Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ شیاطین آسمانوں پر باتیں سننے کے لئے جاتے ہیں، جن پر شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرتے ہیں، جن سے کچھ تو مرجاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں اور بعض سن آتے ہیں۔ حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کوئی فیصلہ فرماتا ہے، تو فرشتے اسے سن کر اپنے پر یا بازو پھڑ پھڑاتے ہیں گویا وہ کسی چٹان پر زنجیر کی آواز ہے۔ پھر جب فرشتوں کے دلوں سے اللہ کا خوف دور ہوجاتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں، اس نے کہا حق اور اور وہ بلند اور بڑا ہے (اس کے بعد اللہ کا وہ فیصلہ اوپر سے نیچے تک یکے بعد دیگرے سنایا جاتا ہے) اس موقع پر شیطان چوری چھپے بات سنتے ہیں۔ اور یہ چوری چھپے بات سننے والے شیطان، تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں اور ایک آدھا حکم سن کر اپنے دوست نجومی یا کاہن کے کان پھونک دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بیان کرتا ہے (ملخصا۔ صحیح بخاری تفسیر سورة حجر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] شہاب ثاقب کی حقیقت :۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمام آسمان میں جب کسی حکم کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کا حکم بجا لانے کے لیے نہایت عاجزی سے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں اور ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر زنجیر ماری جا رہی ہو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں تک اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو دور والے فرشتے نزدیک والوں سے پوچھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ؟ وہ کہتے ہیں جو فرمایا بجا ارشاد فرمایا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری چھپے سے سننے والے (شیطان) سن لیتے ہیں اور اوپر تلے رہ کر وہاں تک جاتے ہیں۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فرشتے اس بات کو سننے والے شیطان پر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں جو اسے نیچے والے شیطان کو بات پہنچانے سے پہلے ہی جلا ڈالتا ہے۔ اور کبھی یہ شعلہ اسے بات پہنچانے کے بعد پہنچتا ہے تو اوپر والا شیطان نچلے کو بات پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ بات زمین تک آپہنچتی ہے۔ پھر وہ بات ساحر (کاہن، نجومی) کے منہ پر جاری ہوتی ہے۔ تو اس میں وہ سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے پھر اگر اس کی کوئی بات سچی نکل آئے تو لوگ کہتے ہیں دیکھو اس نجومی نے ہمیں خبر دی کہ فلاں وقت ایسا ایسا ہوگا اور وہ بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورة سبا )- اس آیت میں شہاب مبین کے لفظ ہیں اور ایک دوسرے مقام پر ( اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَــطْفَةَ فَاَتْــبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ 10؀) 37 ۔ الصافات :10) کے الفاظ ہیں جن کے معنی ہیں چھید کر جانے والا چمکدار شعلہ۔ رات کو بسا اوقات ایسے شعلہ دار ستارے نظر آتے ہیں۔ جنہیں ہم اپنی زبان میں ٹوٹنے والے تارے کہتے ہیں اور ہمیں ایک شعلہ تیزی سے فضا میں سفر کرتا نظر آتا ہے پھر اچانک بجھ جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ شیطان کو جلا کر بھسم کردینے والے وہی ستارے ہوں جنہیں آج کل علم ہیئت کی اصطلاح میں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے جو کثیر تعداد میں فضا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا کثیر حصہ فضا میں ہی گم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی یہ زمین پر گڑ پڑتے ہیں اگر یہ سب ستارے زمین پر گرتے تو ممکن ہے کہ انسان کا اس زمین پر زندہ رہنا ہی محال ہوجاتا۔ یہ بس اللہ تعالیٰ ہی کا نظام ہے جو ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس شہاب ثاقب کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے وہ معروف شہاب ثاقب کے علاوہ کوئی اور قسم کا ہو جس تک تاحال علم انسانی کی رسائی نہ ہوسکی ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- شہاب ثاقب :- ان آیات میں سے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ شیاطین کی رسائی آسمانوں تک نہیں ہو سکتی ابلیس لعین کا تخلیق آدم (علیہ السلام) کے وقت آسمانوں میں ہونا اور آدم وحوا (علیہا السلام) کو دھوکہ میں مبتلا کرنا وغیرہ یہ سب آدم (علیہ السلام) کے زمین پر نزول سے پہلے کے واقعات ہیں اس وقت تک جنات و شیاطین کا داخلہ آسمانوں میں ممنوع نہیں تھا نزول آدم (علیہ السلام) اور اخراج شیطان کے بعد سے یہ داخلہ ممنوع ہوا سورة جن کی آیات میں جو یہ مذکور ہے وّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ للسَّمْعِ ۭ فَمَنْ يَّسْتَمِعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمانوں کی خبریں فرشتوں کی باہمی گفتگو سے سن لیا کرتے تھے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شیاطین آسمانوں میں داخل ہو کر سنتے تھے نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ کے الفاظ سے بھی یہ مفہوم ہوتا ہے کہ چوروں کی طرح آسمانی فضاء میں جہاں بادل ہوتے ہیں چھپ کر بیٹھ جاتے اور سن لیا کرتے تھے ان الفاظ سے خود بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ قبل بعثت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی جنات و شیاطین کا داخلہ آسمانوں میں ممنوع ہی تھا مگر فضاء آسمانی تک پہنچ کر چوری سے کچھ سن لیا کرتے تھے بعثت نبوی کے بعد حفاظت وحی کا یہ مزید سامان ہوا کہ شیاطین کو اس چوری سے بھی بذریعہ شہاب ثاقب روک دیا گیا۔- رہا یہ سوال کہ آسمانوں کے اندر فرشتوں کی گفتگو کو آسمانوں سے باہر شیاطین کس طرح سن سکتے تھے سو یہ کوئی ناممکن چیز نہیں کہ فرشتے کسی وقت آسمانوں سے نیچے اتر کر باہم ایسی گفتگو کرتے ہوں جس کو شیاطین سن بھاگتے تھے صحیح بخاری میں حضرت صدیقہ عائشہ (رض) کی حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ فرشتے آسمان سے نیچے جہاں بادل ہوتے ہیں کبھی کسی وقت یہاں تک اترتے ہیں اور آسمانی خبروں کا باہمی تذکرہ کرتے ہیں شیاطین اسی فضاء آسمانی میں چھپ کر یہ خبریں سنتے تھے جن کو شہاب ثاقب کے ذریعہ بند کیا گیا اس کی پوری تفصیل انشاء اللہ سورة جن میں (آیت) وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ للسَّمْعِ کی تفسیر میں آئے گی - دوسرا مسئلہ : ان آیات میں شہاب ثاقب کا ہے قرآن کریم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہاب حفاظت وحی کے لئے شیاطین کو مارنے کے واسطے پیدا ہوتے ہیں ان کے ذریعہ شیاطین کو دفع کیا جاتا ہے تاکہ وہ فرشتوں کی باتیں نہ سن سکیں۔- اس میں ایک اشکال قوی یہ ہے کہ فضائے آسمانی میں شہابوں کا وجود کوئی نئی چیز نہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی ستارے ٹوٹنے کا مشاہدہ کیا جاتا تھا اور بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ شہاب ثاقب شیاطین کو دفع کرنے لے لئے پیدا ہوتے ہیں جو کہ عہد نبوی کی خصوصیات ہے اس سے تو بظاہر اسی بات کی تقویت ہوتی ہے جو فلاسفہ کا خیال ہے کہ شہاب ثاقب کی حقیقت اتنی ہی ہے کہ آفتاب کی تمازت سے جو بخارات زمین سے اٹھتے ہیں ان میں کچھ آتش گیر مادے بھی ہوتے ہیں اوپر جا کر جب ان کو آفتاب یا کسی دوسری وجہ سے مزید گرمی پہونچتی ہے تو وہ سلگ اٹھتے ہیں اور دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ستارا ٹوٹا ہے اسی لئے محاورات میں اس کو ستارا ٹوٹنے ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے عربی زبان میں بھی اس کے لئے انقضاض کو کب کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو اسی کا ہم معنی ہے۔- جواب یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تعارض واختلاف نہیں زمین سے اٹھنے والے بخارات مشتعل ہوجائیں یہ بھی ممکن ہے اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ کسی ستارے یا سیارے سے کوئی شعلہ نکل کر گرے اور ایسا ہونا عام عادات کے مطابق ہمیشہ سے جاری ہو مگر بعثت نبوی سے پہلے ان شعلوں سے کوئی خاص کام نہیں لیا جاتا تھا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ان شہابی شعلوں سے یہ کام لے لیا گیا کہ شیاطین جو فرشتوں کی باتیں چوری سے سننا چاہئیں ان کو اس شعلے سے مارا جائے۔- علامہ آلوسی نے روح المعانی میں یہی توجیہ بیان فرمائی ہے اور نقل کیا ہے کہ امام حدیث زہری سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی ستارے ٹوٹتے تھے ؟ فرمایا کہ ہاں اس پر اس نے سورة جن کی مذکورہ آیت معارضہ کے لئے پیش کی تو فرمایا کہ شہاب ثاقب تو پہلے بھی تھے مگر بعثت نبوی کے بعد جب شیاطین پر تشدد کیا گیا تو ان شیاطین کے دفع کرنے کا کام لے لیا گیا۔- صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بروایت ابن عباس (رض) خود آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد موجود ہے کہ آپ صحابہ کے ایک مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ستارہ ٹوٹا آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ تم زمانہ جاہلیت میں یعنی اسلام سے پہلے اس ستارہ ٹوٹنے کو کیا سمجھا کرتے تھے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھا کرتے تھے کہ دنیا میں کوئی بڑا حادثہ پیدا ہونے والا ہے یا کوئی بڑا آدمی مرے گا یا پیدا ہوگا آپ نے فرمایا کہ یہ لغو خیال ہے اس کا کسی کے مرنے جینے سے کوئی تعلق نہیں یہ شعلے تو شیاطین کو دفع کرنے کے لئے پھینکے جاتے ہیں۔- خلاصہ کلام یہ ہے کہ شہاب ثاقب کے متعلق جو کچھ فلاسفہ نے کہا ہے وہ بھی قرآن کے منافی نہیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ یہ شعلے براہ راست بعض ستاروں سے ٹوٹ کر گرائے جاتے ہوں مقصد قرآن دونوں صورتوں میں ثابت اور واضح ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ 18؀- اسْتَرَقَ- السّمع : إذا تسمّع مستخفیا، قال تعالی: إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ [ الحجر 18] ، والسَّرَقُ والسَّرَقَةُ واحد، وهو الحریر .- اور استرق السمع کے معنی چوری چھپے سننے کی کوشش کرنا ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ [ الحجر 18] ہاں اگر کوئی چوری سے سننا چاہئے ۔ السرق والسرقتہ سفید ریشم ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - شهب - الشِّهَابُ : الشّعلة السّاطعة من النار الموقدة، ومن العارض في الجوّ ، نحو : فَأَتْبَعَهُ شِهابٌ ثاقِبٌ [ الصافات 10] ، شِهابٌ مُبِينٌ [ الحجر 18] ، شِهاباً رَصَداً [ الجن 9] .- والشُّهْبَةُ : البیاض المختلط بالسّواد تشبيها بالشّهاب المختلط بالدّخان، ومنه قيل : كتيبة شَهْبَاءُ : اعتبارا بسواد القوم وبیاض الحدید .- ( ش ھ ب ) الشھاب - کے معنی بکند شعلہ کے ہیں خوارہ وہ جلتی ہوئی آگ کا ہو یا فضا میں کسی عارضہ کی وجہ سے پیدا ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : فَأَتْبَعَهُ شِهابٌ ثاقِبٌ [ الصافات 10] تو جلتا ہوا انگارہ اس کے پیچھے لگتا ہے ۔ شِهابٌ مُبِينٌ [ الحجر 18] روشنی کرنیوالا انگارہ ۔ شِهاباً رَصَداً [ الجن 9] انگارہ تیار ۔ الشھبتہ سفیدی جس میں کچھ سیاہی ملی ہوئی ہو ۔ جیسا کہ انگارہ کی روشنی کے ساتھ دھواں ملا ہوتا ہے اسی سے کتیبتہ شھباء کاز محاورہ ہے جس کے معنی مسلح لشکر کے ہیں کیونکہ اس میں ہتھیاروں کی چمک سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاہی اور سفیدی ملی ہوئی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ )- جیسے ایک فرشتہ کچھ احکام لے کر آ رہا ہو اور کوئی جن اس سے کوئی سن گن لینے کی کوشش کرے۔ فرشتے نوری ہیں اور جن ناری مخلوق ہیں چناچہ نور اور نار کے درمیان زیادہ بعد نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہے۔ عزازیل (ابلیس) کا بھی ایک جن ہونے کے باوجود فرشتوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔- (فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ)- ایسی خلاف ورزی کی صورت میں اس جن پر میزائل پھینکا جاتا ہے۔ یہ میزائل اللہ تعالیٰ نے اسی مقصد کے لیے ستاروں میں نصب کر رکھے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :11 یعنی وہ شیاطین جو اپنے اولیاء کو غیب کی خبریں لا کر دینے کی کوشش کرتے ہیں ، جن کی مدد سے بہت سے کاہن ، جوگی ، عامل اور فقیر نما بہروپیے غیب دانی کا ڈھونگ رچایا کرتے ہیں ، ان کے پاس حقیقت میں غیب دانی کے ذرائع بالکل نہیں ہیں ۔ وہ کچھ سن گن لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ، کیونکہ ان کی ساخت انسانوں کی بہ نسبت فرشتوں کی ساخت سے کچھ قریب تر ہے ، لیکن فی الواقع ان کے پلے کچھ پڑتا نہیں ہے ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :12 ”شہاب مبین“ کے لغوی معنی ”شعلہ روشن“ کے ہیں ۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ”شہاب ثاقب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ یعنی” تاریکی کو چھیدنے والا شعلہ“ ۔ اس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارا ہی ہو جسے ہماری زبان میں اصطلاحا شہاب ثاقب کہا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ اور کسی قسم کی شعاعیں ہوں ، مثلا کائناتی شعاعیں یا ان سے بھی شدید کوئی اور قسم جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہاب ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں ۔ زمانہ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں ، ان کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب روزانہ ہے ، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتی ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے ۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲٦ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے ۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہاب ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے ( انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ۔ ۱۹٤٦ء ۔ جلد ۱۵ ۔ ص ۳۹ – ۳۳۷ ) ۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو ، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات ان کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابل عبور بنا دیتی ہوگی ۔ اس سے کچھ ان”محفوظ قلعوں“ کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ بظاہر فضا بالکل صاف شفاف ہے جس میں کہیں کوئی دیوار یا چھت بنی نظر نہیں آتی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی فضا میں مختلف خطوں کو کچھ ایسی غیر مرئی فصیلوں سے گھیر رکھا ہے جو ایک خطے کو دوسرے خطوں کی آفات سے محفوظ رکھتی ہیں ۔ یہ انہی فصیلوں کی برکت ہے کہ جو شہاب ثاقب دس کھرب روزانہ کے اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں وہ سب جل کر بھسم ہو جاتے اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچ سکتا ہے ۔ دنیا میں شہابی پتھروں ( ) کے جو نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا کے عجائب خانوں میں موجود ہیں ان میں سب سے بڑا ٦٤۵ پونڈ کا ایک پتھر ہے جو گر کر ۱۱ فیٹ زمین میں دھنس گیا تھا ۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر ۳٦-۱ ۲ ٹن کا ایک آہنی تودہ بھی پایا گیا ہے جس کے وہاں موجود ہونے کی کوئی توجیہ سائنس داں اس کے سوا نہیں کر سکے ہیں کہ یہ بھی آسمان سے گرا ہوا ہے ۔ قیاس کیجیے کہ اگر زمین کی بالائی سرحدوں کی مضبوط حصاروں سے محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو ان ٹوٹنے والے تاروں کی بارش زمین کا کیا حال کر دیتی ۔ یہی حصار ہیں جن کو قرآن مجید نے”بروج“ ( محفوظ قلعوں ) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: یہ حقیقت قرآنِ کریم نے کئی جگہ بیان فرمائی ہے کہ شیطان آسمان کے اُوپر جاکر عالمِ بالا کی خبریں حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ خبریں کاہنوں اور نجومیوں تک پہنچائیں، اور وہ اُن کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ انہیں غیب کی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں۔ لیکن آسمان میں ان کا داخلہ شروع ہی سے بند ہے، البتہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دُنیا میں تشریف آوری سے پہلے یہ شیاطین آسمان کے قریب جاکر فرشتوں کی باتیں چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے تھے، اور وہاں سے کوئی بات کان میں پڑجاتی توا ُس کے ساتھ سینکڑوں جھوٹ ملاکر کاہنوں کو بتادیتے تھے، اس طرح کبھی کوئی بات صحیح بھی نکل آتی تھی۔ لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد ان کو آسمان کے قریب جانے سے بھی روک دیا گیا۔ اب اگر وہ ایسی کوشش کرتے ہیں تو اُن کو ایک شعلے کے ذریعے مار کر بھگا دیا جاتا ہے، ستارہ ٹوٹنے کے جو واقعات ہمیں آسمان پر نظر آتے ہیں، بعض اوقات وہ یہی شعلہ ہوتا ہے جس کے ذریعے شیطان کو مار بھگایا جاتا ہے۔ اس حقیقت کی پوری تفصیل ان شا اللہ تعالیٰ سورۂ جن میں آئے گی۔