حرمت وعظمت کا مالک شہر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ حرمت والا شہر مکہ ابتداء میں اللہ کی توحید پر ہی بنایا گیا تھا ۔ اس کے اول بانی خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے بری تھے ۔ انہی نے اس شہر کے باامن ہونے کی دعا کی تھی ۔ جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ۔ سب سے پہلا با برکت اور باہدایت اللہ کا گھر مکے شریف کا ہی ہے ، جس میں بہت سی واضح نشانیوں کے علاوہ مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس شہر میں جو پہنچ گیا ، امن و امان میں آ گیا ۔ اس شہر کو بنانے کے بعد خلیل اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ اس شہر کو پر امن بنا ۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسے بچے عطا فرمائے ۔ حضرت اسماعیل کو دودھ پیتا اس کی والدہ کے ساتھ لے کر یہاں آئے تھے تب بھی آپ نے اس شہر کے باامن ہونے کی دعا کی تھی لیکن اس وقت کے الفاظ یہ تھے آیت ( رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ 35ۭ ) 14- ابراھیم:35 ) پس اس دعا میں بلد پر لام نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ دعا شہر کی آبادی سے پہلے کی ہے اور اب چونکہ شہر بس چکا تھا ۔ بلد کو معرف بلام لائے ۔ سورہ بقرہ میں ہم ان چیزوں کو وضاحت و تفصیل کے ساتھ ذکر کر آئے ہیں ۔ پھر دوسری دعا میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا ۔ انسان کو لازم ہے کہ اپنی دعاؤں میں اپنے ماں باپ کو اور اولاد کو بھی شامل رکھے ۔ پھر آپ نے بتوں کی گمراہی ان کا فتنہ اکثر لوگوں کا بہکا جانا بیان فرما کر ان سے اپنی بےزاری کا اظہار کیا اور انہیں اللہ کے حوالے کیا کہ وہ چاہے بخشے ، چاہے سزا دے ۔ جیسے روح اللہ علیہ السلام بروز قیامت کہیں گے کیا اگر تو انہیں عذاب کر تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اس میں صرف اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ اس کے واقع ہونے کو جائز سمجھنا ہے ۔ حضور علیہ السلام نے حضرت خلیل اللہ کا یہ قول اور حضرت روح اللہ کا قول آیت ( اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١١٨ ) 5- المآئدہ:118 ) ، تلاوت کر کے رو رو کر اپنی امت کو یاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ جا کر دریافت کرو کہ کیوں رو رہے ہو ؟ آپ نے سبب بیان کیا حکم ہوا کہ جاؤ اور کہہ دو کہ آپ کو ہم آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے ناراض نہ کریں گے ۔
35۔ 1 اس شہر سے مراد مکہ ہے۔ دیگر دعاؤں سے قبل یہ دعا کی کہ اسے امن والا بنا دے، اس لئے کہ امن ہوگا تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکیں گے، ورنہ امن و سکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود، خوف اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں۔ جیسے آجکل کے عام معاشروں کا حال ہے۔ سوائے سعودی عرب کے۔ وہاں اس دعا کی برکت سے اور اسلامی حدود کے نفاذ سے آج بھی ایک مثالی امن قائم ہے۔ صانھا اللہ عن الشرور والفتن۔ یہاں انعامات الہیہ کے ضمن میں اسے بیان فرما کر اشارہ کردیا کہ قریش جہاں اللہ کے دیگر انعامات سے غافل ہیں اس خصوصی انعام سے بھی غافل ہیں کہ اس نے انھیں مکہ جیسے امن والے شہر کا باشندہ بنایا۔
[٣٨] مکہ کو پر امن شہر بنانے کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا :۔ چند آیات پہلے مشرک رؤسائے قریش کا ذکر ہوا کہ کس طرح وہ اپنے ساتھ اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گڑھے تک لے گئے تھے۔ یہ قریش چونکہ اپنے آپ کو سنت ابراہیم کا پیروکار سمجھتے اور کہلواتے تھے لہذا سیدنا ابراہیم کا ذکر بیان کرکے انھیں بتایا جارہا ہے کہ وہ شرک سے کس قدر بیزار تھے۔ نیز یہ کہ تم ان کی اتباع کا دعویٰ کیسے کرتے ہو۔ انہوں نے تو اس شہر مکہ کو پرامن بنانے کے لیے دعا ہی یہ کی تھی کہ اے میرے پروردگار مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی شرک کی نجاستوں اور بتوں کی پوجا پاٹ سے محفوظ رکھنا۔ کیونکہ اکثر لوگ انہی بتوں کی پوجا پاٹ کی وجہ سے گمراہ ہوئے ہیں۔ میرا متبع تو صرف وہ ہے جس نے میرے طریقہ توحید کو تسلیم کیا اور جو بتوں کا پرستار ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں اور جس نے میری نافرمانی کی اور توحید کا راستہ چھوڑ کر بتوں کی نجاست میں پھنس گیا وہ سزا کا مستحق تو ضرور ہے مگر اے پروردگار تو غفور رحیم ہے چاہے تو انھیں بھی معاف کر دے۔- مشرکوں کے حق میں آپ کی ایسی دعا محض آپ کے نرم دل اور رحم دل ہونے کی وجہ سے تھی مگر جب آپ کو واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ مشرک کی بخشش نہیں ہوسکتی تو آپ نے اپنے باپ کے حق میں بھی دعا مانگنا چھوڑ دی تھی۔- کہنے کو تو قریش مکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کہتے تھے اور ان کے دین کے متبع ہونے کا دعویٰ بھی کرتے تھے مگر ان میں کئی بنیادی قباحتیں آگئیں تھیں مثلاً :- ١۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ یا اللہ اس شہر مکہ کو پرامن بنا دے اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا قبول بھی ہوگئی اور قریش مکہ اس کے پرامن شہر ہونے کی وجہ سے کئی طرح کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی فائدے بھی اٹھا رہے تھے مگر ان کا اپنا یہ حال تھا کہ اسی پر امن شہر میں اللہ کے رسول اور مسلمانوں پر ظلم و ستم میں حد کردی تھی اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ رسول اللہ اور مسلمان مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔- ٢۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری دعا یہ تھی کہ یا اللہ مجھے اور میرے بیٹوں (یعنی اولاد) کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھنا۔ لیکن قریش مکہ کی بت پرستی کی انتہا یہ تھی کہ خاص بیت اللہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے جن میں سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل کی تصاویر بھی تھیں اور ان کے ہاتھ میں فال کے تیر بھی پکڑائے گئے تھے۔- ٣۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بےآب وگیاہ میدان میں اپنی بیوی اور بچوں کو اس لیے لابسایا تھا کہ وہ خود اور آپ کی اولاد بیت اللہ شریف کو آباد رکھیں اور اس میں اللہ کی عبادت، طواف اور حج وعمرہ وغیرہ کیا کریں لیکن قریش نے مسلمانوں پر محض مشرک نہ ہونے کی بنا پر یہ پابندی لگا دی تھی کہ وہ نہ کعبہ میں نماز ادا کرسکتے اور نہ طواف کرسکتے ہیں اور نہ حج وعمرہ بجا لاسکتے ہیں۔- ٤۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ اے ہمارے پروردگار مجھے، میرے والدین اور سب ایمان لانے والوں کو قیامت کے دن معاف کردینا۔ لیکن قریش مکہ قیامت کے دن پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے تھے۔- ٥۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے واضح طور پر فرما دیا تھا کہ جو میری تابعداری کرے گا وہ تو یقیناً میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور قریش مکہ نے مندرجہ بالا سب امور میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی مخالفت تھی۔ بایں ہمہ وہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد اور ان کا متبع کہتے تھے۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ ۔۔ : عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب خاص اس احسان کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں پر کیا تھا اور وہ تھا ان کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا ان کے جد اعلیٰ اسماعیل (علیہ السلام) کو یہاں لا کر آباد کرنا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) نے کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں یہاں لا کر بسایا تھا اور کس طرح اس شہر کے پرامن بنانے کی اور اپنے اور اپنے بیٹوں کے لیے بت پرستی سے محفوظ رہنے کی دعا کی تھی، مگر آج تم ان احسانات کو بھول گئے اور بت پرستی کو اپنا دین قرار دے دیا۔ - اٰمِنًا : یہ ” ذَا اَمْنٍ “ (امن والا) کے معنی میں ہے، جیسے ” لَابِنٌ“ (دودھ والا) اور ” تَامِرٌ“ (کھجور والا) ہے۔ سورة بقرہ (١٢٦) میں ” هٰذَا بَلَداً اٰمِنًا “ اور یہاں ” هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا “ میں فرق یہ ہے کہ سورة بقرہ میں ” ھٰذَا “ پہلا مفعول اور ” بَلَداً “ دوسرا مفعول ہے، جب کہ یہاں ” ہَذا البلد “ پہلا مفعول اور ” اٰمناً “ دوسرا مفعول ہے۔ دونوں جگہ ترجمے کا فرق ملاحظہ فرمائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ سورة بقرہ (١٢٦) میں موجود پہلی دعا ” رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَداً اٰمِنًا “ اس وقت کی ہے جب شہر نہیں بنا تھا، تو دعا کی کہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا دے اور دوسری دعا اس وقت کی جب شہر بن چکا تھا، اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہوچکے تھے کہ پروردگار اس شہر کو امن والا بنا دے۔ امن ایک بہت بڑی نعمت ہے اور خوف بہت بڑی آزمائش ہے۔ رازی فرماتے ہیں، ایک عالم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو بیماری اور خوف میں سے ایک کے انتخاب پر مجبور کیا جائے تو آپ کیا اختیار کریں گے ؟ انھوں نے فرمایا، میں بیماری کو اختیار کروں گا کہ اس میں آدمی کھا پی اور سو تو سکتا ہے، خوف میں اس سے بھی محروم ہوجاتا ہے، آپ ایک بکری کا تصور کریں جس کی ٹانگ ٹوٹ جائے، وہ کھاتی پیتی رہے گی، سو بھی جائے گی، مگر ایک تندرست بکری جس کے سامنے بھیڑیا ہو، وہ نہ کھا سکے گی، نہ پی سکے گی اور نہ آرام کرسکے گی، حتیٰ کہ نوبت موت تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورة قریش میں بھوک سے کھلانے اور خوف سے امن دینے کی نعمت کا ذکر فرما کر قریش کو خاص اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ - وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ : ” جَنَبَ یَجْنُبُ “ یہ ” نصر “ سے اور افعال اور تفعیل سے ایک ہی معنی میں آتا ہے۔ ” صنم “ اس پتھر یا لکڑی یا کسی دھات کے بنائے ہوئے بت، تصویر یا مجسمے کو کہتے ہیں جو کسی انسان یا فرشتے یا دیوتا کی حقیقی یا خیالی صورت پر پوجا کے لیے بنایا گیا ہو، جب کہ ” وثن “ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو غیر اللہ کی عبادت کے لیے مختص ہو، خواہ قبر ہو یا درخت یا دریا یا بت یا کوئی جانور یا انسان وغیرہ۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم اور اپنے والد کی صنم پرستی اور اس پر اصرار اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اس لیے وہ اپنے یا اپنی اولاد کے اس میں مبتلا ہونے سے سخت خوف زدہ تھے، سو انھوں نے یہ دعا کی۔ ” بَنِیَّ “ میں ساری اولاد شامل ہے، جیسے بنی آدم یا بنی اسرائیل۔ بیٹوں کی حد تک تو دعا قبول ہوئی، مگر ساری اولاد کے حق میں بعینہٖ قبول نہیں ہوئی، جیسا کہ فرمایا : (وَمِنْ ذُرِّيَّـتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ) [ الصافات : ١١٣ ] ” اور ان دونوں (ابراہیم اور اسحاق) کی اولاد میں سے کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی اپنی جان پر صریح ظلم کرنے والا ہے۔ “ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کا مالک ہے، وہ اپنی حکمت کے مطابق دعا کرنے والے کی دعا کا جتنا حصہ چاہتا ہے اس کی خواہش کے مطابق پورا کردیتا ہے اور جو حصہ چاہتا ہے کسی اور صورت میں عطا کردیتا ہے۔ دعا کسی صورت بھی ضائع نہیں جاتی، البتہ مرضی اسی کی چلتی ہے، کسی دوسرے حتیٰ کہ انبیاء کی بھی نہیں۔ ہمیں بھی ہر وقت اس بات کی فکر رہنی چاہیے کہ ہم یا ہماری اولاد کسی طرح شرک میں مبتلا نہ ہوجائیں، ہمیں اپنی اولاد کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے اور اسے توحید کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔
خلاصہ تفسیر :- اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جب کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے (حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کو بحکم الہی میدان مکہ میں لا کر رکھنے کے وقت دعاء کے طور پر) کہا کہ اے میرے رب اس شہر (مکہ) کو امن والا بنا دیجئے (کہ اس کے رہنے والے مستحق امن رہیں یعنی حرم کر دیجئے) اور مجھ کو اور میرے خاص فرزندوں کو بتوں کی عبادت سے (جو کہ اس وقت جہلاء میں شائع ہے) بچائے رکھئے (جیسا اب تک بچائے رکھا) اے میرے پروردگار (میں بتوں کی عبادت سے بچنے کی دعاء اس لئے کرتا ہوں کہ) ان بتوں نے بہتیرے آدمیوں کو گمراہ کردیا، (یعنی ان کی گمراہی کا سبب ہوگئے اس لئے ڈر کر آپ کی پناہ چاہتا ہوں اور میں جس طرح اولاد کے بچنے کی دعاء کرتا ہوں اسی طرح ان کو بھی کہتا سنتا رہوں گا) پھر (میرے کہنے سننے کے بعد) جو شخص میری راہ پر چلے گا وہ تو میرا ہے (اور اس کے لئے وعدہ مغفرت ہے ہی) اور جو شخص (اس باب میں) میرا کہنا نہ مانے (سو اس کو آپ ہدایت فرمائیے کیونکہ) آپ تو کثیر المغفرت (اور) کثیر الرحمۃ ہیں (ان کی مغفرت اور رحمت کا سامان بھی کرسکتے ہیں کہ ان کو ہدایت دیں مقصود اس دعاء سے شفاعت مؤمنین کے لئے اور طلب ہدایت غیر مؤمنین کے لئے ہے) اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو (یعنی اسماعیل (علیہ السلام) کو اور ان کے واسطے سے ان کی نسل کو) آپ کے معظم گھر (یعنی خانہ کعبہ) کے قریب (جو کہ پہلے سے یہاں بنا ہوا تھا اور ہمیشہ سے لوگ اس کا ادب کرتے آئے تھے) ایک (چھوٹے سے) میدان میں جو (بوجہ سنگستان ہونے کے) زراعت کے قابل (بھی) نہیں آباد کرتا ہوں اے ہمارے رب (بیت الحرام کے پاس اس لئے آباد کرتا ہوں) تاکہ وہ لوگ نماز کا (خاص) اہتمام رکھیں (اور چونکہ یہ اس وقت چھوٹا سا میدان ہے) تو آپ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کر دیجئے (کہ یہاں آ کر رہیں سہیں تاکہ آبادی پر رونق ہوجاوے) اور (چونکہ یہاں زراعت وغیرہ نہیں ہے اس لئے) ان کو (محض اپنی قدرت سے) پھل کھانے کو دیجئے تاکہ یہ لوگ (ان نعمتوں کا) شکر کریں اے ہمارے رب (یہ دعائیں محض اپنی بندگی اور حاجت مندی کے اظہار کے لئے ہیں آپ کو اپنی حاجت کی اطلاع کے لئے نہیں کیونکہ) آپ کو تو سب کچھ معلوم ہے جو ہم اپنے دل میں رکھیں اور جو ظاہر کردیں اور (ہمارے ظاہر و باطن پر کیا حصر ہے) اللہ تعالیٰ سے (تو) کوئی چیز بھی مخفی نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں (کچھ دعائیں آگے آئیں گی اور بیچ میں بعض نعم سابقہ پر حمد وشکر کیا تاکہ شکر کی برکت سے یہ دعائیں اقرب الی القبول ہوجائیں چناچہ فرمایا) تمام حمد (ثناء) خدا کے لئے (سزاوار) ہے جس نے مجھ کو بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق (دو بیٹے) عطا فرمائے حقیقت میں میرا رب دعاء کا بڑا سننے والا (یعنی قبول کرنے والا) ہے (کہ عطائے اولاد کے متعلق میری یہ دعاء رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ قبول کرلی، پھر اس نعمت کا شکر ادا کر کے آگے بقیہ دعائیں پیش کرتے ہیں کہ) اے میرے رب (جو میری نیت ہے اپنی اولاد کو بیت محرم کے پاس بسانے سے کہ وہ نمازوں کا اہتمام رکھیں اس کو پورا کر دیجئے اور جیسا ان کے لئے اہتمام نماز میرا مطلوب ہے اسی طرح اپنے لئے بھی مطلوب ہے اس لئے اپنے اور ان کے دونوں کے لئے دعاء کرتا ہوں اور چونکہ مجھ کو وحی سے معلوم ہوگیا ہے کہ ان میں بعض غیر مومن بھی ہوں گے اس لئے دعاء سب کے لئے نہیں کرسکتا ہوں پس ان مضامین پر نظر کر کے یہ دعاء کرتا ہوں کہ) مجھ کو بھی نماز کا (خاص) اہتمام کرنے والا رکھئے اور میری اولاد میں بھی بعضوں کو (نماز کا اہتمام رکھنے والا کیجئے) اے ہمارے رب اور میری (یہ) دعاء قبول کیجئے (اور) اے ہمارے رب میری مغفرت کر دیجئے اور میرے ماں باپ کی بھی اور کل مؤمنین کی بھی حساب قائم ہونے کے دن (یعنی قیامت کے روز سب مذکورین کی مغفرت کردیجئے)- معارف و مسائل :- پچھلی آیات میں عقیدہ توحید کی معقولیت اور اہمیت کا اور شرک کی جہالت اور مذمت کا بیان تھا توحید کے معاملہ میں زمرہ انبیاء (علیہم السلام) میں سب سے زیادہ کامیاب جہاد حضرت خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جہاد تھا اسی لئے دین ابراہیمی کو خاص طور پر دین حنیف کا نام دیا جاتا ہے۔- اسی مناسبت سے یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کا ذکر آیات مذکور میں کیا گیا ہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلی ایک ( آیت) الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا میں قریش مکہ کے ان لوگوں کی مذمت بیان کی گئی تھی جنہوں نے تقلید آبائی کی بناء پر ایمان کو کفر سے اور توحید کو شرک سے بدل ڈالا تھا ان آیات میں ان کو بتلایا گیا کہ تمہارے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ اور عمل کیا تھا تاکہ تقلید آبائی کے خوگر اسی پر نظر کر کے اپنے کفر سے باز آجائیں (بحر محیط) - اور یہ ظاہر ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے قصص اور حالات کے بیان سے قرآن کریم کا مقصد صرف ان کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ہدایتی اصول ہوتے ہیں انہی کو جاری رکھنے کے لئے یہ واقعات قرآن میں بار بار دہرائے جاتے ہیں۔- اس جگہ پہلی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دو دعائیں مذکور ہیں اول رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا یعنی اے میرے پروردگار اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دیجئے، سورة بقرہ میں بھی یہی دعاء مذکور ہے مگر اس میں لفظ بلد بغیر لام کے بلدا فرمایا ہے جس کے معنی غیر معین شہر کے ہیں وجہ یہ ہے کہ وہ دعا اس وقت کی تھی جبکہ شہر مکہ کی بستی آباد نہ تھی اس لئے عام الفاظ میں یہ دعاء کی کہ اس جگہ کو ایک شہر مامون بنا دیجئے۔- اور دوسری دعاء اس وقت کی ہے جبکہ مکہ کی بستی بس چکی تھی تو شہر مکہ کو متعین کر کے دعا فرمائی کہ اس کو جائے امن بنا دیجئے دوسری دعاء یہ فرمائی کہ مجھ کو اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچائیے۔- انبیاء (علیہم السلام) اگرچہ معصوم ہوتے ہیں ان سے شرک وبت پرستی بلکہ کوئی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا مگر یہاں حضرت خلیل (علیہ السلام) نے اس دعاء میں اپنے آپ کو بھی شامل فرمایا ہے اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ طبعی خوف کے اثر سے انبیاء (علیہم السلام) بھی ہر وقت اپنے کو خطرہ میں محسوس کرتے رہتے ہیں یا یہ کہ اصل مقصود اپنی اولاد کو شرک وبت پرستی سے بچانے کی دعاء کرنا تھا اولاد کو اس کی اہمیت سمجھانے کے لئے اپنے کو بھی شامل دعاء فرما لیا۔- اللہ جل شانہ نے اپنے خلیل کی دعاء قبول فرمائی ان کی اولاد شرک وبت پرستی سے محفوظ رہی اس پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اہل مکہ تو عموما اولاد ابراہیم (علیہ السلام) ہیں ان میں تو بت پرستی موجود تھی بحر محیط میں اس کا جواب بحوالہ سفیان بن عیینہ یہ دیا ہے کہ اولاد اسماعیل (علیہ السلام) میں کسی نے درحقیقت بت پرستی نہیں کہ بلکہ جس وقت مکہ پر قوم جرہم کے لوگوں نے قبضہ کر کے اولاد اسماعیل (علیہ السلام) کو حرم سے نکال دیا تو یہ لوگ حرم سے انتہائی محبت و عظمت کی بناء پر یہاں کے کچھ پتھر اپنے ساتھ اٹھا لے گئے تھے ان کو حرم محترم اور بیت اللہ کی یادگار کے طور پر سامنے رکھ کر عبادت اور اس کے گرد طواف کیا کرتے تھے جس میں کسی غیر اللہ کی طرف کوئی رخ نہ تھا بلکہ جس طرح بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا یا بیت اللہ کے گرد طواف کرنا اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت ہے اسی طرح وہ اس پتھر کی طرف رخ اور اس کے گرد طواف کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے منافی نہ سمجھتے تھے اس کے بعد یہی طریقہ کار بت پرستی کا سبب بن گیا۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ 35ۭ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امن - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - صنم - الصَّنَمُ : جُثَّةٌ متّخذة من فضّة، أو نحاس، أو خشب، کانوا يعبدونها متقرّبين به إلى اللہ تعالی، وجمعه : أَصْنَامٌ. قال اللہ تعالی: أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] ، لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ- [ الأنبیاء 57] ، قال بعض الحکماء : كلّ ما عبد من دون الله، بل کلّ ما يشغل عن اللہ تعالیٰ يقال له : صَنَمٌ ، وعلی هذا الوجه قال إبراهيم صلوات اللہ عليه : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] ، فمعلوم أنّ إبراهيم مع تحقّقه بمعرفة اللہ تعالی، واطّلاعه علی حکمته لم يكن ممّن يخاف أن يعود إلى عبادة تلک الجثث التي کانوا يعبدونها، فكأنّه قال : اجنبني عن الاشتغال بما يصرفني عنك .- ( ص ن م ) الصنم - کے معنی بت کے ہیں جو کہ چاندی پیتل یا لکڑی وغیرہ کا بنا ہوا ہو ۔ عرب لوگ ان چیزوں کے مجم سے بناکر ( ان کی پوچا کرتے اور انہیں تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے تھے صنم کی جمع اصنام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] کہ تم بتوں کو کیوں معبود بناتے ہو۔ لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء 57] میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلو نگا ۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جسے خدا کے سوا پوجا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے بیگانہ بنادے اور اس کی توجہ کو کسی دوسری جانب منعطف کردے صنم کہلاتی ہے چناچہ ابراہیم اعلیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] بازرکھنا کہ ہم اصنام کی پرستش اختیار کریں ۔ تو اس سے بھی واپسی چیزوں کی پرستش مراد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معرفت الہی کے تحقق اور اسکی حکمت پر مطلع ہونے کے بعد یہ اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اور ان کی اولاد بت پرستی شروع کردے گی ۔
(٣٥) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کے بعد دعا فرمائی کہ میرے پروردگار مکہ کو امن والا بنا دیجیے کہ کوئی اس پر حملہ آور نہ ہو اور اس طور پر کہ خوف زدہ اس میں آکر پناہ حاصل کرسکے اور مجھ کو اور میرے بیٹوں کو بتوں اور آگ کی پوجا سے بچائے رکھیے۔
(وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ )- یہ مضمون سورة البقرۃ کے پندرھویں رکوع کے مضمون سے ملتا جلتا ہے۔ حضرت ابراہیم سے ما قبل زمانہ کی جو تاریخ ہمیں معلوم ہوئی ہے اس کے مطابق اس دور کی سب سے بڑی گمراہی بت پرستی تھی۔ آپ سے پہلے کی تمام اقوام اسی گمراہی میں مبتلا تھیں۔ آپ کی اپنی قوم کا اس سلسلے میں یہ حال تھا کہ انہوں نے ایک بہت بڑے بت خانے میں بہت سے بت سجا رکھے تھے۔ انہی بتوں کا سورة الانبیاء میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے ان کو توڑا تھا۔ اس کے علاوہ آپ کی قوم ستاروں کی پوجا بھی کرتی تھی جبکہ نمرود نے انہیں سیاسی شرک میں بھی مبتلا کر رکھا تھا۔ وہ اختیار مطلق کا دعویدار تھا اور جس چیز کو وہ چاہتا جائز قرار دیتا اور جس کو چاہتا ممنوع۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :46 عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب ان خاص احسانات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالی نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا ، اس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے ، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :47 یعنی مکہ ۔
24: اس سے مراد مکہ مکرمہ کا شہر ہے جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ ہاجرہ (رض) اور اپنے صاحب زادے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھوڑا تھا، اس وقت یہاں کوئی آبادی نہیں تھی نہ بظاہر زندہ رہنے کا کوئی سامان، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں پہلے زمزم کا کنواں جاری فرمایا، جسے دیکھ کر قبیلہ جرہم کے لوگ یہاں آکر حضرت ہاجرہ (رض) کی اجازت سے آباد ہوئے اور پھر رفتہ رفتہ یہ ایک شہر بن گیا۔ 25: مکہ مکرمہ کے مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا بڑا مانتے تھے اس لیے ان آیات میں اللہ تعالیٰ ان کی یہ دعا نقل فرما کر انہیں متنبہ فرما رہے ہیں کہ وہ تو بت پرستی سے اتنے بیزار تھے کہ انہوں نے اپنی اولاد کو اس سے محفوظ رہنے کی دعا مانگی تھی پھر تم لوگوں نے کہاں سے بت پرستی شروع کردی۔