اللہ تعالیٰ کے خزانے تمام چیزوں کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ ہر کام اس پر آسان ہے ۔ ہر قسم کی چیزوں کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں ۔ جتنا ، جب اور جہاں چاہتا ہے ، نازل فرماتا ہے ۔ اپنی حکمتوں کا عالم وہی ہے ۔ بندوں کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے ۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے ورنہ کون ہے جو اس پر جبر کر سکے ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر سال بارش برابر ہی برستی ہے ۔ ہاں تقسم اللہ کے ہاتھ ہے ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ حکم بن عینیہ سے بھی یہی قول مروی ہے ، کہتے ہیں کہ بارش کے ساتھ اس قدر فرشتے اترتے ہیں ، جن کی گنتی کل انسانوں اور جنات سے زیادہ ہوتی ہے ، ایک ایک قطرے کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کہاں برسا اور اس سے کیا اگا ۔ بزار میں ہے کہ اللہ کے پاس کے خزانے کیا ہیں ؟ صرف کلام ہے جب کہا ہو جا ہو گیا ۔ اس کا ایک روای قوی نہیں ۔ ہوا چلا کر ہم بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتے ہیں ، اس میں پانی برسنے لگتا ہے ۔ یہی ہوائیں چل کر درختوں کو بار دار کر دیتی ہیں کہ پتے اور کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں ، اس وصف کو بھی خیال میں رکھئے کہ یہاں جمع کا صیغہ لائے ہیں اور ریح عقیمہ میں وصف وحدت کے ساتھ کیا ہے تاکہ کثرت سے نتیجہ بر آمد ہو ۔ بارداری کم از کم دو چیزوں کے بغیر ناممکن ہے ۔ ہوا چلتی ہے وہ آسمان سے پانی اٹھاتی ہے اور بادلوں کو پر کر دیتی ہے ۔ ایک ہوا ہوتی ہے جو زمین میں پیداوار کی قوت پیدا کرتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو بادلوں کو ادھر ادھر سے اٹھاتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں جمع کر کے تہ بہ تہ کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں پانی سے بوجھل کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو درختوں کو پھل دار ہونے کے قابل کر دیتی ہے ۔ ابن جریر میں بہ سند ضعیف ایک حدیث مروی ہے کہ جنوبی ہوا جنتی ہے اس میں لوگوں کے منافع ہیں اور اسی کا ذکر کتاب اللہ میں ہے ۔ مسند حمیدی کی حدیث کی حدیث میں ہے کہ ہواؤں کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ہوا پیدا کی ہے جو ایک دروازے سے رکی ہوئی ہے ۔ اسی بند دروازے سے تمہیں ہوا پہنچتی رہتی ہے ، اگر وہ کھل جائے تو زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہوا سے الٹ پلٹ ہو جائیں ۔ اللہ کے ہاں اس کا نام اذیب ہے ، تم اسے جنوبی ہوا کہتے ہو ، پھر فرماتا ہے کہ اس کے بعد ہم تم پر میٹھا پانی برساتے ہیں کہ تم پیو اور کام میں لاؤ ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا اور کھاری کر دیں ۔ جیسے سورہ واقعہ میں فرمان ہے کہ جس میٹھے پانی کو تم پیا کرتے ہو اسے بادل سے برسانے والے بھی کیا تم ہی ہو ؟ یا ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں تعجب ہے کہ تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے اسی اللہ نے تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا ہے ۔ الخ ۔ تم اس کے خازن یعنی مانع اور حافظ نہیں ہو ۔ ہم ہی برساتے ہیں ہم ہی جہاں چاہتے ہیں ، پہنچاتے ہیں ، جہاں چاہتے ہیں ، محفوظ کر دیتے ہیں ۔ اگر ہم چاہیں زمین میں دھنسا دیں ۔ یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ اسے برسایا ، بچایا ، میٹھا کیا ، ستھرا کیا تاکہ تم پیو ، اپنے جانوروں کو پلاؤ ۔ اپنی کھیتیاں اور باغات بساؤ ، ؟ اپنی ضرورتیں پوری کرو ۔ ہم مخلوق کی ابتدا اور پھر اس کے اعادہ پر قادر ہیں ۔ سب کو عدم سے وجود میں لائے ۔ سب کو پھر معدوم ہم کریں گے ۔ پھر قیامت کے دن سب کو اٹھا بٹھائیں گے ۔ زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں ۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے ۔ ہمارے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ اول آخر سب ہمارے علم میں ہے ۔ پس آگے والوں سے مراد تو اس زمانے سے پہلے کے لوگ ہیں حضرت آدم علیہ السلام تک کے ۔ اور پچھلوں سے مراد اس زمانے کے اور آئندہ زمانے کے لوگ ہیں ۔ مروان بن حکم سے مروی ہے کہ بعض لوگ بوجہ عورتوں کے پچھلی صفوں میں رہا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ اس بارے میں ایک بہت ہی غریب حدیث بھی وارد ہوئی ہے ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بہت ہی خوش شکل عورت نماز میں آیا کرتی تھی تو بعض مسلمان اس خیال سے کہ اس پر نگاہ نہ پڑے ۔ آگے بڑھ جاتے تھے اور بعض ان کے خلاف اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور سجدے کی حالت میں اپنے ہاتھوں تلے سے دیکھتے تھے پس یہ آیت اتری لیکن اس روایت میں سخت نکارت ہے ۔ عبدالرزاق میں ابو الجواز کا قول اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ نماز کی صفوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے ۔ یہ صرف ان کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس میں ذکر نہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں یہی مشابہ ہے واللہ اعلم ۔ محمد بن کعب کے سامنے عون بن عبداللہ جب یہ کہتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں یہ مطلب نہیں بلکہ اگلوں سے مراد وہ ہیں جو مر چکے اور پچھلوں سے مراد اب پیدا شدہ اور پیدا ہونے والے ہیں ۔ تیرا رب سب کو جمع کرے گا وہ حکمت و علم والا ہے ۔ یہ سن کر حضرت عون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اللہ آپ کو توفیق اور جزائے خیر دے ۔
21۔ 1 بعض نے خزائن سے مراد بارش لی ہے کیونکہ بارش ہی پیداوار کا ذریعہ ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے اس سے مراد تمام کائنات کے خزانے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ حسب مشیت و ارادہ عدم سے وجود میں لاتا رہتا ہے۔
[٢ ١] ضروریات زندگی کی مناسب مقدار میں فراہمی :۔ اللہ کے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں لہذا وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو وافر رزق اور مال و دولت عطا کرسکتا تھا۔ مگر اس کی حکمت کا تقاضا ایسا نہیں کیونکہ ایک تو رزق کی فراوانی عموماً اللہ کو بھول جانے اور گمراہ ہوجانے کا سبب بن جاتی ہے۔ الاماشاء اللہ اور دوسرے اگر تمام لوگ ہی مالدار ہوتے اور محتاج کوئی بھی نہ ہوتا تو دنیا کا موجودہ نظام چل ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ اسی صورت میں چل سکتا ہے کہ ایک کو دوسرے کی احتیاج ہو۔ امیر کو غریب کی احتیاج ہو اور غریب کو امیر کی۔ پھر اس میں انسان کی آزمائش بھی ہے لہذا رزق کی کمی بیشی کا تمام تر معاملہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔- پھر یہ معاملہ صرف رزق تک محدود نہیں بلکہ اس میں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء شامل ہیں۔ مثلاً ہوا، پانی، روشنی، حرارت، گرمی، سردی، ان میں سے کوئی بھی چیز اپنی مقرر حد سے بڑھ جائے یا کم ہوجائے تو انسان کی زندگی محال ہوجائے۔ گویا اللہ کے پاس خزانے تو ہر چیز کے ہیں مگر وہ انھیں اپنی حکمت اور طے شدہ مقدار کے مطابق ہی مہیا کرتا ہے۔ مثلاً پانی کی افراط بھی اگر طوفان کی صورت اختیار کرجائے تو وہ بھی انسان کی ہلاکت کا موجب ہے اور تفریط ہو تو وہ بھی۔ یہی حال دوسری ضروریات زندگی کا ہے۔
وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا۔۔ : یعنی کوئی بھی چیز، قیمتی سے قیمتی ہو یا معمولی سے معمولی، ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں، مگر ہم اس کو معلوم اندازے کے مطابق ہی ظاہر کرتے ہیں، مثلاً جلانے اور روشنی کے لیے لکڑی استعمال ہوتی تھی، جب آبادی زیادہ ہوئی تو کوئلہ نکل آیا، مزید بڑھی تو پٹرولیم عطا ہوا، اس سے بھی بڑھی تو گیس نکل آئی، بجلی کے او ون ایجاد ہوگئے۔ توانائی اور سواری کے لیے جانور استعمال ہوتے تھے، پھر پہیہ ایجاد ہوا، پھر کوئلہ استعمال ہونے لگا، پھر پٹرولیم، گیس، بجلی اور ایٹم، الغرض ایجادات بھی ضرورت کے مطابق اپنے اپنے وقت پر ہوئیں۔ اس سے ان ملحد لوگوں، خصوصاً حکمرانوں کی بات کا غلط ہونا صاف واضح ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ آبادی زیادہ بڑھ رہی ہے، جب کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں، ہم سب کی خوراک کا بندوبست نہیں کرسکتے، اس لیے آبادی کم کرو، ضبط ولادت کرو، ایک یا دو بچے پیدا ہونے دو ۔ یہ لوگ درحقیقت اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، جس نے فرمایا کہ ہمارے پاس ہر چیز کے بیشمار خزانے ہیں، مگر ہم مقرر اندازے کے ساتھ ہی اسے نازل کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے کسی کو خوراک کیا دینی ہے، یہ تو خود عوام کی کمائی پر پلتے ہیں۔ اللہ کا کرم دیکھو، جو زمین پہلے دس من غلہ پیدا کرتی تھی اب سو من نکالتی ہے، بجلی اور دوسری ایجادات سے جو آسائشیں آج عام آدمی کو میسر ہیں وہ چند سو سال پہلے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی میسر نہ تھیں، بلکہ ان کے خیال میں بھی نہ تھیں، الا یہ کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) جیسا ہو، پیدل سفر اور اونٹوں، گھوڑوں کی جگہ گاڑیاں اور جہاز اور لق و دق صحراؤں کی جگہ آبادیاں اور نہایت صاف اور کشادہ سڑکیں اور ریلویز۔ اُون اور کپاس کی جگہ پٹرولیم کے کپڑے۔ الغرض کس کس نئی نعمت اور خزانے کا ذکر کیا جائے۔ رہا آبادی اور وسائل کا تناسب، تو وہ اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جانتا ہے، اگر آبادی کم کرنے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی غیبی تدبیر سے خود ہی کم کرلیتا ہے، کبھی طوفانوں سے، کبھی جنگوں سے، کبھی زلزلوں سے، کبھی وباؤں کے ذریعے سے۔ الغرض ہر جان دار کا رزق اللہ کے ذمے ہے اور ہر شخص کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک منہ کھانے کے لیے اور دو ہاتھ کمانے کے لیے دے کر بھیجتا ہے اور ایک ایک شخص کئی کئی افراد کی ضروریات مہیا کرتا ہے۔ دراصل یہ حکمران اس بہانے سے بدکاری اور بےحیائی پھیلانا چاہتے ہیں اور بےحیائی پھیلانے کے خواہش مند لوگوں کی سزا اللہ تعالیٰ نے سورة نور (١٩) میں بیان کی ہوئی ہے۔ ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی حکم ہے کہ آبادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرو، دنیا میں غلبے کا یہ ایک مضبوط ذریعہ بھی ہے اور قیامت کے دن ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دوسرے انبیاء سے اپنی امت کے زیادہ ہونے کی خوشی اور فخر کا باعث بھی، جیسا کہ معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے : ( تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَإِنِّيْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ ) ” ایسی عورت سے نکاح کرو جو (خاوند سے) بہت محبت کرنے والی ہو اور بہت بچے جننے والی ہو، کیونکہ میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کرنے والا ہوں گا۔ “ [ أبوداوٗد، النکاح، باب النھي عن تزویج من لم یلد من النسآء : ٢٠٥٠۔ نسائی :- ٣٢٢٩، و صححہ الألباني ]
وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ 21- خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں - قدر - تَقْدِيرُ اللہ علی وجهين :- أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] .- والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه - . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه،- ، ، تقدیرالہی ِ ، ،- کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔
(٢١) اور جتنی بھی چیزیں نباتات ہوں خواہ پھل ہوں یا بارش سب کی کنجیاں (اور خزانے بھرے ہوئے) ہمارے قبضہ میں ہیں تمہارے قبضہ میں کچھ نہیں۔
آیت ٢١ (وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ )- کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ ہمارے خزانے اور وسائل لامحدود ہیں ‘ لیکن :- (وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ )- ان لامتناہی اور لا محدود خزانوں سے صرف ضرورت کے مطابق اشیاء دنیا میں بھیجی جاتی ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں بڑے بڑے گوداموں سے ضرورت کے مطابق چیزوں کی ترسیل کی جاتی ہے۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :14 یہاں اس حقیقت پر متنبہ فرمایا کہ یہ معاملہ صرف نباتات ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام موجودات کے معاملہ میں عام ہے ۔ ہوا ، پانی ، روشنی ، گرمی ، سردی ، جمادات ، نباتات ، حیوانات ، غرض ہر چیز ، ہر نوع ، ہر جنس ، اور ہر قوت و طاقت کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے ۔ اسی تقدیر اور کمال درجہ کی حکیمانہ تقدیر ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک پورے نظام کائنات میں یہ توازن ، یہ اعتدال ، اور یہ تناسب نظر آرہا ہے ۔ اگر یہ کائنات کا ایک اتفاقی حادثہ ہوتی ، یا بہت سے خداؤں کی کاریگری و کارفرمائی کا نتیجہ ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ بے شمار مختلف اشیاء اور قوتوں کے درمیان ایسا مکمل توازن و تناسب قائم ہوتا اور مسلسل قائم رہ سکتا ؟