16۔ 1 بروج برج کی جمع ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں۔ اسی سے تبرج ہے جو عورت کے اظہار زینت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں آسمان کے ستاروں کو بُرُوْج، ُ کہا گیا ہے کیونکہ وہ بلند اور ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بُرُوْج سے مراد شمس و قمر اور دیگر سیاروں کی منزلیں ہیں، جو ان کے لئے مقرر ہیں اور یہ 12 ہیں۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ عرب ان سیاروں کی منزلوں اور ان کے ذریعے سے موسم کا حال معلوم کرتے تھے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں البتہ ان سے تغیر پذیر ہونے والے واقعات و حوادث جاننے کا دعوی کرنا، جیسے آج کل بھی جاہلوں میں اس کا خاصا چرچہ۔ اور لوگوں کی قسمتوں کو ان کے ذریعے سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کوئی تعلق دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حوادث سے نہیں ہوتا، جو کچھ بھی ہوتا ہے، صرف مشیت الہی ہی سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان برجوں یا ستاروں کا ذکر اپنی قدرت اور بےمثال صنعت کے طور پر کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ واضح کیا ہے کہ یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔
[٨] آسمانوں کے برج :۔ اس آیت میں اگر کوئی شخص بروج کے لفظ سے وہ ہی بارہ برج مراد لیتا ہے جو قدیم اہل ہیئت نے فلک ہشتم پر بنا رکھے ہیں تو اس کی مرضی ہے ورنہ آیت کا سیاق اس کی تائید نہیں کرتا کیونکہ ان برجوں میں سے اکثر برجوں کی اشکال کا زینت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بھلا سرطان (کیکڑا) عقرب (بچھو) ترازو اور ڈول وغیرہ کیا خوبصورتی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے یہاں بروج سے ستارے اور سیارے مراد لیے ہیں جو رات کے وقت آسمان کو زینت بخشتے ہیں۔ لغوی لحاظ سے ہم نمایاں طور پر ظاہر ہونے والی ہر چیز کو برج کہہ سکتے ہیں خواہ وہ کوئی عمارت ہو یا گنبد ہو یا قلعہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آسمان کو ایسا مزیں بنادینا بذات خود اس کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر اس کے بعد انھیں اس کی اور کیا نشانی درکار ہے ؟
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَيَّنّٰهَا للنّٰظِرِيْنَ : ” بُرُوْجًا “ ” بُرْجٌ“ کی جمع ہے، جو اصل میں بڑے بلند و بالا اور مزین قلعہ یا محل کو کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ ) [ النساء : ٧٨ ] ” تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں پالے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ “ اس کا اصل معنی نمایاں اور ظاہر ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات (رض) سے فرمایا : (وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى) [ الأحزاب : ٣٣ ] ” اور پہلی جاہلیت کے زینت لگا کر نمایاں ہونے کی طرح زینت لگا کر ظاہر نہ ہو۔ “ مزید دیکھیے سورة بروج کی پہلی آیت۔ پچھلی آیات رسالت کے بعد اب توحید کا بیان شروع ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل کے لیے پہلے عالم بالا کا ذکر فرمایا ہے، پھر زمین کا، پھر ان کے درمیان کی چیزوں کا اور اس کے بعد آدم و ابلیس کا تذکرہ ہے۔ چناچہ فرمایا ہم نے آسمان میں عظیم الشان اور نمایاں برج بنائے ہیں، یعنی ستاروں کے نمایاں جھرمٹ، سورج اور چاند کی منازل جس سے رات کو ٹھنڈک والی روشنی اور دن کو تیز روشنی اور حرارت کے حصول کے علاوہ وقت، دنوں، مہینوں اور سالوں کا تعین ہوتا ہے۔ انسانوں، حیوانوں اور پودوں کی نشوونما، ان کی بقا اور بےانتہا ضرورتوں کا بندوبست ہوتا ہے، سمندر کا مدوجزر اور بیشمار فوائد جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں، انھی سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان سب کو بنانے والا، چلانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے ؟ کسی کا دعویٰ ہے تو اسے سامنے لاؤ۔ بعض اہل علم نے ” بُرُوْجاً “ ان مقامات کو بھی بتایا ہے جہاں آسمان کے محافظ فرشتے رہتے ہیں۔- وَّزَيَّنّٰهَا للنّٰظِرِيْنَ : اللہ تعالیٰ کی قدرت و توحید کے دلائل میں سے ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے آسمان کو چاند، ستاروں اور سورج سے مزین کردیا ہے۔ رات کو ستاروں اور چاند کے ساتھ آسمان کی زینت کا نظارہ صحیح طرح وہاں ہوتا ہے جہاں مصنوعی روشنیاں نہ ہوں۔ یہ صرف ایک آسمان ہی پر موقوف نہیں، اس لامحدود قدرت والے نے جو چیز بھی پیدا کی خوب صورت پیدا کی اور اس میں زینت کا خاص اہتمام فرمایا، چھوٹے سے چھوٹے کیڑے سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق سب کچھ ہی کمال خوبصورت بنایا، فرمایا : (الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ) [ السجدۃ : ٧ ] ” جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی۔ “ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صاف ستھرا اور بن سنور کر رہنے کو پسند کرتے تھے، فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١ ] ” بیشک اللہ خوبصورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ “ وہ سادھوؤں، جوگیوں یا راہبوں اور بیوقوف صوفیوں کی طرح گندے اور بدزیب ہو کر رہنے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ دس چیزیں جنھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فطرت کا حصہ قرار دیا، مثلاً کلی، مسواک، زیر ناف کی صفائی وغیرہ، یہ اسی نظافت اور جمال کو کامل رکھتی ہیں۔
پچھلی آیات میں منکرین کی ہٹ دھرمی اور عناد کا ذکر تھا ان آیات میں جو آگے آ رہی ہیں اللہ جل شانہ کے وجود، توحید، علم، قدرت کے واضح دلائل، آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی مخلوقات کے حالات ومشاہدات سے بیان کئے گئے ہیں جن میں ذرا بھی غور کیا جائے تو کسی عاقل کو انکار کی مجال نہیں رہتی ارشاد فرمایا۔- اور بیشک ہم نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے پیدا کئے اور دیکھنے والوں کیلئے آسمان کو (ستاروں سے) آراستہ کیا۔- معارف و مسائل :- بُرُوْجًا برج کی جمع ہے جو بڑے محل اور قلعہ وغیرہ کے لئے بولا جاتا ہے ائمہ تفسیر مجاہد، قتادہ، ابو صالح وغیرہ نے اس جگہ بروج کی تفسیر بڑے ستاروں سے کی ہے اور اس آیت میں جو ان بڑے ستاروں کا آسمان میں پیدا کرنا ارشاد ہے یہاں آسمان سے مراد فضاء آسمانی ہے جس کو آجکل کی اصطلاح میں خلا کہا جاتا ہے اور لفظ سماء کا دونوں معنی میں اطلاق عام و معروف ہے جرم آسمان کو بھی سما کہا جاتا ہے اور سیارات اور ستاروں کا آسمانوں کے اندر نہیں بلکہ فضاء آسمانی میں ہونا اس کی مکمل تحقیق قرآن کریم کی آیات سے نیز قدیم وجدید علم فلکیات کی تحقیق سے انشاء اللہ سورة فرقان کی آیت نمر 61 تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا کی تفسیر میں آئے گی۔
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَيَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِيْنَ 16ۙ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- برج - البُرُوج : القصور، الواحد : بُرْج، وبه سمّي بروج السماء لمنازلها المختصة بها، قال تعالی:- وَالسَّماءِ ذاتِ الْبُرُوجِ [ البروج 1] ، وقال تعالی: تَبارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان 61] ، وقوله تعالی: وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ [ النساء 78] يصح أن يراد بها بروج في الأرض، وأن يراد بها بروج النجم، ويكون استعمال لفظ المشیدة فيها علی سبیل الاستعارة، - ( ب ر ج ) البروج - یہ برج کی جمع ہے جس کے معنی قصر کے بین اسی مناسبت سے ستاروں کے مخصوص منازل کو بروج کہا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَالسَّماءِ ذاتِ الْبُرُوجِ [ البروج 1] آسمان کی قسم جس میں برج ہیں ۔ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان 61] جس نے آسمان میں برج بنائے ۔ اور یہ آیت کریمہ ؛۔ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ [ النساء 78] خواہ بڑے بڑے محلوں میں ہو ۔ میں بروج سے مضبوط قلعے اور محلات بھی مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ستاروں کی برجیں مراد ہوں اور صورت میں بروج کے ساتھ فقط مشیدۃ کا استعمال بطور استعارہ ہوگا - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں
(١٦۔ ١٧۔ ١٨) اور ہم نے آسمان میں حفاظت کے لیے ایسے ستارے پیدا کیے جن سے خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راستہ حاصل کیا جاتا ہے اور ان ستاروں سے آسمان کو آراستہ اور مزین کیا کہ دیکھنے والوں کو اچھا معلوم ہوتا ہے اور آسمان کو ان ستاروں کے ذریعے ہر شیطان مردو وملعون سے محفوظ فرمایا کہ جب یہ شیاطین اوپرفرشتوں کی باتیں سننے کے لیے پہنچتے ہیں تو ان ستاروں سے اس کی حفاظت فرمائی، ہاں کوئی چوری چھپے سن بھاگے تو اس کے پیچھے ایک گرم جلا دینے والا روشن شعلہ لپکتا ہے۔
آیت ١٦ (وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَيَّنّٰهَا للنّٰظِرِيْنَ )- ان برجوں کی اصل حقیقت کا ہمیں علم نہیں ہے اس لحاظ سے یہ آیت بھی آیات متشابہات میں سے ہے۔ البتہ رات کے وقت آسمان پر ستاروں کی بہار وہ دلکش منظر پیش کرتی ہے جس سے ہر دیکھنے والے کی آنکھ محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :8 بُرج عربی زبان میں قلعے ، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں ۔ قدیم علم ہیئت میں ”برج“ کا لفظ اصطلاحا ان بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا ۔ اس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کی طرف ہے ۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد سیارے لیے ہیں ۔ لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالم بالا کے وہ خطے ہیں جن میں سے ہر خطے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خطے سے جدا کر رکھا ہے ۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضائے بسیط میں غیر مرئی طور پر کھچی ہوئی ہیں ، لیکن ان کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خطے سے دوسرے خطے میں چلا جانا سخت مشکل ہے ۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ہم بروج کو محفوظ خطوں ( ) کی معنی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :9 یعنی ہر خطے میں کوئی نہ کوئی روشن سیارہ یا تارا رکھ دیا اور اس طرح سارا عالم جگمگا اٹھا ۔ بالفاظ دیگر ہم نے اس ناپائیدار کائنات کو ایک بھیانک ڈھنڈار بنا کر نہیں رکھ دیا بکہ ایسی حسین و جمیل دنیا بنائی جس میں ہر طرف نگاہوں کو جذب کر لینے والے جلوے پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کاریگری میں صرف ایک صانع اکبر کی صنعت اور ایک حکیم اجل کی حکمت ہی نظر نہیں آتی ہے ، بلکہ ایک کمال درجے کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے آرٹسٹ کا آرٹ بھی نمایاں ہے ۔ یہی مضمون ایکل دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے ، اَلَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شیْ ءٍ خَلَقَہ ”وہ خدا کہ جس نے ہر چیز جو بنائی خوب ہی بنائی“ ۔
6: برج اصل میں قلعے کو کہتے ہیں، لیکن اکثر مفسرین نے کہا ہے یہاں بروج سے مراد ستارے ہیں 7: یعنی آسمان ستاروں سے سجا ہوا نظر آتا ہے یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ قرآن کریم نے آسمان کا لفظ مختلف مقامات پر مختلف معنی میں استعمال فرمایا ہے کہیں اس سے مراد ان سات آسمانوں میں سے کوئی آسمان ہوتا ہے جن کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر تلے پیدا فرمایا ہے اور کہیں اس سے اوپر کی سمت مراد ہوتی ہے چنانچہ آگے آیت نمبر 21 میں جہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ آسمان سے پانی ہم نے اتارا ہے وہاں آسمان سے ہی معنی مراد ہیں۔ بظاہر اس آیت میں بھی یہی معنی مراد ہیں۔