[٥ ١] الفاظ میں عمومیت ہے اور ان سے مراد وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں اور جو بعد میں آنے والے ہیں اور یہ بھی کہ جو اسلام لانے میں آگے نکل جانے والے ہیں یا پیچھے رہنے والے ہیں۔ یا کسی بھی نیک کام میں یا برے کام میں آگے نکل جانے اور پیچھے والے۔ اللہ ان سب پوری طرح باخبر ہے۔
وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ ۔۔ : اس میں بہت سی چیزیں آجاتی ہیں : 1 وہ لوگ جو ہم سے پہلے گزر چکے اور جو ہمارے بعد آنے والے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے۔ اس کا علم ازلی اور ابدی ہے۔ 2 وہ لوگ جو اذان کا پہلا لفظ ” اللہ اکبر “ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا سمجھتے ہوئے سب سے پہلے نماز کے لیے چل پڑتے ہیں اور جو پیچھے رہ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے۔ 3 مستقدمین و مستاخرین، یعنی جہاد اور دوسری نیکیوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے رہنے والے سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔
نیک کاموں میں آگے بڑھنے اور پیچھے رہنے میں درجات کا فرق :- وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ میں مستقدمین اور مستاخرین کی چند تفسیریں ائمہ صحابہ وتابعین سے مختلف منقول ہیں مستقدمین وہ لوگ وہ جواب تک پیدا ہوچکے ہیں اور مستاخرین وہ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے (قتادہ و عکرمہ) مستقدمین سے مراد اموات ہیں اور مستاخرین سے وہ لوگ جو اب زندہ ہیں (ابن عباس وضحاک) مستقدمین سے مراد امت محمدیہ سے پہلے حضرات ہیں اور مستاخرین سے مراد امت محمدیہ (مجاہد) مستقدمین سے مراد اہل اطاعت وخیر ہیں اور مستاخرین سے اہل معصیت و غفلت (حسن و قتادہ) مستقدمین وہ لوگ ہیں جو نماز کی صفوف یا جہاد کی صفوف اور دوسرے نیک کاموں میں آگے رہنے والے ہیں اور مستاخرین وہ جو ان چیزوں میں پچھلی صفوں میں رہنے والے اور دیر کرنے والے ہیں حسن بصری، سعید بن مسیب، قرطبی، شعبی وغیرہ ائمہ تفسیر کی یہ تفسیر ہے اور یہ ظاہر ہے کہ درحقیقت ان اقوال میں کوئی خاص اختلاف نہیں سب جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ جل شانہ کا علم محیط ان تمام اقسام کے مستقدمین ومستاخرین پر حاوی ہے۔- قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ اسی آیۃ سے نماز میں صف اول اور شروع وقت میں نماز ادا کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اذان کہنے اور نماز کی صف اول میں کھڑے ہونے کی کتنی بڑی فضیلت ہے تو تمام آدمی اس کی کوشش میں لگ جاتے کہ پہلی ہی صف میں کھڑے ہوں اور سب کے لئے جگہ نہ ہوتی تو قرعہ اندازی کرنا پڑتی۔- قرطبی نے اس کے ساتھ حضرت کعب کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ اس امت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب وہ سجدے میں جاتے ہیں تو جتنے آدمی اس کے پیچھے ہیں سب کی مغفرت ہوجاتی ہے اسی لئے حضرت کعب آخری صف میں رہنا پسند کرتے تھے کہ شاید اگلی صفوف میں اللہ کا کوئی بندہ اس شان کا ہو تو اس کی برکت سے میری مغفرت ہوجائے انتہی کلامہ۔- اور ظاہر یہ ہے کہ اصل فضیلت تو صف اول ہی میں ہے جیسا کہ آیت قرآن اور حدیث کی تصریحات سے ثابت ہوا لیکن جس شخص کو کسی وجہ سے صف اول میں جگہ نہ ملی تو اس کو بھی ایک گونہ فضیلت یہ حاصل رہے گی کہ شاید اگلی صفوف کے کسی نیک بندے کی بدولت اس کی بھی مغفرت ہوجائے اور آیت مذکورہ میں جیسے نماز کی صف اول کی فضیلت ثابت ہوئی اسی طرح جہاد کی صف اول کی افضلیت بھی ثابت ہوگئی۔
وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ 24- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛
(٢٤) اور تمہارے آباء و اجداد میں سے جو مرچکے ہیں یا یہ کہ تم میں سے جو صف اول میں ہوں گے اور اس طرح تمہارے بیٹے، پوتے، وغیرہ جو زندہ ہیں یا یہ کہ تم میں سے جو پچھلی صف میں ہوں گے، ہم سب کو جانتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ولقد علمنا المستقدمین “۔ (الخ)- امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، نسائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ تمام لوگوں میں ایک سب سے زیادہ خوبصورت عورت حسناء رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھا کرتی تھی تو کچھ لوگ آگے بڑے کر پہلی صف میں کھڑے ہوا کرتے تھے تاکہ اس عورت پر نظر نہ پڑے اور کچھ لوگ پیچھے ہٹ کر پچھلی صف میں کھڑے ہوا کرتے تھے تاکہ اپنی بغلوں کے درمیان سے اس کو دیکھ سکیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم تمہارے اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور ہم تمہارے پچھلوں کو بھی جانتے ہیں، اور ابن مردویہ نے داؤد بن صالح سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سہل بن حنیف انصاری سے آیت کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا یہ آیت جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا نہیں بلکہ نمازوں کی صفوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیت ٢٤ (وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ )- چونکہ یہ نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے کی سورت ہے اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم جانتے ہیں ان لوگوں کو جو حق کی اس دعوت پر فوراً لبیک کہیں گے اور آگے بڑھ کر قرآن کو سینوں سے لگائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ) ( التوبہ : 100) کے مصداق کون لوگ ہوں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ابوبکر قبول حق کے لیے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائے گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عثمان بھی اس دعوت کو فوراً قبول کرلے گا۔ یہ بھی ہمارے علم میں ہے کہ ابوبکر کی تبلیغ سے طلحہ زبیر عبدالرحمن بن عوف اور سعید بن زید جیسے لوگ فوراً ایمان لے آئیں گے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کون کون بدنصیب ہیں جو اس سعادت کو سمیٹنے میں پیچھے رہ جائیں گے۔
11: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو قومیں تم سے پہلے گذر چکی ہیں اُن کے حالات سے بھی ہم واقف ہیں، اور جو قومیں آگے آنے والی ہیں، اُن کے حالات سے بھی۔ اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ تم میں سے جو لوگ نیک کاموں میں دُوسروں سے آگے بڑھ گئے ہیں اُن کو بھی ہم جانتے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں، اُن کو بھی۔