے ذریعے مسلمانوں سے خطاب اس کے بعد شروع ہوا۔- (وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ)- یہ آیت سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٤ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ وہاں بیع اور دوستی کے علاوہ شفاعت کی بھی نفی کی گئی ہے : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ) ۔ یعنی اس دن سے پہلے پہلے ہمارے عطا کردہ رزق میں سے خرچ کرلو جس میں نہ کوئی بیع ہوگی نہ کوئی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کسی کی شفاعت فائدہ مند ہوگی۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :41 مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کی روش کفار کی روش سے مختلف ہونی چاہیے ۔ وہ تو کافر نعمت ہیں ۔ انہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس شکر گزاری کی عملی صورت یہ ہے کہ نماز قائم کریں اور خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کریں ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :42 یعنی نہ تو وہاں کچھ دے دلا کر ہی نجات خریدی جا سکے گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی کہ وہ تمہیں خدا کی پکڑ سے بچالے ۔
23: اس سے مراد حساب و کتاب کا دن ہے۔ اس دن کوئی شخص پیسے خرچ کر کے جنت نہیں خرید سکے گا اور نہ دوستی کے تعلقات کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب سے بچا سکے گا۔