[٠ ١] ہر چیز کی پیدائش اور افزائش اللہ کے مقررہ اندازے کے مطابق ہی ہوسکتی ہے :۔ موجودہ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ نباتات کی ہر نوع میں تناسل کی اس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر صرف ایک ہی پودے کو زمین میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے تو چند ہی سالوں میں اسی جنس کے پودے تمام روئے زمین پر پھیل جائیں اور کسی دوسری قسم کے پودے کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ حکیم وعلیم اور قادر مطلق کا سوچا سمجھا اندازہ ہی ہے جس کے مطابق بیشمار قسم کی نباتات اس زمین پر اگ رہی ہے اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد تک پہنچ کر رک جاتی ہے مزید یہ کہ ہر نوع کی پیداوار کو اس علاقہ کی ضرورت اور وہاں کے لوگوں کی طبیعت کے مطابق پیدا کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورت انسان کے نطفہ کی ہے۔ اس کے ایک دفعہ کے انزال میں بارآور کرنے والے اتنی کثیر تعداد میں جرثومے پائے جاتے ہیں جو تمام دنیا کی عورتوں کو بار آور کرسکتے ہیں۔ یہ بس اللہ کی حکمت ہی ہے کہ وہ جتنے انسان پیدا کرنا چاہتا ہے اتنے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ہر چیز زمین سے خوراک حاصل کرکے بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہے لیکن وہ بھی ایک مخصوص حد تک پہنچ کر رک جاتی ہے مثلاً آج کل انسان عموماً پانچ سے چھ فٹ تک لمبا ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی انسان دوگنی خوراک کھا کر بارہ فٹ لمبا ہوجائے۔ یہی حال دوسری مخلوق کا ہے خواہ یہ نباتات کی قسم سے ہو یا حیوانات کی قسم سے یا انسان ہو۔ غرض جاندار کیا اور بےجان کیا۔ ہر چیز کے ہر ہر پہلو سے تعلق رکھنے والی اللہ نے حدیں مقرر کر رکھی ہیں جن سے وہ تجاوز نہیں کرسکتیں۔
وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا : اب زمین اور اس پر پیدا کردہ اشیاء کو توحید کی دلیل کے لیے بیان کیا جا رہا ہے۔ ” مَدَدْنٰهَا “ ” مَدَّ یَمُدُّ “ (ن) کا معنی ہے کھینچنا، پھیلانا۔ جب ہم زمین کی وسعت اور پھیلاؤ کو دیکھتے ہیں تو وہ اتنی ہے کہ اس پر چلنے پھرنے، رہنے، کاشت کرنے، مکان یا سڑکیں بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، مگر آنکھوں کو اس کی انتہا نظر نہیں آتی، خواہ کتنا سفر کرلیں۔ یہ پھیلاؤ اور مدّ دلیل ہے کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے گول بنایا ہے، ورنہ اگر یہ مربع یا کسی اور شکل کی ہوتی تو یہ پھیلاؤ کسی جگہ جا کر ختم ہوجاتا، اب تو گول زمین کی تصویریں بھی آچکی ہیں اور تجربے سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے، اس کے باوجود اس کا جھکاؤ ایسا عجیب ہے کہ نہ نظر آتا ہے اور نہ اس کلیے میں کوئی فرق پڑتا ہے کہ ” پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے “ مگر سیکڑوں برس پہلے اس حقیقت کو وہی بیان کرسکتا تھا جس نے اسے پیدا کیا اور پھیلایا ہے۔ - وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا : ” رَوَاسِيَ “ ” رَاسِیَۃٌ“ کی جمع ہے جو ” رَسَا یَرْسُوْ “ (ن) کا اسم فاعل ہے، جس کا معنی کسی بھاری چیز کا گڑا ہوا ہونا ہے۔ مراد پہاڑ ہیں جن کا اکثر حصہ زمین کے اندر اور باقی باہر ہوتا ہے۔ اس سے ایک دوسری حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ زمین کو متحرک بنایا گیا ہے، تبھی اس پر بھاری پہاڑ زمین کی گردش میں توازن رکھنے کے لیے گاڑ دیے گئے، تاکہ تیز رفتاری کے باوجود اس میں لرزش اور تھرتھراہٹ پیدا نہ ہو، جیسا کہ گاڑی کے پہیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ان کی مختلف جگہوں پر ضرورت کے مطابق لوہے وغیرہ کے ٹکڑے لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک اور آیت میں بھی یہ اشارہ موجود ہے : (وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ ) [ النمل : ٨٨] ” اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا، انھیں گمان کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں، حالانکہ وہ بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔ “- وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ :” فِيْهَا “ یعنی زمین میں ہر چیز اتنی اگائی اور پیدا کی جتنی اس کی ضرورت تھی، نہ کسی چیز کو بلاضرورت پیدا کیا اور نہ ایک خاص حد سے بڑھنے دیا۔ ” فِيْهَا “ میں ضمیر جبال (پہاڑوں) کے لیے بھی ہوسکتی ہے، یعنی پہاڑوں کے اندر ہر چیز یعنی معدنیات وغیرہ پورے اندازے سے پیدا کیں۔ (شوکانی)
خلاصہ تفسیر :- اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس (زمین) میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دیئے اور اس میں ہر قسم کی (ضرورت کی پیداوار) ایک معین مقدار سے اگائی اور ہم نے تمہارے واسطے اس (زمین) میں معاش کے سامان بنائے (جس میں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں داخل ہیں جو کھانے پینے پہننے اور رہنے سہنے سے متعلق ہیں) اور (یہ سامان معاش اور ضروریات زندگی صرف تم کو ہی نہیں دیا بلکہ) ان کو بھی دیا جن کو تم روزی نہیں دیتے (یعنی وہ تمام مخلوقات جو ظاہر میں بھی تمہارے ہاتھ سے خوردو نوش اور زندگی گذارنے کا سامان نہیں پاتے ظاہر اس لئے کہا کہ گھر کے پالتو جانور بکری، گائے، بیل، گھوڑا، گدھا وغیرہ بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے اپنی روزی اور ضروریات معاش حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے پاتے ہیں مگر ظاہری طور پر ان کے خوردو نوش اور رہائش کا انتظام انسانوں کے ہاتھوں ہوتا ہے ان کے علاوہ تمام دنیا کے بری اور بحری جانور، پرندے اور درندے ایسے ہیں جن کے سامان معاش میں کسی انسانی ارادے اور عمل کا کوئی دخل اور شائبہ بھی نہیں پایا جاتا اور یہ جانور اتنے بےحد و بیشمار ہیں کہ انسان نہ ان سب کو پہچان سکتا ہے نہ شمار کرسکتا ہے) اور جتنی چیزیں (ضروریات زندگی سے متعلق ہیں ہمارے پاس سب کے خزانے کے خزانے (بھرے پڑے) ہیں اور ہم (اپنی خاص حکمت کے مطابق) اس (چیز) کو ایک معین مقدار سے اتارتے رہتے ہیں اور ہم ہی ہواؤں کو بھیجتے رہتے ہیں جو بادل کو پانی سے بھر دیتی ہیں پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں پھر وہ پانی تم کو پینے کو دیتے ہیں اور تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھنے والے نہ تھے (کہ اگلی بارش تک اس ذخیرہ کو استعمال کرتے رہتے) اور ہم ہی ہیں کہ زندہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں اور (سب کے مرنے کے بعد) ہم ہی باقی رہ جاویں گے اور ہم ہی جانتے ہیں تم میں سے آگے بڑھ جانے والوں کو اور ہم جانتے ہیں پیچھے رہنے والوں کو اور بیشک آپ کا رب ہی ان سب کو (قیامت میں) محشور فرماوے گا (یہ اس لے فرمایا کہ اوپر توحید ثابت ہوئی ہے اس میں منکر توحید کی سزاء کی طرف اشارہ کردیا) بیشک وہ حکمت والا ہے (ہر شخص کو اس کے مناسب بدلہ دے گا اور) علم والا ہے (سب کے اعمال کی اس کو پوری خبر ہے)- معارف و مسائل :- حکمت الہیہ ضروریات معاش میں تناسب وموزونیت :- مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کا ایک مفہوم تو وہی ہے جو ترجمہ میں لیا گیا ہے کی بتقاضائے حکمت ہر اگنے والی چیز کی ایک مقدار معین اگائی جس سے کم ہوجاتی تو زندگی میں دشواریاں پیدا ہوجاتیں اور زیادہ ہوجاتی تو بھی مشکلات پیدا کرتی انسانی ضرورت کے گندم اور چاول وغیرہ اور بہتر سے بہتر عمدہ پھل اگر اتنے زیادہ پیدا ہوجائیں جو انسانوں اور جانوروں کے کھانے پینے کے بعد بھی بہت بچ رہیں تو ظاہر ہے کہ وہ سڑیں گے ان کا رکھنا بھی مشکل ہوگا اور پھینکنے کے لئے جگہ نہ رہے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں تو یہ بھی تھا کہ جن دانوں اور پھلوں پر انسان کی زندگی موقوف ہے ان کو اتنا زیادہ پیدا کردیتے کہ ہر شخص کو ہر جگہ مفت مل جایا کرتے اور بےفکری سے استعمال کرنے کے بعد بھی ان کے بڑے ذخیرے پڑے رہتے لیکن یہ انسان کے لئے عذاب ہوجاتا اس لئے ایک خاص مقدار میں نازل کئے گئے کہ ان کی قدر و قیمت بھی باقی رہے اور بیکار بھی نہ بچیں۔- اور مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمام اگنے والی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تناسب اور موزونیت کے ساتھ پیدا کیا ہے جس سے اس میں حسن اور دل کشی پیدا ہوتی، مختلف رنگ اور ذائقے کے پیدا کئے گئے جس کے تناسب اور حسین منظر سے تو انسان فائدہ اٹھاتا ہے مگر ان کی تفصیلی حکمتوں کا ادراک کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔
وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ 19- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ- [ سبأ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] ،- ( ر س و )- رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ - نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - وزن - الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً- [ الكهف 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] - ( و زن ) الوزن )- تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے
(١٩) اور ہم نے زمین کو پانی پر پھیلایا اور اس زمین پر بھاری بھاری پہاڑ ڈال دیے جو اس کے لیے میخیں ہوگئے اور ہم نے ان پہاڑوں یا زمین میں بنائی ہوئی چیزیں اور ہر قسم کے پھل ایک مقررہ مقدار سے اگائے یا یہ مطلب ہے کہ تمام چیزیں پیدا کیں جن کا وزن کیا جاتا ہے جیسا کہ سونا، چاندی، لوہا، پیتل وغیرہ۔
آیت ١٩ (وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ )- زمین کے یہ لنگر پہاڑ ہیں جن کے بارے میں قرآن بار بار کہتا ہے کہ یہ زمین کی حرکت کو متوازن رکھنے ( ) کا ایک ذریعہ ہیں۔ - (وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ )- کائنات کے اس خدائی نظام میں ہرچیز کی مقدار اور تعداد اس حد تک ہی رکھی گئی ہے جس حد تک اس کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی چیز اس مقررہ حد سے بڑھے گی تو وہ اس نظام میں خلل کا باعث بنے گی۔ مثلاً بعض مچھلیوں کے انڈوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ یہ تمام انڈے اگر مچھلیاں بن جائیں تو چند ہی سالوں میں ایک مچھلی کی اولاد اس زمین کے حجم سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جائے۔ بہر حال اس کائنات کے نظام کو درست رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرچیز کو ایک طے شدہ اندازے اور ضرورت کے مطابق رکھا گیا ہے۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :13 اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے ایک اور اہم نشان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ نباتات اور ہر نوع میں تناسُل کی اس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر اس کے صرف ایک پودے ہی کی نسل کو زمین میں بڑھنے کا موقع مل جاتا تو چند سال کے اندر روئے زمین پر بس وہی وہ نظر آتی ، کسی دوسری قسم کی نباتات کے لیے کوئی جگہ نہ رہتی ۔ مگر یہ ایک حکیم اور قادر مطلق کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے مطابق بے حد و حساب اقسام کی نباتات اس زمین پر اگ رہی ہیں اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد پر پہنچ کر رک جاتی ہے ۔ اسی منظر کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہر نوع کی جسامت ، پھیلاؤ ، اٹھان اور نشوونما کی ایک حد مقرر ہے جس سے نباتات کی کوئی قسم بھی تجاوز نہیں کر سکتی ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہر درخت ، ہر پودے اور ہر بیل بوٹے کے لیے جسم ، قد ، شکل ، برگ و بار اور پیداوار کی ایک مقدار پورے ناپ تول اور حساب و شمار کے ساتھ مقرر کر رکھی ہے ۔
9: قرآن کریم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ شروع میں جب زمین کو سمندر پر بچھایا گیا تو وہ ڈولتی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا فرمائے ؛ تاکہ وہ زمین کو جما کر رکھیں، دیکھئے سورۃ نحل آیت نمبر : ١٥