Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 رجیم مرجوم کے معنی میں ہے رَجْم کے معنی ہیں سنگسار کرنا یعنی پتھر مارنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ سب آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے تو آسمان سے شہاب ثاقب اس پر ٹوٹ کر گرتے ہیں، پھر رجیم ملعون و مردود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ جسے سنگسار کیا جاتا ہے اسے ہر طرف سے لعنت ملامت بھی کی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ ہم نے آسمانوں کی حفاظت فرمائی ہر شیطان رجیم سے۔ یعنی ان ستاروں کے ذریعے سے، کیونکہ یہ شیطان کو مار بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ : یعنی آسمان کو ہم نے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھنے کا زبردست انتظام کر رکھا ہے۔ - اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ۔۔ : سرقہ چوری کو کہتے ہیں، باب افتعال سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی مگر جو نہایت کوشش سے، یا نہایت خفیہ رہ کر چوری کرے۔ ” السَّمْعَ “ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، یعنی سنی ہوئی چیز چرا لے۔ ” شِهَابٌ“ ہر روشنی کرنے والی چیز جو آگ سے پیدا ہو، عموماً ستارہ جو شعلے کی طرح پیچھا کرتا نظر آتا ہے۔ ” شِهَابٌ مُّبِيْنٌ“ روشن شعلہ۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ( إِذَا قَضَی اللّٰہُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَاءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِھَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلٰی صَفْوَانٍ ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا لِلَّذِيْ قَالَ الْحَقَّ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ ، فَیَسْمَعُھَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ ھٰکَذَا، وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ وَفَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِہِ الْیُمْنَی، نَصَبَھا بَعْضَھَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّھَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ بِھَا إِلٰی صَاحِبِہِ فَیُحْرِقَہٗ ، وَرُبَّمَا لَمْ یُدْرِکْہُ حَتّٰی یَرْمِيَ بِھَا إِلَی الَّذِيْ یَلِیْہِ ، إِلَی الَّذِيْ ھُوَ أَسْفَلُ مِنْہُ حَتّٰی یُلْقُوْھَا إِلَی الْأَرْضِ ، فَتُلْقَی عَلٰی فَمِ السَّاحِرِ فَیَکْذِبُ مَعَھَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ ، فَیُصَدَّقُ کَذَا وَ کَذَا ؟ فَوَجَدْنَاہُ حَقًّا لِلْکَلِمَۃِ الَّتِيْ سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ ) [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( إلا من استرق السمع ۔۔ ) : ٤٧٠١ ] ” جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم صادر فرماتا ہے تو اس کا کلام سن کر فرشتے اظہار اطاعت و عجز کے لیے اپنے بازو (پر) پھڑ پھڑانے لگتے ہیں، (اس کلام کی آواز ایسی ہوتی ہے) جیسے کسی چٹان پر زنجیر کی آواز۔ پھر جب ان کے دلوں کا خوف جاتا رہتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اس نے جو فرمایا حق فرمایا اور وہ بلند اور بڑا ہے۔ (اس وقت) فرشتوں سے سنائی دینے والی بات کو چوری سننے والے شیطان سننے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ چوری چھپے سننے والے اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں “ اور راوی حدیث سفیان نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک دوسرے کے اوپر کر کے دکھائیں ” پھر بعض اوقات وہ شعلہ سننے والے کو اس سے پہلے جا پہنچتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو جلدی سے بتائے اور اسے جلا دیتا ہے اور بعض اوقات اس وقت پہنچتا ہے جب وہ اپنے ساتھ والے کو جلدی سے بتاچکا ہوتا ہے، جو اس سے نیچے ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسے زمین تک پہنچا دیتے ہیں، تو وہ بات کاہن (نجومی) یا جادوگر کو پہنچا دی جاتی ہے، وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا لیتا ہے تو اس کی بات کو سچا سمجھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں، کیا اس نے ہمیں فلاں فلاں دن ایسے ایسے نہیں بتایا تھا اور ہم نے دیکھا کہ وہ بالکل درست تھا، اس بات کے متعلق جو آسمان سے سنی گئی تھی۔ “ مزید دیکھیے سورة صافات ( ٥، ٦) اور سورة طارق (١ تا ٤) ۔- یاد رہے کہ شیطان صرف وہ بات چرا سکتے ہیں جس کا تعلق آئندہ ہونے والے ان کاموں سے ہوتا ہے، جن کے متعلق فرشتے آسمان کے نیچے آپس میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ فرشتے بادل میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ [ بخاری : ٤٧٠١ ] مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کی طرف جو وحی ہوتی ہے، اس کی حفاظت کا اتنا زبردست انتظام ہوتا ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شیطان اسے سن سکے یا چرا سکے، دیکھیے سورة جن کی ابتدائی اور آخری آیات کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- آسمان کو (ستاروں کے ذریعہ) ہر شیطان مردود سے محفوظ فرما دیا (کہ وہاں تک ان کی رسائی نہیں ہونے پاتی) ہاں مگر کوئی بات (فرشتوں کی) چوری چھپے سن بھاگے تو اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ ہوتا ہے (اور اس کے اثر سے وہ شیطان ہلاک یا بدحواس ہوجاتا ہے)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ 17۝ۙ- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنواں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ )- یہ گویا ہمارے ایمان بالغیب کا حصہ ہے کہ ان ستاروں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں۔ اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں انسان کی جدید تحقیق ماضی قریب میں ہوئی ہے ‘ لیکن ابھی بھی اس سلسلے میں انسانی علم بہت محدود ہے۔ وائرس اور بیکٹیریا کے بارے میں کچھ ہی عرصہ پہلے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ بھی کوئی مخلوق ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں یقیناً بہت سے ایسے حقائق ہوں گے جن کے بارے میں اب بھی انسان کچھ نہیں جانتا۔ بہرحال اب تک جتنی مخلوقات کے بارے میں ہمیں علم ہے ان میں صرف تین قسم کی مخلوقات ایسی ہیں جن میں خود شعوری ( ) پائی جاتی ہے ‘ یعنی ملائکہ جنات اور انسان۔ ان میں سے پہلے ملائکہ کو پیدا کیا گیا پھر جنات کو اور پھر انسان کو۔ گویا انسان اس کائنات کی تخلیق کے اعتبار سے دور کی مخلوق ہے۔ البتہ انسانوں کی ارواح اسی دور میں پیدا کی گئیں جب ملائکہ کو پیدا کیا گیا۔ بہر حال خود شعوری صرف ان تین قسم کی مخلوقات میں ہی پائی جاتی ہے باقی جو بھی مخلوقات اس کائنات میں موجود ہیں چاہے وہ خشکی اور سمندر کے جانور ہوں یا ہوا میں اڑنے والے پرندے ان میں شعور تو ہے مگر خود شعوری نہیں ہے۔ - جنات کی تخلیق چونکہ آگ سے ہوئی ہے لہٰذا ان کے اندر مخفی قوت ( ) انسانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ میرا گمان ہے کہ جنات کو سورج کی آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور اس لحاظ سے انہیں پورے نظام شمسی کے دائرے میں آمد و رفت کی طاقت اور استعداد حاصل ہے اور اس کے لیے انہیں کسی راکٹ یا مشینی ذرائع کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی اسی استعداد سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ عالم بالا سے اللہ تعالیٰ کے احکام اور تدبیرات کی ترسیل کے دوران ملائکہ سے کچھ خبریں اچکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر وہ ایسی خبریں انسانوں میں اپنے دوست دار عامل اور کاہن لوگوں کو بتاتے ہیں تاکہ وہ اپنی دکانیں چمکا سکیں۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے ایوان صدر سے احکام کی ترسیل و تقسیم کے دوران کوئی شخص متعلقہ اہلکاروں سے ان احکام کے بارے میں خبریں حاصل کر کے قبل ازوقت ان لوگوں تک پہنچا دے جو ان کے ذریعے سے اپنی دکانیں چمکانا چاہتے ہیں۔ - جنات کو نظام شمسی کی حدود پھلانگنے سے روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ستاروں میں میزائل نصب کر رکھے ہیں۔ جب بھی کوئی جن اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر میزائل پھینکا جاتا ہے جسے ہم شہاب ثاقب کہتے ہیں۔ اس پورے نظام پر ہم ” کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا “ کے اصول کے تحت یقین رکھتے ہیں جو ہمارے ایمان بالغیب کا حصہ ہے۔ بہر حال سائنسی ترقی کے سبب کائنات کے بارے میں اب تک سامنے آنے والی معلومات اور ایجادات کے ساتھ بھی ان قرآنی معلومات کا کسی نہ کسی حد تک تطابق ( ) موجود ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :10 یعنی جس طرح زمین کی دوسری مخلوقات زمین کے خطّے میں مقید ہیں اسی طرح شیاطین جن بھی اسی خطے میں مقید ہیں ، عالم بالا تک ان کی رسائی نہیں ہے ۔ اس سے دراصل لوگوں کی اس عام غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے جس میں پہلے بھی عوام الناس مبتلا تھے اور آج بھی ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان اور اس کی ذریت کے لیے ساری کائنات کھلی پڑی ہے ، جہاں تک وہ چاہیں پرواز کر سکتے ہیں ۔ قرآن اس کے جواب میں بتاتا ہے کہ شیاطین ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے ، انہیں غیر محدود پرواز کی طاقت ہرگز نہیں دی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani