Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 ہواؤں کو بوجھل، اس لئے کہا گیا کہ یہ ان بادلوں کو اٹھاتی ہیں جن میں پانی ہوتا ہے۔ جس طرح حاملہ اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پیٹ میں بچہ اٹھائے ہوتی ہے۔ 22۔ 2 یعنی یہ پانی جو ہم اتارتے ہیں، اسے تم ذخیرہ رکھنے پر بھی قادر نہیں ہو۔ یہ ہماری ہی قدرت و رحمت ہے کہ ہم اس پانی کو چشموں، کنوؤں اور نہروں کے ذریعے سے محفوظ رکھتے ہیں، ورنہ اگر ہم چاہیں تو پانی کی سطح اتنی نیچی کردیں کہ چشموں اور کنوؤں سے پانی لینا تمہارے لئے ممکن نہ رہے، جس طرح بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھاتا ہے الَّھُمَّ اَحفظْنَا مِنْہُ ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] زندگی کے لئے پانی کی اہمیت :۔ پانی کا ذخیرہ یا تو زمین کے نیچے ہوتا ہے۔ وہ بھی اللہ کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو پانی کی سطح کو بہت نیچے لے جائے اور انسان پانی حاصل ہی نہ کرسکے۔ یا بارش کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ وہ بھی خالصتاً اللہ کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو کسی مقام پر سالہا سال بارش ہی نہ ہو یا پھر پہاڑوں پر سردیوں میں برفباری ہوتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر دریاؤں کی صورت میں رواں ہوتی ہے۔ لیکن کئی دفعہ دریاؤں میں پانی کی انتہائی کمی واقع ہوجاتی ہے حالانکہ پانی اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہے جس کے بغیر نہ انسان زندہ رہ سکتا ہے نہ دوسرے جاندار اور نہ ہی نباتات اگ سکتی ہیں۔ یعنی پانی نہ ہونے سے انسان خوراک سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ ۔۔ : ” لَوَاقِحَ “ ” لَاقِحٌ“ کی جمع بھی ہوسکتی ہے، یہ لفظ مذکر ہونے کے باوجود مؤنث ہے، جیسے ” حَاءِضٌ“ اور ” حَامِلٌ“ ، ” لِقَاحٌ“ نر جانور کے مخصوص پانی کو کہتے ہیں۔ ” لَاقِحٌ“ وہ اونٹنی جس نے ” لِقَاحٌ“ کو قبول کرلیا ہو، یعنی حاملہ ہوچکی ہو اور اپنے پیٹ میں جنین اٹھائے پھرتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کو حمل اٹھانے والی اس لیے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر حاملہ اونٹنیوں کی طرح ایسے آبی بخارات اور بادلوں کا بوجھ اٹھا کر چلتی ہیں جو بارش برسانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ ” لَاقِحٌ“ بمعنی ” مُلْقِحٌ“ (باب افعال سے اسم فاعل، یعنی وہ نر جو حاملہ کرتا ہے) کی جمع بھی ہوسکتی ہے، یعنی یہ ہوائیں بادلوں پر اور مادہ درختوں پر، مثلاً کھجور وغیرہ، یا مادہ پھولوں پر عمل کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں کہ ہواؤں کے ذریعے سے بادل برسنے کے قابل ہوتے ہیں، ہواؤں ہی کے ذریعے سے نر درختوں اور نر پھولوں کا بور ان کے مادہ درختوں اور پھولوں تک پہنچتا ہے، جس سے ان کے پھل لانے کا عمل وجود میں آتا ہے۔ آیت کا کمال بلاغت یہ ہے کہ ” لَوَاقِحَ “ کا لفظ استعمال فرمایا جو حاملہ ہونے اور حاملہ کرنے کے دونوں مفہوم ادا کرتا ہے۔ - فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ : ” سَقٰی یَسْقِیْ “ پلانا، ” أَسْقٰی یُسْقِیْ “ پلانے کے لیے دینا، مہیا کرنا، یعنی ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور تمہیں ایک دوسرے کو پلانے اور اپنے جانوروں اور پودوں کو پلانے کے لیے عطا فرمایا۔ - وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ : یعنی نہ اوپر آسمان میں بارش کا خزانہ تمہارے قبضے میں ہے اور نہ نیچے زمین میں کنووں، چشموں، تالابوں کے خزانے پر تمہارا کوئی اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پانی کو جس مقدار میں چاہتا ہے رکھتا ہے، وہ جب چاہے بارش برسائے تم اسے روک نہیں سکتے، یا جب چاہے روک لے تم اسے اپنی مرضی سے برسا نہیں سکتے۔ اسی طرح اگر وہ چاہے تو چشموں اور کنووں میں تمام جمع شدہ پانی زمین میں جذب ہوجائے اور تمہیں ایک قطرہ بھی پینے کو نہ ملے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تمام مخلوق کے لئے آب رسانی اور آب پاشی کا عجیب و غریب نظام الہی :- (آیت) وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ سے وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ تک قدرت الہیہ کے اس حکیمانہ نظام کی طرف اشارہ ہے جس کے ذریعہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اور جانور، چرندوں، پرندوں، درندوں کے لئے ضرورت کے مطابق پینے، نہانے، دھونے اور کھیتوں درختوں کو سیراب کرنے کے لئے پانی بلا کسی قیمت کے مل جاتا ہے اور جو کچھ کسی کنواں بنانے یا پائپ لگانے پر خرچ کرنا پڑتا ہے وہ اپنی سہولتیں حاصل کرنے کی قیمت ہے پانی کے ایک قطرہ کی قیمت بھی کوئی ادا نہیں کرسکتا نہ کسی سے مانگی جاتی ہے۔- اس آیت میں پہلے تو اس کا ذکر کیا گیا کہ کس طرح قدرت الہیہ نے سمندر کے پانی کو پوری زمین پر پہنچانے کا عجیب و غریب نظام بنایا ہے کہ سمندر میں بخارات پیدا فرمائے جن سے بارش کا مواد (مان سون) پیدا ہوا اوپر سے ہوائیں چلائیں جو اس کو بادل کی شکل میں تبدیل کر کے پانی سے بھرے ہوئے پہاڑوں جیسے جہاز بنادیں پھر پانی سے لبریز ان ہوائی جہازوں کو دنیا کے ہر گوشہ میں جہاں جہاں پہونچانا ہے پہنچا دیں پھر فرمان الہی کے تابع جس زمین پر جتنا پانی ڈالنے کا حکم ہے اس کے مطابق یہ خود کار ہوائی جہاز وہاں پانی برسا دیں۔- اس طرح یہ سمندر کا پانی زمین کے ہر گوشے میں بسنے والے انسانوں اور جانوروں کو گھر بیٹھے مل جائے اسی نظام میں ایک عجیب و غریب تبدیلی پانی کے ذائقے اور دوسری کیفیات میں پیدا کردی جاتی ہے کیونکہ سمندر کے پانی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے انتہائی کھارا اور ایسا نمکین بنایا ہے کہ ہزاروں ٹن نمک اس سے نکالا اور استعمال کیا جاتا ہے حکمت اس میں یہ ہے کہ یہ عظیم الشان پانی کا کرہ جس میں کروڑوں قسم کے جانور رہتے۔ اور اسی میں مرتے اور سڑتے ہیں اور ساری زمین کا گندہ پانی بالآخر اسی میں جاکر پڑتا ہے اگر یہ پانی میٹھا ہوتا تو ایک دن میں سڑ جاتا اور اس کی بدبو اتنی شدید ہوتی کہ خشکی میں رہنے والوں کی تندرستی اور زندگی بھی مشکل ہوجاتی اس لئے قدرت نے اس کو ایسا تیزابی کھارا بنادیا کہ دنیا بھر کی غلاظتیں اس میں پہنچ کر بھسم ہوجاتی ہیں غرض اس حکمت کی بناء پر سمندر کا پانی کھارا بلکہ تلخ بنایا گیا جو نہ پیاجا سکتا ہے اور نہ اس سے پیاس بجھ سکتی ہے نظام قدرت نے جو پانی کے ہوائی جہاز بادلوں کی شکل میں تیار کئے ان کو صرف سمندری پانی کا خزانہ ہی نہیں بنایا بلکہ مون سون اٹھنے سے لے کر زمین پر برسنے تک اس میں ایسے انقلابات بغیر کسی ظاہری مشین کے پیدا کردیئے کہ اس پانی کا نمک علیحدہ ہو کر میٹھا پانی بن گیا سورة مرسلت میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔- (آیت) وَاَسْقَيْنٰكُمْ مَّاۗءً فُرَاتًا اس میں لفظ فرات کے معنی ہیں ایسا میٹھا پانی جس سے پیاس بجھے معنی یہ ہیں کہ ہم نے بادلوں کی قدرتی مشینوں سے گذار کر سمندر کے کھارے اور تلخ پانی کو تمہارے پینے کے لئے شیریں بنادیا۔- سورة واقعہ میں اسی مضمون کو ارشاد فرمایا ہے (آیت) اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ ۔ بھلا دیکھو تو پانی کو جو تم پیتے ہو کیا تم نے اتارا (اس کو بادل سے یا ہم ہیں اتارنے والے اگر ہم چاہیں کردیں اس کو کھارا پھر کیوں نہیں احسان مانتے۔- یہاں تک تو قدرت الہیہ کی یہ کرشمہ سازی دیکھی کہ سمندر کے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کر کے پورے روئے زمین پر بادلوں کے ذریعے کس حسن نظام کیساتھ پہونچایا کہ ہر خطہ کے نہ صرف انسانوں کو بلکہ جانوروں کو بھی جو انسانوں کی دریافت سے باہر ہیں گھر بیٹھے پانی پہنچا دیا اور بالکل مفت بلکہ جبری طور پر پہونچا۔- لیکن انسان اور جانوروں کا مسئلہ صرف اتنی بات سے حل نہیں ہوجاتا کیونکہ پانی ان کی ایسی ضرورت ہے جس کی احتیاج ہر روز بلکہ ہر آن ہے اس لئے ان کی ضرورت روز مرہ کو پورا کرنے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ہر جگہ سال کے بارہ مہینے ہر ورز بارش ہوا کرتی لیکن اس صورت میں ان کی پانی کی ضرورت تو رفع ہوجاتی مگر دوسری معاشی ضرورت میں کتنا خلل آتا اس کا اندازہ کسی اہل تجربہ کے لئے مشکل نہیں سال بھر کے ہر دن کی بارش تندرستی پر کیا اثر ڈالتی اور کاروبار اور نقل و حرکت میں کیا تعطل پیدا کرتی۔- دوسرا طریقہ یہ تھا کہ سال بھر کے خاص خاص مہینوں میں اتنی بارش ہوجائے کہ اس کا پانی باقی مہینوں کے لئے کافی ہوجائے مگر اس کے لئے ضرورت ہوتی کہ ہر شخص کا ایک کوٹہ مقرر کرکے اس کے سپرد کیا جائے کہ وہ اپنے کوٹہ اور حصہ کا پانی خود اپنی حفاظت میں رکھے۔- اندازہ لگائیے کہ اگر ایسا کیا جاتا تو ہر انسان اتنی ٹینکیاں یا برتن وغیرہ کہاں سے لاتا جن میں تین یا چھ مہینہ کی ضرورت کا پانی جمع کرکے رکھ لے اور اگر وہ کسی طرح ایسا کر بھی لیتا تو ظاہر ہے کہ چند روز کے بعد یہ پانی سڑ جاتا اور پینے بلکہ استعمال کرنے کے بھی قابل نہ رہتا اس لئے قدرت الہیہ نے اس کے باقی رکھنے اور بوقت ضرورت ہر جگہ مل جانے کا ایک دوسرا عجیب و غریب نظام بنایا کہ جو پانی برسایا جاتا ہے اس کا کچھ حصہ تو فوری طور پر درختوں کھیتوں اور انسانوں اور جانوروں کو سیراب کرنے میں کام آ ہی جاتا ہے کچھ کھلے تالابوں جھیلوں میں محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کے بہت بڑے حصہ کو برف کی شکل میں بحر منجمد بنا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاد دیا جاتا ہے جہاں تک نہ گرد و غبار کی رسائی ہے نہ کسی غلاظت کی پھر اگر وہ پانی سیال صورت میں رہتا تو ہوا کے ذریعہ کچھ گرد و غبار یا دوسری خراب چیزیں اس میں پہنچ جانے کا خطرہ رہتا پرندے جانوروں کے اس میں گرنے مرنے کا اندیشہ رہتا جس سے وہ پانی خراب ہوجاتا مگر قدرت نے اس پانی کے عظیم خزانے کو بحر منجمد (برف) بنا کر پہاڑوں پر لاد دیا جہاں سے تھوڑا تھوڑا رس کر وہ پہاڑوں کی رگوں میں پیوست ہوجاتا ہے اور پھر چشموں کی صورت میں ہر جگہ پہنچ جاتا ہے اور جہاں یہ چشمے بھی نہیں ہیں تو وہاں زمین کی تہہ میں یہ پانی انسانی رگوں کی طرح زمین کے ہر خطہ پر بہتا ہے اور کنواں کھودنے سے برآمد ہونے لگتا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ آب رسانی کا یہ نظام الہی ہزاروں نعمتیں اپنے اندر لئے ہوئے ہے اول تو پانی کو پیدا کرنا ایک بڑی نعمت ہے پھر بادلوں کے ذریعہ اس کو زمین کے ہر خطہ پر پہونچانا دوسری نعمت ہے پھر اس کو انسان کے پینے کے قابل بنادینا تیسری نعمت ہے پھر انسان کو اس کے پینے کا موقع دینا چوتھی نعمت ہے پھر اس پانی کو ضرورت کے مطابق جمع اور محفوظ رکھنے کا نظام محکم پانچویں نعمت ہے پھر انسان کو اس سے پینے اور سیراب ہونے کا موقع دینا چھٹی نعمت ہے کیونکہ پانی کے موجود ہوتے ہوئے بھی ایسی آفتیں ہو سکتی ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمی پینے پر قادر نہ ہو قرآن کریم کی أیت فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ میں انہی نعماء الہیہ کی طرف اشارہ اور تنبیہ کی گئی ہے فتبارک اللہ احسن الخالقین۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ 22؀- لقح - يقال : لَقِحَتِ الناقة تَلْقَحُ لَقْحاً ولَقَاحاً «2» ، وکذلک الشجرة، وأَلْقَحَ الفحل الناقة، والریح السّحاب . قال تعالی: وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] أي : ذوات لقاح، وأَلْقَحَ فلان النّخل، ولَقَّحَهَا، واسْتَلْقَحْتُ النّخلة، وحرب لَاقِحٌ: تشبيها بالناقة اللاقح، وقیل : اللّقْحَةُ :- الناقة التي لها لبن، وجمعها : لِقَاحٌ ولُقَّحٌ ، والْمَلَاقِيحُ : النّوق التي في بطنها أولادها، ويقال ذلک أيضا للأولاد، و «نهي عن بيع الملاقیح والمضامین» «3» . فَالْمَلَاقِيحُ هي : ما في بطون الأمّهات، والمضامین : ما في أصلاب الفحول .- واللِّقَاحُ : ماء الفحل، واللَّقَاحُ : الحيّ الذي لا يدين لأحد من الملوک، كأنه يريد أن يكون حاملا لا محمولا .- ( ل ق ح )- لقحت الناقۃ تلقح ۔ لقحا ولقلحا کے معنی اونٹنی کے حاملہ ہونے کے ہیں ۔ اسی طرح درخت کے پھلدار ہونے پر بھی لفظ بولاجاتا ہے اور القح الفحل الناقۃ والریح السحاب کے معنی سانڈھ کے اونٹنی کو یا ہوا کے بادل کو بار دار کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا میں چلاتے ہیں ( جو بادلوں کے پانی سے ) بھری ہوئی ہوتی ہیں ۔ القح فلان النخل ولقحھا۔ کھجور کو پیوند کرنا ۔ استلقحت النخلۃ کھجور پیوند کے لائق ہوگئی ۔ اور حاملہ اونٹنی کے ساتھ تشبیہ دیکر حرب لا قح کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سخت لڑائی کے ہیں ۔ جو اپنے ساتھ بہت مصائب لائے ۔ لقحۃ ۔ شیردار اونٹنی ۔ ج لقاح ولقح ۔ الملاقیح حاملہ اونٹنیاں ۔ نیزبچوں کو بھی ملاقیح کہاجاتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے (111) نھی عن بیع الملاقیح والمضامین کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ملاقیح ومضامین کی بیع سے منع فرمایا۔ تو ملاقیح کے معنی جنین کے ہیں اور مضامین نر کے مادہ منویہ کہتے ہیں ۔ جو تاحال اس کی پشت میں محفوظ ہو ۔ اللقاح ۔ نر جانور کا مادہ منویہ ۔ نیز لقاح اس آزاد قبلے کو بھی کہتے ہیں جو کسی بادشاہ کے زیر حکومت نہ ہو گویا وہ حامل ہے محمول نہیں ہے ؛- سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھید وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢) اور ہم حسب حکمت بارش کو ایک مقررہ مقدار سے برساتے رہتے ہیں اور ہم ہی ہواؤں کو بھجتے ہیں جو درخت اور بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں، پھر اس زمین پر پانی بہا کر تمہارے پینے کے لیے انتظام کرتے ہیں اور تم بارش نہیں برساسکتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ )- لَوَاقِحَ کا مفہوم پہلے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا کر لاتی ہیں اور بارش کا سبب بنتی ہیں لیکن اب جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بھی ہواؤں کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں جن سے پھولوں کی فرٹیلائزیشن ہوتی ہے جس کے نتیجے میں فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یوں یہ سارا نباتاتی نظام بھی ہواؤں کی وجہ سے چل رہا ہے۔ - (فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ )- پانی مبدا حیات ہے۔ زمین پر ہر طرح کی زندگی کے وجود کا منبع اور سرچشمہ بھی پانی ہے اور پھر پانی پر ہی زندگی کی بقا کا انحصار بھی ہے۔ پانی کی اس اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کی تقسیم و ترسیل کا ایک لگا بندھا نظام وضع کیا ہے جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل کا نام دیا ہے۔ واٹر سائیکل کا یہ عظیم الشان نظام اللہ تعالیٰ کے عجائبات میں سے ہے۔ سمندروں سے ہواؤں تک بخارات پہنچا کر بارش اور برفباری کا انتظام گلیشیئرز کی شکل میں بلند وبالا پہاڑوں پر واٹر سٹوریج کا اہتمام پھر چشموں ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سے اس پانی کی وسیع و عریض میدانی علاقوں تک رسائی اور زیر زمین پانی کا عظیم الشان ذخیرہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ وہ واٹرسائیکل ہے جس پر پوری دنیا میں ہر قسم کی زندگی کا دارومدار ہے۔- (وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ )- یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم پانی کے اس ذخیرے کو جمع کرتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani