20۔ 1 معایش معیشۃ کی جمع ہے یعنی زمین میں تمہاری معیشت اور گزران کے لئے بیشمار اسباب و وسائل پیدا کردیئے۔ 20۔ 2 اس سے مراد نوکر چاکر، غلام اور جانور ہیں۔ یعنی جانوروں کو تمہارے تابع کردیا، جن پر تم سواری بھی کرتے ہو، سامان بھی لاد کرلے جاتے ہو اور انھیں ذبح کر کے کھا بھی لیتے ہو۔ غلام لونڈیاں ہیں، جن سے تم خدمت گزاری کا کام لیتے ہو۔ یہ اگرچہ سب تمہارے ماتحت ہیں اور تم ان کے چارے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی کرتے ہو لیکن حقیقت میں ان کا رازق اللہ تعالیٰ ہے، تم نہیں ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم ان کے رازق ہو، اگر تم انھیں کھانا نہیں دو گے تو بھوکے مرجائیں گے۔
[١ ١] ایسی مخلوق بھی انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے اور اس میں ہر قسم کے چرند، پرند، درندے اور تمام حشرات الارض وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کی روزی بھی اسی طرح زمین کے ساتھ ہی وابستہ ہے جیسے تمہاری وابستہ ہے۔
وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ ۔۔ : ” مَعَايِشَ “ ” مَعِیْشَۃٌ“ کی جمع ہے، ” عَاشَ یَعِیْشُ عَیْشًا وَ مَعَاشًا وَمَعِیْشَۃً “ کا معنی زندہ رہنا ہے، جیسے ” مَاتَ یَمُوْتُ مَوْتًا “ کا معنی مرنا ہے۔ پھر یہ لفظ زندگی کی ضرورتوں کے لیے استعمال ہونے لگا، یعنی تمہاری زندگی گزارنے کے لیے کھانے پینے، رہنے، علاج، راحت، سواری، الغرض ہر ضرورت کی چیز تمہارے لیے بھی پیدا کی اور ان کے لیے بھی جنھیں تم روزی دینے والے نہیں۔ اس سے دو قسم کی چیزیں مراد ہیں، ایک تو وہ جن کا تم سے تعلق ہی نہیں، سمندر کی گہرائیوں میں پہاڑوں کی بلندیوں میں، صحراؤں کی وسعتوں میں، زمین کی تہوں میں، آباد اور بےآباد زمین کی سطح پر اور فضاؤں میں بیشمار مخلوق ہے جنھیں تم ہرگز روزی دینے والے نہیں۔ ” لَّسْتُمْ “ نفی کی تاکید ” بِرٰزِقِيْنَ “ کی باء کے ساتھ ہونے کی و جہ سے ترجمہ ” ہرگز “ کیا گیا ہے۔ دوسری وہ تمام چیزیں جو تمہاری خدمت کے لیے ہیں، مثلاً چوپائے، سواریاں، بیوی بچے اور نوکر چاکر وغیرہ، جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ ہم انھیں کھانے کو دے رہے ہیں، خوب سمجھ لو کہ تم ہرگز انھیں روزی نہیں دے رہے، زمین میں ان کی معیشت بھی ہم ہی نے بنائی ہے اور ہم ہی انھیں رزق دے رہے ہیں، فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ ) [ الذاریات : ٥٨ ] ” بیشک اللہ ہی بیحد رزق دینے والا، قوت والا، نہایت مضبوط ہے۔ “ اور فرمایا : ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا ) [ ہود : ٦ ] ” اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے۔ “
وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ 20- عيش - العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة- ( ع ی ش )- العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) - الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو
(٢٠) اور ہم نے تمہارے لیے زمین سے نباتات اور پھل اور اسی طرح تمام وہ چیزیں جو تم کھاتے پیتے اور پہنتے ہو پیدا کیں اور ان پرندوں اور وحشی جانوروں کو بھی اور پیٹ میں بچہ کو بھی روزی دی جن کو تم روزی نہیں دیتے۔
آیت ٢٠ (وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ )- کچھ مخلوق تو ایسی ہے جس کی روزی اور کھانے پینے کا انتظام بظاہر انسانوں کی ذمہ داری ہے جیسے پالتو جانور مگر بہت سی مخلوقات ایسی ہیں جن کے رزق کی ذمہ داری انسانوں پر نہیں ہے مگر اللہ ان سب کو ان کے حصے کا رزق بہم پہنچا رہا ہے۔
10: اگرچہ ہر چیز کو رزق تو حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے ؛ لیکن بعض پالتو جانور ایسے ہیں جنہیں انسان ظاہری طور پر چارہ فراہم کرتا ہے، ان کے علاوہ اکثر مخلوقات ایسی ہیں جنہیں رزق مہیا کرنے میں ظاہری طور پر بھی انسان کا کوئی دخل نہیں ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ہم نے انسانوں کے لئے بھی رزق کے سامان پیدا کئے ہیں اور ان مخلو قات کے لئے بھی جنہیں انسان ظاہری طور پر کوئی غذا فراہم نہیں کرتا۔ عربی گرامر کی رو سے اس آیت کا ترجمہ ایک اور طرح بھی ممکن ہے اور وہ مخلوقات بھی پیدا کی ہیں جن کو تم رزق نہیں دیتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے وہ مخلوقات بھی پیدا کی ہیں جن کو وہ ظاہری طور پر بھی رزق نہیں دیتا مگر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے جیسے شکار کے جانور۔