Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 گمراہ کرنے کی نسبت ان پتھروں کی مورتیوں کی طرف جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، باوجود اس بات کے کہ وہ غیر عاقل ہیں، کیونکہ گمراہی کا باعث تھیں اور ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ ۔۔ : صنم پرستی عام ہونے اور لوگوں کے بہت جلد اس میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہیں دو ہیں، ایک تو یہ کہ ان دیکھے معبود (اللہ تعالیٰ ) پر یقین رکھنے کے بجائے انسان چاہتا ہے کہ وہ ایسی چیز کی عبادت کرے جو اسے نظر آئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ ظاہر کوئی چیز نہیں، کیونکہ کائنات کی ہر چیز اپنے بنانے والے کے وجود اور توحید کی شہادت دے رہی ہے اور لطف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا یہ دعویٰ نہیں کہ یہ زمین و آسمان اور ساری کائنات میں نے بنائی ہے، اگر کوئی یہ دعویٰ کرلے تو ہر شخص اسے جھوٹا کہے گا، بلکہ خود اس کا دل اسے جھٹلائے گا کہ آسمان و زمین تو تجھ سے اور تیرے باپ دادا سے لاکھوں برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں۔ وہ اگرچہ ظاہر ہے مگر اس کی ذات سے زیادہ کوئی چیز آنکھوں سے غائب بھی نہیں، کیونکہ کسی میں اسے دیکھنے کی تاب ہی نہیں۔ [ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ] اس لیے وہ پہلا تقاضا ہی ایمان بالغیب کا کرتا ہے، کوئی اس کے دیدار کا شوق رکھے یا درخواست کرے، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تو وہ ناراض نہیں ہوتا بلکہ جنت میں اپنے دیدار کا وعدہ کرتا ہے، مگر کوئی ایمان لانے کے لیے دیکھنے کی شرط لگائے، جیسے بنی اسرائیل نے کہا : (لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ) [ البقرۃ : ٥٥ ] ”(اے موسیٰ ) ہم تیرے لیے ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک اللہ کو صاف سامنے نہ دیکھ لیں “ تو پھر اس کی آتش غضب بھڑک اٹھتی ہے، پھر کبھی تو وہ بجلی گرا کر بھسم کردیتا ہے اور اکثر کو اس نے مہلت دے رکھی ہے، قیامت کو انھیں ان کے مطالبے کا جواب دے گا۔ غرض یہی انسان کی بےوقوفی ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تو ایمان بالغیب کے بجائے نظر آنے والا رب گھڑ کر اس کی پوجا شروع کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا سبب محبت میں غلو بھی شامل ہوجاتا ہے، یعنی جس ہستی سے بھی اس کو حد سے زیادہ محبت ہوتی ہے، اسے نیک سمجھتا ہے یا اس کی ہیبت سے ڈرتا ہے، اس کا بت بنا کر اسے پوجنا شروع کردیتا ہے۔ قوم نوح میں صنم پرستی کی ابتدا اسی طرح ہوئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نوح۔ بیشمار قوموں کے صنم پرستی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ابراہیم (علیہ السلام) کہہ رہے ہیں کہ اے پروردگار ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا، مراد یہ ہے کہ یہ ان کی گمراہی کا باعث بن گئے، جیسے کہتے ہیں کہ سڑک لاہور لے جاتی ہے، وہ تو صرف ذریعہ ہے، جانے والا جاتا تو خود ہے۔- وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : یہاں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کے لیے بھی بخشش کی دعا کی، حالانکہ ان الفاظ سے یہ بات نہیں نکلتی، بلکہ صرف یہ بات نکلتی ہے کہ ان کا معاملہ تیرے سپرد ہے، تو چاہے تو بخش دے، چاہے تو عذاب دے اور ساتھ ہی عرض کی : ” پس بیشک تو غفور و رحیم ہے۔ “ بلا شبہ اس میں نہایت ادب، عجز اور سلیقے سے ایک قسم کی سفارش ہے، مگر اسے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا نہیں کہا جاسکتا، ہاں انھوں نے اپنے والد کے لیے وعدہ کی وجہ سے بخشش کی دعا کی تھی، پھر اللہ کا دشمن ثابت ہوجانے پر اس سے براءت کا اظہار فرما دیا۔ (دیکھیے توبہ : ١١٤) قرآن میں ابراہیم اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے منقول دعاؤں میں ہر نافرمان کا معاملہ، خواہ مشرک ہو یا عام گناہ گار، اللہ کے سپرد کیا گیا ہے، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کے ذکر کے ساتھ ایک قسم کی سفارش کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ یہ ان دونوں پیغمبروں کی بیشمار تکلیفیں اٹھانے کے باوجود حد درجے کی نرم دلی ہے، عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا ہے : (اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) [ المائدۃ : ١١٨ ] سورة مائدہ میں اس آیت کا ترجمہ اور ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل ملاحظہ فرمائیں۔ - اس کے برعکس نوح (علیہ السلام) کی دعا تھی : (رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ) [ نوح : ٢٦ ]” اے میرے رب زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔ “ اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا یہ تھی : (رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓي اَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ) [ یونس : ٨٨ ] ” اے ہمارے رب ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگا دے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ “ ان دونوں نبیوں کی یہ دعائیں بھی بلاسبب نہ تھیں۔ نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بتادیا تھا کہ اب تمہاری قوم میں سے مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ ( دیکھیے ہود : ٣٦) اور فرعونیوں نے بہت سے معجزے دیکھ کر بھی کہہ دیا تھا کہ موسیٰ تم جو بھی معجزہ لے آؤ ہم کسی صورت تم پر ایمان لانے والے نہیں۔ ( دیکھیے الاعراف : ١٣٢) اب اگر وہ یہ دعا نہ کرتے تو کیا کرتے ؟ ایسے موقع پر تو ابراہیم (علیہ السلام) بھی اپنے والد سے صاف لاتعلق ہوگئے تھے، فرمایا : (فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ) [ التوبۃ : ١١٤ ] ” پس جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ بیشک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بےتعلق ہوگیا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں اپنی اس دعاء کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ بت پرستی سے ہم اس لئے پناہ مانگتے ہیں کہ ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیا ہے یہ اس لئے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد اور قوم کا تجربہ کرچکے تھے کہ بت پرستی کی رسم نے ان کو ہر خیر وصلاح سے محروم کردیا۔- آخر آیت میں فرمایا (آیت) فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ یعنی ان میں سے جو شخص میرا اتباع کرے یعنی ایمان اور عمل صالح کا پابند ہوجائے وہ تو میرا ہی ہے مطلب یہ ہے کہ اس پر فضل و کرم کی امید تو ظاہر ہے اور جو شخص میری نافرمانی کرے تو آپ بہت مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنے والے ہیں اس میں نافرمانی سے اگر صرف عملی نافرمانی یعنی بدعملی مراد لی جائے تو معنی ظاہر ہیں کہ آپ کے فضل سے ان کی بھی مغفرت کی امید ہے اور اگر نافرمانی سے مراد کفر و انکار لیا جائے تو یہ ظاہر ہے کہ کافر و مشرک کی مغفرت نہ ہونے اور ان کی شفاعت نہ کرنے کا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے ہوچکا تھا پھر ان کو مغفرت کی امید کا اظہار کرنا درست نہیں ہوسکتا اس لئے بحر محیط میں فرمایا کہ اس جگہ حضرت خلیل (علیہ السلام) نے ان کی سفارش یا دعاء کے الفاظ نہیں اختیار کئے یہ نہیں فرمایا کہ آپ ان کی مغفرت کردیں البتہ پیغمبرانہ شفقت جس کے دامن میں کافر بھی رہتے ہیں اور ہر پیغمبر کی دلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کوئی کافر بھی عذاب میں مبتلا نہ ہو اپنی اس طبعی خواہش کا اظہار اس عنوان سے کردیا کہ آپ تو بڑے غفور ورحیم ہیں یوں نہیں فرمایا کہ ان کے ساتھ مغفرت و رحمت کا معاملہ فرمائیں جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے کافروں کے بارے میں فرمایا (آیت) وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ یعنی اگر آپ ان کی مغفرت فرمائیں تو آپ قوی اور حکمت والے ہیں سب کچھ کرسکتے ہیں کوئی روکنے والا نہیں - ان دونوں بزرگوں نے کافروں کے معاملہ میں سفارش پر اقدام تو اس لئے نہیں کیا کہ وہ ادب حق کے خلاف تھا مگر یہ بھی نہیں فرمایا کہ ان کافروں پر آپ عذاب نازل کردیں بلکہ وہ ادب کے ساتھ ایک خاص عنوان سے ان کے بھی بخشے جانے کی طبعی خواہش کا اظہار کردیا - احکام و ہدایات :- دعاء تو ہر انسان مانگتا ہے مگر مانگنے کا سلیقہ ہر ایک کو نہیں ہوتا انبیاء (علیہم السلام) کی دعائیں سبق آموز ہوتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیا چیز مانگنے کی ہے اس دعائے ابراہیمی کے دو جز ہیں ایک شہر مکہ کو خوف و خطر سے آزاد جائے امن بنادینا دوسرے اپنی اولاد کو بت پرستی سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانا - غور سے کام لیا جائے تو انسان کی صلاح و فلاح کے یہی دو بنیادی اصول ہیں کیونکہ انسانوں کو اگر اپنے رہنے سہنے کی جگہ میں خوف و خطر اور دشمنوں کے حملوں سے امن و اطمینان نہ ہو تو نہ دنیوی اور مادی اعتبار سے ان کی زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے اور نہ دینی اور روحانی اعتبار سے دنیا کے سارے کاموں اور راحتوں کا مدار تو امن و اطمینان پر ہونا ظاہر ہی ہے جو شخص دشمنوں کے نرغوں اور مختلف قسم کے خطروں میں گھرا ہوا ہو اس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت کھانے پینے، سونے جاگنے کی بہترین آسانیاں، اعلیٰ قسم کے محلات اور بنگلے، مال و دولت کی بہتات سب تلخ ہوجاتی ہیں - دینی اعتبار سے بھی ہر اطاعت و عبادت اور احکام الہیہ کی تعمیل انسان اسی وقت کرسکتا ہے جب اس کو کچھ سکون و اطمینان نصیب ہو۔ - اس لئے حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی پہلی دعاء میں انسانی فلاح کی تمام ضروریات معاشی واقتصادی اور دینی و اخروی سب داخل ہوگئیں اس ایک جملہ سے حضرت خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) نے اپنی اولاد کے لئے دنیا کی تمام اہم چیزیں مانگ لیں۔- اس دعاء سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کی ہمدردی اور ان کی معاشی راحت کا انتظام بھی حسب قدرت باپ کے فرائض میں سے ہے اس کی کوشش زہد اور ترک دنیا کے منافی نہیں۔- دوسری دعاء میں بھی بڑی جامعیت ہے کیونکہ وہ گناہ جس کی مغفرت کا امکان نہیں، وہ شرک وبت پرستی ہے اس سے محفوظ رہنے کی دعاء فرما دی اس کے بعد اگر کوئی گناہ سرزد بھی ہوجائے تو اس کا کفارہ دوسرے اعمال سے بھی ہوسکتا ہے اور کسی کی شفاعت سے بھی معاف کئے جاسکتے ہیں اور اگر عبادت اصنام کا لفظ صوفیائے کرام کے اقوال کے مطابق اپنے وسیع مفہوم میں لیا جائے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو اللہ سے غافل کرے وہ اس کا بت ہے اور اس کی محبت سے مغلوب ہو کر خدا تعالیٰ کی نافرمانی پر اقدام کرلینا ایک طرح سے اس کی عبادت ہے تو اس دعاء یعنی عبادت اصنام سے محفوظ رہنے میں تمام گناہوں سے حفاظت کا مضمون آجاتا ہے بعض صوفیائے کرام نے اسی معنی میں اپنے نفس کو خطاب کر کے غفلت و معصیت پر ملامت کی ہے،- سودہ گشت از سجدہ راہ بتاں پیشانیم - چند بر خود تہمت دین مسلمانی نہم - اور عارف رومی نے فرمایا ہے - ہر خیال شہوتے دررہ بتے ست

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 36؀- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٦) کیوں کہ اے میرے پروردگار ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کردیا، انکی پوجا سے بہت سے لوگ گمراہ ہوگئے۔- سو جو میری راہ پر چلے گا اور میری اطاعت کرے گا وہ تو میرے دین پر قائم ہے اور جو میری رہ پر نہ چلے تو ان میں سے جو توبہ کرے اس کی آپ توبہ قبول فرمانے والے ہیں اور جو توبہ پر مرے تو آپ اس پر رحمت فرمانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ )- میں نے خود کو ہر قسم کے شرک سے پاک کرلیا ہے اب جو لوگ میری پیروی کریں شرک سے دور رہیں توحید کے راستے پر چلیں ایسے لوگ تو میرے ہی ساتھی ہیں ان کے ساتھ تو تیرا وعدہ پورا ہوگا۔- (وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ)- حضرت ابراہیم کی طبیعت کے بارے میں ہم سورة ہود میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ چکے ہیں : (اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ) کہ آپ بہت ہی نرم دل حلیم الطبع اور ہر وقت اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ چناچہ جب گنہگاروں کا ذکر ہوا ہے تو آپ نے اللہ کی صفات غفاری اور رحیمی کا ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ بالکل اسی انداز میں حضرت عیسیٰ کی التجا کا ذکر سورة المائدۃ میں آیا ہے : (اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) یعنی پروردگار اگر تو انہیں عذاب دے گا تو وہ تیرے ہی بندے ہیں تو جس طرح چاہے انہیں عذاب دے تیرا اختیار مطلق ہے۔ لیکن اگر تو انہیں معاف کر دے تو بھی تیرے اختیار اور تیری حکمت پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :48 یعنی خدا سے پھیر کر اپنا گرویدہ کیا ہے ۔ یہ مجازی کلام ہے ۔ بت چونکہ بہتوں کی گمراہی کے سبب بنے ہیں اس لیے گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :49 یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں ۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ وَارْزُقْ اَھْلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ ( البقرہ ۔ آیت ۱۲٦ ) ۔ لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اسے سزا دے ڈالیو ، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ ان کے معاملہ میں کیا عرض کروں ، تو غفورٌرَّحِیْم ہے ۔ اور یہ کچھ اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے بلکہ جب فرشتے قوم لوط جیسی بدکار قوم کو تباہ کرنے جا رہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت کے انداز میں فرماتا ہے کہ ” ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا “ ( ہود ، آیت ۷٤ ) ۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے کہ جب اللہ تعالی ان کے رو در رو عیسائیوں کی گمراہی ثابت کر دیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ” اگر حضور ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ بالادست اور حکیم ہیں“ ( المائدہ ، آیت ۱۱۸ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: مطلب یہ ہے کہ میں اپنی اولاد اور دوسرے لوگوں کو بت پرستی سے بچنے کی تأکید کرتا رہوں گا۔ پھر جو لوگ میری ان ہدایات پر عمل کریں گے، وہ تو مجھ سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرسکیں گے، لیکن جو میری بات نہیں مانیں گے، اُن کے لئے میں بددُعا نہیں کرتا، بلکہ اُن کا معاملہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ آپ غفور رحیم ہیں، اس لئے اُن کی مغفرت کا یہ راستہ بھی نکال سکتے ہیں کہ اُن کو ہدایت عطا فرمادیں۔